=== ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ===
نظم ۔ غلام محمد وامِق ۔
اے ارضِ وطن کے سپوتو جوانو ۔
شرافت و غیرت کے زندہ نشانو ۔
وہ جس کے لۓ تم نے ہر شے لٹادی
کہ عزت و عصمت کی بازی لگادی
کہاں ہے وہ مقصد وہ منزل کہاں ہے
وہ ایمان افروز محفل کہاں ہے ؟؟؟
سنو تم کو دھوکا دیا جا رہا ہے ۔
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔
وفاٶں کے بدلے جفا تم کو دی ہے ۔
دعاٶں کے بدلے دغا تم کو دی ہے ۔
فریبِ محبت تمہیں دے کے یارو ۔
تعصب کی گندی فضا تم کو دی ہے۔
کہ مانگی تھی آزادٸ فکر لیکن ۔
غلامی کی ذہنی وبا تم کو دی ہے ۔
تمہیں ذہنی قیدی کیا جا رہا ہے
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔
مسلط نظامِ فرنگی ہے اب تک
مسلماں کی غیرت بھی ننگی ہےاب تک
تمسخر سرِ عام اسلام کا ہے
مسلمان ہے تو فقط نام کا ہے ۔
کہیں مولوی پیر و مرشِد کے جھگڑے
کہیں خانقاہوں کے مسجد کے جھگڑے
یہ زہرِ ہلاہل دیا جا رہا ہے
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔
ہیں مسلم جہادِ مسلسل سے عاری
کہ اب ہے یہود و نصاری' سے یاری
یہ صورت ہے اسلام کی یوں بگاڑی
کہ دنیا ہے کافر کی مسجد ہماری ۔
تصور عبادت کا بدلا ہوا ہے ۔
صبح و شام بیچے ہے قرآں کو قاری ۔
مذاق اب مسلماں بنا جا رہا ہے ۔
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔
یہ مغرب زدہ لوگ مکروہ صورت ۔
نہیں جانتے کیا ہے تقدیسِ عورت
یہ عورت کی عزت کے در پے ہوۓ ہیں ۔
کہ در در جو عورت کو لے جا رہے ہیں ۔
یہ عورت کو چکر دیا جا رہا ہے ۔
جو مردوں کے ہمسر کیا جا رہا ہے ۔
یہ شیطانی چکر چلا جا رہا ہے ۔
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔
تمہیں ہر قدم پر بتاتا ہے قرآں ۔
مسلماں کا ساتھی فقط ہے مسلماں ۔
کوٸی غیر مسلم تمہارا نہیں ہے ۔
سواۓ خدا کے سہارا نہں ہے ۔
یہ پھندے فرنگی نے پھیلاۓ سارے
انہیں توڑ ڈالو خدا کے سہارے ۔
تمہیں اپنے رنگ میں رنگا جا رہا ہے
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔
یہاں انقلاب ایک آۓ گا اِک دن ۔
جو حقدار کو حق دلاۓ گا اک دن ۔
پریشاں نہیں ہوگا مزدور کوٸی ۔
کہ حاکِم نہیں ہوگا مغرور کوٸی ۔
مِٹے گا یہ دستورِ سرمایہ داری ۔
لگاٸیں گے وامِق جو ہم ضربِ کاری ۔
یہ کیوں ظلم اب تک سہا جا رہا ہے؟
ضیا ظلمتوں کو کہا جا رہا ہے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فَعُولن فَعُولن فَعُولن فَعُولن
بحر۔ متقارب مثمن سالم ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
یکم مئی سال 1986ء کو کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔۔۔