نظم ۔۔۔۔ اندازِ نظر ۔۔۔۔
( یہ میرا اندازِ نظر ہے، آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
شاعر ۔ غلام محمد وامق
دل میں اچانک جانے کیوں اک کانٹا سا چبھ جاتا ہے ۔
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔
فاقہ کش کمزور جوانی زرد سے لاغر چہرے ہیں ۔
لب بستہ فریادیں ان کی کون سنے سب بہرے ہیں ۔
ان کو لوٹا ہے شرفا نے بن گئیں زندہ لاشیں یہ ۔
پتھر دل ہیں دنیا والے کون سنے گا باتیں یہ ۔
جھوٹے ہیں سب پیر و پنڈت کوئی نہ سچا عالم ہے ۔
ظاہر میں ہیں عابد زاہد باطن سب کا ظالم ہے ۔
ایسے لوگوں کے باعث دنیا میں عزاب آجاتا ہے ۔
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔
ایک طرح کے انساں ہیں سب، لیکن اونچ اور نیچ ہے کیوں ؟
کوئی خدا بن بیٹھا ہے اور کوئی اتنا ہیچ ہے کیوں ؟
مال و دولت کا جو پجاری دولت اس پر برسے ہے ۔
ایک خدا کو ماننے والا روٹی کو بھی ترسے ہے ۔
کیسا یہ اندھیر ہے لوگو کیسا ہے جنجال یہاں ۔
نام خدا بدنام کیا اور مزہب کو پامال یہاں ۔
کیسی بھیانک رسمیں ہیں یہ جن سے اب خوف آتا ہے ۔
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔
دولت مند سرمایہ دار، کوٹھی بنگلے اور ہے کار ۔
مزدوروں کے خون پہ قائم ان کا سارا دارومدار ۔
ملک کو بیچ کے کھا گئے دیکھو اپنے ہی سب سیاستدان ۔
ووٹ عوام سے لے کر جائیں ، عیش کریں وہ انگلستان ۔
امریکہ کے شیطانوں کے آگے سجدہ ریز ہیں یہ ۔
اپنی قوم کو لوٹنے میں تو سب سے بڑھ کر تیز ہیں یہ ۔
ایسے لیڈروں کے ہاتھوں ہی ملک تباہ ہو جاتا ہے ۔
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔
کوئی یہاں پر انگلش پڑھ کر عُجب سے پھولا جاتا ہے ۔
کوئی یہاں پر افسر ہو کر انساں کو ٹھکراتا ہے ۔
کوئی یہاں پر پِیر بنا ہے ، لوگوں کی تحقیر کرے ۔
کوئی عقیدے کی منطق پر اوروں کی تکفیر کرے ۔
انساں کی عظمت کا دیکھو کوئی یہاں دستور نہیں ۔
اپنے عیبوں کو بھی دیکھے کسی کو یہ منظور نہیں ۔
کتنے جھوٹے ہیں یہ انساں جن سے دل گھبراتا ہے ۔
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔
علماء اپنے علم کو بیچیں، علمی تجارت کرتے ہیں ۔
چھوٹے موٹے لوگوں سے وہ ملنا پسند کب کرتے ہیں ۔
ان کا کھانا پینا اعلیٰ ، ان کی شان نرالی ہے ۔
درسِ سیرت دیتے ہیں اور حالت شیطاں والی ہے ۔
کِس شعبے کو دیکھیں وامِق، کس شعبے کی بات کریں ۔
اِس سسٹم کے حصے ہیں سب کیسے ان کو مات کریں ۔
بڑھتا ہے جب ظلم و ستم تو آخر وہ مٹ جاتا ہے ۔
اِس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع ۔
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فع ۔
بحر ہندی/ متقارب مثمن مضاعف ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔
جنوری سال 1998ء میں کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔