دل میں اچانک جانے کیوں اک کانٹا سا چبھ جاتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ فاقہ کش کمزور جوانی زرد سے لاغر چہرے ہیں ۔ لب بستہ فریادیں ان کی کون سنے سب بہرے ہیں ۔ ان کو لوٹا ہے شرفا نے بن گئیں زندہ لاشیں یہ ۔ پتھر دل ہیں دنیا والے کون سنے گا باتیں یہ ۔ جھوٹے ہیں سب پیر و پنڈت کوئی نہ سچا عالم ہے ۔ ظاہر میں ہیں عابد زاہد باطن سب کا ظالم ہے ۔ ایسے لوگوں کے باعث دنیا میں عزاب آجاتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ ایک طرح کے انساں ہیں سب، لیکن اونچ اور نیچ ہے کیوں ؟ کوئی خدا بن بیٹھا ہے اور کوئی اتنا ہیچ ہے کیوں ؟ مال و دولت کا جو پجاری دولت اس پر برسے ہے ۔ ایک خدا کو ماننے والا روٹی کو بھی ترسے ہے ۔ کیسا یہ اندھیر ہے لوگو کیسا ہے جنجال یہاں ۔ نام خدا بدنام کیا اور مزہب کو پامال یہاں ۔ کیسی بھیانک رسمیں ہیں یہ جن سے اب خوف آتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ دولت مند سرمایہ دار، کوٹھی بنگلے اور ہے کار ۔ مزدوروں کے خون پہ قائم ان کا سارا دارومدار ۔ ملک کو بیچ کے کھا گئے دیکھو اپنے ہی سب سیاستدان ۔ ووٹ عوام سے لے کر جائیں ، عیش کریں وہ انگلستان ۔ امریکہ کے شیطانوں کے آگے سجدہ ریز ہیں یہ ۔ اپنی قوم کو لوٹنے میں تو سب سے بڑھ کر تیز ہیں یہ ۔ ایسے لیڈروں کے ہاتھوں ہی ملک تباہ ہو جاتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ کوئی یہاں پر انگلش پڑھ کر عُجب سے پھولا جاتا ہے ۔ کوئی یہاں پر افسر ہو کر انساں کو ٹھکراتا ہے ۔ کوئی یہاں پر پِیر بنا ہے ، لوگوں کی تحقیر کرے ۔ کوئی عقیدے کی منطق پر اوروں کی تکفیر کرے ۔ انساں کی عظمت کا دیکھو کوئی یہاں دستور نہیں ۔ اپنے عیبوں کو بھی دیکھے کسی کو یہ منظور نہیں ۔ کتنے جھوٹے ہیں یہ انساں جن سے دل گھبراتا ہے ۔ اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ علماء اپنے علم کو بیچیں، علمی تجارت کرتے ہیں ۔ چھوٹے موٹے لوگوں سے وہ ملنا پسند کب کرتے ہیں ۔ ان کا کھانا پینا اعلیٰ ، ان کی شان نرالی ہے ۔ درسِ سیرت دیتے ہیں اور حالت شیطاں والی ہے ۔ کِس شعبے کو دیکھیں وامِق، کس شعبے کی بات کریں ۔ اِس سسٹم کے حصے ہیں سب کیسے ان کو مات کریں ۔ بڑھتا ہے جب ظلم و ستم تو آخر وہ مٹ جاتا ہے ۔ اِس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع ۔ فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فع ۔ بحر ہندی/ متقارب مثمن مضاعف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ جنوری سال 1998ء میں کہی گئی نظم ۔

                  نظم ۔۔۔۔ اندازِ نظر ۔۔۔۔
( یہ میرا اندازِ نظر ہے، آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
                    شاعر ۔ غلام محمد وامق

دل میں اچانک جانے کیوں اک کانٹا سا چبھ جاتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

فاقہ کش کمزور جوانی زرد سے لاغر چہرے ہیں ۔ 
لب بستہ فریادیں ان کی کون سنے سب بہرے ہیں ۔ 
ان کو لوٹا ہے شرفا نے بن گئیں زندہ لاشیں یہ ۔ 
پتھر دل ہیں دنیا والے کون سنے گا باتیں یہ ۔ 
جھوٹے ہیں سب پیر و پنڈت کوئی نہ سچا عالم ہے ۔ 
ظاہر میں ہیں عابد زاہد باطن سب کا ظالم ہے ۔ 

ایسے لوگوں کے باعث دنیا میں عزاب آجاتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

ایک طرح کے انساں ہیں سب، لیکن اونچ اور نیچ ہے کیوں ؟ 
کوئی خدا بن بیٹھا ہے اور کوئی اتنا ہیچ ہے کیوں ؟ 
مال و دولت کا جو پجاری دولت اس پر برسے ہے ۔ 
ایک خدا کو ماننے والا روٹی کو بھی ترسے ہے ۔ 
کیسا یہ اندھیر ہے لوگو کیسا ہے جنجال یہاں ۔ 
نام خدا بدنام کیا اور مزہب کو پامال یہاں ۔ 

کیسی بھیانک رسمیں ہیں یہ جن سے اب خوف آتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

دولت مند سرمایہ دار، کوٹھی بنگلے اور ہے کار ۔ 
مزدوروں کے خون پہ قائم ان کا سارا دارومدار ۔ 
ملک کو بیچ کے کھا گئے دیکھو اپنے ہی سب سیاستدان ۔ 
ووٹ عوام سے لے کر جائیں ، عیش کریں وہ انگلستان ۔ 
امریکہ کے شیطانوں کے آگے سجدہ ریز ہیں یہ ۔ 
اپنی قوم کو لوٹنے میں تو سب سے بڑھ کر تیز ہیں یہ ۔ 

ایسے لیڈروں کے ہاتھوں ہی ملک تباہ ہو جاتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

کوئی یہاں پر انگلش پڑھ کر عُجب سے پھولا جاتا ہے ۔ 
کوئی یہاں پر افسر ہو کر انساں کو ٹھکراتا ہے ۔ 
کوئی یہاں پر پِیر بنا ہے ، لوگوں کی تحقیر کرے ۔ 
کوئی عقیدے کی منطق پر اوروں کی تکفیر کرے ۔
انساں کی عظمت کا دیکھو کوئی یہاں دستور نہیں ۔ 
اپنے عیبوں کو بھی دیکھے کسی کو یہ منظور نہیں ۔ 

کتنے جھوٹے ہیں یہ انساں جن سے دل گھبراتا ہے ۔ 
اس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 

علماء اپنے علم کو بیچیں، علمی تجارت کرتے ہیں ۔ 
چھوٹے موٹے لوگوں سے وہ ملنا پسند کب کرتے ہیں ۔ 
ان کا کھانا پینا اعلیٰ ، ان کی شان نرالی ہے ۔ 
درسِ سیرت دیتے ہیں اور حالت شیطاں والی ہے ۔ 
کِس شعبے کو دیکھیں وامِق، کس شعبے کی بات کریں ۔ 
اِس سسٹم کے حصے ہیں سب کیسے ان کو مات کریں ۔ 

بڑھتا ہے جب ظلم و ستم تو آخر وہ مٹ جاتا ہے ۔ 
اِس دنیا کا ہر اک منظر پہروں خون رلاتا ہے ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع ۔ 
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعل فعولن فع ۔ 
بحر ہندی/ متقارب مثمن مضاعف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔
جنوری سال 1998ء میں کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.