عالمی ادب کا اردو سہ ماہی رسالہ " قرطاسِ ادب " جو کہ نیپال سے شایع ہوتا ہے، اس ماہ کے شمارے میں میرا تحریر کردہ مضمون بعنوان "حفیظ جالندھری" شایع ہوا ہے ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
=== حفیظ جالندھری ===
تحریر - غلام محمد وامِق ۔
مشرقی پنجاب ( بھارت) کے شہر جالندھر کا نام سنتے ہی ذہن میں "حفیظ جالندھری" کا خیال ضرور آتا ہے ، اور جب حفیظ جالندھری کا خیال آتا ہے تو پاکستان کے قومی ترانے کا نام ابھرتا ہے ذہن میں ، اور سب جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا قومی ترانہ اس ملک کے ماتھے کا جھومر اور ملک کی شان ہوتا ہے ۔
حفیظ جالندھری کی وجہء شہرت فقط پاکستان کا قومی ترانہ ہی نہیں ہے بلکہ اُن کا نام ان کے لکھے ہوئے " شاہنامہء اسلام " سے بھی زندہ و پائندہ ہے ۔
حفیظ صاحب 14 جنوری سال 1900ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے آپ کے والد کا نام " شمس الدین" تھا ، قیامِ پاکستان سے قبل ہی آپ تلاشِ معاش کے سلسلے میں لاہور منتقل ہو گئے تھے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ آپ نے کسی یونیورسٹی یا درسگاہ سے کوئی علمی ڈگری حاصل نہیں کی، اس کے باوجود آپ نے اپنی ذہانت لگن علمی شوق سے دنیائے ادب میں بہت اعلیٰ مقام حاصل کیا ۔
آپ نے اس وقت کے نامور فارسی شاعر " غلام قادر بلگرامی" سے اصلاح لی ، حفیظ جالندھری نظم اور غزل دونوں اصناف کے قادر الکلام شاعر تھے چنانچہ آپ نے " شاہنامہء اسلام " لکھ کر دنیائے علم و ادب سے دادِ تحسین حاصل کی ۔ شاہنامہ اسلام چار جلدوں پر مشتمل ضخیم منظوم کلام ہے جس میں اسلامی قرون اولیٰ کی منظوم تاریخ بڑے دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہے ۔ شاہنامہء اسلام لکھنے پر آپ کو فردوسیء اسلام کا خطاب بھی دیا گیا ۔
حفیظ جالندھری کا سب سے زیادہ اہم کام جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا وہ ہے پاکستان کے قومی ترانے کی تخلیق ، اور جب جب پاکستان کا نام لیا جائے گا تب تب حفیظ جالندھری کا نام بھی لیا جاتا رہے گا ۔
پاکستان کا یہ دل نشیں قومی ترانہ، احمد جی چھاگلہ کی بنائی گئی دھُن پر لکھا گیا تھا ، جسے حکومتِ پاکستان نے سرکاری طور پر چار 4 اگست 1954ء کو قومی ترانے کی حیثیت سے منظور کیا تھا ۔
آپ کی شاعری غنائیت سے بھرپور ہے آپ کے اشعار میں نغمگی اس قدر ہے کہ پڑھنے والا بے اختیار گنگنانے لگتا ہے ۔ آپ نے دوسری جنگ عظیم کے دوران قومی گیت بھی لکھے تھے جنہیں بہت زیادہ قبولیتِ عام حاصل ہوتی تھی ۔
آپ نے رومانوی گیت بھی بہت ہی پُرلطف پیرائے میں لکھے ہیں جنہیں انسان سن کر مسحور ہو جاتا ہے ، اُن کا مشہورِ زمانہ گیت " ابھی تو میں جوان ہوں " سن کر آدمی جھوم اٹھتا ہے ، یہ گیت اپنے زمانے کے سروں کی ملکہ " ملکہء پکھراج " نے گا کر اَمَر کردیا ہے ۔
آپ نے غزلیں بھی خوب کہیں اور آپ خود کو غزل گو شاعر کہلوانا پسند کرتے تھے ۔
آپ کو علامہ اقبال سے خصوصی لگاؤ ہوتا تھا، اکثر آپ کی ملاقاتیں علامہ سے ہوتی رہتی تھیں ، آپ کے دل میں پاکستان اور اسلام کی محبت بھری ہوئی تھی ۔
آپ نے بہت سے افسانے بھی لکھے ، آپ کی چند تخلیقات درج ذیل ہیں ۔
1. نغمہء بار
2. تلخابہء شیریں
3. سوز و ساز
4. ہفت پیکر ( افسانوں کا مجموعہ)
5. ہندوستان ہمارا ( گیتوں کا مجموعہ)
6. پھول مالی
7. بچوں کی نظمیں
8. چیونٹی نامہ
9. شاہنامہء اسلام ( چار 4 جلدیں )
10. بزم نہیں رزم
11. چراغِ سحر
12. تصویرِ کشمیر
13. بہار کے پھول ۔
آپ کے وہ اشعار جو آج بھی زبانِ زدِ عام ہیں ۔
1. دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف ۔
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی ۔
2. ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات ، یاد نہ تم کو آ سکے ۔
تم نے ہمیں بھلا دیا، ہم نہ تمہیں بھلا سکے ۔
3. جس نے اِس دور کے انسان کئے ہیں پیدا ۔
وہی میرا بھی خدا ہو ، مجھے منظور نہیں ۔
4. ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں ۔
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے ۔
تلاشِ معاش کے سلسلے میں آپ کو بڑی جدو جہد اور مشقت کرنی پڑی ، مثلاً مزدوری ،عطر فروشی ، خیاطی یعنی درزی کا کام ، فوج میں ٹھیکیداری ، خطوط نویسی ، سنگر سیوئنگ مشین کی مینیجری ، اور بہت سے اردو رسالے بھی جاری کئے جو کہ مستقل طور پر جاری نہیں رہ سکے ۔ کچھ عرصہ ریاست خیرپور میں درباری شاعر بھی رہے ۔
پاکستان بننے کے بعد آپ پاک فوج میں ڈائریکٹر جنرل مورال رہے اور صدرِ پاکستان کے چیف ایڈوائزر اور رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر بھی رہے ۔
آپ نے دو شادیاں کیں پہلے زینت بیگم سے اور دوسری خورشید بیگم سے ، خورشید بیگم سے دو بیٹیاں بھی ہوئیں ایک بیٹی بچپن میں ہی کنویں میں ڈوب کر انتقال کر گئیں جب دوسری ابھی تک حیات ہیں اور لاہور میں اپنے شوہر کے ساتھ خوش حال زندگی گزار رہی ہیں ۔
آپ نے بیاسی سال کی عمر پائی اور 21 دسمبر 1982ء کو لاہور میں انتقال کر گئے ۔
آپ نے علامہ اقبال سے عقیدت کے باعث مرنے کے بعد علامہ کے پہلو میں دفن ہونے کی خواہش کی تھی مگر یہ آخری خواہش بوجوہ پوری نہیں ہو سکی ، اور انہیں مینارِ پاکستان کے قریب دفن کر دیا گیا ۔
حکومتِ پاکستان نے انہیں تمغہء حُسنِ کارکردگی اور ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا ۔
تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ پاکستان ۔