قتل کیوں کرتے ہو لوگو = غلام محمد وامِق گھن گرج ہے توپوں کی اور ہر طرف ہیں سسکیاں مارتے ہو بے قصوروں کو بھلا تم کیوں یہاں ؟ لاشوں کی پھیلی ہے بدبُو ، ہر طرف حدّ نگاہ ۔ عورتیں معصوم بچّے مر رہے ہیں بے گناہ ۔ قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ۔ ؟ تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ۔ ؟ دنیا کی تخلیق کا مقصد ہے امن و آشتی ۔ قتل و غارت کو خدا جائز نہیں کہتا کبھی ۔ قتل کوئی ہو مگر انسان ہی ہوتا ہے وہ ۔ اور خدا کی دنیا کا مہمان ہی ہوتا ہے وہ ۔ قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ؟ تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ؟ آدمی کوئی بھی ہو ، ہوتا ہے منظورِ نظر ۔ کیا کریں گے اُس کے پیارے مار دیں اس کو اگر ۔ احسنِ تقویم کی تذلیل کرنا ہے ستم ۔ حضرتِ انسان کو شیطان کہنا ہے ستم ۔ قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ؟ تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ؟ خود خدا بن جائیں ہم ، یہ دین کہتا ہی نہیں ۔ آدمی کو مارنے کا حکم دیتا ہی نہیں ۔ ہو عقیدہ کوئی بھی، ہم کو کسی سے کیا بھلا ۔ ایک دن پوچھے گا ہم سے دیکھئے سب کچھ خدا ۔ قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ؟ تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ؟ قتل اِک انسان کا انسانیت کا قتل ہے ۔ فتنہ ہو کیسا بھی وہ ، رحمانیت کا قتل ہے ۔ مارتے ہو تم کسی بھی آدمی کو کیوں یہاں ؟ آدمی دنیا سے وامِق ، جاکے پھر آئے کہاں ؟ قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ؟ تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ؟ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 28 جنوری 2025ء کو کہی گئی نظم ۔ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔ رمل مثمن محذوف ۔


 == قتل کیوں کرتے ہو لوگو ==

           غلام محمد وامِق 


گھن گرج ہے توپوں کی اور ہر طرف ہیں سسکیاں 

مارتے ہو بے قصوروں کو بھلا تم کیوں یہاں ؟ 

لاشوں کی پھیلی ہے بدبُو ، ہر طرف حدّ  نگاہ ۔ 

عورتیں معصوم بچّے مر رہے ہیں بے گناہ ۔ 


قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ۔ ؟

تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ۔ ؟


دنیا کی تخلیق کا مقصد ہے امن و آشتی ۔ 

قتل و غارت کو خدا جائز نہیں کہتا کبھی ۔ 

قتل کوئی ہو مگر انسان ہی ہوتا ہے وہ ۔ 

اور خدا کی دنیا کا مہمان ہی ہوتا ہے وہ ۔ 


قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ؟

تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ؟ 


آدمی کوئی بھی ہو ، ہوتا ہے منظورِ نظر ۔ 

کیا کریں گے اُس کے پیارے مار دیں اس کو اگر ۔ 

احسنِ تقویم کی تذلیل کرنا ہے ستم ۔ 

حضرتِ انسان کو شیطان کہنا ہے ستم ۔ 


قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ؟ 

تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ؟ 


خود خدا بن جائیں ہم ، یہ دین کہتا ہی نہیں ۔

آدمی کو مارنے کا حکم دیتا ہی نہیں ۔ 

ہو عقیدہ کوئی بھی، ہم کو کسی سے کیا بھلا ۔ 

ایک دن پوچھے گا ہم سے دیکھئے سب کچھ خدا ۔


قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ؟ 

تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ؟ 


قتل اِک انسان کا انسانیت کا قتل ہے ۔ 

فتنہ ہو کیسا بھی وہ ، رحمانیت کا قتل ہے ۔ 

مارتے ہو تم کسی بھی آدمی کو کیوں یہاں ؟ 

آدمی دنیا سے وامِق ، جاکے پھر آئے کہاں ؟ 


قتل کیوں کرتے ہو لوگو ، جنگ کیوں کرتے ہو تم ؟ 

تم سے جو لڑتے نہیں ہیں اُن سے کیوں لڑتے ہو تم ؟ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مورخہ 28 جنوری 2025ء کو کہی گئی نظم ۔ 

فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔ 

رمل مثمن محذوف ۔



SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.