یادش بخیر ۔ یادوں کی برات ۔ یہ سال 1981 کا زمانہ تھا جب ہم نے گریجویشن کرنے کے لیے وفاقی اردو آرٹس کالج کراچی میں بی اے میں داخلہ لیا ، کتابیں پڑھنے کا تو ہمیں بچپن سے ہی خبط تھا کہ جب تک کوئی کتاب نہ پڑھ لیں رات کو نیند نہیں آتی تھی ۔ اُن دنوں جوش ملیح آبادی کی خودنوشت سوانح عمری " یادوں کی برات " کا بہت شہرہ سنتے تھے اور سمجھتے تھے کہ برِ صغیر کے اتنے بڑے اور مشہور شاعر نے کوئی کام کی ہی بات لکھی ہوگی لہٰذا اس کتاب کو پڑھنا ہم نے بہت ضروری سمجھا اور سوچا کہ جب کالیج میں آ ہی گئے ہیں تو کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے سُو ہم نے کالیج کی لائبریری کا رخ کیا وہاں پر دیکھا تو ایک خاتون براجمان تھیں، ہمیں پرائی خواتین سے بات کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور وہ بھی اردوداں خاتون سے ۔ چنانچہ ہم نے کچھ گھبرائے اور لجائے سے انداز میں ان محترمہ سے اپنی ہریانوی اردو میں پوچھا کہ " یادوں کی برات " چاہیے ۔ یہ سن کر ان محترمہ نے جن کڑوی نظروں سے مجھے دیکھا ، وہ میں اُس وقت بالکل نہیں سمجھ سکا تھا ۔ انہوں نے مجھے بڑے روکھے انداز سے منع کردیا ۔۔۔ خیر اللّٰہ ہی جانے ہم نے کون سی غلطی کر دی تھی ۔۔۔ یہ بات تب سمجھ میں آئی جب تقریباً دس بارہ سال بعد محراب پور میں ہی مجھے ایک دوست نے وہ کتاب اپنے کالج کی لائبریری سے مجھے لاکر دکھائی اور میں نے با اصرار اس سے وہ کتاب پڑھنے کے لیے لی ۔ رمضان المبارک کا مبارک مہینہ تھا مگر اس مہینے میں وہ ضخیم کتاب میں نے بغیر سانس لیے مکمل چاٹ ڈالی ۔ اور تب سمجھ آئی کہ کالج کی لائبریرین محترمہ نے کیوں مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا ۔ تحریر - غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 28 مارچ 2025ء بروز جمعۃ المبارک ۔ مطابق 27 رمضان المبارک 1446ھجری ۔

 یادش بخیر ۔ یادوں کی برات ۔ 

یہ سال 1981 کا زمانہ تھا جب ہم نے گریجویشن کرنے کے لیے وفاقی اردو آرٹس کالج کراچی میں بی اے میں داخلہ لیا ، کتابیں پڑھنے کا تو ہمیں بچپن سے ہی خبط تھا کہ جب تک کوئی کتاب نہ پڑھ لیں رات کو نیند نہیں آتی تھی ۔ اُن دنوں جوش ملیح آبادی کی خودنوشت سوانح عمری  " یادوں کی برات " کا بہت شہرہ سنتے تھے اور سمجھتے تھے کہ برِ صغیر کے اتنے بڑے اور مشہور شاعر نے کوئی کام کی ہی بات لکھی ہوگی لہٰذا اس کتاب کو پڑھنا ہم نے بہت ضروری سمجھا اور سوچا کہ جب کالیج میں آ ہی گئے ہیں تو کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے سُو ہم نے کالیج کی لائبریری کا رخ کیا وہاں پر دیکھا تو ایک خاتون براجمان تھیں، ہمیں پرائی خواتین سے بات کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور وہ بھی اردوداں خاتون سے ۔ چنانچہ ہم نے کچھ گھبرائے اور لجائے سے انداز میں ان محترمہ سے اپنی ہریانوی اردو میں پوچھا کہ " یادوں کی برات " چاہیے ۔ یہ سن کر ان محترمہ نے جن کڑوی نظروں سے مجھے دیکھا ، وہ میں اُس وقت بالکل نہیں سمجھ سکا تھا ۔ انہوں نے مجھے بڑے روکھے انداز سے منع کردیا ۔۔۔ خیر اللّٰہ ہی جانے ہم نے کون سی غلطی کر دی تھی ۔۔۔ 

یہ بات تب سمجھ میں آئی جب تقریباً دس بارہ سال بعد محراب پور میں ہی مجھے ایک دوست نے وہ کتاب اپنے کالج کی لائبریری سے مجھے لاکر دکھائی اور میں نے با اصرار اس سے وہ کتاب پڑھنے کے لیے لی ۔ 

رمضان المبارک کا مبارک مہینہ تھا مگر اس مہینے میں وہ ضخیم کتاب میں نے بغیر سانس لیے مکمل چاٹ ڈالی ۔ اور تب سمجھ آئی کہ کالج کی لائبریرین محترمہ نے کیوں مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا تھا ۔ 

تحریر - غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔ 

تاریخ ۔ 28 مارچ 2025ء بروز جمعۃ المبارک ۔ 

مطابق 27 رمضان المبارک 1446ھجری ۔



SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.