فضاٸل سیدنا معاویہؓ شیعہ کتب کی روشنی میں !!! سیدنا معاویہؓ تاریخ اسلام کی وہ مظلوم ھستی ہیں جن کے کردار کو مسخ کرنے کی دشمنان بنو امیہ نے بہت کوشش کی لیکن سیدنا معاویہؓ کا کردار اتنا عظیم تھا دشمن نہ چاہتے ہوٸے بھی ان کے فضاٸل کا ذکر کٸے بغیر نہ رہ سکا ۔آج میں  ان شاء اللہ آپ کے سامنے اہلتشیع کے معتبر کتب سے اور ھمیشہ کی طرح کتب کے مکمل پیج کے فوٹو سے نا قابل تردید حوالے پیش کرونگا ۔ حوالے مختصر ہونگے تفصیل کتب کے فوٹو میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ حوالا 1 ۔ معاویہؓ کاتب وحی ۔ اہلتشیع کے سب سے بڑے محدث تین سو کتب کے مصنف شیخ صدوق لکھتا ہے ۔ امام باقرؒ فرماتے ہیں معاویہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تحریر میں  مصروف تھا { معانی الاخبار 393 } شیخ  صدوق نے اس حدیث پر رسول اللہ ﷺ کا معاویہ سے  کتابت وحی کے سلسلے میں مدد لینے معنی ۔کا باب باندھا ہے  حوالا 2 ۔ ایمان معاویہؓ ۔ شیعہ سید الشریف الرضی لکھتا ہے کہ جب سیدنا علی کو پتہ چلا لوگ اہل شام کو برا بھلا کہے رہے ہیں تو آپ عہ نے ایک مکتوب تمام شھروں کے طرف روانہ کیا جس میں جنگ صفین کے حقیقت کا اظھار کیا گیا ۔ سیدنا علی عہ نے لکھا ہمارے معاملے کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوٸے جب بہ ظاہر ہم دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافے کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملا بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمانؓ کے بارے میں تھا جس سے ہم بالکل بری تھے { مکتوب 58 نھج الابلاغہ صہ 601 } سیدنا علیؓ نے اہلشام یعنی سیدنا معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کے ایمان  دعوت دین کی تصدیق کردی ان لوگوں کا پیغام بھی اسلام ہے اور کوٸی چیز نہیں اختلاف دین میں نہیں قتل عثمان میں ہے ۔ حوالا 3 ۔ سیدنا علیؓ کے خلاف اللہ تعالیٰ نے معاویہؓ کی دعا قبول کرلی ۔  شیعہ محدث و محقق شیخ مفید لکھتا ہے کہ معاویہؓ کو پتہ چلا کہ سیدنا علیؓ مالک  اشتر کو مصر پر کنٹرول کرنے کے لٸے روانہ کر رہے تو معاویہؓ  نے اہل شام کو جمع کیا علی ابن ابی طالب عہ نے مالک  اشتر کو مصر کی طرف روانہ کر دیا ہے پس سب آٸو اور اللہ کی بارگاھ میں اس کے خلاف دعا کریں تاکہ وہ اس امر و معاملے کو ختم کردے پھر معاویہ اور اس کے حواریوں نے دعا کی ادھر مالک  اشتر قلزم کی طرف روانہ ہوا راستے میں کسان نے کھانے میں مالک کو زھر دیا اسی سے مالک کی موت ہوٸی ۔ جب معاویہ کو اس کی خبر ملی اہل شام کو جمع کیا ان سے کہا میں تم کو خوشخبری دیتا ہوں تحقیق تم نے مالک اشتر کے بارے میں اللہ کو پکارہ تھا اللہ نے تمہاری دعا قبول فرماٸی اور مالک موت دے دی پس تم خوش ہوجاٸو اور جب امیر المومنین عہ کو مالک اشتر کے موت کی خبر ملی بیقرار ہوگٸے اور افسوس کیا ۔ {امالی شیخ مفید صہ 145/146 }  اس حوالے پر میں کوٸی تبصرہ نہیں کر سکتا اہلتشیع ہی اپنی اداٸوں پر غور کریں !!! حوالا 4 ۔ سیدنا معاویہؓ برحق حکمران تھے ۔  شیعہ علامہ شیخ طوسی لکھتا ہے تابعین میں سے ایک شخص نے کہا کیا مسلمانوں کے پاس معاویہ کے علاوہ کوٸی حاکم نہیں تھا کیا کوٸی اور راستہ نہیں تھا اگر مسلمانوں کے پاس معاویہ کے علاوہ کوٸی اور نہیں تھا تو اے اللہ ! تیری بارگاھ میں سوال کرتا ہوں کہ مجھے جلد از جلد موت عطا فرمادے حسن بن ابو حسن بیان کرتا ہے خدا کی قسم اس شخص نے ظہر کے علاوہ کوٸی اور نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ ہم نے اس کی موت کی چیخ کو سن لیا { امالی الشیخ طوسی ج 2 ص 69 } اس شخص نے ایک طرح سے مباھلا  کیا ۔اللہ سے فیصلا مانگا اگر معاویہ ہی مسلمانوں کا حکمران ہونے کا حقدار تھا معاویہؓ کے علاوہ کوٸی اور نہیں تھا تو مجھے موت دے اللہ تعالیٰ نے جلد فیصلا  دے دیا معاویہؓ مسلمانوں حقیقی حکمران ہے تو جا اس دنیا سے معاویہ کے دشمن کو دنیا میں رہنے کا حق نہیں ۔  حوالا 5 ۔ سیدنا معاویہؓ سیدنا علیؓ اوصاف سن رو پڑے ۔ شیعہ محدث شیخ صدوق لکھتا ہے کہ ضرار بن ضمرہ معاویہ بن ابی سفیان کے پاس گیا تو معاویہ نے ضرار سے کہا میرے سامنے علی عہ کے اوصاف بیان کر اس نے اوصاف بیان کرنے شروع کٸے معاویہ نے کہا  اے ضرار ان کے اور بھی اوصاف بیان کر ضرار نے پھر اوصاف بیان کرنا شروع کردٸے معاویہ نے رونا شروع کردیا اور کہا اے ضرار بس کرو خدا کی قسم علیؓ ایسے ہی تھے خدا ابو الحسنؓ پر رحمت نازل کرے { امالی شیخ صدوق ج 2 ص 589 }  اس حوالے سے معلوم معاویہؓ سیدنا علیؓ سے دلی محبت رکھتے تھے ان کے درمیان اگر جنگیں ہوٸیں تو اجتھاد کے بنیاد نہ کہ بغض کے بنیاد پر ۔  حوالا 6 ۔ معاویہ میرے لٸے شیعوں بہتر ہے سیدنا حسنؓ کا فرمان مبارک ۔غالی شیعہ علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ حضرت (سیدنا حسنؓ) نے فرمایا قسم بہ خدا اس جماعت سے معاویہ بہتر ہے یہ لوگ دعوا کرتے ہیں ہم شیعہ ہیں میرا ارادہ قتل کیا میرا مال لوٹ لیا قسم بخدا اگر معاویہ سے عہد لوں اور اپنا خون محفوظ  اور اپنے اہل عیال کے بارے میں بے خوف ہو جاٸوں { جلاعہ العیون ج 1 ص 379 بحار الانوار ج 10 ص 239 } کافی سال تک چھپانے کے بعد شیعہ عالم جواد نقوی نے تسلیم کیا سیدنا حسنؓ کو زخمی کرنے والے لوٹنے والے شیعہ تھے ۔ قارٸین شیعہ کا کردار خود انہی کی کتب سے آپ ملاحظہ کر رہے ہیں ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی گھر کی گواہی پیش کر رہے ہیں . آخر کار یہی ہوا سیدنا  حسنؓ نے اپنے اور اہلبیت کے  لٸے  سیدنا معاویہ کو بہتر سمجھا تو بیعت کر کے سیدنا علیؓ کے مسند خلافت پر معاویہؓ کو بٹھا دیا ۔ حوالا 7۔ بیعت امیر معاویہؓ  شیعہ علامہ شیخ صدوق لکھتا ہے کہ  حسن بن علی علیہ سلام جس دن زخمی کر دٸے گٸے تھے  فرمایا جابرسا اور جاہلقا درمیان کوٸی ایسا شخص نہیں جس کا جد نبی ﷺ ہو سواٸے میرے اور میرے بھاٸی کے۔ مگر یہ راٸے ہوٸی امت محمدی ﷺ کے درمیان صلح ہوجاٸے حلانکہ میں اس کا زیادہ حقدار ہوں تو مینے معاویہ سے بیعت کرلی  { علل الشراٸع ص 256 } سیدنا حسنؓ اور حسینؓ کی معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت تقریبن شیعہ 14 کتب میں ذکر ہے فلحال ایک ہی حوالے پر اکتفا کرتا ہوں ۔  حوالا 8 ۔ صلح کی ایک شرط خراج میں 50000 ھزار درھم سالانا ۔ شیعہ علامہ ابن آشوب اور باقر مجلسی لکھتے صلح میں یہ شرط بھی تھی ہر سال خراج  {ٹیکس }ملک میں سے پچاس ھزار درھم پہنچاٸے جاٸیں  { مناقب ابن شھر آشوب ج 4 ص 65 جلاعہ العیون ج اول ص 371 } پچاس ھزار تو مقرر کٸے تھے لیکن معاویہؓ اس رقم سے کہیں زیادہ اہلبیت عطا فرماتے تھے ۔  اہلبیت سے سیدنا معاویہؓ حسن سلوک !!! حوالا 8 ۔ ماھانا سالانا مالی سپوٹ ۔ شیعہ محدث باقر مجلسی لکھتا ہے ایک امام حسن عہ امام حسین عہ و عبداللہ بن جعفر سے فرمایا خرچ تم کو معاویہ کی طرف سے پہلی تاریخ کو پہنچے گا جب پہلی تاریخ ہوٸی حضرت نے جس طرح فرمایا تھا اسی طرح خرچ پہنچا امام حسن عہ بہت قرضدار تھے جو کچھ حضرت نے اس نے بھیجا اس سے اپنا قرض ادا کیا اور باقی اہلبیت اور اپنے شیعوں پر تقسیم کردیا امام حسین عہ نے بھی قرض ادا کیا اور جو کچھ بچا اس کے تین حصے کٸے ایک حصہ اہلبیت اور اپنے شیعوں کو دیا اور دو حصے اپنے عیال کے لٸے بیجھے  { جلاعہ العیون ج اول ص 358 بحار الانوار ج 10 ص 166 } معلوم ہوا سیدنا معاویہؓ  کے فیاضی  سے اہلبیت تو فیضیاب ہوٸے تھے لیکن شیعہ بھی اس فیض سے محروم نہ رہے نمک حلالی کا تقاضہ ہے جس کا کھایا جاٸے اس کا گایا جاٸے اور جو گالی دیتا وہ نمک حرام ہے  حوالا 9 ۔ معاویہؓ کی دربار کو اہلبیت رونق بخشتے اور معاویہؓ کے فیضیاب ہوتے اور سفارش بھی کرتے تھے  شیعہ علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ ایک دن سیدنا حسن عہ سے معاویہ نے پوچھا یا ابن اخی اے { میرے بھاٸی کے بیٹے} سنا ہے تم پر قرض ہوگیا ہے ؟ فرمایا ہاں قرض تو ہے ایک لاکھ ۔ معاویہ نے کہا اچھا میں تمہیں تین لاکھ دیتا ہوں  { بحار الانوار ج 10 ص 347 }  حوالا 10 ۔ باقر مجلسی لکھتا ہے ایک دن امام حسین عہ معاویہ کے پاس تشریف لے گٸے اس وقت ایک اعرابی معاویہ سے کچھ سوال کر رہا تھا جب معاویہ نے حضرت عہ کو دیکھا تو حضرت کی طرف متوجہ ہوا اعرابی نے امام حسین عہ کہا کہ میری معاویہ سے سفارش کردیجٸے حضرت نے اس کی سفارش کی معاویہ نے اعرابی کی حاجت پوری کردی ۔ { بحار الانوار ج 1 صہ 51 } معلوم ہوا سیدنا حسنؓ اور حسینؓ معاویہؓ کی مجلس کو رونق بخشتے تھے اور سفارش بھی کرتے تھے اور آپ کی سفارش قبول کی جاتی تھی ۔  حوالا 11 ۔ سیدنا حسینؓ پر معاویہؓ کی خاص نوازش  شیعہ علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ معاویہ حضرت حسین عہ کو سالان دس لاکھ درھم ان  کو ھدایا {تحفے } کے علاوہ بھیجا کرتا تھا {بحار الانوار ج 1 ص 57 }   مجھے یاد اس گٸے گذرے دور  میں ڈکٹیٹر ضیا الحق نے  ایوارڈ دٸے تو کچھ باضمیر لوگوں وہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا ۔ سیدنا حسنؓ حسینؓ اور اہلبیت کی طرف سے معاویہؓ سے تحاٸف بھاری رقم وصول کرنا حالانکہ صلح میں تو پچاس ھزار درھم سالانا مقرر ہوا تھا ماھانا سالانا اور وقتن فوقتن لاکھوں درھم معاویہؓ سے وصول کٸے جا رہے تھے اس سے معلوم حسنین کریمین اگر معاویہؓ فاسق فاجر غاصب حکمران سمجھتے تو کبھی بھی ان سے تحاٸف و رقم وصول نہ کرتے بعض شیعہ یہ حوالے سن کر لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ رقم خمس کی تھی ۔جب کہ آپ نے حوالے میں پڑھا یہ رقم خراج یعنی ٹیکس میں  سے تھی اور تحاٸف تو خمس نہیں تھے نا ۔  اہلتشیع کے گیارہ امام دنیا میں تشریف لا چکے ہیں اس لٸے اس لٸے ان گیارہ حوالوں اختتام کرتا ہوں بقایا حوالے بارویں امام کے ظھور کے بعد ۔ کاپی کرنے کی سب کو اجازت ہے ۔

فضاٸل سیدنا معاویہؓ شیعہ کتب کی روشنی میں !!! سیدنا معاویہؓ تاریخ اسلام کی وہ مظلوم ھستی ہیں جن کے کردار کو مسخ کرنے کی دشمنان بنو امیہ نے بہت کوشش کی لیکن سیدنا معاویہؓ کا کردار اتنا عظیم تھا دشمن نہ چاہتے ہوٸے بھی ان کے فضاٸل کا ذکر کٸے بغیر نہ رہ سکا ۔آج میں ان شاء اللہ آپ کے سامنے اہلتشیع کے معتبر کتب سے اور ھمیشہ کی طرح کتب کے مکمل پیج کے فوٹو سے نا قابل تردید حوالے پیش کرونگا ۔ حوالے مختصر ہونگے تفصیل کتب کے فوٹو میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ حوالا 1 ۔ معاویہؓ کاتب وحی ۔ اہلتشیع کے سب سے بڑے محدث تین سو کتب کے مصنف شیخ صدوق لکھتا ہے ۔ امام باقرؒ فرماتے ہیں معاویہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تحریر میں مصروف تھا { معانی الاخبار 393 } شیخ صدوق نے اس حدیث پر رسول اللہ ﷺ کا معاویہ سے کتابت وحی کے سلسلے میں مدد لینے معنی ۔کا باب باندھا ہے حوالا 2 ۔ ایمان معاویہؓ ۔ شیعہ سید الشریف الرضی لکھتا ہے کہ جب سیدنا علی کو پتہ چلا لوگ اہل شام کو برا بھلا کہے رہے ہیں تو آپ عہ نے ایک مکتوب تمام شھروں کے طرف روانہ کیا جس میں جنگ صفین کے حقیقت کا اظھار کیا گیا ۔ سیدنا علی عہ نے لکھا ہمارے معاملے کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوٸے جب بہ ظاہر ہم دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافے کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملا بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمانؓ کے بارے میں تھا جس سے ہم بالکل بری تھے { مکتوب 58 نھج الابلاغہ صہ 601 } سیدنا علیؓ نے اہلشام یعنی سیدنا معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کے ایمان دعوت دین کی تصدیق کردی ان لوگوں کا پیغام بھی اسلام ہے اور کوٸی چیز نہیں اختلاف دین میں نہیں قتل عثمان میں ہے ۔ حوالا 3 ۔ سیدنا علیؓ کے خلاف اللہ تعالیٰ نے معاویہؓ کی دعا قبول کرلی ۔ شیعہ محدث و محقق شیخ مفید لکھتا ہے کہ معاویہؓ کو پتہ چلا کہ سیدنا علیؓ مالک اشتر کو مصر پر کنٹرول کرنے کے لٸے روانہ کر رہے تو معاویہؓ نے اہل شام کو جمع کیا علی ابن ابی طالب عہ نے مالک اشتر کو مصر کی طرف روانہ کر دیا ہے پس سب آٸو اور اللہ کی بارگاھ میں اس کے خلاف دعا کریں تاکہ وہ اس امر و معاملے کو ختم کردے پھر معاویہ اور اس کے حواریوں نے دعا کی ادھر مالک اشتر قلزم کی طرف روانہ ہوا راستے میں کسان نے کھانے میں مالک کو زھر دیا اسی سے مالک کی موت ہوٸی ۔ جب معاویہ کو اس کی خبر ملی اہل شام کو جمع کیا ان سے کہا میں تم کو خوشخبری دیتا ہوں تحقیق تم نے مالک اشتر کے بارے میں اللہ کو پکارہ تھا اللہ نے تمہاری دعا قبول فرماٸی اور مالک موت دے دی پس تم خوش ہوجاٸو اور جب امیر المومنین عہ کو مالک اشتر کے موت کی خبر ملی بیقرار ہوگٸے اور افسوس کیا ۔ {امالی شیخ مفید صہ 145/146 } اس حوالے پر میں کوٸی تبصرہ نہیں کر سکتا اہلتشیع ہی اپنی اداٸوں پر غور کریں !!! حوالا 4 ۔ سیدنا معاویہؓ برحق حکمران تھے ۔ شیعہ علامہ شیخ طوسی لکھتا ہے تابعین میں سے ایک شخص نے کہا کیا مسلمانوں کے پاس معاویہ کے علاوہ کوٸی حاکم نہیں تھا کیا کوٸی اور راستہ نہیں تھا اگر مسلمانوں کے پاس معاویہ کے علاوہ کوٸی اور نہیں تھا تو اے اللہ ! تیری بارگاھ میں سوال کرتا ہوں کہ مجھے جلد از جلد موت عطا فرمادے حسن بن ابو حسن بیان کرتا ہے خدا کی قسم اس شخص نے ظہر کے علاوہ کوٸی اور نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ ہم نے اس کی موت کی چیخ کو سن لیا { امالی الشیخ طوسی ج 2 ص 69 } اس شخص نے ایک طرح سے مباھلا کیا ۔اللہ سے فیصلا مانگا اگر معاویہ ہی مسلمانوں کا حکمران ہونے کا حقدار تھا معاویہؓ کے علاوہ کوٸی اور نہیں تھا تو مجھے موت دے اللہ تعالیٰ نے جلد فیصلا دے دیا معاویہؓ مسلمانوں حقیقی حکمران ہے تو جا اس دنیا سے معاویہ کے دشمن کو دنیا میں رہنے کا حق نہیں ۔ حوالا 5 ۔ سیدنا معاویہؓ سیدنا علیؓ اوصاف سن رو پڑے ۔ شیعہ محدث شیخ صدوق لکھتا ہے کہ ضرار بن ضمرہ معاویہ بن ابی سفیان کے پاس گیا تو معاویہ نے ضرار سے کہا میرے سامنے علی عہ کے اوصاف بیان کر اس نے اوصاف بیان کرنے شروع کٸے معاویہ نے کہا اے ضرار ان کے اور بھی اوصاف بیان کر ضرار نے پھر اوصاف بیان کرنا شروع کردٸے معاویہ نے رونا شروع کردیا اور کہا اے ضرار بس کرو خدا کی قسم علیؓ ایسے ہی تھے خدا ابو الحسنؓ پر رحمت نازل کرے { امالی شیخ صدوق ج 2 ص 589 } اس حوالے سے معلوم معاویہؓ سیدنا علیؓ سے دلی محبت رکھتے تھے ان کے درمیان اگر جنگیں ہوٸیں تو اجتھاد کے بنیاد نہ کہ بغض کے بنیاد پر ۔ حوالا 6 ۔ معاویہ میرے لٸے شیعوں بہتر ہے سیدنا حسنؓ کا فرمان مبارک ۔غالی شیعہ علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ حضرت (سیدنا حسنؓ) نے فرمایا قسم بہ خدا اس جماعت سے معاویہ بہتر ہے یہ لوگ دعوا کرتے ہیں ہم شیعہ ہیں میرا ارادہ قتل کیا میرا مال لوٹ لیا قسم بخدا اگر معاویہ سے عہد لوں اور اپنا خون محفوظ اور اپنے اہل عیال کے بارے میں بے خوف ہو جاٸوں { جلاعہ العیون ج 1 ص 379 بحار الانوار ج 10 ص 239 } کافی سال تک چھپانے کے بعد شیعہ عالم جواد نقوی نے تسلیم کیا سیدنا حسنؓ کو زخمی کرنے والے لوٹنے والے شیعہ تھے ۔ قارٸین شیعہ کا کردار خود انہی کی کتب سے آپ ملاحظہ کر رہے ہیں ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی گھر کی گواہی پیش کر رہے ہیں . آخر کار یہی ہوا سیدنا حسنؓ نے اپنے اور اہلبیت کے لٸے سیدنا معاویہ کو بہتر سمجھا تو بیعت کر کے سیدنا علیؓ کے مسند خلافت پر معاویہؓ کو بٹھا دیا ۔ حوالا 7۔ بیعت امیر معاویہؓ شیعہ علامہ شیخ صدوق لکھتا ہے کہ حسن بن علی علیہ سلام جس دن زخمی کر دٸے گٸے تھے فرمایا جابرسا اور جاہلقا درمیان کوٸی ایسا شخص نہیں جس کا جد نبی ﷺ ہو سواٸے میرے اور میرے بھاٸی کے۔ مگر یہ راٸے ہوٸی امت محمدی ﷺ کے درمیان صلح ہوجاٸے حلانکہ میں اس کا زیادہ حقدار ہوں تو مینے معاویہ سے بیعت کرلی { علل الشراٸع ص 256 } سیدنا حسنؓ اور حسینؓ کی معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت تقریبن شیعہ 14 کتب میں ذکر ہے فلحال ایک ہی حوالے پر اکتفا کرتا ہوں ۔ حوالا 8 ۔ صلح کی ایک شرط خراج میں 50000 ھزار درھم سالانا ۔ شیعہ علامہ ابن آشوب اور باقر مجلسی لکھتے صلح میں یہ شرط بھی تھی ہر سال خراج {ٹیکس }ملک میں سے پچاس ھزار درھم پہنچاٸے جاٸیں { مناقب ابن شھر آشوب ج 4 ص 65 جلاعہ العیون ج اول ص 371 } پچاس ھزار تو مقرر کٸے تھے لیکن معاویہؓ اس رقم سے کہیں زیادہ اہلبیت عطا فرماتے تھے ۔ اہلبیت سے سیدنا معاویہؓ حسن سلوک !!! حوالا 8 ۔ ماھانا سالانا مالی سپوٹ ۔ شیعہ محدث باقر مجلسی لکھتا ہے ایک امام حسن عہ امام حسین عہ و عبداللہ بن جعفر سے فرمایا خرچ تم کو معاویہ کی طرف سے پہلی تاریخ کو پہنچے گا جب پہلی تاریخ ہوٸی حضرت نے جس طرح فرمایا تھا اسی طرح خرچ پہنچا امام حسن عہ بہت قرضدار تھے جو کچھ حضرت نے اس نے بھیجا اس سے اپنا قرض ادا کیا اور باقی اہلبیت اور اپنے شیعوں پر تقسیم کردیا امام حسین عہ نے بھی قرض ادا کیا اور جو کچھ بچا اس کے تین حصے کٸے ایک حصہ اہلبیت اور اپنے شیعوں کو دیا اور دو حصے اپنے عیال کے لٸے بیجھے { جلاعہ العیون ج اول ص 358 بحار الانوار ج 10 ص 166 } معلوم ہوا سیدنا معاویہؓ کے فیاضی سے اہلبیت تو فیضیاب ہوٸے تھے لیکن شیعہ بھی اس فیض سے محروم نہ رہے نمک حلالی کا تقاضہ ہے جس کا کھایا جاٸے اس کا گایا جاٸے اور جو گالی دیتا وہ نمک حرام ہے حوالا 9 ۔ معاویہؓ کی دربار کو اہلبیت رونق بخشتے اور معاویہؓ کے فیضیاب ہوتے اور سفارش بھی کرتے تھے شیعہ علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ ایک دن سیدنا حسن عہ سے معاویہ نے پوچھا یا ابن اخی اے { میرے بھاٸی کے بیٹے} سنا ہے تم پر قرض ہوگیا ہے ؟ فرمایا ہاں قرض تو ہے ایک لاکھ ۔ معاویہ نے کہا اچھا میں تمہیں تین لاکھ دیتا ہوں { بحار الانوار ج 10 ص 347 } حوالا 10 ۔ باقر مجلسی لکھتا ہے ایک دن امام حسین عہ معاویہ کے پاس تشریف لے گٸے اس وقت ایک اعرابی معاویہ سے کچھ سوال کر رہا تھا جب معاویہ نے حضرت عہ کو دیکھا تو حضرت کی طرف متوجہ ہوا اعرابی نے امام حسین عہ کہا کہ میری معاویہ سے سفارش کردیجٸے حضرت نے اس کی سفارش کی معاویہ نے اعرابی کی حاجت پوری کردی ۔ { بحار الانوار ج 1 صہ 51 } معلوم ہوا سیدنا حسنؓ اور حسینؓ معاویہؓ کی مجلس کو رونق بخشتے تھے اور سفارش بھی کرتے تھے اور آپ کی سفارش قبول کی جاتی تھی ۔ حوالا 11 ۔ سیدنا حسینؓ پر معاویہؓ کی خاص نوازش شیعہ علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ معاویہ حضرت حسین عہ کو سالان دس لاکھ درھم ان کو ھدایا {تحفے } کے علاوہ بھیجا کرتا تھا {بحار الانوار ج 1 ص 57 } مجھے یاد اس گٸے گذرے دور میں ڈکٹیٹر ضیا الحق نے ایوارڈ دٸے تو کچھ باضمیر لوگوں وہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا ۔ سیدنا حسنؓ حسینؓ اور اہلبیت کی طرف سے معاویہؓ سے تحاٸف بھاری رقم وصول کرنا حالانکہ صلح میں تو پچاس ھزار درھم سالانا مقرر ہوا تھا ماھانا سالانا اور وقتن فوقتن لاکھوں درھم معاویہؓ سے وصول کٸے جا رہے تھے اس سے معلوم حسنین کریمین اگر معاویہؓ فاسق فاجر غاصب حکمران سمجھتے تو کبھی بھی ان سے تحاٸف و رقم وصول نہ کرتے بعض شیعہ یہ حوالے سن کر لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ رقم خمس کی تھی ۔جب کہ آپ نے حوالے میں پڑھا یہ رقم خراج یعنی ٹیکس میں سے تھی اور تحاٸف تو خمس نہیں تھے نا ۔ اہلتشیع کے گیارہ امام دنیا میں تشریف لا چکے ہیں اس لٸے اس لٸے ان گیارہ حوالوں اختتام کرتا ہوں بقایا حوالے بارویں امام کے ظھور کے بعد ۔ کاپی کرنے کی سب کو اجازت ہے ۔


 فضاٸل سیدنا معاویہؓ شیعہ کتب کی روشنی میں !!!

سیدنا معاویہؓ تاریخ اسلام کی وہ مظلوم ھستی ہیں جن کے کردار کو مسخ کرنے کی دشمنان بنو امیہ نے بہت کوشش کی لیکن سیدنا معاویہؓ کا کردار اتنا عظیم تھا دشمن نہ چاہتے ہوٸے بھی ان کے فضاٸل کا ذکر کٸے بغیر نہ رہ سکا ۔آج میں  ان شاء اللہ آپ کے سامنے اہلتشیع کے معتبر کتب سے اور ھمیشہ کی طرح کتب کے مکمل پیج کے فوٹو سے نا قابل تردید حوالے پیش کرونگا ۔ حوالے مختصر ہونگے تفصیل کتب کے فوٹو میں ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔

حوالا 1 ۔ معاویہؓ کاتب وحی ۔ اہلتشیع کے سب سے بڑے محدث تین سو کتب کے مصنف شیخ صدوق لکھتا ہے ۔ امام باقرؒ فرماتے ہیں معاویہ رسول اللہ ﷺ کے پاس تحریر میں  مصروف تھا { معانی الاخبار 393 } شیخ  صدوق نے اس حدیث پر رسول اللہ ﷺ کا معاویہ سے  کتابت وحی کے سلسلے میں مدد لینے معنی ۔کا باب باندھا ہے 

حوالا 2 ۔ ایمان معاویہؓ ۔ شیعہ سید الشریف الرضی لکھتا ہے کہ جب سیدنا علی کو پتہ چلا لوگ اہل شام کو برا بھلا کہے رہے ہیں تو آپ عہ نے ایک مکتوب تمام شھروں کے طرف روانہ کیا جس میں جنگ صفین کے حقیقت کا اظھار کیا گیا ۔ سیدنا علی عہ نے لکھا ہمارے معاملے کی ابتدا یہ ہے کہ ہم شام کے لشکر کے ساتھ ایک میدان میں جمع ہوٸے جب بہ ظاہر ہم دونوں کا خدا ایک تھا رسول ایک تھا پیغام ایک تھا نہ ہم اپنے ایمان و تصدیق میں اضافے کے طلبگار تھے نہ وہ اپنے ایمان کو بڑھانا چاہتے تھے معاملا بالکل ایک تھا صرف اختلاف خون عثمانؓ کے بارے میں تھا جس سے ہم بالکل بری تھے { مکتوب 58 نھج الابلاغہ صہ 601 }

سیدنا علیؓ نے اہلشام یعنی سیدنا معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کے ایمان  دعوت دین کی تصدیق کردی ان لوگوں کا پیغام بھی اسلام ہے اور کوٸی چیز نہیں اختلاف دین میں نہیں قتل عثمان میں ہے ۔

حوالا 3 ۔ سیدنا علیؓ کے خلاف اللہ تعالیٰ نے معاویہؓ کی دعا قبول کرلی ۔ 

شیعہ محدث و محقق شیخ مفید لکھتا ہے کہ معاویہؓ کو پتہ چلا کہ سیدنا علیؓ مالک  اشتر کو مصر پر کنٹرول کرنے کے لٸے روانہ کر رہے تو معاویہؓ  نے اہل شام کو جمع کیا علی ابن ابی طالب عہ نے مالک  اشتر کو مصر کی طرف روانہ کر دیا ہے پس سب آٸو اور اللہ کی بارگاھ میں اس کے خلاف دعا کریں تاکہ وہ اس امر و معاملے کو ختم کردے پھر معاویہ اور اس کے حواریوں نے دعا کی ادھر مالک  اشتر قلزم کی طرف روانہ ہوا راستے میں کسان نے کھانے میں مالک کو زھر دیا اسی سے مالک کی موت ہوٸی ۔ جب معاویہ کو اس کی خبر ملی اہل شام کو جمع کیا ان سے کہا میں تم کو خوشخبری دیتا ہوں تحقیق تم نے مالک اشتر کے بارے میں اللہ کو پکارہ تھا اللہ نے تمہاری دعا قبول فرماٸی اور مالک موت دے دی پس تم خوش ہوجاٸو اور جب امیر المومنین عہ کو مالک اشتر کے موت کی خبر ملی بیقرار ہوگٸے اور افسوس کیا ۔ {امالی شیخ مفید صہ 145/146 } 

اس حوالے پر میں کوٸی تبصرہ نہیں کر سکتا اہلتشیع ہی اپنی اداٸوں پر غور کریں !!!

حوالا 4 ۔ سیدنا معاویہؓ برحق حکمران تھے ۔ 

شیعہ علامہ شیخ طوسی لکھتا ہے تابعین میں سے ایک شخص نے کہا کیا مسلمانوں کے پاس معاویہ کے علاوہ کوٸی حاکم نہیں تھا کیا کوٸی اور راستہ نہیں تھا اگر مسلمانوں کے پاس معاویہ کے علاوہ کوٸی اور نہیں تھا تو اے اللہ ! تیری بارگاھ میں سوال کرتا ہوں کہ مجھے جلد از جلد موت عطا فرمادے حسن بن ابو حسن بیان کرتا ہے خدا کی قسم اس شخص نے ظہر کے علاوہ کوٸی اور نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ ہم نے اس کی موت کی چیخ کو سن لیا { امالی الشیخ طوسی ج 2 ص 69 } اس شخص نے ایک طرح سے مباھلا  کیا ۔اللہ سے فیصلا مانگا اگر معاویہ ہی مسلمانوں کا حکمران ہونے کا حقدار تھا معاویہؓ کے علاوہ کوٸی اور نہیں تھا تو مجھے موت دے اللہ تعالیٰ نے جلد فیصلا  دے دیا معاویہؓ مسلمانوں حقیقی حکمران ہے تو جا اس دنیا سے معاویہ کے دشمن کو دنیا میں رہنے کا حق نہیں ۔ 

حوالا 5 ۔ سیدنا معاویہؓ سیدنا علیؓ اوصاف سن رو پڑے ۔

شیعہ محدث شیخ صدوق لکھتا ہے کہ ضرار بن ضمرہ معاویہ بن ابی سفیان کے پاس گیا تو معاویہ نے ضرار سے کہا میرے سامنے علی عہ کے اوصاف بیان کر اس نے اوصاف بیان کرنے شروع کٸے معاویہ نے کہا  اے ضرار ان کے اور بھی اوصاف بیان کر ضرار نے پھر اوصاف بیان کرنا شروع کردٸے معاویہ نے رونا شروع کردیا اور کہا اے ضرار بس کرو خدا کی قسم علیؓ ایسے ہی تھے خدا ابو الحسنؓ پر رحمت نازل کرے { امالی شیخ صدوق ج 2 ص 589 } 

اس حوالے سے معلوم معاویہؓ سیدنا علیؓ سے دلی محبت رکھتے تھے ان کے درمیان اگر جنگیں ہوٸیں تو اجتھاد کے بنیاد نہ کہ بغض کے بنیاد پر ۔ 

حوالا 6 ۔ معاویہ میرے لٸے شیعوں بہتر ہے سیدنا حسنؓ کا فرمان مبارک ۔غالی شیعہ علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ حضرت (سیدنا حسنؓ) نے فرمایا قسم بہ خدا اس جماعت سے معاویہ بہتر ہے یہ لوگ دعوا کرتے ہیں ہم شیعہ ہیں میرا ارادہ قتل کیا میرا مال لوٹ لیا قسم بخدا اگر معاویہ سے عہد لوں اور اپنا خون محفوظ  اور اپنے اہل عیال کے بارے میں بے خوف ہو جاٸوں { جلاعہ العیون ج 1 ص 379 بحار الانوار ج 10 ص 239 } کافی سال تک چھپانے کے بعد شیعہ عالم جواد نقوی نے تسلیم کیا سیدنا حسنؓ کو زخمی کرنے والے لوٹنے والے شیعہ تھے ۔ قارٸین شیعہ کا کردار خود انہی کی کتب سے آپ ملاحظہ کر رہے ہیں ہم کہیں گے تو شکایت ہوگی گھر کی گواہی پیش کر رہے ہیں . آخر کار یہی ہوا سیدنا  حسنؓ نے اپنے اور اہلبیت کے  لٸے  سیدنا معاویہ کو بہتر سمجھا تو بیعت کر کے سیدنا علیؓ کے مسند خلافت پر معاویہؓ کو بٹھا دیا ۔

حوالا 7۔ بیعت امیر معاویہؓ 

شیعہ علامہ شیخ صدوق لکھتا ہے کہ  حسن بن علی علیہ سلام جس دن زخمی کر دٸے گٸے تھے  فرمایا جابرسا اور جاہلقا درمیان کوٸی ایسا شخص نہیں جس کا جد نبی ﷺ ہو سواٸے میرے اور میرے بھاٸی کے۔ مگر یہ راٸے ہوٸی امت محمدی ﷺ کے درمیان صلح ہوجاٸے حلانکہ میں اس کا زیادہ حقدار ہوں تو مینے معاویہ سے بیعت کرلی 

{ علل الشراٸع ص 256 } سیدنا حسنؓ اور حسینؓ کی معاویہؓ کے ہاتھ پر بیعت تقریبن شیعہ 14 کتب میں ذکر ہے فلحال ایک ہی حوالے پر اکتفا کرتا ہوں ۔ 

حوالا 8 ۔ صلح کی ایک شرط خراج میں 50000 ھزار درھم سالانا ۔ شیعہ علامہ ابن آشوب اور باقر مجلسی لکھتے صلح میں یہ شرط بھی تھی ہر سال خراج  {ٹیکس }ملک میں سے پچاس ھزار درھم پہنچاٸے جاٸیں 

{ مناقب ابن شھر آشوب ج 4 ص 65 جلاعہ العیون ج اول ص 371 } پچاس ھزار تو مقرر کٸے تھے لیکن معاویہؓ اس رقم سے کہیں زیادہ اہلبیت عطا فرماتے تھے ۔ 

اہلبیت سے سیدنا معاویہؓ حسن سلوک !!!

حوالا 8 ۔ ماھانا سالانا مالی سپوٹ ۔ شیعہ محدث باقر مجلسی لکھتا ہے ایک امام حسن عہ امام حسین عہ و عبداللہ بن جعفر سے فرمایا خرچ تم کو معاویہ کی طرف سے پہلی تاریخ کو پہنچے گا جب پہلی تاریخ ہوٸی حضرت نے جس طرح فرمایا تھا اسی طرح خرچ پہنچا امام حسن عہ بہت قرضدار تھے جو کچھ حضرت نے اس نے بھیجا اس سے اپنا قرض ادا کیا اور باقی اہلبیت اور اپنے شیعوں پر تقسیم کردیا امام حسین عہ نے بھی قرض ادا کیا اور جو کچھ بچا اس کے تین حصے کٸے ایک حصہ اہلبیت اور اپنے شیعوں کو دیا اور دو حصے اپنے عیال کے لٸے بیجھے 

{ جلاعہ العیون ج اول ص 358 بحار الانوار ج 10 ص 166 } معلوم ہوا سیدنا معاویہؓ  کے فیاضی  سے اہلبیت تو فیضیاب ہوٸے تھے لیکن شیعہ بھی اس فیض سے محروم نہ رہے نمک حلالی کا تقاضہ ہے جس کا کھایا جاٸے اس کا گایا جاٸے اور جو گالی دیتا وہ نمک حرام ہے 

حوالا 9 ۔ معاویہؓ کی دربار کو اہلبیت رونق بخشتے اور معاویہؓ کے فیضیاب ہوتے اور سفارش بھی کرتے تھے 

شیعہ علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ ایک دن سیدنا حسن عہ سے معاویہ نے پوچھا یا ابن اخی اے { میرے بھاٸی کے بیٹے} سنا ہے تم پر قرض ہوگیا ہے ؟ فرمایا ہاں قرض تو ہے ایک لاکھ ۔ معاویہ نے کہا اچھا میں تمہیں تین لاکھ دیتا ہوں  { بحار الانوار ج 10 ص 347 } 

حوالا 10 ۔ باقر مجلسی لکھتا ہے ایک دن امام حسین عہ معاویہ کے پاس تشریف لے گٸے اس وقت ایک اعرابی معاویہ سے کچھ سوال کر رہا تھا جب معاویہ نے حضرت عہ کو دیکھا تو حضرت کی طرف متوجہ ہوا اعرابی نے امام حسین عہ کہا کہ میری معاویہ سے سفارش کردیجٸے حضرت نے اس کی سفارش کی معاویہ نے اعرابی کی حاجت پوری کردی ۔ { بحار الانوار ج 1 صہ 51 } معلوم ہوا سیدنا حسنؓ اور حسینؓ معاویہؓ کی مجلس کو رونق بخشتے تھے اور سفارش بھی کرتے تھے اور آپ کی سفارش قبول کی جاتی تھی ۔ 

حوالا 11 ۔ سیدنا حسینؓ پر معاویہؓ کی خاص نوازش 

شیعہ علامہ باقر مجلسی لکھتا ہے کہ معاویہ حضرت حسین عہ کو سالان دس لاکھ درھم ان  کو ھدایا {تحفے } کے علاوہ بھیجا کرتا تھا {بحار الانوار ج 1 ص 57 }  

مجھے یاد اس گٸے گذرے دور  میں ڈکٹیٹر ضیا الحق نے  ایوارڈ دٸے تو کچھ باضمیر لوگوں وہ ایوارڈ لینے سے انکار کردیا ۔ سیدنا حسنؓ حسینؓ اور اہلبیت کی طرف سے معاویہؓ سے تحاٸف بھاری رقم وصول کرنا حالانکہ صلح میں تو پچاس ھزار درھم سالانا مقرر ہوا تھا ماھانا سالانا اور وقتن فوقتن لاکھوں درھم معاویہؓ سے وصول کٸے جا رہے تھے اس سے معلوم حسنین کریمین اگر معاویہؓ فاسق فاجر غاصب حکمران سمجھتے تو کبھی بھی ان سے تحاٸف و رقم وصول نہ کرتے بعض شیعہ یہ حوالے سن کر لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ رقم خمس کی تھی ۔جب کہ آپ نے حوالے میں پڑھا یہ رقم خراج یعنی ٹیکس میں  سے تھی اور تحاٸف تو خمس نہیں تھے نا ۔ 

اہلتشیع کے گیارہ امام دنیا میں تشریف لا چکے ہیں اس لٸے اس لٸے ان گیارہ حوالوں اختتام کرتا ہوں بقایا حوالے بارویں امام کے ظھور کے بعد ۔

۔

 کتنے فلاح کے ہیں ادارے امیروں کے ۔  پھر بھی نصیب میں ہیں اندھیرے غریبوں کے ۔   مِلنے کو اب ادیبوں سے کرتا نہیں یہ دل ۔  دیکھے ہیں ہم نے ایسے رویّے ادیبوں کے ۔   محفل ادب کی ہو کہ ہو تقریب کوئی بھی ۔  مہمان خاص بنتے ہیں بچّے امیروں کے ۔   ہم کو فقیر جان کے الجھے ہو ہم سے تم ۔  دیکھے نہیں ہیں وَلوَلے تم نے فقیروں کے ۔   زلفوں کے ہم اسیر ہیں ہم کو بھی دیکھئے ۔  آخر حقوق ہوتے ہیں کچھ تو اسیروں کے ۔   غیروں سے کیا گلہ ہو کہ اپنے بھی کم نہیں ۔  وامِق رہا عِتاب میں اکثر رفیقوں کے ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔  مورخہ 05 نومبر 2024ء کو کہی گئی غزل ۔  مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔

کتنے فلاح کے ہیں ادارے امیروں کے ۔ پھر بھی نصیب میں ہیں اندھیرے غریبوں کے ۔ مِلنے کو اب ادیبوں سے کرتا نہیں یہ دل ۔ دیکھے ہیں ہم نے ایسے رویّے ادیبوں کے ۔ محفل ادب کی ہو کہ ہو تقریب کوئی بھی ۔ مہمان خاص بنتے ہیں بچّے امیروں کے ۔ ہم کو فقیر جان کے الجھے ہو ہم سے تم ۔ دیکھے نہیں ہیں وَلوَلے تم نے فقیروں کے ۔ زلفوں کے ہم اسیر ہیں ہم کو بھی دیکھئے ۔ آخر حقوق ہوتے ہیں کچھ تو اسیروں کے ۔ غیروں سے کیا گلہ ہو کہ اپنے بھی کم نہیں ۔ وامِق رہا عِتاب میں اکثر رفیقوں کے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 05 نومبر 2024ء کو کہی گئی غزل ۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔


 

===  غزل  === 

    غلام محمد وامِق 


کتنے فلاح کے ہیں ادارے امیروں کے ۔ 

پھر بھی نصیب میں ہیں اندھیرے غریبوں کے ۔ 


مِلنے کو اب ادیبوں سے کرتا نہیں یہ دل ۔ 

دیکھے ہیں ہم نے ایسے رویّے ادیبوں کے ۔ 


محفل ادب کی ہو کہ ہو تقریب کوئی بھی ۔ 

مہمان خاص بنتے ہیں بچّے امیروں کے ۔ 


ہم کو فقیر جان کے الجھے ہو ہم سے تم ۔ 

دیکھے نہیں ہیں وَلوَلے تم نے فقیروں کے ۔ 


زلفوں کے ہم اسیر ہیں ہم کو بھی دیکھئے ۔ 

آخر حقوق ہوتے ہیں کچھ تو اسیروں کے ۔ 


غیروں سے کیا گلہ ہو کہ اپنے بھی کم نہیں ۔ 

وامِق رہا عِتاب میں اکثر رفیقوں کے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مورخہ 05 نومبر 2024ء کو کہی گئی غزل ۔ 

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔

بحر ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔

آسیب اور جنّات کا اثر سمجھی جانے والی نفسیاتی بیماریاں ۔ ( اختصار کے ساتھ ) ۔۔۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کم علمی کے باعث ہمارے ملک کے لوگ آج بھی ہزاروں سال پرانے وہموں اور وسوسوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ لہذٰا آج بھی ہمارے معاشرے میں نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کو آسیب ، سایہ ، جن بھوت کے نام سے پکارا جاتا ہے اسی لئے روزانہ ہزاروں لوگ ان بیماریوں کے باعث موت کے بھیانک غار میں جاتے جا رہے ہیں ، اور عام لوگ اپنی پریشانیوں کے باعث روز بروز ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں ۔  جب کہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ان نفسیاتی امراض پر باقاعدہ تحقیق ہوتی رہتی ہے اور ان پیچیدہ بیماریوں کا جدید سے جدید تر علاج دریافت ہوتا رہتا ہے ۔  تو آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون کون سی بیماریاں ہیں جنہیں ہم جِن بھوت اور آسیب کا نام دیتے رہتے ہیں ۔   1. شیزو فرینیا Schizophrenia :--- اس مرض میں مریض کو تنہائی میں مختلف قسم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، بعض اوقات یہ آوازیں مریض کو خود سے گفتگو کرتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہیں ۔ جنہیں مریض جنّات سے یا روحوں سے گفتگو کرنے کا نام دیتا ہے ۔ بعض اوقات مریض کو خوشبوئیں بھی محسوس ہوتی ہیں جنہیں مریض جنّت کی خوشبو سمجھتا ہے ۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ کوئی انہیں چھُو رہا ہے، بعض مریضوں کو مختلف شکلیں بھی دکھائی دیتی ہیں جنہیں مریض اپنی سوچ کے مطابق پری یا جن سمجھتا ہے ۔   اس مرض میں بعض اوقات ایسا بھی لگتا ہے کہ لوگ اس کے دشمن ہو گئے ہیں اور اسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، اس مرض میں کبھی کبھار ایسا بھی لگتا ہے کہ ان کے لیے آسمان سے پیغامات نشر ہو رہے ہیں جو اسے سنائی دیتے ہیں مریض سمجھتا ہے کہ کوئی غیبی طاقت اسے کنٹرول کر رہی ہے اور اس کی مرضی کے خلاف کام کروا رہی ہے ۔   2. وسوسہ اور تجسّس کا مرض(OCD) Obsessive Compulsive Disorder :--- یہ انتہائی خوفناک بیماری ہے اس میں مریض کے  دل پر ہر وقت گھبراہٹ طاری رہتی ہے اور ذہن میں فضول قسم کے وسوسے اور وہم آتے رہتے ہیں وہ عقیدے کے لحاظ سے بھی اپنے مذہب کے بارے غلط باتیں سوچتا ہے ۔ بعض اوقات مریض اپنے متعلق بھی سوچتا ہے کہ میں کون ہوں ، میں کہاں سے آیا ہوں ، میرے بڑے باپ دادے کہاں گئے ، میں ایسا کیوں ہوگیا ہوں، میرا بچپن کہاں گیا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ مریض کو ساری رات نیند نہیں آتی رات بھر فضول خیالات تنگ کرتے رہتے ہیں ، بعض اوقات مریض بستر پر لیٹ بھی نہیں سکتا ، کمرے میں داخل نہیں ہو سکتا ، ٹرین یا گاڑی میں سفر نہیں کر سکتا، رش والی جگہوں پر نہیں جا سکتا کیوں کہ اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے ۔  جو بھی خیال مریض کے ذہن میں آتا ہے وہ اس خیال کو اسی وقت پورا کرنا چاہتا ہے ، بعض اوقات مرض کی شدت کی وجہ سے مریض زمین سے کاغذ اٹھا اٹھا کر انہیں دیکھتا ہے ، پرائے گھروں میں گھس کر انہیں اندر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مریض اپنے ذہن میں انے والے کسی بھی خیال کو کنٹرول نہیں کر سکتا ۔ اکثر شناسا چہرہ دیکھ کر اس کے پیچھے لگ جاتا ہے اور زبردستی گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہے ، گویا ہر دم اس کا تجسّس بڑھتا ہی رہتا ہے، اس مرض میں مریض دور دور تک پیدل نکل جاتا ہے، تیز دھوپ ، گرمی یا سردی کا احساس نہیں ہوتا ۔ ایسی صورت میں مریض کے گھر والے بھی اس سے تنگ آ جاتے ہیں ، اگر مرض کی شدّت بڑھ جائے تو مریض خودکشی کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے ۔   3. ہسٹریا Conversion Disorder :--- اس مرض میں مریض روتا ہے ، چیختا چلاتا ہے اور مختلف قسم کی آوازیں نکالتا ہے، بستر سے بار بار اچھلتا ہے، مریض کو جھٹکے لگتے ہیں اور مریض اچھلنے کے باعث بستر سے نیچے بھی گر جاتا ہے جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر آسیب کا سایہ خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جِن نے اسے نیچے پھینک دیا ہے، بعض مریض مفلوج بھی ہو سکتے ہیں، مریض کو اپنا گلا گھٹنے کا بھی احساس ہوتا ہے ۔   4. سلیپ پیرا لائسز Sleep paralysis :--- اس بیماری میں مریض کو سوتے ہوئے سانس رکنے کے باعث ایسا لگتا ہے کہ وہ مر رہا ہے، بعض مریضوں کے گھٹنے اکڑ جاتے ہیں، مریضوں کو بعض اوقات عجیب قسم کی شکلیں بھی نظر آتی ہیں اور اپنے کمرے میں وہ عجیب مخلوق بھی محسوس کرتا ہے جسے وہ فرشتے یا روح وغیرہ سمجھتا ہے اور بعض مریضوں کو اپنے مذہبی پیشوا ، شیطان اور خدا بھی نظر آتا ہے جس کے باعث مریض خود کو کسی روحانی مرتبے پر فائز سمجھتا ہے ، کبھی کبھی ایسے مریضوں کو سوتے وقت اپنے سینے پر کوئی غیر مرئی مخلوق بیٹھی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ مخلوق اس کے جسم کو زور سے جکڑ رہی ہے یا اس کا گَلا دبا رہی ہے ۔ یہ مرض عام طور پر 10 سال سے 25 سال کی عمر تک کے افراد میں زیادہ ہو سکتا ہے ۔   5. ڈپریشن Depression :--- یہ مرض بہت عام ہے اور تمام نفسیاتی بیماریوں کی جڑ ہے ، تقریباً ہر نفسیاتی بیماری میں ڈپریشن ہو سکتا ہے، اس بیماری میں ہر وقت گھبراہٹ اور بے چینی محسوس ہوتی رہتی ہے، کسی وقت بھی سکون میسّر نہیں ہوتا ، مریض کو رات بھر نیند نہیں آتی، مریض کسی سے بھی ملنا یا بات کرنا پسند نہیں کرتا ، اس بیماری میں بعض مریض حد سے  زیادہ مایوسی کا شکار ہو کر خودکشی بھی کر لیتے ہیں ۔   یہ بات واضح رہے کہ کسی مریض میں بعض اوقات ایک سے زیادہ بیماریوں کی علامات بھی نظر آ سکتی ہیں ۔ اور بیماریوں کی شدّت میں بھی کمی یا زیادتی ہو سکتی ہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی قسم کی چھوٹی چھوٹی نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں جو کہ قابلِ علاج ہیں ۔  خدا کے لیے اپنے پیاروں کو اس طرح کی تمام نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں کسی اچھے ماہرِ نفسیات، سائکاٹرسٹ ڈاکٹر کو دکھائیں اور کبھی بھی کسی پیشہ ور پیر، فقیر عاملوں یا شعبدہ بازوں کے چکر میں مت پڑیں ۔  وماعلینا الی البلاغ المبین ۔   وضاحت:- اس تحریر کے لیے گوگل سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔  تحقیق و تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔  مورخہ 10 نومبر 2024ء

آسیب اور جنّات کا اثر سمجھی جانے والی نفسیاتی بیماریاں ۔ ( اختصار کے ساتھ ) ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کم علمی کے باعث ہمارے ملک کے لوگ آج بھی ہزاروں سال پرانے وہموں اور وسوسوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ لہذٰا آج بھی ہمارے معاشرے میں نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کو آسیب ، سایہ ، جن بھوت کے نام سے پکارا جاتا ہے اسی لئے روزانہ ہزاروں لوگ ان بیماریوں کے باعث موت کے بھیانک غار میں جاتے جا رہے ہیں ، اور عام لوگ اپنی پریشانیوں کے باعث روز بروز ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں ۔ جب کہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ان نفسیاتی امراض پر باقاعدہ تحقیق ہوتی رہتی ہے اور ان پیچیدہ بیماریوں کا جدید سے جدید تر علاج دریافت ہوتا رہتا ہے ۔ تو آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون کون سی بیماریاں ہیں جنہیں ہم جِن بھوت اور آسیب کا نام دیتے رہتے ہیں ۔ 1. شیزو فرینیا Schizophrenia :--- اس مرض میں مریض کو تنہائی میں مختلف قسم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، بعض اوقات یہ آوازیں مریض کو خود سے گفتگو کرتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہیں ۔ جنہیں مریض جنّات سے یا روحوں سے گفتگو کرنے کا نام دیتا ہے ۔ بعض اوقات مریض کو خوشبوئیں بھی محسوس ہوتی ہیں جنہیں مریض جنّت کی خوشبو سمجھتا ہے ۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ کوئی انہیں چھُو رہا ہے، بعض مریضوں کو مختلف شکلیں بھی دکھائی دیتی ہیں جنہیں مریض اپنی سوچ کے مطابق پری یا جن سمجھتا ہے ۔ اس مرض میں بعض اوقات ایسا بھی لگتا ہے کہ لوگ اس کے دشمن ہو گئے ہیں اور اسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، اس مرض میں کبھی کبھار ایسا بھی لگتا ہے کہ ان کے لیے آسمان سے پیغامات نشر ہو رہے ہیں جو اسے سنائی دیتے ہیں مریض سمجھتا ہے کہ کوئی غیبی طاقت اسے کنٹرول کر رہی ہے اور اس کی مرضی کے خلاف کام کروا رہی ہے ۔ 2. وسوسہ اور تجسّس کا مرض(OCD) Obsessive Compulsive Disorder :--- یہ انتہائی خوفناک بیماری ہے اس میں مریض کے دل پر ہر وقت گھبراہٹ طاری رہتی ہے اور ذہن میں فضول قسم کے وسوسے اور وہم آتے رہتے ہیں وہ عقیدے کے لحاظ سے بھی اپنے مذہب کے بارے غلط باتیں سوچتا ہے ۔ بعض اوقات مریض اپنے متعلق بھی سوچتا ہے کہ میں کون ہوں ، میں کہاں سے آیا ہوں ، میرے بڑے باپ دادے کہاں گئے ، میں ایسا کیوں ہوگیا ہوں، میرا بچپن کہاں گیا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ مریض کو ساری رات نیند نہیں آتی رات بھر فضول خیالات تنگ کرتے رہتے ہیں ، بعض اوقات مریض بستر پر لیٹ بھی نہیں سکتا ، کمرے میں داخل نہیں ہو سکتا ، ٹرین یا گاڑی میں سفر نہیں کر سکتا، رش والی جگہوں پر نہیں جا سکتا کیوں کہ اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے ۔ جو بھی خیال مریض کے ذہن میں آتا ہے وہ اس خیال کو اسی وقت پورا کرنا چاہتا ہے ، بعض اوقات مرض کی شدت کی وجہ سے مریض زمین سے کاغذ اٹھا اٹھا کر انہیں دیکھتا ہے ، پرائے گھروں میں گھس کر انہیں اندر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مریض اپنے ذہن میں انے والے کسی بھی خیال کو کنٹرول نہیں کر سکتا ۔ اکثر شناسا چہرہ دیکھ کر اس کے پیچھے لگ جاتا ہے اور زبردستی گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہے ، گویا ہر دم اس کا تجسّس بڑھتا ہی رہتا ہے، اس مرض میں مریض دور دور تک پیدل نکل جاتا ہے، تیز دھوپ ، گرمی یا سردی کا احساس نہیں ہوتا ۔ ایسی صورت میں مریض کے گھر والے بھی اس سے تنگ آ جاتے ہیں ، اگر مرض کی شدّت بڑھ جائے تو مریض خودکشی کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے ۔ 3. ہسٹریا Conversion Disorder :--- اس مرض میں مریض روتا ہے ، چیختا چلاتا ہے اور مختلف قسم کی آوازیں نکالتا ہے، بستر سے بار بار اچھلتا ہے، مریض کو جھٹکے لگتے ہیں اور مریض اچھلنے کے باعث بستر سے نیچے بھی گر جاتا ہے جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر آسیب کا سایہ خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جِن نے اسے نیچے پھینک دیا ہے، بعض مریض مفلوج بھی ہو سکتے ہیں، مریض کو اپنا گلا گھٹنے کا بھی احساس ہوتا ہے ۔ 4. سلیپ پیرا لائسز Sleep paralysis :--- اس بیماری میں مریض کو سوتے ہوئے سانس رکنے کے باعث ایسا لگتا ہے کہ وہ مر رہا ہے، بعض مریضوں کے گھٹنے اکڑ جاتے ہیں، مریضوں کو بعض اوقات عجیب قسم کی شکلیں بھی نظر آتی ہیں اور اپنے کمرے میں وہ عجیب مخلوق بھی محسوس کرتا ہے جسے وہ فرشتے یا روح وغیرہ سمجھتا ہے اور بعض مریضوں کو اپنے مذہبی پیشوا ، شیطان اور خدا بھی نظر آتا ہے جس کے باعث مریض خود کو کسی روحانی مرتبے پر فائز سمجھتا ہے ، کبھی کبھی ایسے مریضوں کو سوتے وقت اپنے سینے پر کوئی غیر مرئی مخلوق بیٹھی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ مخلوق اس کے جسم کو زور سے جکڑ رہی ہے یا اس کا گَلا دبا رہی ہے ۔ یہ مرض عام طور پر 10 سال سے 25 سال کی عمر تک کے افراد میں زیادہ ہو سکتا ہے ۔ 5. ڈپریشن Depression :--- یہ مرض بہت عام ہے اور تمام نفسیاتی بیماریوں کی جڑ ہے ، تقریباً ہر نفسیاتی بیماری میں ڈپریشن ہو سکتا ہے، اس بیماری میں ہر وقت گھبراہٹ اور بے چینی محسوس ہوتی رہتی ہے، کسی وقت بھی سکون میسّر نہیں ہوتا ، مریض کو رات بھر نیند نہیں آتی، مریض کسی سے بھی ملنا یا بات کرنا پسند نہیں کرتا ، اس بیماری میں بعض مریض حد سے زیادہ مایوسی کا شکار ہو کر خودکشی بھی کر لیتے ہیں ۔ یہ بات واضح رہے کہ کسی مریض میں بعض اوقات ایک سے زیادہ بیماریوں کی علامات بھی نظر آ سکتی ہیں ۔ اور بیماریوں کی شدّت میں بھی کمی یا زیادتی ہو سکتی ہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی قسم کی چھوٹی چھوٹی نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں جو کہ قابلِ علاج ہیں ۔ خدا کے لیے اپنے پیاروں کو اس طرح کی تمام نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں کسی اچھے ماہرِ نفسیات، سائکاٹرسٹ ڈاکٹر کو دکھائیں اور کبھی بھی کسی پیشہ ور پیر، فقیر عاملوں یا شعبدہ بازوں کے چکر میں مت پڑیں ۔ وماعلینا الی البلاغ المبین ۔ وضاحت:- اس تحریر کے لیے گوگل سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔ تحقیق و تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔ مورخہ 10 نومبر 2024ء


 

آسیب اور جنّات کا اثر سمجھی جانے والی نفسیاتی بیماریاں ۔ ( اختصار کے ساتھ ) ۔۔۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

کم علمی کے باعث ہمارے ملک کے لوگ آج بھی ہزاروں سال پرانے وہموں اور وسوسوں میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ لہذٰا آج بھی ہمارے معاشرے میں نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں کو آسیب ، سایہ ، جن بھوت کے نام سے پکارا جاتا ہے اسی لئے روزانہ ہزاروں لوگ ان بیماریوں کے باعث موت کے بھیانک غار میں جاتے جا رہے ہیں ، اور عام لوگ اپنی پریشانیوں کے باعث روز بروز ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں ۔ 

جب کہ یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں ان نفسیاتی امراض پر باقاعدہ تحقیق ہوتی رہتی ہے اور ان پیچیدہ بیماریوں کا جدید سے جدید تر علاج دریافت ہوتا رہتا ہے ۔ 

تو آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون کون سی بیماریاں ہیں جنہیں ہم جِن بھوت اور آسیب کا نام دیتے رہتے ہیں ۔ 


1. شیزو فرینیا Schizophrenia :--- اس مرض میں مریض کو تنہائی میں مختلف قسم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، بعض اوقات یہ آوازیں مریض کو خود سے گفتگو کرتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہیں ۔ جنہیں مریض جنّات سے یا روحوں سے گفتگو کرنے کا نام دیتا ہے ۔ بعض اوقات مریض کو خوشبوئیں بھی محسوس ہوتی ہیں جنہیں مریض جنّت کی خوشبو سمجھتا ہے ۔ بعض مریضوں کو لگتا ہے کہ کوئی انہیں چھُو رہا ہے، بعض مریضوں کو مختلف شکلیں بھی دکھائی دیتی ہیں جنہیں مریض اپنی سوچ کے مطابق پری یا جن سمجھتا ہے ۔ 

 اس مرض میں بعض اوقات ایسا بھی لگتا ہے کہ لوگ اس کے دشمن ہو گئے ہیں اور اسے نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، اس مرض میں کبھی کبھار ایسا بھی لگتا ہے کہ ان کے لیے آسمان سے پیغامات نشر ہو رہے ہیں جو اسے سنائی دیتے ہیں مریض سمجھتا ہے کہ کوئی غیبی طاقت اسے کنٹرول کر رہی ہے اور اس کی مرضی کے خلاف کام کروا رہی ہے ۔ 


2. وسوسہ اور تجسّس کا مرض(OCD) Obsessive Compulsive Disorder :--- یہ انتہائی خوفناک بیماری ہے اس میں مریض کے  دل پر ہر وقت گھبراہٹ طاری رہتی ہے اور ذہن میں فضول قسم کے وسوسے اور وہم آتے رہتے ہیں وہ عقیدے کے لحاظ سے بھی اپنے مذہب کے بارے غلط باتیں سوچتا ہے ۔ بعض اوقات مریض اپنے متعلق بھی سوچتا ہے کہ میں کون ہوں ، میں کہاں سے آیا ہوں ، میرے بڑے باپ دادے کہاں گئے ، میں ایسا کیوں ہوگیا ہوں، میرا بچپن کہاں گیا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ مریض کو ساری رات نیند نہیں آتی رات بھر فضول خیالات تنگ کرتے رہتے ہیں ، بعض اوقات مریض بستر پر لیٹ بھی نہیں سکتا ، کمرے میں داخل نہیں ہو سکتا ، ٹرین یا گاڑی میں سفر نہیں کر سکتا، رش والی جگہوں پر نہیں جا سکتا کیوں کہ اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہوتا ہے ۔ 

جو بھی خیال مریض کے ذہن میں آتا ہے وہ اس خیال کو اسی وقت پورا کرنا چاہتا ہے ، بعض اوقات مرض کی شدت کی وجہ سے مریض زمین سے کاغذ اٹھا اٹھا کر انہیں دیکھتا ہے ، پرائے گھروں میں گھس کر انہیں اندر سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ مریض اپنے ذہن میں انے والے کسی بھی خیال کو کنٹرول نہیں کر سکتا ۔ اکثر شناسا چہرہ دیکھ کر اس کے پیچھے لگ جاتا ہے اور زبردستی گفتگو کرنے کی کوشش کرتا ہے ، گویا ہر دم اس کا تجسّس بڑھتا ہی رہتا ہے، اس مرض میں مریض دور دور تک پیدل نکل جاتا ہے، تیز دھوپ ، گرمی یا سردی کا احساس نہیں ہوتا ۔ ایسی صورت میں مریض کے گھر والے بھی اس سے تنگ آ جاتے ہیں ، اگر مرض کی شدّت بڑھ جائے تو مریض خودکشی کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے ۔ 


3. ہسٹریا Conversion Disorder :--- اس مرض میں مریض روتا ہے ، چیختا چلاتا ہے اور مختلف قسم کی آوازیں نکالتا ہے، بستر سے بار بار اچھلتا ہے، مریض کو جھٹکے لگتے ہیں اور مریض اچھلنے کے باعث بستر سے نیچے بھی گر جاتا ہے جنہیں دیکھ کر لوگ اس پر آسیب کا سایہ خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جِن نے اسے نیچے پھینک دیا ہے، بعض مریض مفلوج بھی ہو سکتے ہیں، مریض کو اپنا گلا گھٹنے کا بھی احساس ہوتا ہے ۔ 


4. سلیپ پیرا لائسز Sleep paralysis :--- اس بیماری میں مریض کو سوتے ہوئے سانس رکنے کے باعث ایسا لگتا ہے کہ وہ مر رہا ہے، بعض مریضوں کے گھٹنے اکڑ جاتے ہیں، مریضوں کو بعض اوقات عجیب قسم کی شکلیں بھی نظر آتی ہیں اور اپنے کمرے میں وہ عجیب مخلوق بھی محسوس کرتا ہے جسے وہ فرشتے یا روح وغیرہ سمجھتا ہے اور بعض مریضوں کو اپنے مذہبی پیشوا ، شیطان اور خدا بھی نظر آتا ہے جس کے باعث مریض خود کو کسی روحانی مرتبے پر فائز سمجھتا ہے ، کبھی کبھی ایسے مریضوں کو سوتے وقت اپنے سینے پر کوئی غیر مرئی مخلوق بیٹھی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ مخلوق اس کے جسم کو زور سے جکڑ رہی ہے یا اس کا گَلا دبا رہی ہے ۔ یہ مرض عام طور پر 10 سال سے 25 سال کی عمر تک کے افراد میں زیادہ ہو سکتا ہے ۔ 


5. ڈپریشن Depression :--- یہ مرض بہت عام ہے اور تمام نفسیاتی بیماریوں کی جڑ ہے ، تقریباً ہر نفسیاتی بیماری میں ڈپریشن ہو سکتا ہے، اس بیماری میں ہر وقت گھبراہٹ اور بے چینی محسوس ہوتی رہتی ہے، کسی وقت بھی سکون میسّر نہیں ہوتا ، مریض کو رات بھر نیند نہیں آتی، مریض کسی سے بھی ملنا یا بات کرنا پسند نہیں کرتا ، اس بیماری میں بعض مریض حد سے  زیادہ مایوسی کا شکار ہو کر خودکشی بھی کر لیتے ہیں ۔ 

 یہ بات واضح رہے کہ کسی مریض میں بعض اوقات ایک سے زیادہ بیماریوں کی علامات بھی نظر آ سکتی ہیں ۔ اور بیماریوں کی شدّت میں بھی کمی یا زیادتی ہو سکتی ہے ۔ ان کے علاوہ اور بھی کئی قسم کی چھوٹی چھوٹی نفسیاتی بیماریاں ہوتی ہیں جو کہ قابلِ علاج ہیں ۔


خدا کے لیے اپنے پیاروں کو اس طرح کی تمام نفسیاتی اور ذہنی بیماریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے انہیں کسی اچھے ماہرِ نفسیات، سائکاٹرسٹ ڈاکٹر کو دکھائیں اور کبھی بھی کسی پیشہ ور پیر، فقیر عاملوں یا شعبدہ بازوں کے چکر میں مت پڑیں ۔ 

وماعلینا الی البلاغ المبین ۔ 


وضاحت:- اس تحریر کے لیے گوگل سے بھی استفادہ کیا گیا ہے ۔ 

تحقیق و تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔ 

مورخہ 10 نومبر 2024ء


مِلا کر ہاتھ جھٹکے سے چھڑایا یاد ائے گا ۔  بنا کر دوست جو ہم کو رُلایا یاد آئے گا ۔   بڑی چاہت سے آئے تھے تری محفل میں ہم لیکن ۔  نظر سے جس طرح تونے گرایا یاد آئے گا ۔   گَلے تم کو لگانے کے لیے آگے بڑھے تھے ہم ۔  گلے پر تم نے جو خنجر چلایا یاد آئے گا ۔   پکڑنے کو ہمیں اکثر شکاری تاک میں تو تھے ۔  مگر وہ جال جو تونے بچھایا یاد آئے گا ۔   ہمارے ملک میں جمہوریت بھی خوب ہے لیکن ۔  زباں پر سب کی، جو تالا لگایا یاد آئے گا ۔   ہمارے حاکموں نے طالبہ کو نوچنے کے بعد ۔  بھیانک واقعہ جیسے چھپایا یاد آئے گا ۔ #  نہیں وامِق کو تم سے کوئی بھی شکوہ گِلا لیکن ۔  جو تم نے اصل چہرہ اب دکھایا یاد آئے گا ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  # اکتوبر 2024ء دوسرے ہفتے کے آغاز میں پنجاب کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کی طالبہ کے ساتھ عصمت دری کے مبینہ واقعے کو حکومتی سطح پر چھپایا گیا   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  19 اکتوبر سال 2024ء کو کہی گئی غزل ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔  مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔  بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔

مِلا کر ہاتھ جھٹکے سے چھڑایا یاد ائے گا ۔ بنا کر دوست جو ہم کو رُلایا یاد آئے گا ۔ بڑی چاہت سے آئے تھے تری محفل میں ہم لیکن ۔ نظر سے جس طرح تونے گرایا یاد آئے گا ۔ گَلے تم کو لگانے کے لیے آگے بڑھے تھے ہم ۔ گلے پر تم نے جو خنجر چلایا یاد آئے گا ۔ پکڑنے کو ہمیں اکثر شکاری تاک میں تو تھے ۔ مگر وہ جال جو تونے بچھایا یاد آئے گا ۔ ہمارے ملک میں جمہوریت بھی خوب ہے لیکن ۔ زباں پر سب کی، جو تالا لگایا یاد آئے گا ۔ ہمارے حاکموں نے طالبہ کو نوچنے کے بعد ۔ بھیانک واقعہ جیسے چھپایا یاد آئے گا ۔ # نہیں وامِق کو تم سے کوئی بھی شکوہ گِلا لیکن ۔ جو تم نے اصل چہرہ اب دکھایا یاد آئے گا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ # اکتوبر 2024ء دوسرے ہفتے کے آغاز میں پنجاب کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کی طالبہ کے ساتھ عصمت دری کے مبینہ واقعے کو حکومتی سطح پر چھپایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 19 اکتوبر سال 2024ء کو کہی گئی غزل ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔ بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔


 غزل

   غلام محمد وامِق 


مِلا کر ہاتھ جھٹکے سے چھڑایا یاد ائے گا ۔ 

بنا کر دوست جو ہم کو رُلایا یاد آئے گا ۔ 


بڑی چاہت سے آئے تھے تری محفل میں ہم لیکن ۔ 

نظر سے جس طرح تونے گرایا یاد آئے گا ۔ 


گَلے تم کو لگانے کے لیے آگے بڑھے تھے ہم ۔ 

گلے پر تم نے جو خنجر چلایا یاد آئے گا ۔ 


پکڑنے کو ہمیں اکثر شکاری تاک میں تو تھے ۔ 

مگر وہ جال جو تونے بچھایا یاد آئے گا ۔ 


ہمارے ملک میں جمہوریت بھی خوب ہے لیکن ۔ 

زباں پر سب کی، جو تالا لگایا یاد آئے گا ۔ 


ہمارے حاکموں نے طالبہ کو نوچنے کے بعد ۔ 

بھیانک واقعہ جیسے چھپایا یاد آئے گا ۔ #


نہیں وامِق کو تم سے کوئی بھی شکوہ گِلا لیکن ۔ 

جو تم نے اصل چہرہ اب دکھایا یاد آئے گا ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

# اکتوبر 2024ء دوسرے ہفتے کے آغاز میں پنجاب کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کی طالبہ کے ساتھ عصمت دری کے مبینہ واقعے کو حکومتی سطح پر چھپایا گیا 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

19 اکتوبر سال 2024ء کو کہی گئی غزل ۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔ 

بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔

اردو اور ہندی رسم الخط میں لکھی گئی میری غزل ۔۔۔                                        غلام محمد وامِق                           اردو غزل   جو ہو رہا ہے ہم پہ ستم دیکھتے رہو ۔  ہوگی تمہاری آنکھ بھی نَم دیکھتے رہو ۔   مانا نظر میں لوگوں کی معصوم ہیں جناب ۔  اِک روز ختم ہوگا بھرم دیکھتے رہو ۔   منزل سے پہلے رکنے کے عادی نہیں ہیں ہم ۔  اب اُٹھ چکے ہیں اپنے قدم دیکھتے رہو ۔   مکر و فریب دیکھے ہیں ہم نے بہت مگر ۔  ہوگا نہ اپنا حوصلہ کم دیکھتے رہو ۔   اِس ملک کے نظام کو بدلو وگرنہ تم ۔  افلاس و بھوک و رنج و الم دیکھتے رہو ۔   ہم وہ ہیں گھر جلا کے بھی جو روشنی کریں ۔  ہوگا اندھیرا ظلم کا کم دیکھتے رہو ۔   مقتل میں ہو یا بزم میں وامِق ہے سرفراز ۔  ہوگا کہیں نہ سَر مرا خم دیکھتے رہو ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق  محراب پور سندھ ۔ پاکستان ۔   ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़   उर्दू ग़ज़ल   जो हो रहा है हम पे सितम देखते रहो । होगी तुम्हारी आंख भी नम देखते रहो ।  माना नज़र में लोगों की मासूम हैं जनाब । इक रोज़ खत्म होगा भरम देखते रहो ।   मंज़िल से पहले रूकने के आदी नहीं हैं हम ।  अब उठ चुके हैं अपने क़दम देखते रहो ।   मक्र-ओ- फ़रेब देखे हैं हम ने बहुत मगर ।  होगा ना अपना हौसला कम देखते रहो ।   इस मुल्क के निज़ाम को बदलो वगर्ना तुम ।  अफ़्लास-ओ- भुख-ओ- रन्ज-ओ- अलम देखते रहो ।   हम वो हैं घर जला के भी जो रोशनी करें ।  होगा अंधेरा ज़ुल्म का कम देखते रहो ।   मक़्तल में हो या बज़्म में वामिक़ हे सर्फ़राज़ ।  होगा कहीं ना सर मिरा ख़म देखते रहो ।   शाइर  ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़  मेहराब पुर सिंध पाकिस्तान । ...

اردو اور ہندی رسم الخط میں لکھی گئی میری غزل ۔۔۔ غلام محمد وامِق اردو غزل جو ہو رہا ہے ہم پہ ستم دیکھتے رہو ۔ ہوگی تمہاری آنکھ بھی نَم دیکھتے رہو ۔ مانا نظر میں لوگوں کی معصوم ہیں جناب ۔ اِک روز ختم ہوگا بھرم دیکھتے رہو ۔ منزل سے پہلے رکنے کے عادی نہیں ہیں ہم ۔ اب اُٹھ چکے ہیں اپنے قدم دیکھتے رہو ۔ مکر و فریب دیکھے ہیں ہم نے بہت مگر ۔ ہوگا نہ اپنا حوصلہ کم دیکھتے رہو ۔ اِس ملک کے نظام کو بدلو وگرنہ تم ۔ افلاس و بھوک و رنج و الم دیکھتے رہو ۔ ہم وہ ہیں گھر جلا کے بھی جو روشنی کریں ۔ ہوگا اندھیرا ظلم کا کم دیکھتے رہو ۔ مقتل میں ہو یا بزم میں وامِق ہے سرفراز ۔ ہوگا کہیں نہ سَر مرا خم دیکھتے رہو ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔ پاکستان ۔ ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़ उर्दू ग़ज़ल जो हो रहा है हम पे सितम देखते रहो । होगी तुम्हारी आंख भी नम देखते रहो । माना नज़र में लोगों की मासूम हैं जनाब । इक रोज़ खत्म होगा भरम देखते रहो । मंज़िल से पहले रूकने के आदी नहीं हैं हम । अब उठ चुके हैं अपने क़दम देखते रहो । मक्र-ओ- फ़रेब देखे हैं हम ने बहुत मगर । होगा ना अपना हौसला कम देखते रहो । इस मुल्क के निज़ाम को बदलो वगर्ना तुम । अफ़्लास-ओ- भुख-ओ- रन्ज-ओ- अलम देखते रहो । हम वो हैं घर जला के भी जो रोशनी करें । होगा अंधेरा ज़ुल्म का कम देखते रहो । मक़्तल में हो या बज़्म में वामिक़ हे सर्फ़राज़ । होगा कहीं ना सर मिरा ख़म देखते रहो । शाइर ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़ मेहराब पुर सिंध पाकिस्तान । ...


 اردو اور ہندی رسم الخط میں لکھی گئی میری غزل ۔۔۔                   

                    غلام محمد وامِق   

                       اردو غزل 


جو ہو رہا ہے ہم پہ ستم دیکھتے رہو ۔ 

ہوگی تمہاری آنکھ بھی نَم دیکھتے رہو ۔ 


مانا نظر میں لوگوں کی معصوم ہیں جناب ۔ 

اِک روز ختم ہوگا بھرم دیکھتے رہو ۔ 


منزل سے پہلے رکنے کے عادی نہیں ہیں ہم ۔ 

اب اُٹھ چکے ہیں اپنے قدم دیکھتے رہو ۔ 


مکر و فریب دیکھے ہیں ہم نے بہت مگر ۔ 

ہوگا نہ اپنا حوصلہ کم دیکھتے رہو ۔ 


اِس ملک کے نظام کو بدلو وگرنہ تم ۔ 

افلاس و بھوک و رنج و الم دیکھتے رہو ۔ 


ہم وہ ہیں گھر جلا کے بھی جو روشنی کریں ۔ 

ہوگا اندھیرا ظلم کا کم دیکھتے رہو ۔ 


مقتل میں ہو یا بزم میں وامِق ہے سرفراز ۔ 

ہوگا کہیں نہ سَر مرا خم دیکھتے رہو ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق 

محراب پور سندھ ۔ پاکستان ۔ 


ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़ 


उर्दू ग़ज़ल 


जो हो रहा है हम पे सितम देखते रहो ।

होगी तुम्हारी आंख भी नम देखते रहो ।


माना नज़र में लोगों की मासूम हैं जनाब ।

इक रोज़ खत्म होगा भरम देखते रहो । 


मंज़िल से पहले रूकने के आदी नहीं हैं हम । 

अब उठ चुके हैं अपने क़दम देखते रहो । 


मक्र-ओ- फ़रेब देखे हैं हम ने बहुत मगर । 

होगा ना अपना हौसला कम देखते रहो । 


इस मुल्क के निज़ाम को बदलो वगर्ना तुम । 

अफ़्लास-ओ- भुख-ओ- रन्ज-ओ- अलम देखते रहो । 


हम वो हैं घर जला के भी जो रोशनी करें । 

होगा अंधेरा ज़ुल्म का कम देखते रहो । 


मक़्तल में हो या बज़्म में वामिक़ हे सर्फ़राज़ । 

होगा कहीं ना सर मिरा ख़म देखते रहो । 


शाइर  ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़ 

मेहराब पुर सिंध पाकिस्तान ।

...........................................

ہندی کا ادبی رسالہ سہ ماہی ”ساہتیہ سارانش۔ عالمی“  ۔۔۔۔ جو کہ بھارت کے شہر " جگدل پور " سے شاٸع ہو کر دنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے ۔ رسالے کے مدیرِ اعلیٰ ہیں جناب " ڈاکٹر افروز عالم " DrAfroz Alam  صاحب ۔  اس رسالے کے تازہ شمارے میں میری بھی ایک غزل شایع ہوئی ہے صفحہ نمبر 43 پر ۔ میرے ساتھ ہی صفحے پر " عزیز اختر ( دِلّی ) " کی غزل بھی ہے ۔ رسالے کا سر ورق اور فہرست بھی پیشِ خدمت ہے ۔ غلام محمد وامِق ۔

ہندی کا ادبی رسالہ سہ ماہی ”ساہتیہ سارانش۔ عالمی“ ۔۔۔۔ جو کہ بھارت کے شہر " جگدل پور " سے شاٸع ہو کر دنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے ۔ رسالے کے مدیرِ اعلیٰ ہیں جناب " ڈاکٹر افروز عالم " DrAfroz Alam صاحب ۔ اس رسالے کے تازہ شمارے میں میری بھی ایک غزل شایع ہوئی ہے صفحہ نمبر 43 پر ۔ میرے ساتھ ہی صفحے پر " عزیز اختر ( دِلّی ) " کی غزل بھی ہے ۔ رسالے کا سر ورق اور فہرست بھی پیشِ خدمت ہے ۔ غلام محمد وامِق ۔




 

ہندی کا ادبی رسالہ سہ ماہی ”ساہتیہ سارانش۔ عالمی“  ۔۔۔۔ جو کہ بھارت کے شہر " جگدل پور " سے شاٸع ہو کر دنیا بھر میں پڑھا جاتا ہے ۔ رسالے کے مدیرِ اعلیٰ ہیں جناب " ڈاکٹر افروز عالم " DrAfroz Alam  صاحب ۔ 

اس رسالے کے تازہ شمارے میں میری بھی ایک غزل شایع ہوئی ہے صفحہ نمبر 43 پر ۔ میرے ساتھ ہی صفحے پر " عزیز اختر ( دِلّی ) " کی غزل بھی ہے ۔ رسالے کا سر ورق اور فہرست بھی پیشِ خدمت ہے ۔ غلام محمد وامِق ۔


جیسی گزری گزار دی آخر ۔  زندگی تجھ پہ وار دی آخر ۔   گفتگو عقل کی کریں کیسے ؟  عقل سسٹم نے مار دی آخر ۔   تیری آنکھوں میں ڈوب کر دیکھو ۔  زندگی ہم نے ہار دی آخر ۔   سارے مُنصِف بھی ہوگئے ہیں چپ ۔  جبر نے مار ، مار دی آخر ۔    میرا ایثار و عاجزی اُس نے ۔  ایک سازش قرار دی آخر ۔   اِس گھُٹن کے نظام نے وامِق ۔  ہر نئی سوچ مار دی آخر ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔  مورخہ 17 ستمبر سال 2024ء ، مطابق 12 ربیع الاوّل 1446ھ ، بروز منگل کہی گئی ۔  فاعلاتن مفاعلن فِعلن ۔  بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔

جیسی گزری گزار دی آخر ۔ زندگی تجھ پہ وار دی آخر ۔ گفتگو عقل کی کریں کیسے ؟ عقل سسٹم نے مار دی آخر ۔ تیری آنکھوں میں ڈوب کر دیکھو ۔ زندگی ہم نے ہار دی آخر ۔ سارے مُنصِف بھی ہوگئے ہیں چپ ۔ جبر نے مار ، مار دی آخر ۔ میرا ایثار و عاجزی اُس نے ۔ ایک سازش قرار دی آخر ۔ اِس گھُٹن کے نظام نے وامِق ۔ ہر نئی سوچ مار دی آخر ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 17 ستمبر سال 2024ء ، مطابق 12 ربیع الاوّل 1446ھ ، بروز منگل کہی گئی ۔ فاعلاتن مفاعلن فِعلن ۔ بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔


 

=== غزل === 

غلام محمد وامِق 


جیسی گزری گزار دی آخر ۔ 

زندگی تجھ پہ وار دی آخر ۔ 


گفتگو عقل کی کریں کیسے ؟ 

عقل سسٹم نے مار دی آخر ۔ 


تیری آنکھوں میں ڈوب کر دیکھو ۔ 

زندگی ہم نے ہار دی آخر ۔ 


سارے مُنصِف بھی ہوگئے ہیں چپ ۔ 

جبر نے مار ، مار دی آخر ۔  


میرا ایثار و عاجزی اُس نے ۔ 

ایک سازش قرار دی آخر ۔ 


اِس گھُٹن کے نظام نے وامِق ۔ 

ہر نئی سوچ مار دی آخر ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مورخہ 17 ستمبر سال 2024ء ، مطابق 12 ربیع الاوّل 1446ھ ، بروز منگل کہی گئی ۔ 

فاعلاتن مفاعلن فِعلن ۔ 

بحر۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع ۔

باپ کی خواہش پر حضرت اسماعیل نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ یہ ایک طویل حدیث کا ایک ٹکڑے کا عکس ہے ۔ روایت کے مطابق حضرت ابراہیم جب فلسطین سے مکہ میں اپنے بیٹے سے ملنے آئے تو گھر پر اسماعیل نہیں تھے ، مگر ان کی بیوی تھی جس نے پوچھنے پر کہا کہ گھر کے معاشی حالات بہت ابتر ہیں بڑی مشکل سے گزارا ہوتا ہے ، تو اس پر حضرت ابراہیم نے کہا کہ جب اسماعیل آئے تو انہیں کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ تبدیل کر لے ۔ یہ اشارہ تھا کہ تمہاری بیوی شکر گزار نہیں ہے ،اس لئے اس کو چھوڑ دو ۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ حضرت ابراہیم آئے تو اس بار دوسری بیوی تھی ، اس نے کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے گھر میں بہت فراوانی ہے اور بہت خوشحالی ہے ، تو ابراہیم نے کہا کہ اسماعیل آئے تو اسے کہنا کہ گھر کی چوکھٹ مضبوط ہے اس کو حفاظت سے رکھے ۔  حدیث نمبر ۔ 3364 ، صحیح بخاری

باپ کی خواہش پر حضرت اسماعیل نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔ یہ ایک طویل حدیث کا ایک ٹکڑے کا عکس ہے ۔ روایت کے مطابق حضرت ابراہیم جب فلسطین سے مکہ میں اپنے بیٹے سے ملنے آئے تو گھر پر اسماعیل نہیں تھے ، مگر ان کی بیوی تھی جس نے پوچھنے پر کہا کہ گھر کے معاشی حالات بہت ابتر ہیں بڑی مشکل سے گزارا ہوتا ہے ، تو اس پر حضرت ابراہیم نے کہا کہ جب اسماعیل آئے تو انہیں کہنا کہ اپنے گھر کی چوکھٹ تبدیل کر لے ۔ یہ اشارہ تھا کہ تمہاری بیوی شکر گزار نہیں ہے ،اس لئے اس کو چھوڑ دو ۔ پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ حضرت ابراہیم آئے تو اس بار دوسری بیوی تھی ، اس نے کہا کہ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے گھر میں بہت فراوانی ہے اور بہت خوشحالی ہے ، تو ابراہیم نے کہا کہ اسماعیل آئے تو اسے کہنا کہ گھر کی چوکھٹ مضبوط ہے اس کو حفاظت سے رکھے ۔ حدیث نمبر ۔ 3364 ، صحیح بخاری


 

 غزل =  تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔  غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔   لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔  یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔   تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟  مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔   لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔  اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔   لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔  تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔   اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔  عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔   رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔  اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔   زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔  اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔   ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔  اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔   میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔  دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔  فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔  متدارک مثمن سالم ۔

غزل = تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔ غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔ لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔ یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔ تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟ مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔ لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔ اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔ لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔ تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔ اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔ عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔ رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔ اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔ زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔ اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔ ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔ اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔ میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔ دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔ فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔ متدارک مثمن سالم ۔


 === غزل === 

غلام محمد وامِق 


تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔ 

غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔ 


لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔ 

یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔ 


تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟ 

مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔ 


لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔ 

اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔ 


لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔ 

تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔ 


اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔ 

عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔ 


رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔ 

اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔ 


زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔ 

اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔ 


ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔ 

اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔ 


میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔ 

دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔

مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔ 

فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔ 

متدارک مثمن سالم ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

=== غزل === 

غلام محمد وامِق 


تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔ 

غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔ 


لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔ 

یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔ 


تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟ 

مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔ 


لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔ 

اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔ 


لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔ 

تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔ 


اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔ 

عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔ 


رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔ 

اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔ 


زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔ 

اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔ 


ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔ 

اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔ 


میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔ # 

دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔

مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔ 

# چند روز قبل کراچی میں ایک مالدار عورت نے نشے میں دھت ہو کر گاڑی چلاتے ہوئے اپنی گاڑی کے نیچے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کو کچل دیا تھا ، عدالت نے اسے پاگل قرار دے کر چھوڑ دیا تھا ۔


  دِیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں ۔  ہوا تھمے نہ تھمے کوششیں تو کرتے رہیں ۔   قضا کے منصبِ عالی پہ بہرے بیٹھے ہیں ۔  کوئی سنے نہ سنے کوششیں تو کرتے رہیں ۔   نہیں ہے اب وہ زمانہ کہ شب سَحَر میں ڈھلے ۔  سَحَر ملے نہ ملے کوششیں تو کرتے رہیں ۔   میں جانتا ہوں کہ منزل نہیں قریب مرے ۔  سفر کٹے نہ کٹے کوششیں تو کرتے رہیں ۔   پھنسی بھنور میں ہے کشتی تو خیر ہے وامِق ۔  بھَنوَر رکے نہ رکے کوششیں تو کرتے رہیں ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔  مئی سال 2024ء میں کہی گئی ۔  مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔  بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔

دِیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ ہوا تھمے نہ تھمے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ قضا کے منصبِ عالی پہ بہرے بیٹھے ہیں ۔ کوئی سنے نہ سنے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ نہیں ہے اب وہ زمانہ کہ شب سَحَر میں ڈھلے ۔ سَحَر ملے نہ ملے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ منزل نہیں قریب مرے ۔ سفر کٹے نہ کٹے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ پھنسی بھنور میں ہے کشتی تو خیر ہے وامِق ۔ بھَنوَر رکے نہ رکے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مئی سال 2024ء میں کہی گئی ۔ مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔ بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔


 ===   غزل    === 

غلام محمد وامِق 


دِیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 

ہوا تھمے نہ تھمے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


قضا کے منصبِ عالی پہ بہرے بیٹھے ہیں ۔ 

کوئی سنے نہ سنے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


نہیں ہے اب وہ زمانہ کہ شب سَحَر میں ڈھلے ۔ 

سَحَر ملے نہ ملے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


میں جانتا ہوں کہ منزل نہیں قریب مرے ۔ 

سفر کٹے نہ کٹے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


پھنسی بھنور میں ہے کشتی تو خیر ہے وامِق ۔ 

بھَنوَر رکے نہ رکے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مئی سال 2024ء میں کہی گئی ۔ 

مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔ 

بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔

بھارت کے اخبار میں چھپنے والا، پاکستان کے معروف صحافی " حامد میر " کا ایک دلچسپ کالم ۔۔۔  تاریخ ۔ 25 اگست 2024ء  آئیے پاکستان میں کرتے ہیں بھارت کی ایک کھوج ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ہندی سے اردو ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔   پاکستان ڈائری ۔۔۔ حامد میر ۔  اگر میں کہوں کہ آپ پاکستان میں بھی بھارت کی کھوج آسانی سے کر سکتے ہیں تو کیا آپ یقین کریں گے ؟  آئیے جانتے ہیں=  دلّی بھارت کی راجدھانی ہے لیکن اپ کو کراچی میں " دلی کالونی " مل جائے گی ،  یہاں بہار کالونی بھی ہے تو گوالیار سوسائٹی ، لکھنؤ سوسائٹی ، بھوپال ہاؤس ، بنارس ٹاؤن ، اور ہندو جیم خانہ بھی ہے ۔  دلّی کے لال قلعے میں اگر لاہوری گیٹ ہے تو لاہور میں دلّی گیٹ کو دیکھ سکتے ہیں ۔ دلی کے چاندنی چوک کے پاس انارکلی بازار ہے لیکن ایک انارکلی بازار ہمارے لاہور میں بھی ہے ۔  اسلام آباد پاکستان کی راجدھانی ہے جس کا نرمان ( سنگِ بنیاد) 1960ء میں ہوا تھا ، لیکن سندھ صوبے میں " اسلام کوٹ " نام سے ایک پرانا شہر ہے جہاں 9 ( نو) ہندو مندر ہیں، اس شہر کا نام اسلام کوٹ ہے مگر آدھی سے زیادہ آبادی ہندو ہے ۔  پر یہ جان کر بھی آپ کو تعجب ہوگا کہ کچھ پاکستانی شہروں میں آپ کو ایک بھی ہندو نہیں ملے گا لیکن ان شہروں کے نام ہندوؤں کے نام پر ہیں ۔  پاکستانی پنجاب میں ایک پرانا شہر ہے نام ہے " کوٹ رادھا کشن" حالاں کہ یہاں ایک بھی ہندو نہیں ہے ، 1947ء میں یہاں کی ہندو آبادی ہندوستان چلی گئی تھی ، اس کا نام بدلنے کی کافی کوشش بھی کی گئی لیکن یہاں کے مسلمانوں نے اس سے صاف انکار کر دیا ۔   بٹوارے کے سمے ہی ایک مسلمان امرتسر سے کوٹ رادھا کشن آیا اس نے یہاں مٹھائیوں کا کاروبار شروع کیا نام رکھا " امرتسر سوئیٹ " ۔  اسی طرح کراچی میں " دلّی سوئیٹس ، اور اسلام آباد میں " امبالہ بیکری " کے نام سے مٹھائی کی دکانیں ہیں ۔  پاکستانی شہروں قصبوں اور گاؤں کے ہندو اور سکھ نام ہمارے سانجھا اتہاس کا حصہ ہیں ۔  بے شک بٹوارے کے بعد دونوں دیشوں میں کئی نام بدلے گئے لیکن نئے نام پرانے اتہاس کو ختم نہیں کر سکے ۔  پنجاب بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پنجاب پاکستان کے ایک صوبے کا بھی نام ہے ۔  گجرات بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پاکستان کے ایک شہر کا نام " گجرات" ہے ۔  حیدرآباد نام سے بھارت میں بھی شہر ہے تو پاکستان میں بھی ۔  پاکستانی حیدرآباد میں " بمبئی بیکری " کے کیک پورے پاکستان میں مشہور ہیں تو یہ ہی بھارت کے حیدرآباد میں " کراچی بیکری " ایک جانا پہچانا نام ہے ۔  ہندو دیوی " ماں سیتا " کے نام پر آپ کو پاکستان میں شہر و قصبے مل جائیں گے ۔  پاکستان کے پچھمی پنجاب صوبے میں ایک قصبہ ہے " سیتا پور " ( اسے پنجابی ٹون کے کارن کچھ لوگ " سیت پور" بھی کہتے ہیں ۔  ایک دوسرے صوبے سندھ میں بھی ایک شہر کا نام " سیتا گوٹھ " ہے ۔  گنگا بھارت کی ایک پؤتر ندی ہے ، لیکن آپ کو پاکستانی پنجاب میں " گنگا پور " نام سے ایک شہر مل جائے گا ۔  خیبرپختونخوا صوبے میں " گنگا نگر" نام کا بھی ایک شہر ہے ۔  " سر گنگا رام" نے بٹوارے سے پہلے لاہور میں " گنگا رام ہسپتال" بنوایا تھا ، اسی نام سے ایک اور ہسپتال ان کے پریوار نے دلّی میں بنوایا تھا ۔ اس طرح سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نام کے دو ہسپتال ہیں جن کا اتہاس  بھی سانجھا ہے ۔  ننکانہ صاحب ، گرو نانک دیو کا جنم استھان ہے ، یہ شہر پاکستانی پنجاب میں ہے ۔  گردوارہ کرتار پور صاحب کی وجہ سے " کرتار پور" پاکستان میں سکھوں کا ایک اور دھارمک استھل ہے ، جالندھر کے قریب بھارت میں " کرتار پور" نام کا ایک شہر ہے ۔  جالندھر بھارت کا ایک شہر ہے جو پنجاب میں ہے لیکن اس نام سے ایک شہر پاکستانی پنجاب میں بھی موجود ہے ۔  کراچی میں " موہنداس کرمچند گاندھی" اسٹریٹ ہے ۔ ستھانئے لوگوں میں یہ اب بھی موہن روڈ کے نام سے مشہور ہے ۔  بھارت کے "ناگ پور" کے پاس ایک " گوپال نگر " ہے اور اسی گوپال نگر کے نام سے لاہور کے پاس بھی ایک قصبہ ہے ۔  پاکستانی پنجاب میں " چکوال" کے پاس ہندوؤں کے لیے ۔۔۔       " کٹاس راج" ایک بے حد پؤتر ستھال ہے ۔ کٹاس میں ودھنو شیو ، گنیس شیو لنگ ، کالی ماتا ، پار وتی ، اور لکشمی کے نام سے ایک پریسر میں ایک دوسرے سے جُڑے سات 7 ہندو مندر ہیں ۔  اسلام آباد کے" سید پور " گاؤں میں ایک پرانا رام مندر ہے جسے " رام کُنڈ مندر " کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہندوؤں کا ماننا ہے کہ وِنواس کے دوران " رام " اس کیشتر میں بھی رہے تھے ۔  1947ء کے بعد بھارت اور پاکستان الگ الگ ملک بن گئے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے اتیت کو نہیں بدل سکتے ۔  اوپر تو کیول چند مثالیں بھری ہیں ، اپ کو نجانے کتنی ایسی مثالیں اور بھی مل جائیں گی ، تو آپ چاہیں تو پاکستان میں بھارت کو کھوج کر سکتے ہیں ۔  ( حامد میر پاک )  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔  تاریخ تحریر ۔ 27 اگست 2024ء بروز منگل ۔۔۔

بھارت کے اخبار میں چھپنے والا، پاکستان کے معروف صحافی " حامد میر " کا ایک دلچسپ کالم ۔۔۔ تاریخ ۔ 25 اگست 2024ء آئیے پاکستان میں کرتے ہیں بھارت کی ایک کھوج ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندی سے اردو ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔ پاکستان ڈائری ۔۔۔ حامد میر ۔ اگر میں کہوں کہ آپ پاکستان میں بھی بھارت کی کھوج آسانی سے کر سکتے ہیں تو کیا آپ یقین کریں گے ؟ آئیے جانتے ہیں= دلّی بھارت کی راجدھانی ہے لیکن اپ کو کراچی میں " دلی کالونی " مل جائے گی ، یہاں بہار کالونی بھی ہے تو گوالیار سوسائٹی ، لکھنؤ سوسائٹی ، بھوپال ہاؤس ، بنارس ٹاؤن ، اور ہندو جیم خانہ بھی ہے ۔ دلّی کے لال قلعے میں اگر لاہوری گیٹ ہے تو لاہور میں دلّی گیٹ کو دیکھ سکتے ہیں ۔ دلی کے چاندنی چوک کے پاس انارکلی بازار ہے لیکن ایک انارکلی بازار ہمارے لاہور میں بھی ہے ۔ اسلام آباد پاکستان کی راجدھانی ہے جس کا نرمان ( سنگِ بنیاد) 1960ء میں ہوا تھا ، لیکن سندھ صوبے میں " اسلام کوٹ " نام سے ایک پرانا شہر ہے جہاں 9 ( نو) ہندو مندر ہیں، اس شہر کا نام اسلام کوٹ ہے مگر آدھی سے زیادہ آبادی ہندو ہے ۔ پر یہ جان کر بھی آپ کو تعجب ہوگا کہ کچھ پاکستانی شہروں میں آپ کو ایک بھی ہندو نہیں ملے گا لیکن ان شہروں کے نام ہندوؤں کے نام پر ہیں ۔ پاکستانی پنجاب میں ایک پرانا شہر ہے نام ہے " کوٹ رادھا کشن" حالاں کہ یہاں ایک بھی ہندو نہیں ہے ، 1947ء میں یہاں کی ہندو آبادی ہندوستان چلی گئی تھی ، اس کا نام بدلنے کی کافی کوشش بھی کی گئی لیکن یہاں کے مسلمانوں نے اس سے صاف انکار کر دیا ۔ بٹوارے کے سمے ہی ایک مسلمان امرتسر سے کوٹ رادھا کشن آیا اس نے یہاں مٹھائیوں کا کاروبار شروع کیا نام رکھا " امرتسر سوئیٹ " ۔ اسی طرح کراچی میں " دلّی سوئیٹس ، اور اسلام آباد میں " امبالہ بیکری " کے نام سے مٹھائی کی دکانیں ہیں ۔ پاکستانی شہروں قصبوں اور گاؤں کے ہندو اور سکھ نام ہمارے سانجھا اتہاس کا حصہ ہیں ۔ بے شک بٹوارے کے بعد دونوں دیشوں میں کئی نام بدلے گئے لیکن نئے نام پرانے اتہاس کو ختم نہیں کر سکے ۔ پنجاب بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پنجاب پاکستان کے ایک صوبے کا بھی نام ہے ۔ گجرات بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پاکستان کے ایک شہر کا نام " گجرات" ہے ۔ حیدرآباد نام سے بھارت میں بھی شہر ہے تو پاکستان میں بھی ۔ پاکستانی حیدرآباد میں " بمبئی بیکری " کے کیک پورے پاکستان میں مشہور ہیں تو یہ ہی بھارت کے حیدرآباد میں " کراچی بیکری " ایک جانا پہچانا نام ہے ۔ ہندو دیوی " ماں سیتا " کے نام پر آپ کو پاکستان میں شہر و قصبے مل جائیں گے ۔ پاکستان کے پچھمی پنجاب صوبے میں ایک قصبہ ہے " سیتا پور " ( اسے پنجابی ٹون کے کارن کچھ لوگ " سیت پور" بھی کہتے ہیں ۔ ایک دوسرے صوبے سندھ میں بھی ایک شہر کا نام " سیتا گوٹھ " ہے ۔ گنگا بھارت کی ایک پؤتر ندی ہے ، لیکن آپ کو پاکستانی پنجاب میں " گنگا پور " نام سے ایک شہر مل جائے گا ۔ خیبرپختونخوا صوبے میں " گنگا نگر" نام کا بھی ایک شہر ہے ۔ " سر گنگا رام" نے بٹوارے سے پہلے لاہور میں " گنگا رام ہسپتال" بنوایا تھا ، اسی نام سے ایک اور ہسپتال ان کے پریوار نے دلّی میں بنوایا تھا ۔ اس طرح سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نام کے دو ہسپتال ہیں جن کا اتہاس بھی سانجھا ہے ۔ ننکانہ صاحب ، گرو نانک دیو کا جنم استھان ہے ، یہ شہر پاکستانی پنجاب میں ہے ۔ گردوارہ کرتار پور صاحب کی وجہ سے " کرتار پور" پاکستان میں سکھوں کا ایک اور دھارمک استھل ہے ، جالندھر کے قریب بھارت میں " کرتار پور" نام کا ایک شہر ہے ۔ جالندھر بھارت کا ایک شہر ہے جو پنجاب میں ہے لیکن اس نام سے ایک شہر پاکستانی پنجاب میں بھی موجود ہے ۔ کراچی میں " موہنداس کرمچند گاندھی" اسٹریٹ ہے ۔ ستھانئے لوگوں میں یہ اب بھی موہن روڈ کے نام سے مشہور ہے ۔ بھارت کے "ناگ پور" کے پاس ایک " گوپال نگر " ہے اور اسی گوپال نگر کے نام سے لاہور کے پاس بھی ایک قصبہ ہے ۔ پاکستانی پنجاب میں " چکوال" کے پاس ہندوؤں کے لیے ۔۔۔ " کٹاس راج" ایک بے حد پؤتر ستھال ہے ۔ کٹاس میں ودھنو شیو ، گنیس شیو لنگ ، کالی ماتا ، پار وتی ، اور لکشمی کے نام سے ایک پریسر میں ایک دوسرے سے جُڑے سات 7 ہندو مندر ہیں ۔ اسلام آباد کے" سید پور " گاؤں میں ایک پرانا رام مندر ہے جسے " رام کُنڈ مندر " کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہندوؤں کا ماننا ہے کہ وِنواس کے دوران " رام " اس کیشتر میں بھی رہے تھے ۔ 1947ء کے بعد بھارت اور پاکستان الگ الگ ملک بن گئے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے اتیت کو نہیں بدل سکتے ۔ اوپر تو کیول چند مثالیں بھری ہیں ، اپ کو نجانے کتنی ایسی مثالیں اور بھی مل جائیں گی ، تو آپ چاہیں تو پاکستان میں بھارت کو کھوج کر سکتے ہیں ۔ ( حامد میر پاک ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔ تاریخ تحریر ۔ 27 اگست 2024ء بروز منگل ۔۔۔

بھارت کے اخبار میں چھپنے والا، پاکستان کے معروف صحافی " حامد میر " کا ایک دلچسپ کالم ۔۔۔ 

تاریخ ۔ 25 اگست 2024ء 

آئیے پاکستان میں کرتے ہیں بھارت کی ایک کھوج ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

ہندی سے اردو ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 


پاکستان ڈائری ۔۔۔ حامد میر ۔ 

اگر میں کہوں کہ آپ پاکستان میں بھی بھارت کی کھوج آسانی سے کر سکتے ہیں تو کیا آپ یقین کریں گے ؟ 

آئیے جانتے ہیں= 

دلّی بھارت کی راجدھانی ہے لیکن اپ کو کراچی میں " دلی کالونی " مل جائے گی ،  یہاں بہار کالونی بھی ہے تو گوالیار سوسائٹی ، لکھنؤ سوسائٹی ، بھوپال ہاؤس ، بنارس ٹاؤن ، اور ہندو جیم خانہ بھی ہے ۔ 

دلّی کے لال قلعے میں اگر لاہوری گیٹ ہے تو لاہور میں دلّی گیٹ کو دیکھ سکتے ہیں ۔ دلی کے چاندنی چوک کے پاس انارکلی بازار ہے لیکن ایک انارکلی بازار ہمارے لاہور میں بھی ہے ۔ 

اسلام آباد پاکستان کی راجدھانی ہے جس کا نرمان ( سنگِ بنیاد) 1960ء میں ہوا تھا ، لیکن سندھ صوبے میں " اسلام کوٹ " نام سے ایک پرانا شہر ہے جہاں 9 ( نو) ہندو مندر ہیں، اس شہر کا نام اسلام کوٹ ہے مگر آدھی سے زیادہ آبادی ہندو ہے ۔ 

پر یہ جان کر بھی آپ کو تعجب ہوگا کہ کچھ پاکستانی شہروں میں آپ کو ایک بھی ہندو نہیں ملے گا لیکن ان شہروں کے نام ہندوؤں کے نام پر ہیں ۔ 

پاکستانی پنجاب میں ایک پرانا شہر ہے نام ہے " کوٹ رادھا کشن" حالاں کہ یہاں ایک بھی ہندو نہیں ہے ، 1947ء میں یہاں کی ہندو آبادی ہندوستان چلی گئی تھی ، اس کا نام بدلنے کی کافی کوشش بھی کی گئی لیکن یہاں کے مسلمانوں نے اس سے صاف انکار کر دیا ۔  

بٹوارے کے سمے ہی ایک مسلمان امرتسر سے کوٹ رادھا کشن آیا اس نے یہاں مٹھائیوں کا کاروبار شروع کیا نام رکھا " امرتسر سوئیٹ " ۔ 

اسی طرح کراچی میں " دلّی سوئیٹس ، اور اسلام آباد میں " امبالہ بیکری " کے نام سے مٹھائی کی دکانیں ہیں ۔ 

پاکستانی شہروں قصبوں اور گاؤں کے ہندو اور سکھ نام ہمارے سانجھا اتہاس کا حصہ ہیں ۔ 

بے شک بٹوارے کے بعد دونوں دیشوں میں کئی نام بدلے گئے لیکن نئے نام پرانے اتہاس کو ختم نہیں کر سکے ۔ 

پنجاب بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پنجاب پاکستان کے ایک صوبے کا بھی نام ہے ۔ 

گجرات بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پاکستان کے ایک شہر کا نام " گجرات" ہے ۔ 

حیدرآباد نام سے بھارت میں بھی شہر ہے تو پاکستان میں بھی ۔ 

پاکستانی حیدرآباد میں " بمبئی بیکری " کے کیک پورے پاکستان میں مشہور ہیں تو یہ ہی بھارت کے حیدرآباد میں " کراچی بیکری " ایک جانا پہچانا نام ہے ۔ 

ہندو دیوی " ماں سیتا " کے نام پر آپ کو پاکستان میں شہر و قصبے مل جائیں گے ۔ 

پاکستان کے پچھمی پنجاب صوبے میں ایک قصبہ ہے " سیتا پور " ( اسے پنجابی ٹون کے کارن کچھ لوگ " سیت پور" بھی کہتے ہیں ۔ 

ایک دوسرے صوبے سندھ میں بھی ایک شہر کا نام " سیتا گوٹھ " ہے ۔ 

گنگا بھارت کی ایک پؤتر ندی ہے ، لیکن آپ کو پاکستانی پنجاب میں " گنگا پور " نام سے ایک شہر مل جائے گا ۔ 

خیبرپختونخوا صوبے میں " گنگا نگر" نام کا بھی ایک شہر ہے ۔ 

" سر گنگا رام" نے بٹوارے سے پہلے لاہور میں " گنگا رام ہسپتال" بنوایا تھا ، اسی نام سے ایک اور ہسپتال ان کے پریوار نے دلّی میں بنوایا تھا ۔ اس طرح سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نام کے دو ہسپتال ہیں جن کا اتہاس  بھی سانجھا ہے ۔ 

ننکانہ صاحب ، گرو نانک دیو کا جنم استھان ہے ، یہ شہر پاکستانی پنجاب میں ہے ۔ 

گردوارہ کرتار پور صاحب کی وجہ سے " کرتار پور" پاکستان میں سکھوں کا ایک اور دھارمک استھل ہے ، جالندھر کے قریب بھارت میں " کرتار پور" نام کا ایک شہر ہے ۔ 

جالندھر بھارت کا ایک شہر ہے جو پنجاب میں ہے لیکن اس نام سے ایک شہر پاکستانی پنجاب میں بھی موجود ہے ۔ 

کراچی میں " موہنداس کرمچند گاندھی" اسٹریٹ ہے ۔ ستھانئے لوگوں میں یہ اب بھی موہن روڈ کے نام سے مشہور ہے ۔ 

بھارت کے "ناگ پور" کے پاس ایک " گوپال نگر " ہے اور اسی گوپال نگر کے نام سے لاہور کے پاس بھی ایک قصبہ ہے ۔ 

پاکستانی پنجاب میں " چکوال" کے پاس ہندوؤں کے لیے ۔۔۔       " کٹاس راج" ایک بے حد پؤتر ستھال ہے ۔ کٹاس میں ودھنو شیو ، گنیس شیو لنگ ، کالی ماتا ، پار وتی ، اور لکشمی کے نام سے ایک پریسر میں ایک دوسرے سے جُڑے سات 7 ہندو مندر ہیں ۔ 

اسلام آباد کے" سید پور " گاؤں میں ایک پرانا رام مندر ہے جسے " رام کُنڈ مندر " کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہندوؤں کا ماننا ہے کہ وِنواس کے دوران " رام " اس کیشتر میں بھی رہے تھے ۔ 

1947ء کے بعد بھارت اور پاکستان الگ الگ ملک بن گئے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے اتیت کو نہیں بدل سکتے ۔ 

اوپر تو کیول چند مثالیں بھری ہیں ، اپ کو نجانے کتنی ایسی مثالیں اور بھی مل جائیں گی ، تو آپ چاہیں تو پاکستان میں بھارت کو کھوج کر سکتے ہیں ۔ 

( حامد میر پاک ) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔ 

تاریخ تحریر ۔ 27 اگست 2024ء بروز منگل ۔۔۔

 

جب  مِلا ہمیں خزانہ ۔     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ( حقیقت پر مبنی ایک مِزاحیہ تحریر )  غلام محمد وامِق ۔   یوں تو ہم بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ " خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے"  لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں اتا تھا کہ چھپر پھاڑ کر دینے کا مطلب کیا ہے ؟ ۔  ہم اکثر اپنے گھر کی چھت کو تکا کرتے تھے کہ شاید یہ چھت پھٹ جائے گی اور اس میں سے خدا ہمیں بھی کچھ دے دے گا ، پھر سوچتے کہ ہماری چھت تو ٹیئر گاڈر کی بنی ہوئی ہے یہ چھپر تو ہرگز نہیں ہے ، لگتا ہے کہ ہمیں جھونپڑی یا کسی چھپرے کے گھر میں رہنا پڑے گا تاکہ خدا ہمیں بھی چھپر پھاڑ کر کچھ عطا فرمادے ۔ یہ ہی کچھ  سوچتے سوچتے ہم نے زندگی کی ساٹھ 60  خزائیں دیکھ ڈالیں مگر مجال ہے کہ کہیں سے کوئی چھپر یا چھت پھٹی ہو اور اوپر سے دھڑا دھڑ مال و دولت گرنے لگی ہو ۔  بقولِ شاعر ۔۔۔  تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے ۔  تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے ۔ ( فیض )   تو جناب نہ ہی کوئی چھپر پھٹا اور نہ ہی ہمارا انتظار ختم ہوا ۔ البتہ اُن دنوں نیا نیا یہ ٹچ موبائل سائنس کی دنیا کا چھپر پھاڑ کر ہمارے ہاتھوں میں آیا تھا اور ہم حیرت و استعجاب سے اس جادو کی ڈبیہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔   انٹرنیٹ یعنی عالمی پھندا (جال) کا تازہ تازہ نام اور کام دیکھنے کو ملا تو فیس بُک نام کی دنیا میں ہم نے بھی اوروں کی دیکھا دیکھی قدم رکھ دیا، دھڑا دھڑ دوستی کی درخواستیں آنا شروع ہو گئیں ہم حیران و ششدر کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟   بقولِ شاعر ۔۔۔  الٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا ۔ ؟ کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا ۔   چھپر پھاڑ کر مال تو ملا نہیں مگر موبائل کا چھپر پھاڑ کر فرینڈز رکیوئیسٹس ضرور مل رہی تھیں ۔  اس وقت ہمیں حیرت کا بڑا جھٹکا لگا جب امریکن آرمی کی ایک با وردی خاتون جرنیل " گولڈ میری " کی طرف سے ہمیں دوستی کی درخواست موصول ہوئی ۔  اللّٰہ اللّٰہ یہ کیا ؟  کہاں ہم ، کہاں امریکی جرنیل ۔۔۔  کہاں گنگو تیلی ، کہاں راجہ بھوج ۔۔۔  بہرحال بہ رضا و خوشی ہم نے ان محترمہ کی درخواست قبول کرلی اور انہیں اپنے حلقہء دوستی میں شامل کر لیا تو فوراً ہی ان کی طرف سے تعارفی سلسلہ شروع کر دیا گیا ، ہم نے ان کو لاکھ سمجھایا کہ بھئی ہم شاعر ، ادیب قسم کے مسکین لوگ تمہاری دوستی کے قابل نہیں ہیں کہیں اور جا کر تعلقات بڑھاؤ مگر وہ بضد کہ آپ جیسا مخلص سچا اور ایماندار آدمی ہمیں کہیں اور نظر نہیں آیا ( شاید اس کی آنکھیں کمزور تھیں ) پھر سوچا کہ ممکن ہے یہ خاتون کوئی بہت ہی ذہین سمجھ بُوجھ والی عورت ہو جس نے ہم جیسے ہیرے کو پہچان لیا ہو ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ چلیں دنیا بھر میں کسی نے تو ہماری قدر پہچانی ۔  دوچار دنوں کے بعد اس نے انکشاف کیا کہ وہ عراق امریکہ جنگ میں اپنی ڈیوٹی کرنے عراق آئی تھی، دورانِ ڈیوٹی اسے عراق سے ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا تھا جس میں کروڑوں ڈالر اور سونا شامل ہے جس کو ایک پیٹی میں بند کردیا گیا ہے ، اور اب جیسا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے تو میں یہ خزانہ قانونی طور پر اپنے ساتھ امریکہ نہیں لے جا سکتی چنانچہ میں چاہتی ہوں کہ یہ پیٹی اپ کے پاس بھجوا دوں، پھر بعد میں مناسب موقع دیکھ کر میں آپ کے پاس پاکستان آؤں گی تو مالِ غنیمت آدھا آدھا بانٹ لیں گے ۔ اب ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی ایمانداری اور صبر کا میٹھا پھل دیا ہے اور چھپر پھاڑ کر دیا ہے ۔ قصہ مختصر اس نے وہ پیٹی کسی یورپین ایکسپریس سروس کے ذریعے ہمیں بھجوا دی اور اس کو ٹریس کرنے کے لیے ٹریسنگ نمبر بھی دے دیا ۔  ہم ہواؤں میں اُڑنے لگے اور آنکھوں سے نیند اڑ گئی ، اور آنے والی دولت کا صحیح مصرف سوچنے لگے ، ظاہر ہے کہ ایک خوبصورت کوٹھی یا بنگلہ سب سے پہلے لینا ہوگا اس کے ساتھ ایک گاڑی بھی چاہئے ہوگی اور کاروبار کے لئے کاروں کا شوروم بہتر رہے گا اور ایک عدد پٹرول پمپ خریدنا بھی ضروری ہے ، لیکن مساکین و غربا کے لیے بھی تو کچھ کرنا پڑے گا ان کی مدد کے لیے کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا ۔  مگر سب سے پہلے اس خزانے کو چھپا کر رکھنے کی پلاننگ بھی کرنی چاہیے ۔ اور وہ امریکن عورت جب آئے گی تو اس کے لئے بھی قیام وطعام کا بندو بست کرنا ہوگا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔  ہم روزانہ باقاعدگی سے ٹریکنگ نمبر سے پیٹی کو چیک کرتے تو پیٹی متحرک نظر آتی یعنی کبھی کسی ملک میں تو کبھی کسی ملک میں ۔ چند دنوں کے بعد وہ پیٹی ایک عرب ملک میں پہنچ کر رک گئی ۔ دوسرے دن گولڈ میری کا پیغام ملا کہ فلاں ملک کے کسٹم حکام کو پیٹی پر شک ہو گیا ہے اور وہ پیٹی کھول کر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر انہوں نے پیٹی کو کھول لیا تو تم پکڑے جاؤ گے کیوں کہ اس پر تمہارا نام اور پتا لکھا ہوا ہے جب کہ بھیجنے والے کا نام ہم نے جعلی لکھوایا ہوا ہے ۔ پیٹی کو کلیئرنس دینے کے لیے وہ لوگ دو لاکھ روپے طلب کر ہے ہیں اس لیے جلد از جلد اس اکاؤنٹ میں رقم بھجوادو تاکہ پیٹی کو کلیئرنس مل سکے ۔  یہ پڑھتے ہی ہمارا تو سر چکرا گیا ، دل بیٹھنے لگا ، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، ہم کرسی سے گرنے لگے تو بمشکل ہمت کرکے خود ہی کرسی سے اٹھ کر فرش پر لیٹ گئے ۔  اہلِ خانہ نے آ کر ہمیں اٹھایا کچھ کھلایا پلایا تو اوسان بحال ہوئے ، ہم نے خیالوں میں خود کو جیل میں محسوس کیا اور گولڈ میری کو لکھ دیا کہ ہمارے پاس دو لاکھ تو کیا تمہیں دینے کے لیے دو روپے بھی نہیں ہیں ، اور کہا کہ ہم نے تمہیں پہلے روز ہی بتا دیا تھا کہ ہم مسکین لوگ ہیں ہمارے پاس کچھ بھی مال وغیرہ نہیں ہے لہٰذا اب تم جانو اور تمہارا کام ۔۔۔۔ ہمیں تمہارا خزانہ نہیں چاہئے ۔  اور پھر سب سے پہلے ہم  نے اس فراڈی عورت کو ان فرینڈ کردیا ۔ اور اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ ہم لالچ میں نہیں آئے اور اس نے ہمیں لُٹنے سے بچا لیا ۔  تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔  تاریخ تحریر ۔ 17 اگست سال 2024ء بروز ہفتہ ۔۔۔

جب مِلا ہمیں خزانہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( حقیقت پر مبنی ایک مِزاحیہ تحریر ) غلام محمد وامِق ۔ یوں تو ہم بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ " خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے" لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں اتا تھا کہ چھپر پھاڑ کر دینے کا مطلب کیا ہے ؟ ۔ ہم اکثر اپنے گھر کی چھت کو تکا کرتے تھے کہ شاید یہ چھت پھٹ جائے گی اور اس میں سے خدا ہمیں بھی کچھ دے دے گا ، پھر سوچتے کہ ہماری چھت تو ٹیئر گاڈر کی بنی ہوئی ہے یہ چھپر تو ہرگز نہیں ہے ، لگتا ہے کہ ہمیں جھونپڑی یا کسی چھپرے کے گھر میں رہنا پڑے گا تاکہ خدا ہمیں بھی چھپر پھاڑ کر کچھ عطا فرمادے ۔ یہ ہی کچھ سوچتے سوچتے ہم نے زندگی کی ساٹھ 60 خزائیں دیکھ ڈالیں مگر مجال ہے کہ کہیں سے کوئی چھپر یا چھت پھٹی ہو اور اوپر سے دھڑا دھڑ مال و دولت گرنے لگی ہو ۔ بقولِ شاعر ۔۔۔ تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے ۔ تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے ۔ ( فیض ) تو جناب نہ ہی کوئی چھپر پھٹا اور نہ ہی ہمارا انتظار ختم ہوا ۔ البتہ اُن دنوں نیا نیا یہ ٹچ موبائل سائنس کی دنیا کا چھپر پھاڑ کر ہمارے ہاتھوں میں آیا تھا اور ہم حیرت و استعجاب سے اس جادو کی ڈبیہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ انٹرنیٹ یعنی عالمی پھندا (جال) کا تازہ تازہ نام اور کام دیکھنے کو ملا تو فیس بُک نام کی دنیا میں ہم نے بھی اوروں کی دیکھا دیکھی قدم رکھ دیا، دھڑا دھڑ دوستی کی درخواستیں آنا شروع ہو گئیں ہم حیران و ششدر کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟ بقولِ شاعر ۔۔۔ الٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا ۔ ؟ کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا ۔ چھپر پھاڑ کر مال تو ملا نہیں مگر موبائل کا چھپر پھاڑ کر فرینڈز رکیوئیسٹس ضرور مل رہی تھیں ۔ اس وقت ہمیں حیرت کا بڑا جھٹکا لگا جب امریکن آرمی کی ایک با وردی خاتون جرنیل " گولڈ میری " کی طرف سے ہمیں دوستی کی درخواست موصول ہوئی ۔ اللّٰہ اللّٰہ یہ کیا ؟ کہاں ہم ، کہاں امریکی جرنیل ۔۔۔ کہاں گنگو تیلی ، کہاں راجہ بھوج ۔۔۔ بہرحال بہ رضا و خوشی ہم نے ان محترمہ کی درخواست قبول کرلی اور انہیں اپنے حلقہء دوستی میں شامل کر لیا تو فوراً ہی ان کی طرف سے تعارفی سلسلہ شروع کر دیا گیا ، ہم نے ان کو لاکھ سمجھایا کہ بھئی ہم شاعر ، ادیب قسم کے مسکین لوگ تمہاری دوستی کے قابل نہیں ہیں کہیں اور جا کر تعلقات بڑھاؤ مگر وہ بضد کہ آپ جیسا مخلص سچا اور ایماندار آدمی ہمیں کہیں اور نظر نہیں آیا ( شاید اس کی آنکھیں کمزور تھیں ) پھر سوچا کہ ممکن ہے یہ خاتون کوئی بہت ہی ذہین سمجھ بُوجھ والی عورت ہو جس نے ہم جیسے ہیرے کو پہچان لیا ہو ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ چلیں دنیا بھر میں کسی نے تو ہماری قدر پہچانی ۔ دوچار دنوں کے بعد اس نے انکشاف کیا کہ وہ عراق امریکہ جنگ میں اپنی ڈیوٹی کرنے عراق آئی تھی، دورانِ ڈیوٹی اسے عراق سے ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا تھا جس میں کروڑوں ڈالر اور سونا شامل ہے جس کو ایک پیٹی میں بند کردیا گیا ہے ، اور اب جیسا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے تو میں یہ خزانہ قانونی طور پر اپنے ساتھ امریکہ نہیں لے جا سکتی چنانچہ میں چاہتی ہوں کہ یہ پیٹی اپ کے پاس بھجوا دوں، پھر بعد میں مناسب موقع دیکھ کر میں آپ کے پاس پاکستان آؤں گی تو مالِ غنیمت آدھا آدھا بانٹ لیں گے ۔ اب ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی ایمانداری اور صبر کا میٹھا پھل دیا ہے اور چھپر پھاڑ کر دیا ہے ۔ قصہ مختصر اس نے وہ پیٹی کسی یورپین ایکسپریس سروس کے ذریعے ہمیں بھجوا دی اور اس کو ٹریس کرنے کے لیے ٹریسنگ نمبر بھی دے دیا ۔ ہم ہواؤں میں اُڑنے لگے اور آنکھوں سے نیند اڑ گئی ، اور آنے والی دولت کا صحیح مصرف سوچنے لگے ، ظاہر ہے کہ ایک خوبصورت کوٹھی یا بنگلہ سب سے پہلے لینا ہوگا اس کے ساتھ ایک گاڑی بھی چاہئے ہوگی اور کاروبار کے لئے کاروں کا شوروم بہتر رہے گا اور ایک عدد پٹرول پمپ خریدنا بھی ضروری ہے ، لیکن مساکین و غربا کے لیے بھی تو کچھ کرنا پڑے گا ان کی مدد کے لیے کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا ۔ مگر سب سے پہلے اس خزانے کو چھپا کر رکھنے کی پلاننگ بھی کرنی چاہیے ۔ اور وہ امریکن عورت جب آئے گی تو اس کے لئے بھی قیام وطعام کا بندو بست کرنا ہوگا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ہم روزانہ باقاعدگی سے ٹریکنگ نمبر سے پیٹی کو چیک کرتے تو پیٹی متحرک نظر آتی یعنی کبھی کسی ملک میں تو کبھی کسی ملک میں ۔ چند دنوں کے بعد وہ پیٹی ایک عرب ملک میں پہنچ کر رک گئی ۔ دوسرے دن گولڈ میری کا پیغام ملا کہ فلاں ملک کے کسٹم حکام کو پیٹی پر شک ہو گیا ہے اور وہ پیٹی کھول کر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر انہوں نے پیٹی کو کھول لیا تو تم پکڑے جاؤ گے کیوں کہ اس پر تمہارا نام اور پتا لکھا ہوا ہے جب کہ بھیجنے والے کا نام ہم نے جعلی لکھوایا ہوا ہے ۔ پیٹی کو کلیئرنس دینے کے لیے وہ لوگ دو لاکھ روپے طلب کر ہے ہیں اس لیے جلد از جلد اس اکاؤنٹ میں رقم بھجوادو تاکہ پیٹی کو کلیئرنس مل سکے ۔ یہ پڑھتے ہی ہمارا تو سر چکرا گیا ، دل بیٹھنے لگا ، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، ہم کرسی سے گرنے لگے تو بمشکل ہمت کرکے خود ہی کرسی سے اٹھ کر فرش پر لیٹ گئے ۔ اہلِ خانہ نے آ کر ہمیں اٹھایا کچھ کھلایا پلایا تو اوسان بحال ہوئے ، ہم نے خیالوں میں خود کو جیل میں محسوس کیا اور گولڈ میری کو لکھ دیا کہ ہمارے پاس دو لاکھ تو کیا تمہیں دینے کے لیے دو روپے بھی نہیں ہیں ، اور کہا کہ ہم نے تمہیں پہلے روز ہی بتا دیا تھا کہ ہم مسکین لوگ ہیں ہمارے پاس کچھ بھی مال وغیرہ نہیں ہے لہٰذا اب تم جانو اور تمہارا کام ۔۔۔۔ ہمیں تمہارا خزانہ نہیں چاہئے ۔ اور پھر سب سے پہلے ہم نے اس فراڈی عورت کو ان فرینڈ کردیا ۔ اور اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ ہم لالچ میں نہیں آئے اور اس نے ہمیں لُٹنے سے بچا لیا ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔ تاریخ تحریر ۔ 17 اگست سال 2024ء بروز ہفتہ ۔۔۔


 جب  مِلا ہمیں خزانہ ۔ 

   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

( حقیقت پر مبنی ایک مِزاحیہ تحریر )  غلام محمد وامِق ۔ 


یوں تو ہم بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ " خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے"  لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں اتا تھا کہ چھپر پھاڑ کر دینے کا مطلب کیا ہے ؟ ۔ 

ہم اکثر اپنے گھر کی چھت کو تکا کرتے تھے کہ شاید یہ چھت پھٹ جائے گی اور اس میں سے خدا ہمیں بھی کچھ دے دے گا ، پھر سوچتے کہ ہماری چھت تو ٹیئر گاڈر کی بنی ہوئی ہے یہ چھپر تو ہرگز نہیں ہے ، لگتا ہے کہ ہمیں جھونپڑی یا کسی چھپرے کے گھر میں رہنا پڑے گا تاکہ خدا ہمیں بھی چھپر پھاڑ کر کچھ عطا فرمادے ۔ یہ ہی کچھ  سوچتے سوچتے ہم نے زندگی کی ساٹھ 60  خزائیں دیکھ ڈالیں مگر مجال ہے کہ کہیں سے کوئی چھپر یا چھت پھٹی ہو اور اوپر سے دھڑا دھڑ مال و دولت گرنے لگی ہو ۔ 

بقولِ شاعر ۔۔۔ 

تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے ۔ 

تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے ۔ ( فیض ) 


تو جناب نہ ہی کوئی چھپر پھٹا اور نہ ہی ہمارا انتظار ختم ہوا ۔ البتہ اُن دنوں نیا نیا یہ ٹچ موبائل سائنس کی دنیا کا چھپر پھاڑ کر ہمارے ہاتھوں میں آیا تھا اور ہم حیرت و استعجاب سے اس جادو کی ڈبیہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔  

انٹرنیٹ یعنی عالمی پھندا (جال) کا تازہ تازہ نام اور کام دیکھنے کو ملا تو فیس بُک نام کی دنیا میں ہم نے بھی اوروں کی دیکھا دیکھی قدم رکھ دیا، دھڑا دھڑ دوستی کی درخواستیں آنا شروع ہو گئیں ہم حیران و ششدر کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟   بقولِ شاعر ۔۔۔ 

الٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا ۔ ؟

کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا ۔ 

 چھپر پھاڑ کر مال تو ملا نہیں مگر موبائل کا چھپر پھاڑ کر فرینڈز رکیوئیسٹس ضرور مل رہی تھیں ۔ 

اس وقت ہمیں حیرت کا بڑا جھٹکا لگا جب امریکن آرمی کی ایک با وردی خاتون جرنیل " گولڈ میری " کی طرف سے ہمیں دوستی کی درخواست موصول ہوئی ۔ 

اللّٰہ اللّٰہ یہ کیا ؟ 

کہاں ہم ، کہاں امریکی جرنیل ۔۔۔ 

کہاں گنگو تیلی ، کہاں راجہ بھوج ۔۔۔ 

بہرحال بہ رضا و خوشی ہم نے ان محترمہ کی درخواست قبول کرلی اور انہیں اپنے حلقہء دوستی میں شامل کر لیا تو فوراً ہی ان کی طرف سے تعارفی سلسلہ شروع کر دیا گیا ، ہم نے ان کو لاکھ سمجھایا کہ بھئی ہم شاعر ، ادیب قسم کے مسکین لوگ تمہاری دوستی کے قابل نہیں ہیں کہیں اور جا کر تعلقات بڑھاؤ مگر وہ بضد کہ آپ جیسا مخلص سچا اور ایماندار آدمی ہمیں کہیں اور نظر نہیں آیا ( شاید اس کی آنکھیں کمزور تھیں ) پھر سوچا کہ ممکن ہے یہ خاتون کوئی بہت ہی ذہین سمجھ بُوجھ والی عورت ہو جس نے ہم جیسے ہیرے کو پہچان لیا ہو ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ چلیں دنیا بھر میں کسی نے تو ہماری قدر پہچانی ۔ 

دوچار دنوں کے بعد اس نے انکشاف کیا کہ وہ عراق امریکہ جنگ میں اپنی ڈیوٹی کرنے عراق آئی تھی، دورانِ ڈیوٹی اسے عراق سے ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا تھا جس میں کروڑوں ڈالر اور سونا شامل ہے جس کو ایک پیٹی میں بند کردیا گیا ہے ، اور اب جیسا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے تو میں یہ خزانہ قانونی طور پر اپنے ساتھ امریکہ نہیں لے جا سکتی چنانچہ میں چاہتی ہوں کہ یہ پیٹی اپ کے پاس بھجوا دوں، پھر بعد میں مناسب موقع دیکھ کر میں آپ کے پاس پاکستان آؤں گی تو مالِ غنیمت آدھا آدھا بانٹ لیں گے ۔ اب ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی ایمانداری اور صبر کا میٹھا پھل دیا ہے اور چھپر پھاڑ کر دیا ہے ۔ قصہ مختصر اس نے وہ پیٹی کسی یورپین ایکسپریس سروس کے ذریعے ہمیں بھجوا دی اور اس کو ٹریس کرنے کے لیے ٹریسنگ نمبر بھی دے دیا ۔ 

ہم ہواؤں میں اُڑنے لگے اور آنکھوں سے نیند اڑ گئی ، اور آنے والی دولت کا صحیح مصرف سوچنے لگے ، ظاہر ہے کہ ایک خوبصورت کوٹھی یا بنگلہ سب سے پہلے لینا ہوگا اس کے ساتھ ایک گاڑی بھی چاہئے ہوگی اور کاروبار کے لئے کاروں کا شوروم بہتر رہے گا اور ایک عدد پٹرول پمپ خریدنا بھی ضروری ہے ، لیکن مساکین و غربا کے لیے بھی تو کچھ کرنا پڑے گا ان کی مدد کے لیے کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا ۔ 

مگر سب سے پہلے اس خزانے کو چھپا کر رکھنے کی پلاننگ بھی کرنی چاہیے ۔ اور وہ امریکن عورت جب آئے گی تو اس کے لئے بھی قیام وطعام کا بندو بست کرنا ہوگا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ 

ہم روزانہ باقاعدگی سے ٹریکنگ نمبر سے پیٹی کو چیک کرتے تو پیٹی متحرک نظر آتی یعنی کبھی کسی ملک میں تو کبھی کسی ملک میں ۔ چند دنوں کے بعد وہ پیٹی ایک عرب ملک میں پہنچ کر رک گئی ۔ دوسرے دن گولڈ میری کا پیغام ملا کہ فلاں ملک کے کسٹم حکام کو پیٹی پر شک ہو گیا ہے اور وہ پیٹی کھول کر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر انہوں نے پیٹی کو کھول لیا تو تم پکڑے جاؤ گے کیوں کہ اس پر تمہارا نام اور پتا لکھا ہوا ہے جب کہ بھیجنے والے کا نام ہم نے جعلی لکھوایا ہوا ہے ۔ پیٹی کو کلیئرنس دینے کے لیے وہ لوگ دو لاکھ روپے طلب کر ہے ہیں اس لیے جلد از جلد اس اکاؤنٹ میں رقم بھجوادو تاکہ پیٹی کو کلیئرنس مل سکے ۔ 

یہ پڑھتے ہی ہمارا تو سر چکرا گیا ، دل بیٹھنے لگا ، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، ہم کرسی سے گرنے لگے تو بمشکل ہمت کرکے خود ہی کرسی سے اٹھ کر فرش پر لیٹ گئے ۔ 

اہلِ خانہ نے آ کر ہمیں اٹھایا کچھ کھلایا پلایا تو اوسان بحال ہوئے ، ہم نے خیالوں میں خود کو جیل میں محسوس کیا اور گولڈ میری کو لکھ دیا کہ ہمارے پاس دو لاکھ تو کیا تمہیں دینے کے لیے دو روپے بھی نہیں ہیں ، اور کہا کہ ہم نے تمہیں پہلے روز ہی بتا دیا تھا کہ ہم مسکین لوگ ہیں ہمارے پاس کچھ بھی مال وغیرہ نہیں ہے لہٰذا اب تم جانو اور تمہارا کام ۔۔۔۔ ہمیں تمہارا خزانہ نہیں چاہئے ۔ 

اور پھر سب سے پہلے ہم  نے اس فراڈی عورت کو ان فرینڈ کردیا ۔ اور اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ ہم لالچ میں نہیں آئے اور اس نے ہمیں لُٹنے سے بچا لیا ۔ 

تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔ 

تاریخ تحریر ۔ 17 اگست سال 2024ء بروز ہفتہ ۔۔۔

واقعہ کربلا حقیقت کے آئینے میں ۔  ( سوچ کا ایک منفرد زاویہ )  ۔  غلام محمد وامِق  =  عام طور پر شہادتِ امام حسین علیہ السّلام کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس سے ہر مکتبہء فکر کے علماء اور عوام بالعموم متفق ہیں ، مگر سب کا اندازِ بیاں الگ الگ ہوتا ہے ۔  لیکن اس سارے واقعے کو ایک دوسرے زاویے سے بھی تو دیکھا جا سکتا ہے جس کی طرف کسی کی بھی نظر نہیں جاتی یا پھر کوئی اس اندازِ نظر سے دیکھنا ہی نہیں چاہتا ۔ عام طور پر ہمیں جو واقعہ پڑھایا اور سنایا جاتا ہے وہ آپ سب کو معلوم ہے ، لیکن اس واقعہ کو تنقیدی نظر سے اگر دیکھیں یا اس کا منطقی جائزہ لیں تو پھر اس واقعہ کے متعلق بہت سے سوالات ذہن میں آتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔  ( یہ سوالات عام قسم کے تقلیدی ذہن میں نہیں آتے)   1. واقعہ کربلا دس 10 محرم الحرام سن 61 ھجری، مطابق 9 یا 10 اکتوبر سال 680 عیسوی کو پیش آیا ۔  2. اس واقعہ کو شہادتِ امام حسین علیہ السّلام کے ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد کوفہ کے رہنے والے ایک داستان گو اور جھوٹی کہانیاں گھڑنے والے ایک شخص " ابو مخنف لوط بن یحییٰ" نے سب سے پہلے قلم بند کیا، ابو مخنف نے یہ داستان " مقتلِ الحسین " کے عنوان سے تحریر کی تھی، ابو مخنف نے سال 175 ھجری میں وفات پائی ۔ بعد میں دیگر مورخین نے اسی سے نقل کر کے اور اس میں کمی یا اضافہ کر کے اپنے اپنے الفاظ میں اپنے اپنے خیال کے مطابق بیان کر دیا ۔  3. حضرت امام حسین کے قتل کا انتقام امام حسین کی نسل میں سے کسی نے بھی نہیں لیا حالاں کہ واقعہ کے وقت امام حسین کے صاحب زادے امام زین العابدین تقریباً چوبیس 24 سال کے نوجوان تھے، جب کہ اُس زمانے میں قصاص اور بدلہ لینے کا عام رواج بھی تھا ۔  4. شہادتِ امام حسین کے چند سالوں کے بعد ایک غیر متعلقہ شخص " مختار ثقفی"  نے موقعہ غنیمت جان کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے قتلِ حسین کا انتقام لینے کا اعلان کیا، اور اس کے گروہ نے بنو امیہ کے  چند مخصوص لوگوں پر الزام عائد کر کے انہیں قتل کردیا، اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مل کر یزید کے پیرو کاروں سے جنگ کی، بعد ازاں مختار ثقفی ( جو کہ مشہور اموی گورنر حجاج بن یوسف ثقفی کے خاندان سے تھا)  نے عبداللہ بن زبیر سے بھی غداری کی جس کے نتیجے میں اسے بھی قتل کر دیا گیا ۔  5. حضرت امام حسین کی بیوی " شہر بانو " جو کہ امام زین العابدین کی والدہ تھیں ان کے متعلق بھی روایات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ، بعض کا کہنا تھا کہ ان کا انتقال امام زین العابدین کی ولادت کے وقت ہو گیا  تھا ، جب کہ اکثر روایات کے مطابق شہر بانو بھی کربلا میں امام حسین کے ساتھ تھیں ، لیکن واقعہ میں اس کا کوئی بھی تذکرہ نہیں ملتا ، بعض روایات کے مطابق وہ کربلا سے ایران چلی گئی تھیں، اور ایران کے شہر " رے " میں اب بھی ان کا مزار ایک پہاڑی پر مرجع خلائق ہے ۔  6. یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اکثر روایات میں " یزید بن معاویہ" کو بڑا ظالم ، فاسق ، بدکردار ، شرابی اور زانی بیان کیا جاتا ہے ، تو پھر ایسا بدکردار اور با اختیار شخص دشمن کی قیدی اسیر خواتین کے ساتھ کوئی بدسلوکی یا بد فعلی کیوں نہیں کرتا ؟ تمام اسیر شہزادیوں کے ساتھ بڑے احترام کے ساتھ کیوں پیش آتا ہے ؟ جب کہ اس دور میں قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنانے کا عام رواج تھا ۔  7. یزید اپنے دشمن کے نوجوان بیٹے امام زین العابدین کو عزت و احترام کے ساتھ واپس مدینہ کیوں بھجوا دیتا ہے ؟ ۔  8. بی بی زینب ، یزید کے پاس شام (دمشق ) میں ہی رہنا کیوں پسند کرتی ہے ؟ وہ زین العابدین کے ساتھ مدینہ کیوں نہیں گئی ؟ جب کہ انتقال کے بعد ان کا مزار بھی شام میں ہی بنایا گیا تھا ۔  9. روایات کے مطابق حضرت امام حسین کا سَر کاٹ کر نیزے پر رکھ کر پہلے کوفہ ابنِ زیاد کے پاس اور پھر دمشق یزید کے پاس لے جایا گیا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ سر کہاں گیا ؟ اس معاملے میں روایات کا بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ۔  بعض راویوں کے نزدیک سَر مبارک کو مدینہ لے جا کر دفن کیا گیا ، بعض کے نزدیک سَر کو کربلا لے جا کر جسم کے ساتھ دفن کیا گیا ، کہیں پر لکھا یوا ہے کہ سر دمشق کے سرکاری مال خانے میں پڑا رہا جسے برس ہا برس کے بعد اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے دمشق کے قبرستان میں دفن کروا دیا تھا ۔ کچھ کہتے ہیں کہ نجف اشرف میں روضہء علی علیہ السلام میں دفن ہے ، بعض کے نزدیک دریائے فُرات کے کنارے واقع " مسجدِ رقہ " میں ہے ، کچھ لکھتے ہیں کہ بعد ازاں فاطمی سلطنت مصر والوں نے سر مبارک کو لے جا کر " قاہرہ" میں دفن کر دیا جہاں پر سر مبارک کی درگاھ بھی بنی ہوئی ہے جہاں پر آج بھی لوگ جوق در جوق حاضری دیتے ہیں ۔  10. مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سانحہء کربلا کے وقت دشمنوں نے شہیدوں کے  جسموں پر گھوڑے دوڑا کر جسموں کو نابود کر دیا تھا ، تو پھر ایسی صورت میں یہ کیسے معلوم ہوا کہ ان لاشوں میں سے حضرت امام حسین علیہ السّلام کی لاش کون سی ہے ؟ جب کہ اکثر لاشوں کے ساتھ ان کے سر بھی نہیں تھے ۔  11. اگر آپ مکہ سے کوفہ ( عراق ) جائیں گے تو راستے میں کربلا کا مقام نہیں آتا، جب کہ اگر آپ مکہ سے دمشق ( شام ) جائیں تو پھر راستے میں کربلا کا مقام آتا ہے ۔ یعنی مکہ سے  دمشق اور کوفہ کے راستے متضاد اطراف میں ہیں، یعنی ایک شمال مشرق کی طرف تو دوسرا شمال مغرب کی طرف ، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین مکہ سے کوفہ نہیں بلکہ شام  (دمشق) یزید کے پاس جا رہے تھے ۔   اب اس قدر اہم سوالات کے تسلی بخش جوابات نا ملنے کی وجہ سے جو حقیقی صورت حال سامنے آتی ہے وہ میرے خیال کے مطابق کچھ اس طرح سے بنتی ہے ۔۔۔۔  دراصل اس پوری داستان میں اصل کردار خفیہ ہیں جس کی طرف کسی بھی مورخ کا دھیان نہیں گیا یا پھر جان بوجھ کر دشمن کی خفیہ سرگرمیوں سے چشم پوشی کی گئی ہے تاکہ عالم اسلام کبھی بھی متحد نہ ہو سکے ۔  اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہء مبارک سے ہی دشمنانِ اسلام یعنی روم و ایران اور یہودیوں کے جاسوس رسول اللّٰہ کو ناکام کرنے کے لیے سرگرمِ عمل رہتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی میں وہ اپنے مشن میں ناکام رہے تھے ، بعد ازاں خلیفہء اول حضرت ابوبکر صدیق کے عہد میں ان کی شَہ پر " مسیلمہ کذاب " کی بغاوت کے خوفناک فتنے نے سر اٹھایا جسے حضرت خالد بن ولید کی سرکردگی میں ختم کر دیا گیا ۔  بعد ازاں یہودیوں کا ایک جاسوس مسلمانوں کے روپ میں وارد ہوا جسے تاریخ " عبداللہ بن سبا " کے نام سے جانتی ہے ۔  وہ پہلے مدینے میں شورش برپا کرنے آیا لیکن مدینے میں رسول اللّٰہ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام تھے جس کی وجہ سے اس کی وہاں پر دال نہیں گلی، تو پھر وہ  کوفہ ، ایران اور شام کے علاقوں میں گیا اور وہاں پر اپنی کاروائیاں تیز کردیں ، ان علاقوں میں اکثریت نئے نئے اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کی تھی، اور ان کا ذہن بھی صحیح طور پر اسلامی تربیت یافتہ نہیں تھا چناں چہ وہ جلد ہی اس کی باتوں میں آگئے، دراصل ابنِ سبا نے خود کو حضرت علی کا شیدائی ظاہر کیا تھا اور نعرہ دیا کہ خلافت کے اولین حق دار حضرت علی ہیں اور باقی سب غاصب ہیں اس جزباتی سوچ نے آگ پر جلتی کا کام کیا اور بہت جلد لوگ اس کے ساتھ آ کر شامل ہونے لگے اور انہوں نے خود کو شیعانِ علی کہلانا شروع کر دیا ۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھنے لگی ، بالآخر وہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے دورِ خلافت میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو گئے اور مسلمان تین متحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے ۔  چوتھے خلیفہ حضرت علی علیہ السّلام کی خلافت کا زمانہ انتہائی افسوناک اور خون ریزی کا زمانہ تھا ۔  لیکن جب حضرت علی کی شہادت کے بعد ان کے بڑے فرزند حضرت امام حسن علیہ السّلام کو خلیفہ نامزد کیا گیا تو انہوں نے مسلمانوں کی باہم دشمنی اور خون ریزی کو پسند نہیں کیا چناں چہ وہ اپنی خلافت سے دست بردار ہو گئے اور امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو عالمِ اسلام کا خلیفہ تسلیم کر لیا ۔ ان حالات میں عالم اسلام کے دوبارہ سے متحد ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ، لیکن دشمنوں کی، ان تمام سیاسی حالات پر گہری نظر تھی، لہٰذا وہ پھر سے حرکت میں آ گئے اور اپنے جاسوسوں کے ذریعے سے  امام حسن کو اس کی بیوی کے ہاتھوں زہر دلوا دیا گیا اور اس کا الزام امیر معاویہ پر تھوپ دیا گیا ۔  دشمنانِ اسلام کی نظر اب حضرت امام حسین علیہ السّلام پر تھی کہ کسی طرح سے ان کو بھی اموی خلافت سے بدظن کیا جائے ، چناں چہ انہیں جلد ہی یہ موقع بھی ہاتھ آ گیا ۔ جب امیرِ معاویہ کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ پر ان کے بیٹے " یزید " کو خلیفہ بنایا گیا ۔  کوفہ سے امام حسین کو یزید کے کردار کے خلاف خطوط لکھوائے گئے ، جنہیں پڑھ کر حالات معلوم کرنے کے لئے امام حسین علیہ السّلام نے اپنے چچازاد بھائی " مسلم بن عقیل" کو کوفہ بھجا، مگر سازش کے ذریعے انہیں بھی ہلاک کر دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے امام حسین کو دشمن کی ناپاک سازشوں اور ان کی مکاری کا یقین ہو گیا ۔ تو ایسے حالات میں امام نے ان سازشی عناصر کی خطرناک کاروائیوں پر گفتگو کرنے کے لیے یزید سے ملاقات کرنا ضروری سمجھا چناں چہ آپ نے یزید سے ملنے کے لیے اپنے اہل و عیال سمیت دمشق ( شام ) جانے کا فیصلہ کیا ۔  مگر دشمنانِ اسلام پہلے سے ہی گھات لگا کر بیٹھ گئے آپ امام جب دمشق جاتے ہوئے کربلا کے بے آب و گیاہ میدان سے گزرے تو اسلام دشمن گروہ نے اچانک ان پر حملہ کردیا، اور ان پر ظاہر کیا کہ یہ حملہ کوفہ کے گورنر عبدااللہ بن زیاد کی طرف سے کیا گیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں تمام مرد شہید ہو گئے ، اور امام حسین کے فرزند امام زین العابدین کسی نہ کسی طرح سے خواتین سمیت بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے یا انہیں کسی مصلحت کے تحت خود جانے دیا گیا تاکہ شام میں جاکر وہ یزید سے جھگڑا کریں، مزید بدگمانیاں پیدا ہوں اور حالات مزید خراب ہو سکیں ۔ اور پھر شاید زین العابدین کی والدہ بی بی شہر بانو کو بھی انہوں نے ہی ایران پہنچا دیا ۔  شام میں امام زین العابدین اور بیبیوں کے پہنچنے پر یزید کو ان تمام حالات کا علم ہوا تو اس نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور دشمنوں کی سرکوبی کے لیے بھی کوششیں کیں لیکن ان کا انجام بہت خون ریزی کا سبب بنا ۔  یزید نے امام زین العابدین کو ان کی خواہش پر بحفاظت واپس  مدینہ پہنچا دیا ۔  پھر فسادیوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے نئے نئے اور عجیب عقائد گھڑ لئے جس کے باعث عالمِ اسلام مستقل طور پر مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گیا ۔  اناللہ واناالیہ راجعون ۔ آخر میں یہ ہی عرض کرنی چاہوں گا کہ ہم آج کے زمانے میں بھی جب پاکستان یا کوئی بھی  اسلامی ملک کسی بحران کا یا کسی دہشت گردی کا شکار ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی خفیہ ہاتھ ملوث ہے ، یا پھر کہا جاتا ہے کہ اس میں امریکہ اور اسرائیل وغیرہ کا ہاتھ ہے ۔ تو پھر ہم واقعہ کربلا کو اس نکتہء نگاہ سے کیوں نہیں دیکھتے ؟ اس واقعہ میں ہم بیرونی ہاتھ تلاش کیوں نہیں کرتے ؟  وماعلینا الی البلاغ المبین ۔  تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔  تاریخ ۔ آٹھ 8، جولائی سال 2024ء مطابق یکم محرم الحرام سن 1446ھجری ، بروز پیر ۔ سوموار ۔  وضاحت= یہ تمام حقائق انٹرنیٹ/ گوگل پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔

واقعہ کربلا حقیقت کے آئینے میں ۔ ( سوچ کا ایک منفرد زاویہ ) ۔ غلام محمد وامِق = عام طور پر شہادتِ امام حسین علیہ السّلام کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس سے ہر مکتبہء فکر کے علماء اور عوام بالعموم متفق ہیں ، مگر سب کا اندازِ بیاں الگ الگ ہوتا ہے ۔ لیکن اس سارے واقعے کو ایک دوسرے زاویے سے بھی تو دیکھا جا سکتا ہے جس کی طرف کسی کی بھی نظر نہیں جاتی یا پھر کوئی اس اندازِ نظر سے دیکھنا ہی نہیں چاہتا ۔ عام طور پر ہمیں جو واقعہ پڑھایا اور سنایا جاتا ہے وہ آپ سب کو معلوم ہے ، لیکن اس واقعہ کو تنقیدی نظر سے اگر دیکھیں یا اس کا منطقی جائزہ لیں تو پھر اس واقعہ کے متعلق بہت سے سوالات ذہن میں آتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔ ( یہ سوالات عام قسم کے تقلیدی ذہن میں نہیں آتے) 1. واقعہ کربلا دس 10 محرم الحرام سن 61 ھجری، مطابق 9 یا 10 اکتوبر سال 680 عیسوی کو پیش آیا ۔ 2. اس واقعہ کو شہادتِ امام حسین علیہ السّلام کے ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد کوفہ کے رہنے والے ایک داستان گو اور جھوٹی کہانیاں گھڑنے والے ایک شخص " ابو مخنف لوط بن یحییٰ" نے سب سے پہلے قلم بند کیا، ابو مخنف نے یہ داستان " مقتلِ الحسین " کے عنوان سے تحریر کی تھی، ابو مخنف نے سال 175 ھجری میں وفات پائی ۔ بعد میں دیگر مورخین نے اسی سے نقل کر کے اور اس میں کمی یا اضافہ کر کے اپنے اپنے الفاظ میں اپنے اپنے خیال کے مطابق بیان کر دیا ۔ 3. حضرت امام حسین کے قتل کا انتقام امام حسین کی نسل میں سے کسی نے بھی نہیں لیا حالاں کہ واقعہ کے وقت امام حسین کے صاحب زادے امام زین العابدین تقریباً چوبیس 24 سال کے نوجوان تھے، جب کہ اُس زمانے میں قصاص اور بدلہ لینے کا عام رواج بھی تھا ۔ 4. شہادتِ امام حسین کے چند سالوں کے بعد ایک غیر متعلقہ شخص " مختار ثقفی" نے موقعہ غنیمت جان کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے قتلِ حسین کا انتقام لینے کا اعلان کیا، اور اس کے گروہ نے بنو امیہ کے چند مخصوص لوگوں پر الزام عائد کر کے انہیں قتل کردیا، اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مل کر یزید کے پیرو کاروں سے جنگ کی، بعد ازاں مختار ثقفی ( جو کہ مشہور اموی گورنر حجاج بن یوسف ثقفی کے خاندان سے تھا) نے عبداللہ بن زبیر سے بھی غداری کی جس کے نتیجے میں اسے بھی قتل کر دیا گیا ۔ 5. حضرت امام حسین کی بیوی " شہر بانو " جو کہ امام زین العابدین کی والدہ تھیں ان کے متعلق بھی روایات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ، بعض کا کہنا تھا کہ ان کا انتقال امام زین العابدین کی ولادت کے وقت ہو گیا تھا ، جب کہ اکثر روایات کے مطابق شہر بانو بھی کربلا میں امام حسین کے ساتھ تھیں ، لیکن واقعہ میں اس کا کوئی بھی تذکرہ نہیں ملتا ، بعض روایات کے مطابق وہ کربلا سے ایران چلی گئی تھیں، اور ایران کے شہر " رے " میں اب بھی ان کا مزار ایک پہاڑی پر مرجع خلائق ہے ۔ 6. یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اکثر روایات میں " یزید بن معاویہ" کو بڑا ظالم ، فاسق ، بدکردار ، شرابی اور زانی بیان کیا جاتا ہے ، تو پھر ایسا بدکردار اور با اختیار شخص دشمن کی قیدی اسیر خواتین کے ساتھ کوئی بدسلوکی یا بد فعلی کیوں نہیں کرتا ؟ تمام اسیر شہزادیوں کے ساتھ بڑے احترام کے ساتھ کیوں پیش آتا ہے ؟ جب کہ اس دور میں قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنانے کا عام رواج تھا ۔ 7. یزید اپنے دشمن کے نوجوان بیٹے امام زین العابدین کو عزت و احترام کے ساتھ واپس مدینہ کیوں بھجوا دیتا ہے ؟ ۔ 8. بی بی زینب ، یزید کے پاس شام (دمشق ) میں ہی رہنا کیوں پسند کرتی ہے ؟ وہ زین العابدین کے ساتھ مدینہ کیوں نہیں گئی ؟ جب کہ انتقال کے بعد ان کا مزار بھی شام میں ہی بنایا گیا تھا ۔ 9. روایات کے مطابق حضرت امام حسین کا سَر کاٹ کر نیزے پر رکھ کر پہلے کوفہ ابنِ زیاد کے پاس اور پھر دمشق یزید کے پاس لے جایا گیا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ سر کہاں گیا ؟ اس معاملے میں روایات کا بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض راویوں کے نزدیک سَر مبارک کو مدینہ لے جا کر دفن کیا گیا ، بعض کے نزدیک سَر کو کربلا لے جا کر جسم کے ساتھ دفن کیا گیا ، کہیں پر لکھا یوا ہے کہ سر دمشق کے سرکاری مال خانے میں پڑا رہا جسے برس ہا برس کے بعد اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے دمشق کے قبرستان میں دفن کروا دیا تھا ۔ کچھ کہتے ہیں کہ نجف اشرف میں روضہء علی علیہ السلام میں دفن ہے ، بعض کے نزدیک دریائے فُرات کے کنارے واقع " مسجدِ رقہ " میں ہے ، کچھ لکھتے ہیں کہ بعد ازاں فاطمی سلطنت مصر والوں نے سر مبارک کو لے جا کر " قاہرہ" میں دفن کر دیا جہاں پر سر مبارک کی درگاھ بھی بنی ہوئی ہے جہاں پر آج بھی لوگ جوق در جوق حاضری دیتے ہیں ۔ 10. مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سانحہء کربلا کے وقت دشمنوں نے شہیدوں کے جسموں پر گھوڑے دوڑا کر جسموں کو نابود کر دیا تھا ، تو پھر ایسی صورت میں یہ کیسے معلوم ہوا کہ ان لاشوں میں سے حضرت امام حسین علیہ السّلام کی لاش کون سی ہے ؟ جب کہ اکثر لاشوں کے ساتھ ان کے سر بھی نہیں تھے ۔ 11. اگر آپ مکہ سے کوفہ ( عراق ) جائیں گے تو راستے میں کربلا کا مقام نہیں آتا، جب کہ اگر آپ مکہ سے دمشق ( شام ) جائیں تو پھر راستے میں کربلا کا مقام آتا ہے ۔ یعنی مکہ سے دمشق اور کوفہ کے راستے متضاد اطراف میں ہیں، یعنی ایک شمال مشرق کی طرف تو دوسرا شمال مغرب کی طرف ، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین مکہ سے کوفہ نہیں بلکہ شام (دمشق) یزید کے پاس جا رہے تھے ۔ اب اس قدر اہم سوالات کے تسلی بخش جوابات نا ملنے کی وجہ سے جو حقیقی صورت حال سامنے آتی ہے وہ میرے خیال کے مطابق کچھ اس طرح سے بنتی ہے ۔۔۔۔ دراصل اس پوری داستان میں اصل کردار خفیہ ہیں جس کی طرف کسی بھی مورخ کا دھیان نہیں گیا یا پھر جان بوجھ کر دشمن کی خفیہ سرگرمیوں سے چشم پوشی کی گئی ہے تاکہ عالم اسلام کبھی بھی متحد نہ ہو سکے ۔ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہء مبارک سے ہی دشمنانِ اسلام یعنی روم و ایران اور یہودیوں کے جاسوس رسول اللّٰہ کو ناکام کرنے کے لیے سرگرمِ عمل رہتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں وہ اپنے مشن میں ناکام رہے تھے ، بعد ازاں خلیفہء اول حضرت ابوبکر صدیق کے عہد میں ان کی شَہ پر " مسیلمہ کذاب " کی بغاوت کے خوفناک فتنے نے سر اٹھایا جسے حضرت خالد بن ولید کی سرکردگی میں ختم کر دیا گیا ۔ بعد ازاں یہودیوں کا ایک جاسوس مسلمانوں کے روپ میں وارد ہوا جسے تاریخ " عبداللہ بن سبا " کے نام سے جانتی ہے ۔ وہ پہلے مدینے میں شورش برپا کرنے آیا لیکن مدینے میں رسول اللّٰہ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام تھے جس کی وجہ سے اس کی وہاں پر دال نہیں گلی، تو پھر وہ کوفہ ، ایران اور شام کے علاقوں میں گیا اور وہاں پر اپنی کاروائیاں تیز کردیں ، ان علاقوں میں اکثریت نئے نئے اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کی تھی، اور ان کا ذہن بھی صحیح طور پر اسلامی تربیت یافتہ نہیں تھا چناں چہ وہ جلد ہی اس کی باتوں میں آگئے، دراصل ابنِ سبا نے خود کو حضرت علی کا شیدائی ظاہر کیا تھا اور نعرہ دیا کہ خلافت کے اولین حق دار حضرت علی ہیں اور باقی سب غاصب ہیں اس جزباتی سوچ نے آگ پر جلتی کا کام کیا اور بہت جلد لوگ اس کے ساتھ آ کر شامل ہونے لگے اور انہوں نے خود کو شیعانِ علی کہلانا شروع کر دیا ۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھنے لگی ، بالآخر وہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے دورِ خلافت میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو گئے اور مسلمان تین متحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے ۔ چوتھے خلیفہ حضرت علی علیہ السّلام کی خلافت کا زمانہ انتہائی افسوناک اور خون ریزی کا زمانہ تھا ۔ لیکن جب حضرت علی کی شہادت کے بعد ان کے بڑے فرزند حضرت امام حسن علیہ السّلام کو خلیفہ نامزد کیا گیا تو انہوں نے مسلمانوں کی باہم دشمنی اور خون ریزی کو پسند نہیں کیا چناں چہ وہ اپنی خلافت سے دست بردار ہو گئے اور امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو عالمِ اسلام کا خلیفہ تسلیم کر لیا ۔ ان حالات میں عالم اسلام کے دوبارہ سے متحد ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ، لیکن دشمنوں کی، ان تمام سیاسی حالات پر گہری نظر تھی، لہٰذا وہ پھر سے حرکت میں آ گئے اور اپنے جاسوسوں کے ذریعے سے امام حسن کو اس کی بیوی کے ہاتھوں زہر دلوا دیا گیا اور اس کا الزام امیر معاویہ پر تھوپ دیا گیا ۔ دشمنانِ اسلام کی نظر اب حضرت امام حسین علیہ السّلام پر تھی کہ کسی طرح سے ان کو بھی اموی خلافت سے بدظن کیا جائے ، چناں چہ انہیں جلد ہی یہ موقع بھی ہاتھ آ گیا ۔ جب امیرِ معاویہ کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ پر ان کے بیٹے " یزید " کو خلیفہ بنایا گیا ۔ کوفہ سے امام حسین کو یزید کے کردار کے خلاف خطوط لکھوائے گئے ، جنہیں پڑھ کر حالات معلوم کرنے کے لئے امام حسین علیہ السّلام نے اپنے چچازاد بھائی " مسلم بن عقیل" کو کوفہ بھجا، مگر سازش کے ذریعے انہیں بھی ہلاک کر دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے امام حسین کو دشمن کی ناپاک سازشوں اور ان کی مکاری کا یقین ہو گیا ۔ تو ایسے حالات میں امام نے ان سازشی عناصر کی خطرناک کاروائیوں پر گفتگو کرنے کے لیے یزید سے ملاقات کرنا ضروری سمجھا چناں چہ آپ نے یزید سے ملنے کے لیے اپنے اہل و عیال سمیت دمشق ( شام ) جانے کا فیصلہ کیا ۔ مگر دشمنانِ اسلام پہلے سے ہی گھات لگا کر بیٹھ گئے آپ امام جب دمشق جاتے ہوئے کربلا کے بے آب و گیاہ میدان سے گزرے تو اسلام دشمن گروہ نے اچانک ان پر حملہ کردیا، اور ان پر ظاہر کیا کہ یہ حملہ کوفہ کے گورنر عبدااللہ بن زیاد کی طرف سے کیا گیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں تمام مرد شہید ہو گئے ، اور امام حسین کے فرزند امام زین العابدین کسی نہ کسی طرح سے خواتین سمیت بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے یا انہیں کسی مصلحت کے تحت خود جانے دیا گیا تاکہ شام میں جاکر وہ یزید سے جھگڑا کریں، مزید بدگمانیاں پیدا ہوں اور حالات مزید خراب ہو سکیں ۔ اور پھر شاید زین العابدین کی والدہ بی بی شہر بانو کو بھی انہوں نے ہی ایران پہنچا دیا ۔ شام میں امام زین العابدین اور بیبیوں کے پہنچنے پر یزید کو ان تمام حالات کا علم ہوا تو اس نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور دشمنوں کی سرکوبی کے لیے بھی کوششیں کیں لیکن ان کا انجام بہت خون ریزی کا سبب بنا ۔ یزید نے امام زین العابدین کو ان کی خواہش پر بحفاظت واپس مدینہ پہنچا دیا ۔ پھر فسادیوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے نئے نئے اور عجیب عقائد گھڑ لئے جس کے باعث عالمِ اسلام مستقل طور پر مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گیا ۔ اناللہ واناالیہ راجعون ۔ آخر میں یہ ہی عرض کرنی چاہوں گا کہ ہم آج کے زمانے میں بھی جب پاکستان یا کوئی بھی اسلامی ملک کسی بحران کا یا کسی دہشت گردی کا شکار ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی خفیہ ہاتھ ملوث ہے ، یا پھر کہا جاتا ہے کہ اس میں امریکہ اور اسرائیل وغیرہ کا ہاتھ ہے ۔ تو پھر ہم واقعہ کربلا کو اس نکتہء نگاہ سے کیوں نہیں دیکھتے ؟ اس واقعہ میں ہم بیرونی ہاتھ تلاش کیوں نہیں کرتے ؟ وماعلینا الی البلاغ المبین ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔ تاریخ ۔ آٹھ 8، جولائی سال 2024ء مطابق یکم محرم الحرام سن 1446ھجری ، بروز پیر ۔ سوموار ۔ وضاحت= یہ تمام حقائق انٹرنیٹ/ گوگل پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔

واقعہ کربلا حقیقت کے آئینے میں ۔ ( سوچ کا ایک منفرد زاویہ )                    

تحریر - غلام محمد وامِق ۔ 
عام طور پر شہادتِ امام حسین علیہ السّلام کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس سے ہر مکتبہء فکر کے علماء اور عوام بالعموم متفق ہیں ، مگر سب کا اندازِ بیاں الگ الگ ہوتا ہے ۔ 
لیکن اس سارے واقعے کو ایک دوسرے زاویے سے بھی تو دیکھا جا سکتا ہے جس کی طرف کسی کی بھی نظر نہیں جاتی یا پھر کوئی اس اندازِ نظر سے دیکھنا ہی نہیں چاہتا ۔ عام طور پر ہمیں جو واقعہ پڑھایا اور سنایا جاتا ہے وہ آپ سب کو معلوم ہے ، لیکن اس واقعہ کو تنقیدی نظر سے اگر دیکھیں یا اس کا منطقی جائزہ لیں تو پھر اس واقعہ کے متعلق بہت سے سوالات ذہن میں آتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔ 
( یہ سوالات عام قسم کے تقلیدی ذہن میں نہیں آتے) 

1. واقعہ کربلا دس 10 محرم الحرام سن 61 ھجری، مطابق 9 یا 10 اکتوبر سال 680 عیسوی کو پیش آیا ۔ 
2. اس واقعہ کو شہادتِ امام حسین علیہ السّلام کے ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد کوفہ کے رہنے والے ایک داستان گو اور جھوٹی کہانیاں گھڑنے والے ایک شخص " ابو مخنف لوط بن یحییٰ" نے سب سے پہلے قلم بند کیا، ابو مخنف نے یہ داستان " مقتلِ الحسین " کے عنوان سے تحریر کی تھی، ابو مخنف نے سال 175 ھجری میں وفات پائی ۔ بعد میں دیگر مورخین نے اسی سے نقل کر کے اور اس میں کمی یا اضافہ کر کے اپنے اپنے الفاظ میں اپنے اپنے خیال کے مطابق بیان کر دیا ۔ 
3. حضرت امام حسین کے قتل کا انتقام امام حسین کی نسل میں سے کسی نے بھی نہیں لیا حالاں کہ واقعہ کے وقت امام حسین کے صاحب زادے امام زین العابدین تقریباً چوبیس 24 سال کے نوجوان تھے، جب کہ اُس زمانے میں قصاص اور بدلہ لینے کا عام رواج بھی تھا ۔ 
4. شہادتِ امام حسین کے چند سالوں کے بعد ایک غیر متعلقہ شخص " مختار ثقفی"  نے موقعہ غنیمت جان کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے قتلِ حسین کا انتقام لینے کا اعلان کیا، اور اس کے گروہ نے بنو امیہ کے  چند مخصوص لوگوں پر الزام عائد کر کے انہیں قتل کردیا، اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مل کر یزید کے پیرو کاروں سے جنگ کی، بعد ازاں مختار ثقفی ( جو کہ مشہور اموی گورنر حجاج بن یوسف ثقفی کے خاندان سے تھا)  نے عبداللہ بن زبیر سے بھی غداری کی جس کے نتیجے میں اسے بھی قتل کر دیا گیا ۔ 
5. حضرت امام حسین کی بیوی " شہر بانو " جو کہ امام زین العابدین کی والدہ تھیں ان کے متعلق بھی روایات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ، بعض کا کہنا تھا کہ ان کا انتقال امام زین العابدین کی ولادت کے وقت ہو گیا  تھا ، جب کہ اکثر روایات کے مطابق شہر بانو بھی کربلا میں امام حسین کے ساتھ تھیں ، لیکن واقعہ میں اس کا کوئی بھی تذکرہ نہیں ملتا ، بعض روایات کے مطابق وہ کربلا سے ایران چلی گئی تھیں، اور ایران کے شہر " رے " میں اب بھی ان کا مزار ایک پہاڑی پر مرجع خلائق ہے ۔ 
6. یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اکثر روایات میں " یزید بن معاویہ" کو بڑا ظالم ، فاسق ، بدکردار ، شرابی اور زانی بیان کیا جاتا ہے ، تو پھر ایسا بدکردار اور با اختیار شخص دشمن کی قیدی اسیر خواتین کے ساتھ کوئی بدسلوکی یا بد فعلی کیوں نہیں کرتا ؟ تمام اسیر شہزادیوں کے ساتھ بڑے احترام کے ساتھ کیوں پیش آتا ہے ؟ جب کہ اس دور میں قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنانے کا عام رواج تھا ۔ 
7. یزید اپنے دشمن کے نوجوان بیٹے امام زین العابدین کو عزت و احترام کے ساتھ واپس مدینہ کیوں بھجوا دیتا ہے ؟ ۔ 
8. بی بی زینب ، یزید کے پاس شام (دمشق ) میں ہی رہنا کیوں پسند کرتی ہے ؟ وہ زین العابدین کے ساتھ مدینہ کیوں نہیں گئی ؟ جب کہ انتقال کے بعد ان کا مزار بھی شام میں ہی بنایا گیا تھا ۔ 
9. روایات کے مطابق حضرت امام حسین کا سَر کاٹ کر نیزے پر رکھ کر پہلے کوفہ ابنِ زیاد کے پاس اور پھر دمشق یزید کے پاس لے جایا گیا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ سر کہاں گیا ؟ اس معاملے میں روایات کا بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ۔ 
بعض راویوں کے نزدیک سَر مبارک کو مدینہ لے جا کر دفن کیا گیا ، بعض کے نزدیک سَر کو کربلا لے جا کر جسم کے ساتھ دفن کیا گیا ، کہیں پر لکھا یوا ہے کہ سر دمشق کے سرکاری مال خانے میں پڑا رہا جسے برس ہا برس کے بعد اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے دمشق کے قبرستان میں دفن کروا دیا تھا ۔ کچھ کہتے ہیں کہ نجف اشرف میں روضہء علی علیہ السلام میں دفن ہے ، بعض کے نزدیک دریائے فُرات کے کنارے واقع " مسجدِ رقہ " میں ہے ، کچھ لکھتے ہیں کہ بعد ازاں فاطمی سلطنت مصر والوں نے سر مبارک کو لے جا کر " قاہرہ" میں دفن کر دیا جہاں پر سر مبارک کی درگاھ بھی بنی ہوئی ہے جہاں پر آج بھی لوگ جوق در جوق حاضری دیتے ہیں ۔ 
10. مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سانحہء کربلا کے وقت دشمنوں نے شہیدوں کے  جسموں پر گھوڑے دوڑا کر جسموں کو نابود کر دیا تھا ، تو پھر ایسی صورت میں یہ کیسے معلوم ہوا کہ ان لاشوں میں سے حضرت امام حسین علیہ السّلام کی لاش کون سی ہے ؟ جب کہ اکثر لاشوں کے ساتھ ان کے سر بھی نہیں تھے ۔ 
11. اگر آپ مکہ سے کوفہ ( عراق ) جائیں گے تو راستے میں کربلا کا مقام نہیں آتا، جب کہ اگر آپ مکہ سے دمشق ( شام ) جائیں تو پھر راستے میں کربلا کا مقام آتا ہے ۔ یعنی مکہ سے  دمشق اور کوفہ کے راستے متضاد اطراف میں ہیں، یعنی ایک شمال مشرق کی طرف تو دوسرا شمال مغرب کی طرف ، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین مکہ سے کوفہ نہیں بلکہ شام  (دمشق) یزید کے پاس جا رہے تھے ۔ 

اب اس قدر اہم سوالات کے تسلی بخش جوابات نا ملنے کی وجہ سے جو حقیقی صورت حال سامنے آتی ہے وہ میرے خیال کے مطابق کچھ اس طرح سے بنتی ہے ۔۔۔۔ 
دراصل اس پوری داستان میں اصل کردار خفیہ ہیں جس کی طرف کسی بھی مورخ کا دھیان نہیں گیا یا پھر جان بوجھ کر دشمن کی خفیہ سرگرمیوں سے چشم پوشی کی گئی ہے تاکہ عالم اسلام کبھی بھی متحد نہ ہو سکے ۔ 
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہء مبارک سے ہی دشمنانِ اسلام یعنی روم و ایران اور یہودیوں کے جاسوس رسول اللّٰہ کو ناکام کرنے کے لیے سرگرمِ عمل رہتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی موجودگی میں وہ اپنے مشن میں ناکام رہے تھے ، بعد ازاں خلیفہء اول حضرت ابوبکر صدیق کے عہد میں ان کی شَہ پر " مسیلمہ کذاب " کی بغاوت کے خوفناک فتنے نے سر اٹھایا جسے حضرت خالد بن ولید کی سرکردگی میں ختم کر دیا گیا ۔ 
بعد ازاں یہودیوں کا ایک جاسوس مسلمانوں کے روپ میں وارد ہوا جسے تاریخ " عبداللہ بن سبا " کے نام سے جانتی ہے ۔ 
وہ پہلے مدینے میں شورش برپا کرنے آیا لیکن مدینے میں رسول اللّٰہ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام تھے جس کی وجہ سے اس کی وہاں پر دال نہیں گلی، تو پھر وہ  کوفہ ، ایران اور شام کے علاقوں میں گیا اور وہاں پر اپنی کاروائیاں تیز کردیں ، ان علاقوں میں اکثریت نئے نئے اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کی تھی، اور ان کا ذہن بھی صحیح طور پر اسلامی تربیت یافتہ نہیں تھا چناں چہ وہ جلد ہی اس کی باتوں میں آگئے، دراصل ابنِ سبا نے خود کو حضرت علی کا شیدائی ظاہر کیا تھا اور نعرہ دیا کہ خلافت کے اولین حق دار حضرت علی ہیں اور باقی سب غاصب ہیں اس جزباتی سوچ نے آگ پر جلتی کا کام کیا اور بہت جلد لوگ اس کے ساتھ آ کر شامل ہونے لگے اور انہوں نے خود کو شیعانِ علی کہلانا شروع کر دیا ۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھنے لگی ، بالآخر وہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے دورِ خلافت میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو گئے اور مسلمان تین متحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے ۔ 
چوتھے خلیفہ حضرت علی علیہ السّلام کی خلافت کا زمانہ انتہائی افسوناک اور خون ریزی کا زمانہ تھا ۔ 
لیکن جب حضرت علی کی شہادت کے بعد ان کے بڑے فرزند حضرت امام حسن علیہ السّلام کو خلیفہ نامزد کیا گیا تو انہوں نے مسلمانوں کی باہم دشمنی اور خون ریزی کو پسند نہیں کیا چناں چہ وہ اپنی خلافت سے دست بردار ہو گئے اور امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو عالمِ اسلام کا خلیفہ تسلیم کر لیا ۔ ان حالات میں عالم اسلام کے دوبارہ سے متحد ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ، لیکن دشمنوں کی، ان تمام سیاسی حالات پر گہری نظر تھی، لہٰذا وہ پھر سے حرکت میں آ گئے اور اپنے جاسوسوں کے ذریعے سے  امام حسن کو اس کی بیوی کے ہاتھوں زہر دلوا دیا گیا اور اس کا الزام امیر معاویہ پر تھوپ دیا گیا ۔ 
دشمنانِ اسلام کی نظر اب حضرت امام حسین علیہ السّلام پر تھی کہ کسی طرح سے ان کو بھی اموی خلافت سے بدظن کیا جائے ، چناں چہ انہیں جلد ہی یہ موقع بھی ہاتھ آ گیا ۔ جب امیرِ معاویہ کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ پر ان کے بیٹے " یزید " کو خلیفہ بنایا گیا ۔ 
کوفہ سے امام حسین کو یزید کے کردار کے خلاف خطوط لکھوائے گئے ، جنہیں پڑھ کر حالات معلوم کرنے کے لئے امام حسین علیہ السّلام نے اپنے چچازاد بھائی " مسلم بن عقیل" کو کوفہ بھجا، مگر سازش کے ذریعے انہیں بھی ہلاک کر دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے امام حسین کو دشمن کی ناپاک سازشوں اور ان کی مکاری کا یقین ہو گیا ۔ تو ایسے حالات میں امام نے ان سازشی عناصر کی خطرناک کاروائیوں پر گفتگو کرنے کے لیے یزید سے ملاقات کرنا ضروری سمجھا چناں چہ آپ نے یزید سے ملنے کے لیے اپنے اہل و عیال سمیت دمشق ( شام ) جانے کا فیصلہ کیا ۔ 
مگر دشمنانِ اسلام پہلے سے ہی گھات لگا کر بیٹھ گئے آپ امام جب دمشق جاتے ہوئے کربلا کے بے آب و گیاہ میدان سے گزرے تو اسلام دشمن گروہ نے اچانک ان پر حملہ کردیا، اور ان پر ظاہر کیا کہ یہ حملہ کوفہ کے گورنر عبدااللہ بن زیاد کی طرف سے کیا گیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں تمام مرد شہید ہو گئے ، اور امام حسین کے فرزند امام زین العابدین کسی نہ کسی طرح سے خواتین سمیت بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے یا انہیں کسی مصلحت کے تحت خود جانے دیا گیا تاکہ شام میں جاکر وہ یزید سے جھگڑا کریں، مزید بدگمانیاں پیدا ہوں اور حالات مزید خراب ہو سکیں ۔ اور پھر شاید زین العابدین کی والدہ بی بی شہر بانو کو بھی انہوں نے ہی ایران پہنچا دیا ۔ 
شام میں امام زین العابدین اور بیبیوں کے پہنچنے پر یزید کو ان تمام حالات کا علم ہوا تو اس نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور دشمنوں کی سرکوبی کے لیے بھی کوششیں کیں لیکن ان کا انجام بہت خون ریزی کا سبب بنا ۔ 
یزید نے امام زین العابدین کو ان کی خواہش پر بحفاظت واپس  مدینہ پہنچا دیا ۔ 
پھر فسادیوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے نئے نئے اور عجیب عقائد گھڑ لئے جس کے باعث عالمِ اسلام مستقل طور پر مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گیا ۔ 
اناللہ واناالیہ راجعون ۔
آخر میں یہ ہی عرض کرنی چاہوں گا کہ ہم آج کے زمانے میں بھی جب پاکستان یا کوئی بھی  اسلامی ملک کسی بحران کا یا کسی دہشت گردی کا شکار ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی خفیہ ہاتھ ملوث ہے ، یا پھر کہا جاتا ہے کہ اس میں امریکہ اور اسرائیل وغیرہ کا ہاتھ ہے ۔ تو پھر ہم واقعہ کربلا کو اس نکتہء نگاہ سے کیوں نہیں دیکھتے ؟ اس واقعہ میں ہم بیرونی ہاتھ تلاش کیوں نہیں کرتے ؟ 
وماعلینا الی البلاغ المبین ۔ 
تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 
تاریخ ۔ آٹھ 8، جولائی سال 2024ء مطابق یکم محرم الحرام سن 1446ھجری ، بروز پیر ۔ سوموار ۔ 
وضاحت= یہ تمام حقائق انٹرنیٹ/ گوگل پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

 منقبت صحابہ =  اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔  قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔   لوگو رسولِ پاک نے فرما دیا ہے یہ ۔۔۔  دشمن صحابہ کا جو ہے، دشمن ہے وہ مرا ۔  اصحاب ہیں ستاروں کی مانند سب مرے ۔  راہ نجات تم کو دکھائیں گے وہ سدا ۔                           اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔                          قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔  جن کو رسولِ پاک نے صدّیق خود کہا ۔  جن کو رفیق غار کا حاصل شرف ہوا ۔  سردار دو جہان کے پہلو میں سوئے ہیں ۔  کتنا عظیم مرتبہ دیکھو انہیں ملا ۔                           اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔                           قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان  ہے ۔                                 شانِ عُمَر تو دیکھیے، اسلام کے لئے ۔  اللّٰہ کے رسول نے مخصوص خود کیے  ۔  اعلان ایسے وقت میں اسلام کا کیا ۔  جرئت نہ تھی کسی میں جو تائیدِ حق کرے ۔                         اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔                        قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان  ہے ۔  شرم و حیا مُجسّمِ عثمان دیکھئے ۔  گھر میں نبی کی بیٹیاں ہیں شان دیکھئے ۔  قصّاص لینے کے لیے نکلے تھے جب حضور ۔  مظہر ہے اس کی بیعتِ رضوان دیکھئے ۔                         اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔                        قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان  ہے ۔  علم و ادب کا باب ہے شیرِ خدا علی ۔  گھر میں رسولِ پاک کے پلتا رہا علی ۔  جرئت بہادری و سخا ان پہ ختم ہے ۔  غلبہ جہاں میں دین کا بھی کر گیا علی ۔                         اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔                        قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان  ہے ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔  مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔

منقبت صحابہ = اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔ لوگو رسولِ پاک نے فرما دیا ہے یہ ۔۔۔ دشمن صحابہ کا جو ہے، دشمن ہے وہ مرا ۔ اصحاب ہیں ستاروں کی مانند سب مرے ۔ راہ نجات تم کو دکھائیں گے وہ سدا ۔ اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔ جن کو رسولِ پاک نے صدّیق خود کہا ۔ جن کو رفیق غار کا حاصل شرف ہوا ۔ سردار دو جہان کے پہلو میں سوئے ہیں ۔ کتنا عظیم مرتبہ دیکھو انہیں ملا ۔ اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔ شانِ عُمَر تو دیکھیے، اسلام کے لئے ۔ اللّٰہ کے رسول نے مخصوص خود کیے ۔ اعلان ایسے وقت میں اسلام کا کیا ۔ جرئت نہ تھی کسی میں جو تائیدِ حق کرے ۔ اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔ شرم و حیا مُجسّمِ عثمان دیکھئے ۔ گھر میں نبی کی بیٹیاں ہیں شان دیکھئے ۔ قصّاص لینے کے لیے نکلے تھے جب حضور ۔ مظہر ہے اس کی بیعتِ رضوان دیکھئے ۔ اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔ علم و ادب کا باب ہے شیرِ خدا علی ۔ گھر میں رسولِ پاک کے پلتا رہا علی ۔ جرئت بہادری و سخا ان پہ ختم ہے ۔ غلبہ جہاں میں دین کا بھی کر گیا علی ۔ اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔


 === منقبت صحابہ === 


اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ 

قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔ 


لوگو رسولِ پاک نے فرما دیا ہے یہ ۔۔۔ 

دشمن صحابہ کا جو ہے، دشمن ہے وہ مرا ۔ 

اصحاب ہیں ستاروں کی مانند سب مرے ۔ 

راہ نجات تم کو دکھائیں گے وہ سدا ۔ 

                         اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ 

                        قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان ہے ۔ 

جن کو رسولِ پاک نے صدّیق خود کہا ۔ 

جن کو رفیق غار کا حاصل شرف ہوا ۔ 

سردار دو جہان کے پہلو میں سوئے ہیں ۔ 

کتنا عظیم مرتبہ دیکھو انہیں ملا ۔ 

                         اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔  

                        قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان  ہے ۔                                

شانِ عُمَر تو دیکھیے، اسلام کے لئے ۔ 

اللّٰہ کے رسول نے مخصوص خود کیے  ۔ 

اعلان ایسے وقت میں اسلام کا کیا ۔ 

جرئت نہ تھی کسی میں جو تائیدِ حق کرے ۔ 

                       اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ 

                      قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان  ہے ۔ 

شرم و حیا مُجسّمِ عثمان دیکھئے ۔ 

گھر میں نبی کی بیٹیاں ہیں شان دیکھئے ۔ 

قصّاص لینے کے لیے نکلے تھے جب حضور ۔ 

مظہر ہے اس کی بیعتِ رضوان دیکھئے ۔ 

                       اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ 

                      قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان  ہے ۔ 

علم و ادب کا باب ہے شیرِ خدا علی ۔ 

گھر میں رسولِ پاک کے پلتا رہا علی ۔ 

جرئت بہادری و سخا ان پہ ختم ہے ۔ 

غلبہ جہاں میں دین کا بھی کر گیا علی ۔ 

                       اعلیٰ نبی کے بعد صحابہ کی شان ہے ۔ 

                      قائم اسی پہ دیکھیے اپنا اِمان  ہے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ 

مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔

مظلومِ مدینہ = عثمان غنی =  میں تاریخ سے لڑنا نہیں چاہتا ۔۔۔    اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 10 دن بند رہا تب بھی ٹھیک اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 7 دن بند رہا تب بھی ٹھیک، لیکن جب تاریخ کو چھیڑنے کے بجائے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے نظر آتاہے کہ اسلام کی تاریخ میں صرف حضرت حسینؓ کی ہی شھادت مظلومانہ یا دردناک نہیں بلکہ اگر ہم 10 محرم کی طرف جاتے ہوئے راستے میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شھادت دکھائی دیتی ہے جسمیں شہید ہونیوالے کا نام        " حضرت عثمانؓ " ہے ۔۔۔   جی ہاں__ وہی عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں  وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں  وہہ عثمان جسے ہم ناشر قرآن کہتے ہیں  وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں  وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں  وہی عثمانؓ جسکی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں وہی عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول اللہؐ کا دوہرا داماد کہتے ہیں خیر یہ باتیں تو آپکو طلبا و خطبا حضرات بتاتے رہتے ہیں ۔  کیونکہ حضرت عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی  حضرت عثمانؓ کی سیرت تو بیان کیجاتی ہے  حضرت عثمانؓ کی شرم حیا کے تذکرے تو کئے جاتے ہیں ان کے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے انکی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا انکی دردناک شھادت کا قصہ  عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا  میں کہتا ہوں کہ تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر عثمانؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کی مظلومانہ شھادت کا ذکر کردیاجائے ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بحرحال میں کوئی عالم یا خطیب نہیں لیکن  اتنا جانتا ہوں کہ عثمانؓ وہ مظلوم تھا جسکا 40 دن تک پانی بند رکھا گیا، آج وہ عثمانؓ پانی کو ترس رہاہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتاتھا ۔   حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی ہے کوئی جو مجھے پانی پلائے ؟  حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو وہ مشکیزہ لے کر  "عثمان ؓ  کا ساقی بن کر پانی پلانے آنا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن ۔   ہائے ۔۔۔ آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا باغیوں نے حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑ جائے اور کل قیامت کے روز عثمانؓ، اللہ کو شکایت نا لگاسکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نہیں آیا ۔۔۔   کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا  تو مدینہ میں  عثمانؓ کا ساقی علیؓ تھا ۔   اُس عثمانؓ کو 40 دن ہوگئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے ، جو عثمانؓ مسجد نبوی کیلئے جگہ خریدا کرتاتھا ۔   آج وہ عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا جسکی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ جوق درجوق آیاکرتے تھے ۔   40 دن گزر گئے اُس عثمانؓ کو کھانا نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ رسول اللّٰہ کی خدمت میں پیش کردیا کرتاتھا۔  آج اس عثمانؓ کی داڑھی کھینچی جارہی ہے جس عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیاکرتے تھے ۔   آج اس عثمانؓ پر ظلم کیا جارہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کا محافظ تھا ۔   آج اس عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ کے نام پر صحابہ کرام نے رسول اللّٰہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔   ہائے عثمانؓ میں نقطہ دان نہیں میں عالم نہیں جو تیری شھادت کو بیان کروں تو دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہوجائیں ۔    آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کردیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا ۔   آج رسولِ اکرم کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جارہی ہیں  18 #ذی الحج 35 ھجری ہے جمعہ کا دن ہے حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور حضرت عثمانؓ کی داڑھی کھینچتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتاہے ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتاہے ایک تلوار نکالتا ہے حضرت عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیتاہے ، قرآن سامنے پڑا تھا خون قرآن پر گرتا ہے تو قران بھی حضرت عثمانؓ کی شھادت کا گواہ بن گیا ۔    عثمانؓ زمین پر گر پڑے تو باغی عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپؓ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں حضرت عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شھید ہوگئے ۔   اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی ۔  دیا خون #صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی::  مدینہ منورہ جنت البقیع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی کو مدفون کیا گیا ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  انتخاب و کاپی پیسٹ ۔ غلام محمد وامِق ۔

مظلومِ مدینہ = عثمان غنی = میں تاریخ سے لڑنا نہیں چاہتا ۔۔۔ اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 10 دن بند رہا تب بھی ٹھیک اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 7 دن بند رہا تب بھی ٹھیک، لیکن جب تاریخ کو چھیڑنے کے بجائے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے نظر آتاہے کہ اسلام کی تاریخ میں صرف حضرت حسینؓ کی ہی شھادت مظلومانہ یا دردناک نہیں بلکہ اگر ہم 10 محرم کی طرف جاتے ہوئے راستے میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شھادت دکھائی دیتی ہے جسمیں شہید ہونیوالے کا نام " حضرت عثمانؓ " ہے ۔۔۔ جی ہاں__ وہی عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں وہہ عثمان جسے ہم ناشر قرآن کہتے ہیں وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں وہی عثمانؓ جسکی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں وہی عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول اللہؐ کا دوہرا داماد کہتے ہیں خیر یہ باتیں تو آپکو طلبا و خطبا حضرات بتاتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ حضرت عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی حضرت عثمانؓ کی سیرت تو بیان کیجاتی ہے حضرت عثمانؓ کی شرم حیا کے تذکرے تو کئے جاتے ہیں ان کے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے انکی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا انکی دردناک شھادت کا قصہ عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا میں کہتا ہوں کہ تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر عثمانؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی مظلومانہ شھادت کا ذکر کردیاجائے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بحرحال میں کوئی عالم یا خطیب نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ عثمانؓ وہ مظلوم تھا جسکا 40 دن تک پانی بند رکھا گیا، آج وہ عثمانؓ پانی کو ترس رہاہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتاتھا ۔ حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی ہے کوئی جو مجھے پانی پلائے ؟ حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو وہ مشکیزہ لے کر "عثمان ؓ کا ساقی بن کر پانی پلانے آنا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن ۔ ہائے ۔۔۔ آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا باغیوں نے حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑ جائے اور کل قیامت کے روز عثمانؓ، اللہ کو شکایت نا لگاسکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نہیں آیا ۔۔۔ کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا تو مدینہ میں عثمانؓ کا ساقی علیؓ تھا ۔ اُس عثمانؓ کو 40 دن ہوگئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے ، جو عثمانؓ مسجد نبوی کیلئے جگہ خریدا کرتاتھا ۔ آج وہ عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا جسکی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ جوق درجوق آیاکرتے تھے ۔ 40 دن گزر گئے اُس عثمانؓ کو کھانا نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ رسول اللّٰہ کی خدمت میں پیش کردیا کرتاتھا۔ آج اس عثمانؓ کی داڑھی کھینچی جارہی ہے جس عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیاکرتے تھے ۔ آج اس عثمانؓ پر ظلم کیا جارہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کا محافظ تھا ۔ آج اس عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ کے نام پر صحابہ کرام نے رسول اللّٰہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ ہائے عثمانؓ میں نقطہ دان نہیں میں عالم نہیں جو تیری شھادت کو بیان کروں تو دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہوجائیں ۔ آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کردیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا ۔ آج رسولِ اکرم کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جارہی ہیں 18 #ذی الحج 35 ھجری ہے جمعہ کا دن ہے حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور حضرت عثمانؓ کی داڑھی کھینچتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتاہے ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتاہے ایک تلوار نکالتا ہے حضرت عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیتاہے ، قرآن سامنے پڑا تھا خون قرآن پر گرتا ہے تو قران بھی حضرت عثمانؓ کی شھادت کا گواہ بن گیا ۔ عثمانؓ زمین پر گر پڑے تو باغی عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپؓ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں حضرت عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شھید ہوگئے ۔ اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی ۔ دیا خون #صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی:: مدینہ منورہ جنت البقیع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی کو مدفون کیا گیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انتخاب و کاپی پیسٹ ۔ غلام محمد وامِق ۔

 جس نے بھی لکھا ہے کیا خوب لکھا ہے۔ کاپی پیسٹ۔




#مظلوم_مدینہ


میں تاریخ سے لڑنا نہیں چاہتا ۔۔۔ 


 اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 10 دن بند رہا تب بھی ٹھیک اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 7 دن بند رہا تب بھی ٹھیک، لیکن جب تاریخ کو چھیڑنے کے بجائے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے نظر آتاہے کہ اسلام کی تاریخ میں صرف حضرت حسینؓ کی ہی شھادت مظلومانہ یا دردناک نہیں بلکہ اگر ہم 10 محرم کی طرف جاتے ہوئے راستے میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شھادت دکھائی دیتی ہے جسمیں شہید ہونیوالے کا نام        " حضرت عثمانؓ " ہے ۔۔۔ 


جی ہاں__ وہی عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں 

وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں 

وہہ عثمان جسے ہم ناشر قرآن کہتے ہیں 

وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں 

وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں 

وہی عثمانؓ جسکی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں

وہی عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول اللہؐ کا دوہرا داماد کہتے ہیں خیر یہ باتیں تو آپکو طلبا و خطبا حضرات بتاتے رہتے ہیں ۔ 

کیونکہ حضرت عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی 

حضرت عثمانؓ کی سیرت تو بیان کیجاتی ہے 

حضرت عثمانؓ کی شرم حیا کے تذکرے تو کئے جاتے ہیں ان کے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے انکی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا انکی دردناک شھادت کا قصہ  عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا


میں کہتا ہوں کہ تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر عثمانؓ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 کی مظلومانہ شھادت کا ذکر کردیاجائے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بحرحال میں کوئی عالم یا خطیب نہیں لیکن  اتنا جانتا ہوں کہ عثمانؓ وہ مظلوم تھا جسکا 40 دن تک پانی بند رکھا گیا، آج وہ عثمانؓ پانی کو ترس رہاہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتاتھا ۔ 


حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی ہے کوئی جو مجھے پانی پلائے ؟ 

حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو وہ مشکیزہ لے کر  "عثمان ؓ  کا ساقی بن کر پانی پلانے آنا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن ۔ 


ہائے ۔۔۔ آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا باغیوں نے حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑ جائے اور کل قیامت کے روز عثمانؓ، اللہ کو شکایت نا لگاسکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نہیں آیا ۔۔۔ 


کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا 

تو مدینہ میں  عثمانؓ کا ساقی علیؓ تھا ۔ 


اُس عثمانؓ کو 40 دن ہوگئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے ، جو عثمانؓ مسجد نبوی کیلئے جگہ خریدا کرتاتھا ۔ 


آج وہ عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا جسکی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ جوق درجوق آیاکرتے تھے ۔ 


40 دن گزر گئے اُس عثمانؓ کو کھانا نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ رسول اللّٰہ کی خدمت میں پیش کردیا کرتاتھا۔


آج اس عثمانؓ کی داڑھی کھینچی جارہی ہے جس عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیاکرتے تھے ۔ 


آج اس عثمانؓ پر ظلم کیا جارہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کا محافظ تھا ۔ 


آج اس عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ کے نام پر صحابہ کرام نے رسول اللّٰہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ 


ہائے عثمانؓ میں نقطہ دان نہیں میں عالم نہیں جو تیری شھادت کو بیان کروں تو دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہوجائیں ۔  


آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کردیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا ۔ 


آج رسولِ اکرم کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جارہی ہیں


18 #ذی الحج 35 ھجری ہے جمعہ کا دن ہے حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور حضرت عثمانؓ کی داڑھی کھینچتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتاہے ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتاہے ایک تلوار نکالتا ہے حضرت عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیتاہے ، قرآن سامنے پڑا تھا خون قرآن پر گرتا ہے تو قران بھی حضرت عثمانؓ کی شھادت کا گواہ بن گیا ۔ 


 عثمانؓ زمین پر گر پڑے تو باغی عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپؓ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں حضرت عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شھید ہوگئے ۔ 


اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی ۔ 

دیا خون #صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی::


مدینہ منورہ جنت البقیع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی کو مدفون کیا گیا ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

انتخاب و کاپی پیسٹ ۔ غلام محمد وامِق ۔


رسول اکرم  کی اپنی نواسی  " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔

رسول اکرم کی اپنی نواسی " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔




 رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ، کی اپنی نواسی  " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

تاریخ ۔ 25 جون سال  2024ء 


آرمی پبلک اسکول پشاور پر کئے گئے دہشت گرد حملے میں شہید 134 بچوں کے نام ۔ نظم ۔          غلام محمد وامِق   وہ معصوم کلیاں ، وہ معصوم بچّے ۔  جنہیں اُن کے اسکول میں مار ڈالا ۔   پشاور جو تھا ایک شہرِ گلستاں ۔  اُسے وحشیوں نے کیا تَہ و بالا ۔   ہاں بے شک ہوئی گود ماؤں کی خالی ۔  مگر اّن کو جنّت کی حوروں نے پالا ۔ #   #۔ مورخہ 16 دسمبر سال 2014ء کو سانحہ پشاور پر کہے گئے اشعار ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فعولن فعولن فعولن فعولن ۔   بحر۔ متقارب مثمن سالم ۔  شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

آرمی پبلک اسکول پشاور پر کئے گئے دہشت گرد حملے میں شہید 134 بچوں کے نام ۔ نظم ۔ غلام محمد وامِق وہ معصوم کلیاں ، وہ معصوم بچّے ۔ جنہیں اُن کے اسکول میں مار ڈالا ۔ پشاور جو تھا ایک شہرِ گلستاں ۔ اُسے وحشیوں نے کیا تَہ و بالا ۔ ہاں بے شک ہوئی گود ماؤں کی خالی ۔ مگر اّن کو جنّت کی حوروں نے پالا ۔ # #۔ مورخہ 16 دسمبر سال 2014ء کو سانحہ پشاور پر کہے گئے اشعار ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعولن فعولن فعولن فعولن ۔ بحر۔ متقارب مثمن سالم ۔ شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

 آرمی پبلک اسکول پشاور پر کئے گئے دہشت گرد حملے میں شہید 134 بچوں کے نام ۔ نظم ۔ 

        غلام محمد وامِق 


وہ معصوم کلیاں ، وہ معصوم بچّے ۔ 

جنہیں اُن کے اسکول میں مار ڈالا ۔ 


پشاور جو تھا ایک شہرِ گلستاں ۔ 

اُسے وحشیوں نے کیا تَہ و بالا ۔ 


ہاں بے شک ہوئی گود ماؤں کی خالی ۔ 

مگر اّن کو جنّت کی حوروں نے پالا ۔ # 


#۔ مورخہ 16 دسمبر سال 2014ء کو سانحہ پشاور پر کہے گئے اشعار ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

فعولن فعولن فعولن فعولن ۔ 

 بحر۔ متقارب مثمن سالم ۔ 

شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  


===  دو اشعار  ===  غلام محمد وامِق   1. ایک لمحے کی سزا ہوتی ہے صدیوں پہ مُحیط ۔  ہر گھڑی غور کرو اور ہو لمحوں پہ نظر ۔   2. اپنے کاندھوں پہ صلیب اپنی اٹھائے رکھنا ۔         تم کو مصلوب کیا جائے گا                دیکھو در در ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔  بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔   فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔  بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع  شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

=== دو اشعار === غلام محمد وامِق 1. ایک لمحے کی سزا ہوتی ہے صدیوں پہ مُحیط ۔ ہر گھڑی غور کرو اور ہو لمحوں پہ نظر ۔ 2. اپنے کاندھوں پہ صلیب اپنی اٹھائے رکھنا ۔ تم کو مصلوب کیا جائے گا دیکھو در در ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔ بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

 ===  دو اشعار  === 

غلام محمد وامِق 


1. ایک لمحے کی سزا ہوتی ہے صدیوں پہ مُحیط ۔ 

ہر گھڑی غور کرو اور ہو لمحوں پہ نظر ۔ 


2. اپنے کاندھوں پہ صلیب اپنی اٹھائے رکھنا ۔ 

       تم کو مصلوب کیا جائے گا دیکھو در در ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔ 

بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ 


فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ 

بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع 

شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  = خاموش ہمیں کرنے کو آئے ہیں ستمگر ۔  خاموش کبھی رہ نہیں سکتے ہیں سخن ور ۔   حشرات کے کھانے کو بہت رزق ہے لیکن ۔  انسان کے سینے میں ہے افلاس کا خنجر ۔   چالاک بہت تھا ہوا آخر وہ گرفتار ۔  غافل جو پرندہ ہوا صیّاد سے پل بھر ۔   دریا میں بنانا ہے ہمیں راستہ خود ہی ۔  دیتی نہیں پانی کی یہ دیواریں کبھی در ۔   آسانی سے ملتا ہی نہیں گوہرِ مقصود ۔  حق کے لئے وامِق یہاں لڑنا ہے مقدّر ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔  بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔  مئی سال 1992ء میں کہی گئی غزل ۔  نظرِ ثانی ۔ 3 جون سال 2024ء

= خاموش ہمیں کرنے کو آئے ہیں ستمگر ۔ خاموش کبھی رہ نہیں سکتے ہیں سخن ور ۔ حشرات کے کھانے کو بہت رزق ہے لیکن ۔ انسان کے سینے میں ہے افلاس کا خنجر ۔ چالاک بہت تھا ہوا آخر وہ گرفتار ۔ غافل جو پرندہ ہوا صیّاد سے پل بھر ۔ دریا میں بنانا ہے ہمیں راستہ خود ہی ۔ دیتی نہیں پانی کی یہ دیواریں کبھی در ۔ آسانی سے ملتا ہی نہیں گوہرِ مقصود ۔ حق کے لئے وامِق یہاں لڑنا ہے مقدّر ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔ بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مئی سال 1992ء میں کہی گئی غزل ۔ نظرِ ثانی ۔ 3 جون سال 2024ء

 ===   غزل    === 

غلام محمد وامِق 


خاموش ہمیں کرنے کو آئے ہیں ستمگر ۔ 

خاموش کبھی رہ نہیں سکتے ہیں سخن ور ۔ 


حشرات کے کھانے کو بہت رزق ہے لیکن ۔ 

انسان کے سینے میں ہے افلاس کا خنجر ۔ 


چالاک بہت تھا ہوا آخر وہ گرفتار ۔ 

غافل جو پرندہ ہوا صیّاد سے پل بھر ۔ 


دریا میں بنانا ہے ہمیں راستہ خود ہی ۔ 

دیتی نہیں پانی کی یہ دیواریں کبھی در ۔ 


آسانی سے ملتا ہی نہیں گوہرِ مقصود ۔ 

حق کے لئے وامِق یہاں لڑنا ہے مقدّر ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔ 

بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مئی سال 1992ء میں کہی گئی غزل ۔ 

نظرِ ثانی ۔ 3 جون سال 2024ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


دیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں

دیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں

 ===   غزل    ===


 

غلام محمد وامِق 


دِیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 

ہوا تھمے نہ تھمے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


قضا کے منصبِ عالی پہ بہرے بیٹھے ہیں ۔ 

کوئی سنے نہ سنے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


نہیں ہے اب وہ زمانہ کہ شب کی سَحَر بھی ہو ۔ 

سَحَر ملے نہ ملے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


میں جانتا ہوں کہ منزل نہیں قریب مرے ۔ 

سفر کٹے نہ کٹے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


پھنسی ہے لہروں میں کشتی تو خیر ہے وامِق ۔ 

بھَنوَر رکے نہ رکے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔ 

بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مئی سال 2024ء میں کہی گئی غزل ۔


       نا جانے انہیں ہم سے یہ کیسی محبت تھی؟ ۔  اُغیار سے بھی ملتے، ہم سے بھی رفاقت تھی ۔    جو زخم  لگائے تھے ، اپنوں نے لگائے تھے ۔  غیروں کو تو مجھ سے کچھ شکوہ نہ شکایت تھی ـ  دیکھو تو نجانے کیوں رنجش تھی انہیں ہم سے ۔  جِن کے لئے اِس دِل میں  اخلاص و عقیدت تھی ـ   اعمال تو اُس کے سب کافر سے بھی بدتر تھے ـ مارا تھا جو کافر کو،  وہ  ذاتی عداوت  تھی ـ   افسوس وہ  دیتے ہیں طعنہ ہمیں غربت کا ـ  وہ بھول گئے ہم نے  کی اُن کی کفالت تھی ـ   ہم اپنے عقیدے کی ہر بات کو حق سمجھیں ـ تحقیق نہیں کرتے،  یہ کیسی روایت تھی ـ  ہم جس کو بیاں کر کے پہنچے ہیں سرِ مقتل ـ معلوم ہوا  آخر وہ جھوٹی حکایت تھی ـ   تحقیق ضروری ہے ہر بات پرکھنے کو ۔  ہم علم جسے سمجھے  وامِق وہ جہالت تھی ـ  ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن  بحر ۔ ہَزج مثمن اخرب سالم ۔  شاعر ـ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ...  مورخہ 3 جنوری 2022 ء کو کہی گئی غزل ۔

نا جانے انہیں ہم سے یہ کیسی محبت تھی؟ ۔ اُغیار سے بھی ملتے، ہم سے بھی رفاقت تھی ۔ جو زخم لگائے تھے ، اپنوں نے لگائے تھے ۔ غیروں کو تو مجھ سے کچھ شکوہ نہ شکایت تھی ـ دیکھو تو نجانے کیوں رنجش تھی انہیں ہم سے ۔ جِن کے لئے اِس دِل میں اخلاص و عقیدت تھی ـ اعمال تو اُس کے سب کافر سے بھی بدتر تھے ـ مارا تھا جو کافر کو، وہ ذاتی عداوت تھی ـ افسوس وہ دیتے ہیں طعنہ ہمیں غربت کا ـ وہ بھول گئے ہم نے کی اُن کی کفالت تھی ـ ہم اپنے عقیدے کی ہر بات کو حق سمجھیں ـ تحقیق نہیں کرتے، یہ کیسی روایت تھی ـ ہم جس کو بیاں کر کے پہنچے ہیں سرِ مقتل ـ معلوم ہوا آخر وہ جھوٹی حکایت تھی ـ تحقیق ضروری ہے ہر بات پرکھنے کو ۔ ہم علم جسے سمجھے وامِق وہ جہالت تھی ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن بحر ۔ ہَزج مثمن اخرب سالم ۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ... مورخہ 3 جنوری 2022 ء کو کہی گئی غزل ۔

 ******  غـــــزل  ******

     غلام محمد وامِق 


نا جانے انہیں ہم سے یہ کیسی محبت تھی؟ ۔ 

اُغیار سے بھی ملتے، ہم سے بھی رفاقت تھی ۔ 


 جو زخم  لگائے تھے ، اپنوں نے لگائے تھے ۔ 

غیروں کو تو مجھ سے کچھ شکوہ نہ شکایت تھی ـ


دیکھو تو نجانے کیوں رنجش تھی انہیں ہم سے ۔ 

جِن کے لئے اِس دِل میں  اخلاص و عقیدت تھی ـ 


اعمال تو اُس کے سب کافر سے بھی بدتر تھے ـ

مارا تھا جو کافر کو،  وہ  ذاتی عداوت  تھی ـ 


افسوس وہ  دیتے ہیں طعنہ ہمیں غربت کا ـ 

وہ بھول گئے ہم نے  کی اُن کی کفالت تھی ـ 


ہم اپنے عقیدے کی ہر بات کو حق سمجھیں ـ

تحقیق نہیں کرتے،  یہ کیسی روایت تھی ـ


ہم جس کو بیاں کر کے پہنچے ہیں سرِ مقتل ـ

معلوم ہوا  آخر وہ جھوٹی حکایت تھی ـ 


تحقیق ضروری ہے ہر بات پرکھنے کو ۔ 

ہم علم جسے سمجھے  وامِق وہ جہالت تھی ـ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن 

بحر ۔ ہَزج مثمن اخرب سالم ۔ 

شاعر ـ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ... 

مورخہ 3 جنوری 2022 ء کو کہی گئی غزل ۔



Powered by Blogger.