غزل
غلام محمد وامِق
مِلا کر ہاتھ جھٹکے سے چھڑایا یاد ائے گا ۔
بنا کر دوست جو ہم کو رُلایا یاد آئے گا ۔
بڑی چاہت سے آئے تھے تری محفل میں ہم لیکن ۔
نظر سے جس طرح تونے گرایا یاد آئے گا ۔
گَلے تم کو لگانے کے لیے آگے بڑھے تھے ہم ۔
گلے پر تم نے جو خنجر چلایا یاد آئے گا ۔
پکڑنے کو ہمیں اکثر شکاری تاک میں تو تھے ۔
مگر وہ جال جو تونے بچھایا یاد آئے گا ۔
ہمارے ملک میں جمہوریت بھی خوب ہے لیکن ۔
زباں پر سب کی، جو تالا لگایا یاد آئے گا ۔
ہمارے حاکموں نے طالبہ کو نوچنے کے بعد ۔
بھیانک واقعہ جیسے چھپایا یاد آئے گا ۔ #
نہیں وامِق کو تم سے کوئی بھی شکوہ گِلا لیکن ۔
جو تم نے اصل چہرہ اب دکھایا یاد آئے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
# اکتوبر 2024ء دوسرے ہفتے کے آغاز میں پنجاب کالج لاہور میں فرسٹ ایئر کی طالبہ کے ساتھ عصمت دری کے مبینہ واقعے کو حکومتی سطح پر چھپایا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
19 اکتوبر سال 2024ء کو کہی گئی غزل ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔
بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔