<<<<< محراب پور کا مردِ حُر >>>>>
میں نے ہوش سنبھالتے ہی اسے سیاسی طور پر متحرک دیکھا، دیواروں پر "اندھا ٹیکس مردہ باد " لکھتا، تو کبھی اپنے گھر کے ایک درجن سے زیادہ افراد کے ساتھ سڑکوں پر حکمرانوں کے خلاف نعرے بازی کرتا ہوا نظر آتا، اُس وقت تک مجھے ان باتوں کا شعور نہ تھا، وہ جنرل ایوب خان کا دور تھا، سنتے تھے کہ اس نے اپنا بہت بڑا کاروبار "ہاری مزدور حقوق " کے حصول کی جدوجہد میں تباہ کر دیا تھا،
سنتے تھے کہ وہ مولانا عبیداللہ سندھی کی ریشمی رومال تحریک سے بھی وابستہ رہا تھا، جب ہم جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے، وہ عمر کے آخری حصے میں تھا، اور اپنی معاشی ضروریات کے لئے ہاتھوں میں خوان رکھ کر دودھ سے بنا ماوہ اور سوہن حلوہ بیچتا تھا، ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت تھا، وہ کاغز پر کوئلے سے کچھ لکھ رہا تھا،
میں نے از راه تفنن پوچھا، کیا آپ بھٹو صاحب کو خط لکھ رہے ہو؟ ۔۔۔ تو اس نے حقارت آمیز انداز میں جواب دیا، ہونہہ، بھٹو کو خط کوئلے سے؟ اگر لکھنا پڑا تو اس گندی نالی کے پانی سے اسے خط لکھوں گا، اس نے نالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس کے داماد، اور ہاری کمیٹی کے مشہور رہنما، " نزیر عباسی " کو پھانسی دے دی گئی ... اس بہیمانہ قتل پر ہم نے نزیر عباسی کی بیوہ اور اس کی بیٹی حمیدہ گھانگھرو کا ایک مفصل انٹرویو اسی دور میں بی بی سی لندن کی خبروں میں سنا تھا، جس میں حمیدہ گھانگھرو نے بڑی دلیری سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا .....
بعد ازاں شاید بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں محراب پور میں ہاری حقوق کمیٹی کا جلسہ تھا، جس میں مرکزی لیڈر شریک تھے ....
دورانِ جلسہ فیصلہ کیا گیا کہ اس بزرگ رہنما کو بھی اجلاس میں لایا جائے، جو کہ ان دونوں اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہا تھا ۔۔۔ بہرحال اسے اسٹیج پر لا کر بٹھایا گیا، وہ کرسی پر نہیں بیٹھا بلکہ نماز پڑھنے کی حالت میں عوام کی طرف رخ کر کے اسٹیج پر ہی نیچے بیٹھ گیا،،، جلسہ کے اختتام پر انہیں بھی دعوتِ کلام دی گئی،،، وہ اس وقت بیخودی کے عالم میں تھا، عصر کی آذان ہوچکی تھی، اس نے وہیں اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا، میں چوں کہ اگلی صف میں بلکل اس کے سامنے کرسی پر موجود تھا، اس لئے سب صاف سن رہا تھا ...
اس نے کہنا شروع کیا، بھائیو! یہ نعرے بازی، جلسے جلوس، فضول ہیں، میں سب کچھ سمجھ چکا ہوں، یہ تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، اگر اپنی نجات اور بھلائی چاہتے ہو تو آؤ، میرے ساتھ نماز پڑھو، انہوں نے یہ کہا اور وہیں پر بیٹھے بیٹھے، اللہ اکبر کہہ کر نماز کی نیت باندھ لی ۔۔۔۔
جلسہ ختم ہو چکا تھا، اور حاضرین حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، ۔۔۔۔۔۔ کچھ دنوں کے بعد وہ اس ظالم دنیا کو چھوڑ گیا ۔۔۔۔ اُس مردِ مجاہد اور حریت پسند شخص کا نام تھا ۔۔۔۔۔۔۔ محمد ہاشم گھانگھرو، ۔۔۔۔..... (تحریر ـ غلام محمد وامق)....
بقول اقبال، تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ