‎بلدیہ محرابپور کے چیئرمینوں پر ایک نظر ـــــــــــــــــــــ تحریر ــ غلام محمد وامِق ـــ ہم نے ہوش سنبھالا تو شوکت خان لودھی (مرحوم) کو ٹاؤن کمیٹی محرابپور کا چیئرمین دیکھا، جوکہ شہر کا سب سے پہلا منتخب چیئرمین تھا ـ شوکت خان لودھی صاحب بڑے بردبار، ادب پرور، اور اعلیٰ ظرف کے حامل دوراندیش انسان تھے، انہوں نے اپنے ابتدائی دور میں ہی گندے پانی کی نکاسی کے لئے ایک بہت بڑا نالہ بنوایا تھا، جوکہ اُس زمانے میں عجیب اور غیرضروری محسوس ہوتا تھا، لیکن آج ہم سمجھتے ہیں کہ اگر وہ نالہ نہ ہوتا تو شہر آج گندے پانی میں ڈوب چکا ہوتا ـ 1983ء میں، جب میں چھ، سات سال کراچی میں گزار کر واپس محرابپور آیا تو اس وقت شہر کے چیئرمین مغل عبدالغفور ساجد صاحب تھے ـ مغل عبدالغفور ساجد صاحب ایسی شخصیت تھے جن کی مثال محرابپور تو کیا، شاید دنیا بھر میں نہ مل سکے، وہ شاعر اور ادیب تھے ـ وہ اپنے گھر یا آفس میں آرام سے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ ہمہ وقت متحرک رہتے تھے ـ ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی جب ہم ان کو مزدوروں اور خاکروبوں کے ساتھ مل کر کام کرتے اور کام کرواتے دیکھتے تھے ـ جہاں بھی ٹاؤن کا کام ہورہا ہوتا، چاہے وہ نالیاں ہوں یا کچرا کنڈی وہاں پر کھڑے رہتے یا پھر کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے اور اپنی نظرداری میں کام کرواتے ـ وہ سارا دن شہر کے بازاروں اور گلیوں میں وزٹ کرتے اور لوگوں سے ملتے ـ بعض اوقات تو اکیلے ہی رات کو کسی کام کے معائنے کو نکل کھڑے ہوتے ـ کہیں ضرورت پڑتی تو اپنی جیب سے خرچ کرتے، کسی تقریب میں ہوتے تو نماز کے وقت جماعت کی امامت خود کرتے ــ انہوں نے ہی شہر کا موجودہ انڈرگراؤنڈ ڈرینج سسٹم بنوایا تھا، جس کا آج برا حال کردیا گیا ہے، شہر میں تین عدد گیٹ تعمیر کروائے، جوکہ آج محرابپور کی شناخت بن چکے ہیں ـ صفائی کے لحاظ سے محرابپور، سندھ کے بہترین شہروں میں شامل ہوتا تھا ـ سڑکیں اور گلیاں انتہائی کشادہ اور صاف ہوتی تھیں ـ لودھی اور مغل صاحبان کے زمانے میں ٹاؤن کمیٹی کا بجٹ ہمیشہ سرپلس رہتا تھا ـ محرابپور کی ٹاؤن کمیٹی، سندھ کی دیگر ٹاؤن کمیٹیوں سے زیادہ خوشحال تھی، مغل عبدالغفور ساجد صاحب کا ایک شعری مجموعہ بھی " نوائے ساجد " کے نام سے اس زمانے میں منظرعام پر آچکا تھا، عبدالغفور ساجد صاحب نفیس انسان تھے لہٰذا وہ سابقہ چیئرمین شوکت خان لودھی صاحب سے بھی بڑے انکسار سے ملتے تھے ـ بہرحال 1983ء میں ہم نے " بزمِ ادب محرابپور " کی بنیاد رکھی، صدر عبدالغفور ساجد صاحب کو بنایا گیا، سرپرست شوکت خان لودھی کو بنایا جبکہ جنرل سیکریٹری مجھے (راقم الحروف بندہء ناچیز کو) بنایا گیا ـ 1985ء میں ہم نے ایک عظیم الشان کُل سندھ مشاعرہ ٹاؤن ہال میں منعقد کروایا، جس کی صدارت شوکت خان لودھی صاحب نے کی تھی ـ اس مشاعرے میں مغل عبدالغفور ساجد صاحب اس لئے شرکت نہ کرسکے کہ وہ شاید بیرونِ ملک یا بیرونِ شہر گئے ہوئے تھے ـ ان لوگوں کے دور میں گو راستے کچے تھے لیکن شہر کی ترقی کے ارادے پکے تھے ـ شوکت لودھی کے ابتدائی دور میں محرابپور میں بجلی نہیں آئی تھی ، لیکن شہر کے مختلف راستوں اور چوراہوں پر ٹاؤن کی طرف سے جگہ جگہ تیل سے جلنے والی لالٹینیں لگائی گئی تھیں، شہر کے راستوں اور گلیوں میں دن میں تین بار ماشکی اپنی مشکوں سے پانی کا چھڑکاﺅ کرتے تھے، جس کے باعث گرمی کے موسم میں ماحول خوشگوار ہوجاتا تھا ـ مغل عبدالغفور ساجد کے بعد پھر سے شوکت خان لودھی صاحب چیئرمین بن گئے تھے ـ ـ ـ بعدازاں ایڈمنسٹریٹرز کا دور آگیا ـ اور ایک وقت آیا جب شوکت لودھی صاحب رات کے وقت اچانک ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کرگئے ـ اور کچھ عرصہ کے بعد مغل عبدالغفور ساجد صاحب بھی دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہی انتقال کرگئے ــ صدرِ پاکستان، جرنل پرویزمشرف صاحب کے زمانے میں چیئرمین کے بجائے ناظم اعلیٰ بنائے گئے ـ اور اس نئے سسٹم کے تحت شہر کو دوحصوں میں تقسیم کرکے یوسی ون اور یوسی ٹو میں تقسیم کردیا گیا، جس پر ایک بار شوکت خان لودھی کے فرزند " فاروق خان لودھی " اور مغل عبدالغفور کے بھتیجے " منوربیگ مغل " ناظم اعلیٰ منتخب کئے گئے ـ دونوں منتخب ناظمین اپنے بڑوں کے شاندار اصول بھول کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سرگرم ہوگئے ـ حالانکہ انفرادی طور پر دونوں موصوف بڑے ملنسار خوش اخلاق اور لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہونے والے ہیں ـ فاروق خان لودھی دو بار ناظم مقرر کئے گئے، اور اب موصوف پورے شہر کے چیئرمین ہیں، لیکن آپ بیرونِ ملک کے دوروں پر اکثر نظر آتے ہیں، شہر کا دورہ کبھی نہیں کیا، ٹاؤن کے خاکروب روزانہ ہڑتال پر ہیں کہ انہیں تنخواہیں نہیں ملتیں ـ لہٰزا شہر میں گندے پانی کے گٹر اور نالیاں ابل رہی ہیں ـ جناب کو شہر کی حالت دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں ہے ـ جبکہ ان کے والد ہر دوسرے تیسر روز شہر کے بازاروں کا دورہ کرتے اور لوگوں سے حال احوال پوچھتے تھے ــ اب شہر زخموں سے چُور رات دن گندے پانی میں پڑا تڑپ رہا ہے، گلیوں میں پیدل چلنا مشکل ہوگیا ہے ــاب شہر والے جائیں تو جائیں کہاں؟ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا ــ ؟ ہم نے یہ لکھ کر اپنی ذمیداری پوری کردی، اللہ تعالیٰ تمام اہلیانِ شہر اور ملک پر اپنا فضل فرمائے ـ آمین ــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ فون، 03153533437 ـــ تاریخ ـ 18.12.2019 ــــ


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.