اِنّماالاَعمال بِاالنّیات• صحیح بخاری، حدیث نمبر 1. ترجمہ ـ عملوں کا دارو مدار نیّتوں پر ہے ـ انتخاب ـ غلام محمد وامِق === اس حدیث پر بعض لوگوں نے اعتراضات کئے ہیں، حالانکہ اس حدیث کی مزید وضاحت ایک اور مشہور حدیث سے ہوجاتی ہے، جس کا مفہوم درج ذیل ہے، ملاحظہ ـفرمائیں ــــــ ایک بار آپﷺ کی خدمت میں، ایک شخص حاضر ہوا ـ عرض کی کہ یا رسول اللہ میں آپ کے پاس آرہا تھا کہ راستے میں فلاں مقام پر سایہ دار جگہ دیکھ کر نماز اور آرام کی غرض سے اترا، اور اپنی سواری کے جانور کو باندھنے کے لئے وہاں پر ایک کھونٹا گاڑ دیا، تاکہ کوئی اور مسافر بھی اگر وہاں پر رکے تو وہ بھی اپنی سواری کو باندھ سکے ـ یا رسول اللہﷺ، کیا میرا وہاں پر کھونٹا گاڑنے کا عمل غلط تھا؟ ـــ آپﷺ نے فرمایا نہیں تم نے صحیح عمل کیا ــــ اس کے بعد ایک اور شخص حاضرِ خدمت ہوا، اور کہا کہ یا رسول اللہﷺ، میں آپ کے پاس آرہا تھا تو فلاں مقام پر میں نے دیکھا کہ، راستے میں کسی نے ایک کھونٹا گاڑ دیا ہے، میں نے اس خیال سے کہ کہیں اس کھونٹے سے کسی مسافر کو یا اس کی سواری کو ٹھوکر نہ لگ جائے، تو کھونٹا وہاں سے اکھاڑ دیا ہے ـ کیا میرا یہ عمل غلط ہے؟ ــــ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں تم نے صحیح کام کیا ہے ـ وہاں پر موجود صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ ان دونوں نے متضاد کام کئے ہیں، تو پھر ان دونوں کے اعمال درست کیسے ہو گئے؟ ـــ اس پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں افراد کی نیّت نیک اور دوسروں کے ساتھ بھلائی کرنے کی تھی، اس لئے ـ (تحریر غلام محمد وامِق ـ) ــــ ــــ محراب پور سندھ ـــ dated. 26.01.2019 فون ـ 03153533437
نور اور بشر کا جھگڑا کیوں؟ ـــ تحریر ـ غلام محمد وامق ــــ خاص طور پر پاک و ہند میں اُمّتِ مسلمہ اس مسئلہ پر اکثر دست و گریباں رہتی ہے کہ، رسول اللہﷺ بشر ہیں یا نور ــــ؟ ــــــــ کچھ مکتبہ فکر کے لوگ آپﷺ کو بشر کہتے ہیں، اور کچھ نُور تسلیم کرتے ہیں، اور دونوں ہی نقطہء نظر کے حامل افراد اپنے اپنے مظبوط دلائل پیش کرتے ہیں ـ بعض اوقات نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ مسئلہ شدت اختیار کر جاتا ہے، اور پھر نہ جانے کیوں جھاگ کی طرح بیٹھ بھی جاتا پے ـ دونوں مکتبہء فکر سے قطع نظر اگر محققانہ نظر سے دیکھا جائے تو صاف معلوم ہوجاۓ گا کہ یہ بحث سرے سے بحث ہی نہیں بنتی، ـــــ جب بھی کسی شےء کی حقیقت جاننے کی کوشش کی جائے تو اس کی ضد پر نظر ڈالنا ضروری ہوتا ہے، ـــ مثلاﹰ ـ کڑوا، میٹھا ـ سیاہ و سفید ـ دن اور رات ـ جھوٹ اور سچ ـ عدل آور ظلم ـ آگ و پانی ـ گرم سرد ـ وغیرہ، ـــ ان لفظوں میں آپس میں ٹکراؤ اور تضاد ہے ـ یعنی اگر ایک ہے تو دوسرا ممکن نہیں، ــــ اب ہم مذکورہ مسئلہ پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ، لفظ نور ـ بشر، کی ضد ہرگز نہیں ہے، کیونکہ نور کے معنی ہیں روشنی اور ہدایت ـــ جبکہ لفظ بشر کے معنی ہیں، آدمی، انسان، یا نظر آنے والی مخلوق، ـــ نور کی ضد ظلمت ہوتا ہے، بشر نہیں ـ ظلمت کامطلب ہوتا ہے اندھیرا، یا گمراہی، جبکہ بشر کی ضد جن ہوتی ہے، نور نہیں ـ جن کے معنی ہوتے ہیں، نظر نہ آنے والی خفیہ مخلوق یا شیطان وغیره ــــ اب آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ رسول کریمﷺ، نور ہیں، ظلمت ہرگز نہیں ـ چوں کہ ہر نیکی اور اچھی بات بھی نور ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن کریم کو بھی نور کہا گیا ہے ـ اسی طرح آپﷺ بشر، بھی ہیں جن یا شیطان ہر گز. نہیں ـ ( نعوذباللہ) ـ چنانچہ آپﷺ اول درجہ میں نور بھی ہیں اور اول درجہ میں بشر بھی ہیں ـ کیوںکہ نور اور بشر میں کوئی ٹکراؤ یا تضاد نہیں ــ جیسے کوئی شخص ایک ہی وقت میں بادشاہ بھی ہوتا ہے اور آدمی بھی ـ اسی طرح مزید تشریح آپ خود بھی کر سکتے ہیں ـ وضاحت: ــــ مجھے یہ سوچ یا خیال آج سے تقریباﹰ تیس پینتیس سال قبل اللہ کے فضل سے ذہن میں آیا تھا، اور گاہے بگاہے میں اس کا ذکر بھی کرتا رہتا تھا، لیکن یہ بات لکھنے یا کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ چند روز قبل مجھے انٹرنیٹ پر ایک نوجوان مولوی نما شخص کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا، جوکہ یہ ہی وضاحت کر رہا تھا، مجھے بڑی حیرت ہوئی، ممکن ہے میرے یہ خیالات سینہ بہ سینہ ہوتے ہوئے موصوف تک پہنچ گئے ہوں، یا پھر ممکن ہے کہ اسے بھی اللہ تعالیٰ نے شرح صدر عطا فرما دی ہو ــــ بہرحال حقیقت یہ ہی ہے، اس لئے مسلمانوں کو کم ازکم اس مسئلہ کی وجہ سے تو آپس میں جھگڑا نہیں کرنا چاہئے ـ خدا کرے کہ دوستوں کو میری یہ عرضداشت سمجھ آجائے، وماعلینا الی البلاغ ــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ محراب پور سندھ پاکستان ـــ مورخہ، 19، جنوری، 2019 ـ Phone. 03153533437
ایم کیو ایم، کو جیسا میں نے دیکھا === تحریر ـ غلام محمد وامِق ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سال 1977 کا زمانہ تھا۔مجھے تحریری امتحان پاس کرنے کے بعد پاکستان اسٹیل ملز میں ملازمت مل گٸی تھی۔اس لۓ مجھے کراچی شفٹ ہونا پڑا۔۔اس زمانے میں اسٹیل ملز میں لسانی تعصب کے باعث مجھ سمیت بیشمار اردو بولنے والوں کو میڈیکل چیک اپ میں ان فٹ کے بہانے 6 ۔ماہ ملازمت کے بعد بغیر کسی تنخواہ کے نکال دیا گیا۔ خیر مجھے اللہ تعالٰی نے کراچی پورٹ پر ملازمت عطا کردی۔ اس دور میں بسوں وغیرہ میں مجھے چھوٹے چھوٹے اشتہار یا اسٹکر لگے ہوۓ نظر آتے تھے ، جن پر مہاجروں کے حقوق کے حصول کی بات لکھی ہوتی تھی۔اس دور میں سیاسی شعور بہت کم ہوتا تھا۔لہذا مجھے حیرت ہوتی تھی۔ اکثر اشتہارات پر الطاف حسین کا نام لکھا ہوتا تھا۔ میں اسے ”اردو ڈاٸجسٹ“ والا الطاف حسین سمجھتا تھا۔ حالانکہ اے پی ایم ایس او۔ کی بنیاد ریکارڈ کے مطابق جون۔ 1978 میں رکھی گٸی ۔۔ اسی طرح رفتہ رفتہ ہم ایم کیو ایم کا نام بھی سننے لگے۔۔ ان خبروں پر مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی۔ قبل ازیں محراب پور میں ہی میں نے ایک دیوار پر لکھا دیکھا۔” مہاجر قومی موومنٹ “ مجھے ادبی ترکیب کے لحاظ سے یہ نام غلط محسوس ہوا ۔۔۔یعنی آدھا تیتر آدھا بٹیر۔۔آدھا اردو آدھا انگلش ۔۔۔اس وقت میں نے لوگوں سے کہا تھا کہ، اس کو مہاجر قومی تحریک لکھا جاۓ۔ یا پھر مہاجر نیشنل موومنٹ کردیا جاۓ۔۔۔بہرحال غالباً 1982 کا دور تھا، کہ ہم نے اڑتی ہوٸی خبر سنی کہ مہاجر قومی موومنٹ کا نام تبدیل کرکے اسے مسلم قومی موومنٹ یا متحدہ قومی موومنٹ بنایا جاۓ گا۔۔۔آپ اندازہ فرماٸیں کہ یہ کس دور کی بات ہے۔جبکہ ایم کیو ایم کی تاسیس ریکارڈ پر مارچ 1984 ہے۔۔۔بہرحال والد صاحب کی بیماری اور چند دیگر وجوہات کے باعث مجھے جنوری 1983 میں ملازمت چھوڑ کر واپس گھر آنا پڑا ۔ اس وقت تک کراچی میں فسادات شروع ہو چکے تھے ۔ اور ایم کیو ایم کی جانب سے پاکستان کے خلاف بیان بازی شروع ہو چکی تھی۔ پاکستانی پرچم بھی نذر آتش کیا جاتا تھا۔ اسی دوران ہم نے ملک کے واحد نشریاتی ادارے پاکستان ٹیلیویژن پر اس وقت کے شریف النفس وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا قوم سے خطاب سنا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں ایم کیو ایم کے قاٸد الطاف حسین کا بڑے احترام کے ساتھ نام لیا۔۔تو ہم حیران رہ گۓ تھے کہ ایک ملک دشمن آدمی کا نام وزیر اعظم احترام کے ساتھ لے رہا ہے۔۔ رفتہ رفتہ منظر واضح ہوتا گیا اور اس وقت کے صدر و آرمی چیف جنرل ضیاالحق صاحب کو بھی الطاف حسین سے اور جیٸے سندھ تنظیم کے بانی جناب جی ایم سید صاحب سے ملاقاتیں کرتے دیکھا۔۔۔۔اسی دوران محراب پور میں ایم کیو ایم کے سب سے پہلے ورکر ” ماسٹر بشیر مغل اور فیض محمد مغل مرحومین، میرے پاس مجھے ایم کیو ایم میں شامل کرنے کے لۓ کٸی بار آۓ۔ کیونکہ ان دنوں محراب پور میں کوٸی گریجوایٹ لڑکا میرے علاوہ اردو بولنے والا نہیں تھا۔ لیکن میں ان کی بات سے مطمٸن نہیں ہوا ۔انہوں نے اپنا منشور دکھایا، میں نے اس میں کٸی طرح کے نقاٸص بتاۓ مثلاً مشرقی پنجاب سے آۓ ہوۓ لوگوں کو اس میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ چنانچہ میرے اعتراضات کی بنیاد پر مرکز میں مذکورہ منشور میں کٸی بار رد و بدل کیا گیا۔۔۔اس کے باوجود میں اس تنظیم سے مطمٸن نہ ہو سکا۔۔۔اسی دوران پاکستان کے عظیم دانشور ۔ادیب۔ فلاسفر۔۔کالم نگار صحافی اور ماورائی علوم کے ماہر جناب رٸیس امروہوی صاحب سے بھی اس مسٸلے پر میری تا دیر خط و کتابت ہوتی رہی ۔یاد رہے کہ رٸیس امروہی صاحب۔ قاٸد تحریک الطاف حسین کے رشتے میں بڑے بزرگ ہوتے تھے۔۔شاید رشتے میں ان کے نانا تھے۔۔انہوں نے مجھے محراب پور میں ” سندھی مہاجر اتحاد “ تحریک کے نام سے دفتر کھولنے کے لۓ کہا۔۔۔لیکن میں اس وقت کے معروضی حالات کے باعث اس کام کے لۓ آمادہ نہ ہوسکا۔۔۔۔ان ہی دنوں جامشورو میں ایک بہت بڑی اور مشہور کانفرنس منعقد کی گٸی۔ جس میں اردو اور سندھی کے تمام معتبر اور بڑے بڑے ادیبوں اور لیڈروں نے شرکت کی۔جیسا کہ۔رٸیس امروہوی۔۔انعام درانی۔ الطاف حسین۔۔و دیگر جن کے نام یاد نہٕیں۔۔سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید ۔۔شمشیر الحیدری۔۔۔و دیگر جن کے نام اب ذہن میں نہیں۔۔ بعد ازاں سندھی مہاجر اتحاد تحریک زور پکڑتی گٸی۔۔ چنانچہ مجھ پر رٸیس امروہوی سمیت کراچی کے دیگر ادیبوں کا دباٶ بڑھتا گیا۔اس دوران رٸیس امروہوی صاحب نے میری دعوت پر محراب پور وزٹ کرنے کا پروگرام طے کر لیا۔ لیکن پھر چند وجوہات کی بنا پر میں نے خود ان کا دورہ منسوخ کروا دیا ۔۔بعد ازاں میں نے کراچی جا کر ان کے دفتر میں ان سے ملاقات کی ۔جہاں پر سندھ کے مشہور ترین ادیب جناب شمشیرالحیدری صاحب بھی تھے۔۔میں نے وہاں پر ان کو درپیش کچھ زمینی حقاٸق سے آگاہ کیا۔۔اور چند ثبوت بھی پیش کۓ۔جنہیں دیکھنے کے بعد وہ بہت حیران ہوۓ تھے۔۔ بعد ازاں رٸیس صاحب نے میرے دلاٸل کو تسلیم کیا ۔۔۔ اور پھر اپنے خطوط میں اس کا ذکر کرتے ہوۓ کہا کہ۔۔ آپ کی بات سے ہم متفق ہیں۔لیکن اب ہم اس مسٸلے میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ اب واپسی ہمارے لۓ ناممکن ہے۔۔۔ چنانچہ روزنامہ جنگ کراچی مورخہ 5 ستمبر 1986 بروز جمعہ۔۔۔کا اپنا کالم میرے نام سے تحریر کیا۔۔۔۔جس کا عنوان تھا ” ہم فرزند زمین ہیں “ ۔۔۔اس کالم کی بازگشت سیاسی حلقوں میں بہت دنوں تک سناٸی دیتی رہی تھی۔۔ رٸیس صاحب کو 1988 میں۔ ان کے خاندان کے ہی کسی شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا ۔۔۔۔ بہرحال ماضی قریب میں بھی مجھے ایم کیو ایم کی ادبی کمیٹی میں شمولیت کی دعوت ملی تھی۔ لیکن ایم کیو ایم کی بار بار بدلتی ہوٸی پالیسی اور پارٹی میں چند پراسرار واقعات کے باعث۔۔۔ میں ابھی تک ان سے مطمٸن نہیں ہو سکا ۔۔۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ، اگر ابتدائی دور میں ہی ، میں نے ایم کیو ایم جواٸن کرلی ہوتی تو آج دنیا سے اٹھ چکا ہوتا، یا پھر ایم این اے وغیرہ بن چکا ہوتا ۔۔۔۔۔لیکن شکر ہے خدا کا کہ اس نے مجھے ہر قسم کے دنیاوی مفاد اور لالچ سے دور رکھا ہے۔۔۔ تحریر ۔۔۔جی ایم وامق۔۔۔ محراب پور سندھ ۔۔۔فون نمبر۔03153533437.........تاریخ۔۔24.10.2018
ـــــــــــ ناکام ٹھگ ـــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ... ـــــــ بڑے بوڑھوں سے پرانے وقتوں کا ایک قصہ ہم سنتے تھے، جب لوگ سفر گدھے، گھوڑوں، اور بیل گاڑیوں وغیره پر کرتے تھے ـایک جوہری تاجر کے پاس ایک بڑا قیمتی ھیرا تھا، جسے فروخت کرنے کے لئے وہ کسی دوسرے شہر جانے کا ارادہ باندھ رہا تھا ـ کہ ایک ٹھگ کو اس کی بھنک مل گئی، اس نے ھیرا حاصل کرنے کے لئے تاجر سے راہ و رسم بڑھائے، چنانچہ سفر میں اس کا ہمسفر بن گیا ـ جوہری بھی بڑا سمجھدار اور کائیاں شخص تھا، وہ سارا معاملہ سمجھ گیا، خیر سے سفر شروع ہوا تو پہلی رات ایک سرائے میں پڑاؤ ڈالا گیا، رات کو سونے سے قبل دونوں نے اپنے اپنے لبادے یا قمیص اتار کر ٹانگ دئے اور سوگئے ـ قبل ازیں جوہری نے آنکھ بچا کر اپنا ھیرا نکال کر ٹھگ کی قمیص کی جیب میں ڈال دیا آور بیفکر ہوکر سوگیا، رات کے کسی حصے میں ٹھگ اٹھا اور جوہری کے سارے سامان کی اور قمیص کی جیبوں کی تلاشی لی، مگر اسے ہیرا نہ مل سکا، بہت پریشان ہوا ــ علی الصبح اٹھ کر تاجر نے وہ ہیرا واپس اپنی جیب میں ڈال لیا ـ دوسرے دن دورانِ سفر ٹھگ نے باتوں ہی باتوں میں ہیرے کا ذکر چھیڑ دیا اور پوچھا کہ سنا ہے آپ کے پاس بھی کوئی قیمتی ھیرا ہے؟ ـ کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں؟ جوہری نے وہ ھیرا اپنی جیب سے نکال کر دکھا دیا، ٹھگ نے دل میں سوچا کہ چلو اگلی رات سہی، لیکن اگلی رات بھی یہ ہی کچھ ہُوا ـ اسے ساری رات نیند نہیں آئی، بعدازاں تیسری رات بھی ٹھگ اپنی کوششوں میں ناکام رہا، وہ بہت مایوس آور پریشان ہوا، اس کی نیندیں حرام ہوگئیں، سارا مشن فیل ہوگیا ـ اگلے روز وہ اپنی منزل پر پہنچ گئے ـ تو ٹھگ نے بڑی پشیمانی کی حالت میں تاجر کے سامنے ساری صورتحال سچ سچ بیان کی آور اپنے ٹھگ ہونے کا بھی اقرار کرلیا ـ اور کہا کہ میں آپ کو اپنا استاد تسلیم کرتا ہوں، لیکن مجھے کم از کم اتنا تو علم ہونا چاہئے کہ آخر آپ اس ھیرے کو رات کے وقت کہاں گُم کردیتےتھے، کہ میں اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کرنے کے باوجود اسے ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں؟ ــ اس پر تاجر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ، جناب آپ کی نظر ہمیشہ دوسروں کی جیبوں پر رہتی ہے، کبھی کبھی اپنی جیب کو بھی ٹٹول کر دیکھ لینا چاہئے، اور پھر ٹھگ کو ساری کہانی بیان کردی ـ ـ ـ ـ ـــــــــــ تو بھائیو! ہمیں بھی ٹھگ کی طرح صرف دوسرے کی جیب پر ـ دوسرے کے مال پر ـ آور دوسرے کی مدد پر ہی نظر نہیں رکھنی چاہئے اور نہ ہی کسی دوسرے پر انحصار کرنا چاہئے، بلکہ خود اپنی جیب کو بھی ٹٹول لینا چاہئے، آور خود پر بھی اعتماد کر لینا چاہئے ـ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد ضرور کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرنا جانتے ہیں ـ نیز ہمیں برائیاں اور خامیاں صرف دوسروں میں ہی تلاش نہیں کرنی چاہئے، بلکہ سب سے پہلے اپنی خامیوں پر نظر ڈالنی چاہئے ـ کیا تعجب کہ ہمیں اپنے آپ میں ہی خدا مل جائے ـــ تحریرـ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ، پاکستان.... مورخہ, 9 فروری، 2019 ...
جائیں تو جائیں کہاں ؟ ــــــ اگر کسی مفادپرست کو مفادپرست کہیں تو وہ ناراض۔ دنیاپرست کو دنیاپرست کہیں تو وہ ناراض۔ ظالم کو ظالم کہیں تو وہ ناراض ۔ کافر کو کافر کہیں تو وہ ناراض ۔ منافق کو منافق کہیں تو وہ ناراض ۔ مشرک کو مشرک کہیں تو وہ ناراض ۔ قادیانی کو قادیانی کہیں تو وہ ناراض ۔ گمراہ کو گمراہ کہیں تو وہ ناراض ۔ لالچی کو لالچی کہیں تو وہ ناراض ۔ چور کو چور کہیں تو وہ ناراض ۔ جھوٹے کو جھوٹا کہیں تو وہ ناراض۔ کنجر کو کنجر کہیں تو وہ ناراض ۔ بھڑوے کو بھڑوا کہٕیں تو وہ ناراض ۔ زانی کو زانی کہیں تو وہ ناراض ۔ شرابی کو شرابی کہیں تو وہ ناراض ۔ بھنگ پینے والے کو بھنگی کہیں تو وہ ناراض ۔ دہشتگرد کو دھشتگرد کہیں تو وہ ناراض ۔ بلیک میلر کو بلیک میلر کہیں تو وہ ناراض ــ اسمگلر کو اسمگلر کہٕیں تو وہ ناراض ۔ منی لانڈرنگ کرنے والے کو منی لانڈر کہیں تو وہ ناراض ـــ آف شور کمپنیز والوں کو ان کا مالک کہیں تو وہ ناراض ــ منافع خوروں کو منافع خور کہیں تو وہ ناراض ۔ ذخیرہ اندوزوں کو ذخیرہ اندوز کہیں تو وہ ناراض ــ کرپشن کرنے والوں کو کرپٹ کہیں تو وہ ناراض۔ غداروں کو غدار کہیں تو وہ ناراض ــ متعصب کو متعصب کہیں تو وہ ناراض ــ ملک دشمن کو ملک دشمن کہیں تو وہ ناراض ۔ وطن فروش کو وطن فروش کہیں تو وہ ناراض ۔ کم ظرف کو کم ظرف کہیں تو وہ ناراض ــ احمق کو احمق کہیں تو وہ ناراض ۔ــ جاہل کو جاہل کہیں تو وہ ناراض ۔ بے مروّت کو بے مروّت کہیں تو وہ ناراض ۔ بے وفا کو بیوفا کہیں تو وہ ناراض ۔ سنگدل کو سنگدل کہیں تو وہ ناراض ۔ــ بزدل کو بزدل کہیں تو وہ ناراض ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اب ہم نے خوب اچھی طرح جان لیا ہے کہ ۔۔۔ آج کے دور میں یہ تمام کردار دنیا سے مفقود ہو چکے ہیں۔۔ اب ہم کسی کو بھی مذکورہ بالا خطابات سے نہٕیں پکاریں گے۔۔۔ ( تحریر ـــ غلام محمد وامق، محرابپور سندھ ) dated..04.10.2018
تَشنہ دلی === غلام محمد وامِق تَشنہ لبی جو تھی وہیں تَشنہ دِلی بھی تھی ۔ پنگھٹ پہ اُن کو دیکھ کے ہر پیاس بجھ گئی ۔ اِک معجزہ تھا دِل کے سفر میں خیالِ یار ۔ صحرا تو تَپ رہا تھا مگر پیاس بجھ گئی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 19 مئی سال 2017ء کو کہا گیا قطعہ ۔
=== تَشنہ دلی ===
غلام محمد وامِق
تَشنہ لبی جو تھی وہیں تَشنہ دِلی بھی تھی ۔
پنگھٹ پہ اُن کو دیکھ کے ہر پیاس بجھ گئی ۔
اِک معجزہ تھا دِل کے سفر میں خیالِ یار ۔
صحرا تو تَپ رہا تھا مگر پیاس بجھ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔
شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 19 مئی سال 2017ء کو کہا گیا قطعہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحوم دوست ”غلام محمد اعوان“ کی یاد میں نظم == تعمیر کیا اس نے ہے گھر دور بہت دورـــ۔ آباد کیا اس نے نگر، دور بہت دورـــ۔ اِس دنیا میں ہوتا تو اسے ڈھونڈ ہی لیتے۔ دنیا سے مگر اس کا ہے گھر، دور بہت دور ـــــ ممکن ہی نہیں پہنچے وہاں فکر و نظر بھی ۔ یاروں نے بساۓ ہیں نگر، دور بہت دور ــــ جس آہٹِ مانوس کے عادی تھے میرے گوش ۔ آہٹ سی وہ اب بھی ہے مگر، دور بہت دور ــــ۔ بے چین ہیں پھر راہوں میں بِچھنے کو نگاہیں۔ کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے نظر، دور بہت دور ـــ۔ ہم عمر تھا، ہمراز تھا، ہمنام تھا اعوان ۔ وہ دِل میں ہے، نظروں سے مگر، دور بہت دورــــ۔ اب کس کے لۓ بھٹکیں گی، ہر سو یہ نگاہیں۔ وامق ! وہ گیا ہم سے مگر، دور بہت دور ــــــ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔( جی ایم وامق) ... تاریخ وفات۔ غلام محمد اعوان۔ 24 فروری 1988۔ مطابق ۔ 5 رجب المرجب 1407 ھجری۔ بروز۔ بدھ ۔.۔
بھائی ڈاکٹر محمد شفیع طور کی یاد میں، پہلی برسی پر ۔
نظم
تعمیر کیا اُس نے ہے گھر دور بہت دور
آباد کیا اس نے نگر دور بہت دور ۔۔۔
اِس دنیا میں ہوتا تو اُسے ڈھونڈ ہی لیتے ۔
دنیا سے مگر اُس کا ہے گھر دور بہت دور ۔
ممکن ہی نہیں پہنچے وہاں فکر و نظر بھی ۔
یاروں نے بسائے ہیں نگر دور بہت دور ۔
جس آہٹِ مانوس کے عادی تھے میرے گوش ۔
آہٹ سی وہ اب بھی ہے مگر دور بہت دور ۔
بے چین ہیں پھر راہوں میں بچھنے کو نگاہیں ۔
کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے نظر دور بہت دور ۔
ہم عمر تھا، ہم راز تھا، میرا شفی بھائی ۔
( ہم عمر تھا ہم راز تھا ہم نام تھا اعوان )
وہ دل میں ہے نظروں سے مگر دور بہت دور ۔
اب کِس کے لئے بھٹکیں گی ہر سُو یہ نگاہیں ۔
وامِق وہ گیا ہم سے مگر دور بہت دور ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل ۔
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔
بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔
یکم مارچ سال 1988ء کو، ہمارے دوست ڈاکٹر غلام محمد اعوان کے انتقال پر کہی گئی نظم ۔
وضاحت ۔ دوسری بار مرحوم بھائی ڈاکٹر محمد شفیع طور کی پہلی برسی پر ذرا ترمیم کر کے پیش کی گئی ۔
دونوں مصرعوں کے ساتھ یہاں پر پیش کی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیاد ـ پیارے دوست، ڈاکٹر غلام محمد اعوان (مرحوم)
جن کا انتقال، کانگووائرس بیماری کے باعث، مورخہ 24 فروری سال 1988ء بروز بدھ، کراچی میں ہوا تھا، اور تدفین اگلے روز ان کے آبائی گاؤں گوٹھ عبدالرحیم اعوان، لاکھاروڈ میں کی گئی ـ
یہ نظم ان کی یاد میں یکم مارچ 1988ء کو کہی گئی، اور اپنی کتاب " نقشِ وفا " میں شامل کی گئی ـ
۔اسلام میں عقیدے کی لڑاٸی نہیں۔۔۔۔تحریر۔ــ غلام محمد وامِق ۔ــــ آج کے فتنہ پرور اور دہشت گردی کے ماحول کا جب ہم جاٸزہ لیتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ، دنیا بھر میں جو مسلمانوں کے مابین جھگڑے ہو رہے ہیں، وہ اکثر عقیدے کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔۔۔سامراج نے دنیا بھر میں اپنے مفاد کے لۓ ایسا ماحول بنا دیا ہے۔کہ ایک عقیدے کا مسلمان ، دوسرے عقیدے کے مسلمان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے ، جبکہ اسلام دشمن عناصر کی طرف سے، ان کی توجہ مکمل طور پر ہٹادی گٸی ہے۔ ۔حالانکہ اسلام میں کسی بھی عقیدے کے خلاف کوٸی لڑاٸی نہیں ہے ۔ عقیدہ تو دور کی بات ہے ، کسی غیر مسلم کے خلاف بھی لڑاٸی جاٸز نہیں ہے ۔ قرآن میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے۔ ” لکم دینکم ولی دین “ ۔۔۔ یعنی تمہارے لۓ تمہارا دین، اور ہمارے لۓ ہمارا دین ۔۔۔ تو پھر جھگڑا کس بات کا ؟ ۔۔۔ اسی طرح کے احکامات قرآن میں دیگر کٸی مقامات پر ہمیں نظر آتے ہیں۔۔۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالٰی ہے ” بیشک تمہارے سب کے اختلاف کا فیصلہ قیامت والے دن اللہ تعالی آپ کرے گا “ (آیت 69...سورة الحج)... اسلام میں لڑائی صرف ان لوگوں کے خلاف ہے، جو انسانیت کے دشمن ہیں۔ جو ظالم ہیں، اور جو عدل کے نظام یعنی اسلام کو پھیلنے سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ غریبوں، مسکینوں پر، مزدوروں، کاشتکاروں پر، زیادتی اور ظلم کرتے ہیں۔ جو لوگوں کے حقوق غصب کرتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو قرآن نے ” ظالم اور کافر “ قرار دیا ہے ۔۔۔ اور ایسے ہی لوگوں کو مغلوب کرنے اور عدل کے نظام کو غالب کرنے کے لٸے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ عام عوام سکون سے زندگی گزار سکیں۔ ہم اگر بنظرِ غاٸر اسلام کی ابتداٸی جنگوں کا جاٸزہ لیں تو یہ ہی بات تمام جنگوں کی بنیاد نظر آۓ گی۔۔ یہاں تک کہ دورِ نبوت کے بعد بھی، مسلمانوں کی جو لڑاٸیاں آپس میں ہوٸی ہیں، ان کا باعث بھی کوٸی الگ عقیدہ نہیں تھا۔ بلکہ وہ بھی حق و ناحق، اور ظالم و مظلوم کا نظریہ ہی تھا، یا پھر یہود و نصارٰی کی سازشیں ان جنگوں کا باعث بنی تھیں ۔۔۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی، اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی، کی جنگ کسی مخالف عقیدے کی بنیاد پر لڑی گٸی؟ ۔ کیا ان دونوں کے اسلامی عقاٸد میں کوٸی فرق تھا ؟ ۔۔۔ جی نہیں، ایسا بلکل نہیں تھا۔۔۔کیا حضرت امام حسین اور یزید کے اسلامی عقاٸد میں کوٸی فرق تھا ؟ ۔۔۔ کیا حجاج بن یوسف اور حضرت عبداللہ بن زبیر، کے عقاٸد میں کوٸی فرق تھا ؟۔۔۔ کیا عباسی اور علوی عقاٸد میں کوٸی فرق تھا ؟ جو باہم کٸی سو سالوں تک برسرِ پیکار رہے ۔۔۔بعد ازاں بھی مسلمانوں کی جتنی بھی جنگیں ہوٸی ہیں، آپس میں یا غیر مسلموں کے ساتھ، ان میں عقاٸد کے خلاف کوٸی بھی جنگ نہیں لڑی گٸی۔۔۔ اسلام میں جنگ ہمیشہ ظلم، زیادتی، اور ناحق کے خلاف لڑی جاتی رہی ہے ۔۔۔ یہاں تک کہ ہمارے ماضی قریب میں بھی ” ترک خلافتِ عثمانیہ “ کے خلاف جو عربوں نے جنگ لڑی وہ بھی انگریزوں کے ایما پر قوم پرستی کی بنیاد پر لڑی گٸی تھی ۔۔۔۔ لیکن افسوس ہے کہ آج کے زمانے میں ہمیں عقاٸد کی بنا پر ایک دوسرے کا دشمن بنا کر لڑایا جا رہا ہے ۔۔۔ اور اس طرح مسلمانوں کو کمزور سے کمزورتر کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔ کاش کہ ہم مسلمان اس دجالی سازش کو سمجھ سکیں اور اسے ناکام بنا سکیں ۔۔۔ وما علینا الی البلاغ ۔۔۔ تحریر۔۔۔ غلام محمد وامق، محرابپور سندھ ـ تاریخ، 20.08.2018....
قومی ترانے کا انگریزی ترجمہ ۔۔۔ انتخاب ۔۔ جی ایم وامِق ۔۔۔ The....NATIONAL ANTHEM ....... Blessed be the Sacred Land ... Happy be the bounteous realm ... Symbal of high resdue ... Land of Pakistan ... Blessed be thou citadel of faith ... The Order of this sacred ... Is the might of the brotherhood of the people ... May the nation, the Country and the State ... Shine in glory everlasting ... Blessed be the goal of our ambition ... This Flag of the Crescent and the Star ... Leads the way to progress and perfection ... Interpreter of our past, glory of our present ... Inspiration of our future ... Symbol of Almighty`s protection ... انخاب ۔۔۔۔ جی ایم وامِق ۔۔۔۔ 10.08.2018 dated ..
۔ ایک سوال قابلِ غور ــ تحریر۔۔۔ غلام محمد وامِق ۔۔۔۔ اگر کوٸی حاکم اپنے کسی ماتحت یا ملازم کو کوٸی پیغام لکھ کر چند ایک اھم اور ضروری کام کرنے کی ہدایت کرتا ہے، مالک کا خط دیکھ کر وہ ملازم پھولا نہیں سماتا۔ اور خط کو چومتا ہے، آنکھوں سے لگاتا ہے، اسے خوبصورت فریم میں اپنے کمرے کی دیوار پر آویزاں کر دیتا ہے۔ اور رزانہ صبح سویرے اٹھ کر اس خط کو چومتا ہے۔۔۔ لیکن جب وقتِ مقررہ پر مالک اس شخص سے اپنے کام کے بارے میں جواب طلبی کرتا ہے تو وہ عرض کرتا ہے کہ حضور ! ۔۔۔ آپ نے جو کام کرنے کے لۓ کہا تھا وہ تو میں نے نہیں کیا، اور آپ کے خط کو تو میں نے پڑھا بھی نہیں، البتہ آپ کے خط کو میں نے بڑے احترام کے ساتھ مخمل کے کپڑے میں خوشبوٸیں لگا کر رکھا ہوا ہے۔۔۔ اور روزانہ اس کی زیارت بھی کرتا ہوں۔۔۔ یہ جواب سن کر اس کا مالک اس ملازم سے خوش ہوگا یا ناراض ۔۔۔۔؟ ؟ ؟ ۔۔۔۔ آپ سمجھ تو گۓ ہوں گے، کہ وہ حاکِم ہمارا رب ہے، اور وہ خط یا پیغام ہمارے پاس قرآنِ کریم ہے۔۔۔ وما علینا الی البلاغ۔۔۔۔۔ تحریر۔۔۔ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ــ
اسلام دِین ہے، مذہب نہیں :-- تحریر ــــ غلام محمد وامِق ــــ۔ یہ بات اکثر لوگوں کو انتہاٸی عجیب لگے گی کہ اسلام ، دین ہے مذہب نہیں۔ اسلام دینِ کامِل ہے، اسلام دینِ فطرت ہے۔ مذہب اور دین، یہ دونوں الفاظ عربی ہیں، لیکن قُرآنِ کریم میں اسلام کے لۓ کہیں پر بھی لفظ ”مذہب “ استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس لفظ ”دین “ جا بجا استعمال کیا گیا ہے۔مثال کے طور پر ” بیشک اللٰہ کے نزدیک دین، اسلام ہی ہے“ (القرآن) ...دیگر کٸی مقامات کے علاوہ سورة توبہ آیت نمبر 33 ، میں بھی ارشاد ہوا ہے ” وہ اللٰہ ہی ہے، جس نے اپنا رسول بھیجا ھدایت دیکر، اور دینِ حق کے ساتھ، تاکہ اسے (دینِ حق کو) غالب کردے، دُنیا کے تمام ادیان پر، چاہے یہ بات مشرکین کو بہت بری لگے۔“ ۔۔۔۔ یہاں پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مذہب کبھی بھی غالب نہیں کیا جاتا۔۔ مذہب کسی بھی عقیدے کی چند ظاہری رسومات کے مجموعہ کو کہا جاتا ہے۔ جن سے کسی بھی انسان کے عقیدے اور خیالات کا پتہ چلتا ہے۔ جبکہ ” دین “ مکمل ضابطہ حیات کو کہتے ہیں، چند ظاہری رسومات کو نہیں۔۔ چنانچہ دینِ اسلام کے غالب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ، اللٰہ کی فرمانبرداری ، اطاعت گزاری، اور لوگوں کی سلامتی، اور اخلاقیات پر مبنی ایک ایسا معاشرہ اور حکومت قاٸم کی جاۓ، جس میں کسی بھی انسان کو بلا تفریق مذہب، بھوک، افلاس، اور غربت وغیرہ کا خوف نہ ہو۔ اور تمام مذاہب والے اپنے عقاٸد پر، امن و سلامتی کے ساتھ، زندگی گزار سکیں۔ جس میں ہر انسان کے بنیادی حقوق یعنی روٹی، کپڑا، مکان، شادی اور بچوں کی کفالت کی ذمیداری حکومت یا اسٹیٹ پر ہوگی۔ ہر انسان کو مذہبی آزادی ہوگی، چنانچہ ہر شخص ہر قسم کے خوف سے بیفکر ہوکر، اسلامی حکومت کی عاٸد کردہ ذمیداریاں سرانجام دے گا ۔۔۔۔ نبی کریمﷺ ، نے اس طرح کا دین سب سے پہلے مدینہ میں قاٸم کر کے دکھایا۔ بعد ازاں مکہ میں، پھر خلفاۓ راشدین کے زمانے میں آدھی دنیا میں قاٸم کیا گیا۔ پھر کچھ عرصہ کے دورِ انتشار کے بعد دینِ اسلام کی نشاةِ ثانیہ، ولید بن عبدالملک، اور عمر بن عبدالعزیز کے دور میں بھی نظر آیا۔ چنانچہ قُرآنِ کریم کی تعلیمات کے مطابق نبیﷺ ، کی آمد کا مقصد اسی دینِ اسلام یعنی عدل کے نظام کو بار بار پوری دنیا پر غالب کرنا ہے۔۔۔۔ ناکہ صرف چند ظاہری مذہبی رسومات کو۔۔ وماعلینا الی البلاغ ــ (تحریر۔ جی ایم وامِق، محرابپور سندھ ). 09.06.2018.
درگاہ سخی جام ڈاتار نواب شاہ === 23.04.2018 کو نواب شاہ کے قریب قصبہ ” جام صاحب “ میں اتفاقیہ جانا ہوا۔ یہ علاقہ درگاہ ”سخی جام ڈاتار“ کی وجہ سے مشہور ہے۔ سنا ہے، آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور اس درگاہ سے بہت عقیدت رکھتی ہیں۔ سنا ہےکہ، یہاں پر کوٸی شخص دومنزلہ مکان یا عمارت نہیں بنواتا، یہاں کے رہنے والوں کا عقیدہ ہے کہ، اگر کسی نے دومنزلہ عمارت بناٸی تو عمارت گر جاۓ گی۔ یا پھر مالکِ مکان کو کسی بڑے صدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔۔ ویسے ہم نے خود بھی اس بات کا مشاہدہ کیا کہ اس علاقے میں ہمیں کوٸی بھی عمارت دومنزلہ نظر نہیں آٸی۔۔ سندھ کے ایک معتبر ادیب نے ہمیں ایک ناقابلِ یقین اور راز کی بات بتاٸی تھی ، ہم نے تو اس بات پر یقین نہیں کیا، آپ کی مرضی آپ یقین کریں یا نہ کریں۔ انہوں نے ہم سے انتہاٸی رازداری کے ساتھ کہا تھا کہ۔ ” اس خانقاہ کے اندر جو صاحبِ مزار ہیں وہ کوٸی مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ اس قبر میں سندھ کے مشہور بادشاہ راجہ ڈاہر ، مدفون ہیں ۔۔۔ (واللٰہ اعلم باالصواب) . تحریر ۔ جی ایم وامِق ۔۔۔۔
حضرت عمر فاروق رضی اللٰہ تعالیٰ عنہ۔ کے بارے میں عبرت انگیز واقعات جو مختلف روایات میں وارد ہوۓ ہیں۔ــ تحریر ــ غلام محمد وامِق ــــ ایک تو اُن کا مشہور قول ہے کہ۔ اگر خُدا کی طرف سے اعلان کردیا جاۓ کہ، صرف ایک شخص کے علاوہ باقی تمام لوگ جنّت میں جاٸیں گے۔ تو مجھے خوف ہوگا کہ خدانخواستہ وہ ایک شخص میں ہوں۔ اور اگر یہ اعلان کر دیا جاۓ کہ، صرف ایک شخص کے علاوہ باقی تمام لوگ جہنم میں ڈالے جاٸیں گے تو مجھے اپنے رب کی رحمت سے یہ امید ہوگی کہ وہ ایک شخص جو جہنم سے بچا لیا جاۓ گا، وہ میں ہوں۔۔۔۔۔ دوسرا واقعہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ۔ عیدالفطر کے روز چند صحابہ خلیفہ وقت حضرت عمر فاروق رضہ، سے ملنے ان کے گھر گۓ ۔ دروازے پر پہنچے تو اندر سے سسکیاں لینے اور رونے کی آوازیں سناٸی دیں۔ دستک دینے پر حضرت عمر، باہر تشریف لاۓ۔ آہ و زاری کی وجہ دریافت کرنے پر فرمایا کہ، رمضان المبارک کا مہینہ ختم ہوا ہے۔ ربّ ذوالجلال کے ہاں دو قسم کے لوگوں کی لسٹیں بنی ہوں گی۔۔ ایک جن کی اس ماہِ مبارک میں مغفرت فرمادی گٸی۔ اور دوسرے وہ بدنصیب جن کی مغفرت اس رمضان المبارک میں بھی نہیں ہوٸی۔۔۔میں یہ سوچ کر روتا ہوں کہ، مجھے نہیں معلوم کہ میرا نام کون سی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔؟ ۔۔۔۔۔ اگر حضرت عمر فاروق، جیسے جلیل القدر صحابی کا یہ حال ہے تو، میں بڑے بڑے دعوے کرنے والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ پھر ۔۔۔۔۔۔ ” تمہارا کیا بنے گا کالیا ؟ “ ۔۔۔۔۔ تحریر ۔۔۔ جی ایم وامِق ۔۔۔۔ محراب پور سندھ ۔۔۔۔
ایک تمثیلی حکایت اور امریکی سازش = (تحریرغلام محمد وامِق)... ہم نے ایک حکایت کچھ یوں سنی ہے کہ، ایک بار شیطان کےچیلوں نے شیطان سے پوچھا، کہ وہ کیسے دنیا میں فتنہ برپا کر دیتا ہے؟ ۔ یہ سن کر شیطان نے ایک حلواٸی کی پکتی ہوٸی کڑھاٸی سے شیرہ لے کر دکان کی دیوار پر لگادیا۔ میٹھا دیکھ کر مکھیاں اس پر آٸیں۔ مکھیوں کو دیکھ کر چھپکلی اس پر لپکی، چھپکلی کو پکڑنے کے لۓ ایک بلی نے اس پر چھلانگ لگادی ۔۔ بلی کو دیکھ کر قریب بیٹھا ہوا کتا غراتے ہوۓ بلی پر جھپٹا۔۔۔ چنانچہ اس کشمکش میں بلی چھپکلی سمیت دودھ کے پکتے ہوۓ کڑھاۓ میں جا پڑی ۔ گرم گرم دودھ کڑھاٸی سے نکل کر قریب بیٹھے ہوۓ گاہکوں پر جا پڑا۔۔ اور ان عوامل کی وجہ سے وہاں پر بدنظمی اور بھگدڑ مچ گٸی۔ بعد ازاں ایک دوسرے کو گالم گلوچ کے بعد باقاٸدہ مارپیٹ ہوگٸی۔ بات تھانہ کچہری تک پہنچ گٸی جس سے لوگوں کے درمیان دشمنیاں پیدا ہوگٸیں۔۔۔۔۔۔ شیطان کے چیلے اپنے استاد کی حکمتِ عملی دیکھ کر عش عش کر اٹھے۔۔۔ تو جناب دنیا کا ہر اچھا یا برا کام حکمت عملی کی وجہ سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔۔۔ اسی طرح ہمارا امریکہ بہادر بھی اور کچھ کرے یا نہ کرے لیکن عدل کے نظام System کو ضرور بگاڑ دیتا ہے۔ پھر اسے مزید کچھ کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور اس پر ہمارے بھولے بھالے علما سازش کو نہ سمجھتے ہوۓ فرمادیتے ہیں کہ یہ اپنی بداعمالیوں کی سزا ہے۔۔۔۔ مزید وہ اپنی دانش بگھارتے ہوۓ کہتے ہیں کہ اپنی غلطیوں کا الزام امریکہ پر کیوں دھرتے ہو۔؟ ۔۔۔ کیا امریکہ تمہیں کہتا ہے کہ ملاوٹ کرو۔۔ دھوکا دو ۔۔۔ یا جھوٹ بولو وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ لیکن وہ نہیں جانتے کہ سارا عمل موجود سسٹم کے ذریعے سے خودبخود ہوتا رہتا ہے۔۔ صرف سسٹم کو بگاڑنے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ اور اس کام میں امریکہ دنیا بھر میں ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ جسے امریکہ کی شیطانی ٹیم سی آٸی اے بڑے احسن طریقے سے سرانجام دیتی رہتی ہے۔۔۔ مصر کے مرحوم صدر جمال عبدالناصر کیا خوب کہا کرتے تھے کہ۔” اگر دریا کی تہہ میں دو مچھلیاں بھی آپس میں لڑ رہی ہوں تو یقین جان لو کہ وہاں پر بھی امریکی سازش کارفرما ہے ۔۔۔۔۔ ایک مشہور حدیث ہے کہ ” جس کو حکمت عطا کردی گٸی۔ اسے گویا خیرِ کثیر عطا کردیا گیا “ ۔۔۔۔ اسی لۓ اسلام میں حکمت کا درجہ علم سے بڑھ کر ہے۔۔۔ وما علینا الی البلاغ ۔۔۔۔۔ تحریر۔ـ غلام محمد وامق، محرابپور سندھ
غیر مسلم اور کافر میں فرق :--- (تحریرــ غلام محمد وامِق) ـــــ قرآنِ کریم میں تدبّر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیرمسلم اور کافر کے مفہوم میں بہت فرق ہے،جوکہ درج ذیل ہے ۔۔۔۔ 1.غیرمسلم اسے کہا جاۓ گا جو اسلام کے بنیادی عقاٸد پر یقین نہیں رکھتا۔ٕ اور اسلام کو صحیح مذہب یا صحیح دین نہیں سمجھتا۔ ان میں عیساٸی، یہودی، بدھ مت، ہندو، سکھ، اور دیگر صابعین مذاہب والے شامل ہیں۔یہ لوگ پرامن طور پر اپنے مذاہب پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔اور کوٸی شرانگیزی نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو قرآن میں ذمی قرار دیا گیا ہے۔ ایسے تمام افراد سے جزیہ وصول کرکے ان کی حفاظت کرنا اسلامی حکومت پر فرض ہے۔۔۔ 2. کافر ہر اس شخص کو کہا گیا ہے جو اسلامی نظام یعنی نظامِ عدل کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ مسلمانوں کے لٸے مشکلات پیدا کرتا ہے، اسلام کے نظریہ اور اسلام کے غلبہ کا عملی طور پر علی الاعلان اور درپردہ ہر ممکن طریقے سے مخالفت کرتا ہے۔۔ اور اپنے ہر عمل اور رویّے سے اسلام مخالف کاررواٸیاں کرتا رہتا ہے۔ اسلام کے فروغ اور اسلام کی ترقی کو روکنے میں ممد و معاون ہوتا ہے۔۔۔ اسلام کی روح اور اس کے غلبے کو مٹانے کے لٸے سرگرم رہتا ہے۔۔۔ چنانچہ ایسے کافروں کے خلاف ہی اسلام نے علی الاعلان جہاد کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایسے ظالم لوگ قیامت تک اپنی ناپاک سازشیں کرتے رہیں گے۔ لہٰذا قیامت تک ایسے تمام ظالموں کے خلاف جہاد اور قتال مسلمانوں پر فرض کر دیا گیا ہے ۔۔۔ ایسے ظالموں میں غیرمسلموں کے ساتھ ساتھ نام نہاد عیاش و دنیا پرست مسلمان جنہیں منافق بھی کہا جاتا ہے ، شامل ہوتے ہیں۔ اور نظام عدل کے قیام یعنی خالص اللٰہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے وقت ایسے منافقین کو بھی راستے سے ہٹانا ضروری ہوتا ہے ـــ تحریرــ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ــ
پاکستان میں لکھاریوں کی درجہ بندی:---- (معزرت کے ساتھ) === تحریر غلام محمد وامِق ـــ 1 .سرکاری اُدَبا اور شُعرا = اس درجہ میں ایسے لکھاری شامل ہوتے ہیں جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فاٸز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کی ادبی صلاحیت عام طور پر ان کا بڑا سرکاری افسر ہونا ہی ہوتا ہے۔یعنی ان کا نام ہی ادب کی شناخت کے لۓ کافی ہوتا ہے۔ اس لۓ عام ادیب ان کے نام سے ہی متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے ادیب عام طور پر نصابی کتابیں لکھنے کے کام آتے ہیں۔۔ 2. نیم سرکاری لکھاری = اس فہرست میں سرکار کے چہیتے اور من پسند دوست اور اقربا شامِل ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ علمی قابلیت ہوتی ہے، اسی لۓ ایسے قلمکار خاص طور پر سربراہِ مملکت اور وزرا ، و سیاستدانوں کی تقاریر وغیرہ لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے ادیب عام طور پر ٹی وی ، اور سرکاری تقریبات میں اکثر دکھاٸی دیتے ہیں۔ 3. خانقاہی ادیب = ان لکھاریوں میں وہ معززین اور مرشدین شامل ہوتے ہیں، جن کے خدمتگاروں اور مریدین کا داٸرہ وسیع ہوتا ہے۔اور ان کا اثر خیر، سرکار پر بھی سایہ فگن رہتا ہے۔ ایسے اُدَبا اور شُعرا بھی ملک کی وفاقی سطح کی تقریبات میں خصوصی طور پر مدعو کۓ جاتے ہیں۔ اور ایسے ادیبوں کو باقاٸدہ س رکاری وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا تینوں اقسام کے ادیبوں کو وقفے وقفے سے ایوارڈ اور دیگر لوازمات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ 4. غیر سرکاری ادبی تنظیموں کے ارکان = ایسی تنظیمیں اور ان سے وابستہ شاعر چندوں پر اپنا گزارا کرتے ہیں۔ اور مختلف ناموں اور حیلے بہانوں سے یہ سرکاری اور غیر سرکاری عنایات کے منتظر رہتے ہیں۔ چنانچہ اس قبیل کے شاعر اہم سرکاری عہدیداروں اور سرمایہ داروں کے سامنے رطب اللسان رہنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی ادبی تقریبات میں عام طور پر مہمانِ خصوصی کسی بڑے سرکاری افسر یا کسی بڑے مالدار شخص کو ہی مقرر کیا جاتا ہے۔۔ 5. فاقہ مست ادبا اور شعرا = یہ ایسے فطری تخلیق کار ہوتے ہیں جو اپنی سچاٸی اور سادگی کے باعث اپنے آپ میں ہی مگن رہتے ہیں، اور بقولِ اقبال۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کی کوشش میں رہتے ہیں، لیکن انہیں اپنے من میں سواۓ فاقوں کے اور سماجی مساٸل کے اور کچھ نہیں ملتا۔ چنانچہ عمر بھر بوسیدہ کاغذ کے ٹکڑوں پر ادب پارے لکھ لکھ کر سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور اپنی ہستی کو مٹا کر کوٸی مرتبہ ڈھونڈنے کی کوشش میں دنیا والوں کی نظروں میں خاک در خاک ہوتے رہتے ہیں۔۔چنانچہ اپنے حال کو جلا کر مستقبل کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔۔۔ ایسے لوگوں میں آپ کو صرف ساغر صدیقی ہی نہیں، اور بھی بہت سے نامراد شعرا مل سکتے ہیں۔۔ لیکن دیکھے کون ؟ بقولِ غالب۔ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگٸیں ۔۔۔۔ ایسے لوگوں کی پذیراٸی بعد از مرگ کی جاتی ہے۔۔ ۔اور بعد از مرگ ہی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی عظمت کا پتہ چلایا جاتا ہے۔ چنانچہ شہر کی فلاحی اور سماجی تنظیمیں، ان کی ادبی خدمات پر ، ان کی عظیم تخلیقات کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کی محرومیوں پر بڑے ذوق و شوق اور جزبے کے ساتھ روشنی ڈالتی ہیں۔ اور کچھ نام نہاد سماجی ورکر ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کے لۓ کچھ وعدے وعید کرتے ہیں۔ تاکہ اپنے آپ کو بڑا ادب پرور ثابت کیا جا سکے۔۔۔۔ اور بعد ازاں سب بھول کر پھر کسی نٸے مرنے والے غریب ادیب کی پزیراٸی کے لۓ نیا چندہ اکٹھا کرنے کی مہم چلاٸی جاتی ہے۔۔۔ تحریر ــ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
انگریزی روزنامہ ” دی نیوز “ کے آفس میں۔ داٸیں سے دی نیوز کے کراٸم رپورٹر و معروف افسانہ نگار ، زیب اذکار حسین، جی ایم وامق، جیو نیوز کے جیومینٹری ہیڈ، جناب نصرت امین صاحب، اور افسانہ نگار شاہد الیاس شامی ۔۔ مورخہ 15 فروری 2018 ...
مگر ہم مل نہ پائیں گے ـ نظم ــ غلام محمد وامِق ... کہیں ایسا نہ ہو ہمدم، کہ اب کے جو بچھڑیں ہم ..
۔۔۔۔۔۔۔ مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔۔۔۔۔۔ نظم ۔
غلام محمد وامق
کہیں ایسا نہ ہو ہمدم کہ دیکھو اب بچھڑ کے ہم ۔
رہیں تیری محبت کا لئے دل میں ہمیشہ غم ۔
کہیں دنیا میں کھو جائیں یوں ہی بے نام ہو جائیں ۔
کہ ہم جاں سے گزر جائیں، کہیں گمنام ہو جائیں ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
ابھی تو نوجوانی کا ، مہکتا گلستاں ہو تم ۔
ابھی تو چاندنی راتوں میں جیسے کہکشاں ہو تم ۔
کہ جب یہ پھول گلشن کے تیرے کمہلا چکے ہوں گے ۔
تمہارے چاہنے والے تمہیں ٹھکرا چکے ہوں گے ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
ابھی جو تیری زلفوں کی سیاہی پھیل جاتی ہے ۔
گھٹائیں جھومتی ہیں اور ہوا بھی گیت گاتی ہے ۔
کبھی اے جانِ من ایسا زمانہ بھی تو آئے گا ۔
گھٹائیں پھٹ پڑیں گی اور سورج جگمگائے گا ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے
یہ تیری خوبرو آنکھیں ابھی مخمور رہتی ہیں ۔
کہ اپنے چاہنے والوں پہ یہ مغرور رہتی ہیں ۔
کسی دن تیری یہ آنکھیں اگر بے نور ہو جائیں ۔
کسی کو دیکھنا چاہیں مگر مجبور ہو جائیں ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
تمہارے اِن لبوں کی نازکی کلیوں کو شرمائے ۔
انہیں بھونرا، سمجھ کے پھول اب ہر ایک منڈلائے
خدا نہ خواستہ تیرا چمن پُر خار ہو جائے ۔
تیرا دنیا میں جب جینا بڑا دشوار ہو جائے ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
یہ تیرا جسم تیرا حسن ، یہ رنگین پیراہن ۔
مہکتا ہو نسیمِ صبح سے جیسے کوئی گلشن ۔
ہمیشہ پھول کوئی بھی بہاروں میں نہیں رہتا ۔
کوئی کتنا ہی پیارا ہو ، پیاروں میں نہیں رہتا ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
ابھی بھی وقت ہے جاناں کہ تم پھر لوٹ کر آؤ ۔
بہت تڑپا ہوں تیرے واسطے بس اب نہ تڑپاؤ ۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر ہماری یاد آجائے
کہیں لب پر تمہارے بھی کبھی فریاد آجائے ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
پھرو گے ڈھونڈتے وامِق کو تم دشت و بیاباں میں ۔
کبھی غیروں کی چوکھٹ پر کبھی اپنے گریباں میں ۔
کبھی آواز دو گے اور کبھی آنسو بہاؤ گے ۔
تڑپتے یوں ہی دنیا سے کبھی تو تم بھی جاؤ گے ۔
تو اس دم ڈھونڈتے پھرنا مگر ہم مل نہ پائیں گے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ۔
بحر ۔ ہزج مثمن سالم ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔
جون سال 1984ء میں کہی گئی نظم ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
Powered by Blogger.