بھائی ڈاکٹر محمد شفیع طور کی یاد میں، پہلی برسی پر ۔
نظم
تعمیر کیا اُس نے ہے گھر دور بہت دور
آباد کیا اس نے نگر دور بہت دور ۔۔۔
اِس دنیا میں ہوتا تو اُسے ڈھونڈ ہی لیتے ۔
دنیا سے مگر اُس کا ہے گھر دور بہت دور ۔
ممکن ہی نہیں پہنچے وہاں فکر و نظر بھی ۔
یاروں نے بسائے ہیں نگر دور بہت دور ۔
جس آہٹِ مانوس کے عادی تھے میرے گوش ۔
آہٹ سی وہ اب بھی ہے مگر دور بہت دور ۔
بے چین ہیں پھر راہوں میں بچھنے کو نگاہیں ۔
کچھ ڈھونڈتی رہتی ہے نظر دور بہت دور ۔
ہم عمر تھا، ہم راز تھا، میرا شفی بھائی ۔
( ہم عمر تھا ہم راز تھا ہم نام تھا اعوان )
وہ دل میں ہے نظروں سے مگر دور بہت دور ۔
اب کِس کے لئے بھٹکیں گی ہر سُو یہ نگاہیں ۔
وامِق وہ گیا ہم سے مگر دور بہت دور ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل ۔
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔
بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامق، محراب پور سندھ ۔
یکم مارچ سال 1988ء کو، ہمارے دوست ڈاکٹر غلام محمد اعوان کے انتقال پر کہی گئی نظم ۔
وضاحت ۔ دوسری بار مرحوم بھائی ڈاکٹر محمد شفیع طور کی پہلی برسی پر ذرا ترمیم کر کے پیش کی گئی ۔
دونوں مصرعوں کے ساتھ یہاں پر پیش کی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیاد ـ پیارے دوست، ڈاکٹر غلام محمد اعوان (مرحوم)
جن کا انتقال، کانگووائرس بیماری کے باعث، مورخہ 24 فروری سال 1988ء بروز بدھ، کراچی میں ہوا تھا، اور تدفین اگلے روز ان کے آبائی گاؤں گوٹھ عبدالرحیم اعوان، لاکھاروڈ میں کی گئی ـ
یہ نظم ان کی یاد میں یکم مارچ 1988ء کو کہی گئی، اور اپنی کتاب " نقشِ وفا " میں شامل کی گئی ـ