جیبھ کاٹی ہونٹ سیئے کردیا خاموش ہے ۔ دِل کے جذبے کون مارے کس میں اتنا جوش ہے ؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔ بحر ۔ رمل مثمن محذوف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
=== ایک شعر ===
جیبھ کاٹی ہونٹ سیئے کردیا خاموش ہے ۔
دِل کے جذبے کون مارے کس میں اتنا جوش ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔
بحر ۔ رمل مثمن محذوف ۔
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام کا اصل مشن۔۔ (تحریر ـ غلام محمد وامق). جس طرح کسی بھی فوج میں بھرتی ہونے والے ہر شخص کے لئے پریڈ کرنا اور ڈسپلن قائم رکھنا از بس ضروری ہے، (حالانکہ فوج کا اصل کام جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے، پریڈ کرنا نہیں)... بلکل اسی طرح اسلام میں داخل ہونے والے ہر ایک شخص کے لئے بھی ارکانِ اسلام کی پابندی لازمی ہے۔ جس طرح پریڈ اور ڈسپلن قائم نہ رکھنے والا شخص فوج میں نہیں رہ سکتا، اسی طرح ارکانِ اسلام کی پابندی نہ کرنے والا شخص بھی اسلام میں نہیں رہ سکتا۔ جس طرح پریڈ اور ڈسپلن، فوج کے اصل مشن کے لئے تیاری اور تربیت کی حیثیت رکھتے ہیں بلکل اسی طرح ارکانِ اسلام کی پابندی بھی اسلام کے اصل مشن کے لئے تربیت اور تیاری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور قرآن کے مطابق اسلام کا اصل مشن اور ٹارگٹ ہے، اسلام کا پوری دنیا پر غلبہ ۔۔۔ یا کم از کم نظامِ ظلم کے خلاف انقلاب، یعنی نظامِ ظلم کو ختم کرکے نظامِ عدل کا قیام۔۔۔ تحریر- غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ۔
چند انسانی مدارج === تحریر ــ غلام محمد وامق ـــ انسان عدم سے وجود میں آتا ہے تو ' بچہ " کہلاتا ہےـ پھر." کاکا." کہلاتا ہے ـ کچھ بڑا ہوتا ہے تو بعض اوقات " چھوٹا " پھر " چھوٹا بھائی "، کہلاتا ہے،ـــ پھر " بڑا بھائی " اور " دوست " بھی کہلاتا ہے، رفتہ رفتہ اسے. " چاچا " کہا جاتا ہے ـ پھر " تایا " کہلاتا ہے، بعض لوگ " بابا جی " اور "بڑےمیاں" بھی کہتے ہیں، بالآخر اسے بزرگوں میں شامل کرلیا جاتا ہے ـ پھر کسی بیماری میں مبتلا ہوکر " بوڑھا مریض " کہلاتا ہے ـ پھر اسے " قریب المرگ " کہا جاتا ہے ــ اور انجام کار موت کے بعد اسے " میّت " کے نام سے پکارا جاتا ہے ـ بعد ازاں " میت " کو بھی " قبر " میں تبدیل کر دیا جاتا ہے ــ ایک طویل مدت گزرنے کے بعد حوادثِ زمانہ، اور زمانے کے انقلابات سے نشانِ قبر بھی ختم ہو جاتا ہے، پھر یہ ماضی اور قصہء پارینہ بن جاتا ہے، اور آخرکار پھر وجود سے عدم کا سفر شروع ہو جاتا ہے ــــــــ (تحریر - غلام محمد وامِق محرابپور سندھ ، مورخہ ، 17 ، اکتوبر ـ 2017 ء ...
فتووں کی مختصر کہانی۔۔۔ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـــ 1. پہلا فتویٰ کفر کا شاید سقراط کے خلاف دیا گیا تھا، جسے بعد میں پوری دنیا نے مفکرِ اعظم تسلیم کیا ۔ 2. سر سید احمد خان پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ۔مگر اب سر سید کو درسی کتب میں، جہالت سے نجات دہندہ کے طور پر پڑھایا جاتا ہے ۔ 3. قائد اعظم پر بھی کفر کا فتویٰ عائد کیا گیا، اور مفتیوں کی جانب سے انہیں کافر اعظم کہا گیا، لیکن اب وہی علماء انہیں قائد اعظم تسلیم کرتے ہیں ۔ 4. شاعرِ مشرق علامہ اقبال پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا، مگر اب اکثر علماء ان کے اشعار کو اپنی تقاریر میں زیبِ داستان کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔اور اقبال کو عالم اسلام کا مفکر تسلیم کرتے ہیں ۔ 5. مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا، اور انہیں سزائے موت کا حکم بھی سنایا گیا تھا، مگر اب انہی کی جماعت پاکستان کی اہم اسلامی جماعت تسلیم کی جاتی ہے، جبکہ کئی مدارس میں مودودی صاحب کے افکار کا درس دیا جاتا ہے ۔۔۔ 6. سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا تھا، جبکہ ان کی ہی کاوشوں سے پاکستان کا پہلا اسلامی آئین ترتیب دیا گیا ۔اور اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی گئی ۔۔۔۔ 7. فیض احمد فیض، پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا، اور اب وہی فتویٰ لگانے والے اپنے جلسوں کی ابتدا، فیض صاحب کے اشعار سے کرتے ہیں ۔۔ 8. تصاویر (فوٹو) بنوانے والوں پر بھی کفر کا فتویٰ جاری کیا گیا، لیکن اب کسی بھی عالم کا دنیا بھر میں تصویر بنوائے بغیر کام نہیں چلتا۔۔۔ 9. لاؤڈ اسپیکر ایجاد ہوا تو، اس کے استعمال پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیا گیا، مگر اب کسی بھی مولوی کا لاؤڈ اسپیکر کے بغیر گزارا نہیں ۔۔۔۔۔ 10. ٹیلیویژن دیکھنے پر عذابِ قبر کا فتویٰ صادر کیا گیا، جبکہ آج کل بہت سے علماء کے اپنے ٹی وی چینلز ہیں، اور علماء میڈیا پر آنا فخر سمجھتے ہیں ۔ 11. سینما دیکھنے پر بھی گناہوں کا فتویٰ ہے، لیکن آج اکثر علماء کی جیبوں میں سینما (ٹچ موبائل) موجود ہوتے ہیں ۔ کچھ دیگر قابلِ ذکر فتوے اس وقت ذہن میں نہیں ہیں، لیکن علاوہ ازیں بیشمار فتاوٰی ابھی ایسے موجود ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ کالعدم ہوتے چلے جائیں گے ۔۔۔ بقولِ شاعر ۔۔ افسوس بیشمار سخن ہائے گفتنی ۔ خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریرــ غلام محمد وامق ، محرابپور ۔سندھ ــ
سلام کرنے کے آداب === (تحریر - غلام محمد وامق ) ــ سلام کرنے کے بیشمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔ ایک حدیث کے مطابق ایک صحابیء رسول صرف اس لئے بکثرت بازار جایا کرتے تھے کہ بازار میں سلام کرنے کے زیادہ مواقع ملتے ہیں ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ اپنی انا کی وجہ سے سلام کرنے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں ۔ لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں سلام کرنے کے مسنون احکامات پر ایک نظر ڈال لیں ۔۔۔ 1. کم عمر اپنے سے بڑی عمر والے کو پہلے سلام کرے۔ 2. سواری والا، پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔ 3. پیدل چلنے والا، کھڑے اور بیٹھے ہوئے اشخاص کو سلام کرے۔ 4. کھڑا ہوا شخص، بیٹھے ہوئے یا لیٹے ہوئے شخص کو سلام کرے۔ 5. آنے والا، پہلے سے موجود شخص کو سلام کرے۔ 6. مہمان بن کر آنے والا، میزبان کو پہلے سلام کرے۔ 7. گھر آنے والا، گھر میں موجود اشخاص کو سلام کرے۔ 8. چھوٹا وفد (گروہ)، بڑے وفد کو پہلے سلام کرے۔ 9. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اکثر راستہ میں ملنے والے بچوں کو بھی پہلے خود سلام کرتے تھے ۔ مندرجہ بالا نکات سے معلوم ہوا کہ، کسی امیر شخص کو، کسی عالم شخص کو، یا کسی بڑے عہدے پر فائز شخص کو پہلے سلام کرنا کوئی شرعی حکم نہیں ہے ۔۔۔ البتہ سلام میں پہل کرنے والا افضل ضرور ہے، اور سلام میں پہل کرنے والے پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے ۔۔۔ تحریر -- غلام محمد وامِق،محرابپورسندھ ـــ ۔03153533437
حق کے متلاشی کہاں جائیں؟ ( تحریرـ غلام محمد وامق ) ــ دنیائے اسلام کی عجیب صورتحال ہے، موجودہ دور میں اسلام کے ان گنت چھوٹے چھوٹے گروہوں کے علاوہ، مزید پانچ بڑی اور اہم فقہیں یہ ہیں، 1.فقہ حنفی، 2.فقہ حنبلی، 3. فقہ شافعی، 4. فقہ مالکی، 5. فقہ جعفریہ،،، ان تمام مسالک کے ماننے والے اپنی اپنی فقہ کے مطابق ہی اسلام کے پیروکار ہیں، چنانچہ اپنی اپنی فقہ کے مطابق ہی اپنی اپنی منتخب احادیث پر عمل پیرا ہیں، جبکہ ایک دوسرا فرقہ ان تمام فقہوں کا منکر ہے، اور بجائے کسی فقہ کے وہ صرف قرآن اور احادیث کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں، اور اپنے آپ کو غیر مقلد یا "اہلِ حدیث" کہلواتے ہیں، مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک اور فرقہ ہے جو اپنے آپ کو "اہلِ قُرآن" کہلاتا ہے، ان کا موقف ہے کہ تمام احادیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے تقریباً دو سو سال کے بعد مرتب کی گئی ہیں، اور ان کے لکھنے والے سب کے سب عجمی (ایرانی) ہیں۔۔ لہٰذا ان کی صحت کسی بھی طرح صحیح نہیں سمجھی جا سکتی، اس لئے وہ تقریباً تمام احادیث کا انکار کرتے ہیں، اور صرف قرآن مجید کو ہی حق تسلیم کرتے ہیں، اب مزید ستم بالائے ستم یہ کہ مسلمانوں کا ہی ایک چھوٹا سا گروہ اپنے آپ کو "نیچرلسٹ" کہلواتا ہے، ان کے مطابق قرآن مجید میں کوئی بھی حکم تفصیل سے نہیں بتایا گیا ہے، لہٰذا وہ قرآنی آیات کی اپنے طور پر تفسیر کرتے ہیں، اور ظاہر پر یقین رکھتے ہیں،چنانچہ روحانیت اور ہر طرح کی کرامت اور معجزے کا انکار کرتے ہیں،،، اور بعد ازاں ان تمام افتراق وانتشار کے نتیجے میں ایک اور گروہ وجود میں آتا ہے، جو اپنے آپ کو "دہریہ " کہلانے میں فخر محسوس کرتا ہے ،،، اور وہ لوگ رسول، تو کیا خدا پر بھی ایمان نہیں رکھتے۔ عام زبان میں انہیں ملحد کہا جاتا ہے ۔ اناللہ واناالیہ راجعون ۔(تحریر- غلام محمد وامق)...
انڈونیشیا کا ایک قبیلہ جو کہ اپنے تہواروں پر اپنے مرے ہوۓ عزیزوں کو قبروں سے نکال کر ان کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں۔
سندھ کی لوک داستان " لیلاں چنیسر " ــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ۔ـــ سندھ کے قدیم شہر دیبل پر سومرو خاندان کا حکمران "چنیسر " برسرِاقتدار تھا، اس کی ملکہ " لِیلاں " بہت خوبصورت تھی، دونوں کی والہانہ محبت کے چرچے زبانِ زدِ عام تھے، انہی دنوں سندھ کے ایک دوسرے علاقے میں "راناکھنگھار" کی بیٹی " کؤنروُ" کو کسی بات پر اس کی ایک سہیلی نے طعنہ دیا کہ تو کون سا چنیسر کی ملکہ بنے گی؟ ــ یہ طعنہ اسے برداشت نہ ہوسکا، لہٰذا اس نے چنیسر کو حاصل کرنے کا پروگرام ترتیب دے لیا، وہ بھیس بدل کر اپنی والدہ کے ساتھ دیبل پہنچی، محل تک رسائی حاصل کی، اور ایک انتہائی قیمتی نولکھا ھار " لیلاں " کو دکھایا، لیلاں وہ ھار حاصل کرنے کے لئے بیتاب ہوگئی، اس کی قیمت پوچھی تو " کؤنرو " نے انتہائی چالبازی سے کہا کہ اس ھار کی قیمت صرف ایک رات، چنیسر کے ساتھ ہے ۔ــــ لیلاں، کچھ پس و پیش کے بعد آمادہ ہوگئی، اس نے چنیسر کو رات کافی شراب پلائی، اور جب وہ سوگیا تو، کؤنرو کو اس کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا،،، علی الصبح جب چنیسر کا نشہ اترا، ـــــــــــ اور اس نے کؤنرو کو اپنے بستر پر دیکھا تو حیران رہ گیا، جب اسے ساری صورتحال کا علم ہوا تو اسے بہت غصہ آیا، اور کہا کہ لیلاں کی نظر میں اس ھار کی قیمت مجھ سے زیادہ ہے، جو اس نے مجھے ھار کے بدلے فروخت کر دیا،،، چنیسر نے لیلاں کو طلاق دے دی، اور کؤنرو کو اپنے پاس رکھ لیا کہ اس نے اپنا قیمتی ھار قربان کر دیا. اس کے ساتھ صرف ایک رات کے بدلے۔۔۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اس داستان کو بیان کرکے یہ سبق دیا ہے کہ، ہمیں اپنے اصل اور حقیقی محبوب(اللہ تعالیٰ) کو دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز کے بدلے بھی نہیں چھوڑنا چاہئے ۔۔۔ یہ کہانی تھوڑی سی آگے بھی ہے، (جوکہ غیر مستند ہے) ، کہ کسی شادی کی تقریب میں لیلاں اور چنیسر کا آمنا سامنا ہوا، تو دونوں نے فرطِ جذبات سے اسی وقت دم دے دیا،،، اور دونوں کو اکٹھا ایک ہی چتا میں جلا دیا گیا ۔ تحریر ۔۔۔۔۔ غلامِ محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
ولا تفرقو ...اور فرقے مت بنو،،، (القرآن) === تحریر ـ غلام محمد وامِق۔ـــ۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جب بنی اسرائیل کے بجائے، بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے تو، یہودیوں کی اس امید پر پانی پھر گیا کہ آخری نبی بھی دیگر انبیاء کی طرح بنی اسرائیل میں ہی پیدا ہوگا، اور تب سے یہودی اور عیسائی مشنریز مشترکہ طور پر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بیخ کنی کے درپے ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی، بالآخر اسلام کا پودا تناور درخت بن گیا، اور پوری دنیا اِس کی چھاؤں محسوس کرنے لگی، یہودی اور عیسائیوں نے اپنی مشہور پالیسی، " لڑاؤ اور حکومت کرو " پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو کمزور یا ختم کرنے کے لئے مسلمانوں میں فرقہ بندی کا بیج بونا شروع کر دیا، جس میں وہ سو فیصد سے بھی بڑھ کر کامیاب ہورہے ہیں، اور مسلمانوں کا حال بقولِ اقبال یہ ہے کہ، وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا ۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ۔ اس سانحہ کا اجمالی احوال کچھ یوں ہے کہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے فوراً بعد ہی یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوششیں تیز کردیں، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سختی سے ان سازشوں کو کچلا، اور عہدِ فاروقی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوربین نگاہوں اور حسنِ انتظام کے باعث شرپسند ناکام ہوتے رہے ۔۔۔ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں سازشیوں نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئے، چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، کے پُر آشوب دور میں سازشیں مستحکم ہوگئیں، اور سب سےپہلے " خوارج " کے نام سے ایک فرقہ وجود میں آیا ـــ سازشیں بڑھیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کربلا میں شہید کئے گئے تو نتیجۃً " شیعانِ علی " کے نام سے دوسرا فرقہ وجود میں آگیا ـــ سازشیں بڑھتی رہیں، فرقے بنتےرہے، فرقہ معتزلہ، وجود میں آیا، بعدازاں قرامطہ یا باطنی بنے، اسماعیلی بنے، ان بڑے فرقوں کے علاوہ بیشمار نئے چھوٹے چھوٹے فرقے بھی بنتے رہے، ۔۔۔۔ فقہ کے حوالے سے جو معروف فرقے ہیں، اُن میں فقہ جعفریہ،، فقہ حنفی،، فقہ حنبلی،، فقہ مالکی،، اور فقہ شافعی،،، قابلِ ذکر ہیں ۔ اور مزید دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ، پیرانِ پیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ، نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب " غُنیۃ الطالبین " ، میں، 72، گُمراہ فرقوں کی فہرست دی ہے، جس میں فقہ حنفی کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی کے دور میں سینکڑوں نئے فتنے اور فرقے پیدا ہوئے، جن میں سے اکثر کو ایوبی نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا، لیکن پھر بھی یہ غالب امکان ہے کہ اُن میں سے چند فتنے ضرور بچ گئے ہوں گے ۔۔ بہرحال بعد ازاں عربستان میں عبدالوہاب نجدی کی وجہ سے، " وہابی فرقہ " وجود میں آیا۔ اور جب ہندوستان میں اسلام کا اقتدار اور غلبہ ہوا تو یہاں پر بھی سازشیں شروع ہوئیں، اور دو مزید فرقے سُنی اور دیوبندی، کے نام سے ظہور میں آئے۔۔ بعد ازاں سامراج کی کارستانیوں سے قادیانی فرقہ وجود میں آیا۔۔ پھر اِسی پر بس نہیں ہوئی، سُنیوں میں مزید چھوٹے چھوٹے فرقے بنے، جبکہ دیوبندیوں میں بھی " مماتی" اور " حیاتی " نام سے مزید دو فرقے بن گئے ۔ صرف مذہبی فرقے بنانے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اِن فرقوں کو باہم متصادم بھی کر دیا گیا ۔ پھر عربستان کے ٹکڑے کئے گئے، دیگر مسلم ممالک کے ٹکڑے کئے گئے، مسلم ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے ۔ پھر مزید پاکستان کے ٹکڑے کئے گئے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ فقط عقیدوں کو ہی لڑانے پر بات ختم نہیں کی گئی، بلکہ قومیتوں کو بھی لڑایا گیا، لسانی بنیادوں پر بھی مسلمانوں کو لڑایا گیا، اور لڑایا جا رہا ہے ۔ خدا کے لئے سمجھو دوستو سمجھو۔...۔۔ وما علینا الی البلاغ ۔۔۔ نوٹ:--- یہ تاریخی حقائق بیان کئے گئے ہیں، کسی کی بھی حمایت یا مخالفت کرنا مقصود نہیں ہے ۔ تحریر- غلام محمد وامِق،محرابپور سندھ
خُدا را سمجھئے، غلبۂ اسلام === تحریر ــ غلام محمد وامِق ــ۔ غلبہء اسلام کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ، لوگوں کو بالجبر مسلمان بنایا جائے، بلکہ ملک کا نظامِ معیشت اور ملک کے سماجی مسائل کو اسلام کے عادلانہ نظام کے مطابق چلانا ہی دراصل غلبہء اسلام ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ اسلام میں جہاد، غیر مسلموں کے خلاف ہرگز نہیں ہے،،، غیر مسلموں کو تو اسلام تحفظ فراہم کرتا ہے، اُن سے جزیہ لیکر انہیں ذمی قرار دیتا ہے، اور ان کی ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ جبکہ جہاد فی سبیل اللہ صرف ظالم اور سرکش لوگوں کے خلاف کیا جاتا ہے، وہ لوگ جو کہ اسلام کے عادلانہ نظام کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں، پھر بھلے ان لوگوں کا کوئی بھی عقیدہ ہو۔ مزید یہ کہ تبلیغ سے کبھی اسلام نہیں پھیلتا، اسلام ہمیشہ مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور کردار سے پھیلتا ہے ۔۔۔ البتہ تبلیغ سے اصلاح ضرور ہوسکتی ہے، غلبہء اسلام نہیں ۔۔۔(تاریخ گواہ ہے)....... تحریر ۔۔ غلام محمد وامِق محرابپور سندھ ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانۂ خلافت کے عادلانہ نظامِ حکومت کے حیرت انگیز واقعات ــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ــــ حضرت عمر بن عبدالعزیز، مسلمانوں کے اموی خلیفہ تھے. خلیفہ بننے سے قبل آپ بڑی شاہانہ زندگی گزارتے تھے. دن میں کئی بار اپنی پوشاک تبدیل کرتے تھے۔ خلیفہ بننے کے بعد آپ میں حیرت انگیز تبدیلی آئی. اور آپ نے حد درجہ سادگی اختیار کرلی. یہاں تک کہ انہیں عمر فاروق ثانی کہا جانے لگا. ایک بار آپ کے پاس ایک سرکاری مہمان آیا, جب سرکاری کام ختم ہوا اور ذاتی گفتگو شروع ہوئی تو خلیفہ نے چراغ بجھا دیا, مہمان نے حیرانگی کا اظہار کیا تو فرمایا سرکاری کام کے لئے سرکاری چراغ کا خرچ ہورہا تھا, اب ذاتی گفتگو میں سرکاری تیل اور چراغ کیوں خرچ کریں.. ایک بار بیٹے کو سیب کھاتے دیکھا تو اہلیہ سے پوچھا, سیب کہاں سے آیا, عرض کیا حضور بچہ ضد کر رہا تھا, گھر کے خرچہ سے بمشکل ایک پیسا بچا کر بچے کے لئے یہ سیب منگوایا ہے , آپ نے فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک پیسہ آپ کو اضافی مل رہا ہے، لہذا آپ نے گھر کے خرچ سے ایک پیسہ کم کر دیا. آپ کے دور خلافت میں ایک چرواہا روتا پیٹتا ہوا جنگل سے شہر کی طرف بھاگا ہوا آرہا تھا, کسی نے سبب پوچھا تو کہا کہ آج میری ایک بکری کو شیر کھا گیا ہے۔ پوچھنے والے نے تسلی دی تو چرواہے نے کہا, میں اپنی بکری کے لئے نہیں رورہا, میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ آج خلیفہ عمر بن عبدالعزیز انتقال کرگئے ہیں۔ کیونکہ جب تک وہ زندہ تھے۔ کسی بھی شیر کو جرئت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی بکری پر حملہ کر سکے, آج یہ ہوا تو میں سمجھ گیا کہ خلیفۃ المسلمین انتقال کر گئے ہیں۔ بعد میں جب معلوم کیا گیا تو واقعی عمر بن عبدالعزیز انتقال کرگئے تھے، ـــ انتخاب و تحریرـ غلام محمد وامِق ، محرابپور سندھ ـ
فی زمانہ غلبہء اسلام، مگر کیسے ۔۔۔؟ ـــ تحریر ـــــ غلام محمد وامِق === قـرآن کریم کے مطابق مسلمانوں کا اصل مسئلہ اور ذمیداری اسلام کا پھیلانا نہیں بلکہ پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنا ہے۔ اسلام معاشی اور سماجی طور پر غالب ہوگیا تو پھر دنیا بھر میں پھیل تو خود بخود ہی جائے گا۔ جیسے کہ فتح مکہ کے بعد ہوا تھا, آج کے دور میں جو تنظیمیں یا جماعتیں اسلحہ کے زور پر یا زبردستی اسلام کا غلبہ چاہتی ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتی ہیں۔ ان کی حکمت عملي بلکل غلط ہے۔ اور ان کی ناکامی پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بہت سے لوگ غلبہ کے لئے انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن انہیں شاید اس بات کا احساس نہیں ہے کہ انقلاب جمہوریت میں نہ پہلے کبھی آیا ہے۔ اور نہ ہی آئندہ کبھی آسکتا ہے۔ اسی لئے یورپی، ممالک جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ تاکہ اسلامی انقلاب کا راستہ مکمل طور پر بند ہوجائے, کیونکہ انقلاب ہمیشہ آمریت اور بادشاہت کے نظام میں ہی آسکتا ہے ,جمہوری سسٹم میں کبھی نہیں. اسلامی نظام کے غلبہ کے لئے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار اپنانا ہوگا,جس طرح آپ نے مکی دور میں عدم تشدد کا مظاہرہ کیا اور کسی سے کوئ جنگ وغیرہ بلکل نہیں کی ,جبکہ مدینہ میں پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی. اور پھر بعد میں غزوات کا سلسلہ شروع کیا. لہذا ہمیں اپنے ملک کو سب سے پہلے معاشی طور پر اور سماجی طور پر اپنے دشمنوں کے برابر کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی ہمیں اسلام کے غلبہ کے خواب دیکھنے چاہئیں، ورنہ تو ہم اپنے آپ کو صرف تباہي کي طرف ہی لے جاتے رہیں گے ,(نوٹ.. یہ اہم پیغام میں نے کسی چھوٹی سوچ کے اور چھوٹے ذہن کے آدمی کے لئے نہیں لکھا, شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ) . مزید یہ کہ جس طرح یورپین قوموں نے باقاعدہ ایک پلاننگ اور تیاری کے ساتھ مسلمانوں کا غلبہ دنیا سے ختم کیا ہے, بلکل اسی طریقے سے ہم بھی مکمل تیاری کے ساتھ اور اتحاد بین المسلمین اور اپنے ملک کو معاشی اور سماجی ترقی دیکر نہ صرف دشمنوں کو مغلوب کرسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں قرون اولیٰ کی طرح دوبارہ سے اسلام کو غالب کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ کہ آپس کی منافرت اور دہشتگردی کے طریقے کو چھوڑ دیں۔ وماعلینا الی البلاغ. تحریر ـ غلام محمد وامِق ، محرابپور سندھ ـ
کسی چیز کے بارے میں علم نہ ہونا جہالت نہیں، بلکہ کسی چیز کا علم اس کی اصل روح کے مطابق نہ ہونا جہالت ہے ۔ ( قولِ غلام محمد وامِق،محراب پور سندھ) 17جون 2017ء ...
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی،،،، تحریر ــ غلام محمد وامِق ـــ حیرت ہے کہ آج تین چار سال کا بچہ، موبائل انٹر نیٹ اس طرح آپریٹ کر لیتا ہے، جیسے پیدائشی طور پر سیکھ کر آیا ہے ۔وہ جب ننھی ننھی انگلیوں سے ٹچ کرکے کسی تصویر کو دیکھتا ہے، رنگین روشنیوں کو دیکھتا ہے، وہ ٹچ کرتا ہے تو عجیب عجیب کارٹون دیکھتا ہے، اور کئی طرح کی موسیقی سنتا ہے تو اسے کوئی خوف یا حیرت نہیں ہوتی ۔۔۔ جبکہ ہماری ساری زندگی مسلسل حیرتوں میں گزری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پانچ سال کی عمر میں تختی اور سلیٹ ہاتھوں میں لیکر پیدل بازار سے گزرتے ہوئے اسکول جاتے تو پورے بازار میں صرف چنیوٹی شیخوں کی دکان پر، کوئی تین فٹ لمبا چوڑا ایک ڈبہ سا رکھا ہوتا تھا، جس میں سے کبھی گانے کی اور کبھی بولنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں، لوگ اُسے ریڈیو کہتے تھے ۔ اور یہ ریڈیو بیٹری پر چلتا تھا ۔ہم بچے سمجھتے تھے کہ، شاید اس ڈبے میں بونے آدمی بند کئے گئے ہیں ۔ اور ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی۔۔۔۔۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب بجلی چھوٹے شہروں تک نہیں پہنچی تھی، تب شہر کے اہم چوراہوں پر ٹاؤن کمیٹی کی طرف سے تیل سے جلنے والی لالٹینیں نصب ہوتی تھیں ۔ایسے میں ہم رات کے وقت گھروں سے نکلتے وقت اپنے ساتھ سیلوں سے جلنے والی ٹارچ رکھتے تھے ۔ جس سے روشنی میں راستہ دیکھتے تھے، تب بھی ہمیں حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔ پھر ہم ، شاید چوتھی جماعت کی کتاب میں ایک سبق پڑھتے تھے، جس کا عنوان تھا ٹیلیویژن ۔۔۔ ٹیچر ہمیں بتاتا کہ یہ ریڈیو جیسی کوئی چیز ایجاد کی گئی ہے، جس میں آواز کے ساتھ بولنے والے کی تصویر بھی نظر آتی ہے، اور یہ سن کر ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ ایک بار ایک جگہ پر ہمارا ایک جاننے والا ایک خوبصورت چھوٹی سی پیٹی اٹھا کر لایا، ہم جو بولتے، وہی آواز اس پیٹی سے سنائی دیتی، ہمیں بتایا گیا کہ اس کا نام ٹیپ ریکارڈر ہے،، اور ہمیں بڑی حیرت ہوئی ۔۔۔۔۔اُس وقت گھر والوں سے چوری ہم بلیک اینڈ وائٹ، سینما میں جاتے اور مووی دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ۔۔۔۔۔ اور جب پہلی بار اللہ رکھا ،کے حبیب ہوٹل پر بلیک اینڈ وائٹ ٹیلیویژن آیا تو دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ۔۔۔۔۔ بعد ازاں کچھ عرصے کے بعد رنگین ٹیلیویژن ہوٹل پر آیا تو حیرت مزید بڑھ گئی ۔۔۔۔۔اور اسی دور میں جب بلیک اینڈ وائٹ کیمرے سے فوٹوگرافر تصویر بناتا تو حیرت ہوتی ۔۔اور پھر بعد ازاں فوٹوگرافر رنگین تصاویر بنانے لگے تو حیرت میں مزید اضافہ ہوا ۔۔۔اُس دور میں، پی ٹی سی ایل، ٹیلیفون کہیں کہیں نظر آتا تھا، لوگ رسیور کان سے لگا کر تصاویر بنواتے تھے تو ہمیں حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔ پوسٹ آفس سے خط کی ترسیل پر ہمیں حیرت ہوتی تھی، اور پوسٹ آفس میں ٹِک ٹِک کر کے ٹیلی گرام آتا، تو حیرت ہوتی، اس کے بعد ٹائپنگ مشین، اور فیکس مشین آئی تو بھی ہم حیران رہ گئے ۔۔۔۔ اخبارات و رسائل میں اپنی کوئی تصویر چھپتی، اپنی کوئی تحریر، یا نظم وغیرہ چھپتی تو بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ۔۔۔۔ کسی لائبریری میں اچھی کتابیں نظر آتیں، تو حیرت ہوتی اور کسی وائرلیس پیغام کے متعلق سنتے تو حیرت ہوتی ۔۔۔۔ اور تب بھی حیرت ہوتی جب ٹیبل کلاک کا الارم بجتا،،، اور ماضی قریب میں بغیر تار کے موبائل فون کو دیکھا تو بھی ہم حیرت زدہ ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔ اور اب مزکورہ بالا تمام سہولتوں اور ایجادات کو صرف ایک چھوٹی سی پاکٹ ڈبیہ، (آئی فون)، میں دیکھتے ہیں اور اُن سے بہتر رزلٹ بھی دیکھتے ہیں تو اب بھی ہمیں حیرت ہوتی ہے،،،،،، اور بچے جو گیم اس میں کھیلتے ہیں وہ گیمیں تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سنی تھیں، اس لئے بھی ہم اکثر حیران رہ جاتے ہیں ۔لیکن آج کے بچوں کو کسی بات پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ تحریر ـــ غلام محمد وامق، محرابپور سندھ ...
ہم نے جون 1992،میں ایران کا سفر کیا تھا، اس سفرکا ایک دلچسپ واقعہ پیشِ خدمت ہے ، ایران کا سرحدی شہر سرپل ذہاب جوکہ سرحد کے ساتھ واقع ہے، وہاں کے سرکاری ہسپتال میں ہمارے ایک اسکول کلاس فیلو، ڈاکٹر نعمت اللہ میمن، تعینات تھے، ہم ان سے ملنے کے لئے سرپل ذہاب، چلے گئے، سرحدی علاقہ ہونے کے باعث یہ شہر بہت حساس تھا، میرے ساتھ، میرا ایک ہمسفر دوست، ڈاکٹر منیر میمن، بھی تھا۔ ہم نے ڈاکٹر نعمت اللہ کے گھر میں ایک رات گزاری، اور دوسری صبح واپس آتے ہوئے ایک چیک پوسٹ پر، فوجیوں نے ہماری گاڑی کو روکا، اور ہم دونوں کو مشکوک غیر ملکی سمجھتے ہوئے گاڑی سے اتار لیا، یہ دیکھ کر گاڑی والے نے ہم سے دو سیٹوں کا پورا کرایہ ۔۔۔ 85، تمان، لیا اور ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، فوجی ہمیں وہاں سے قریب ہی ایک کیمپ میں اپنے آفیسر کے پاس لے گئے، آفیسر نے ہمارے پاسپورٹ وغیرہ چیک کئے، اور اشاروں میں ہم سے پوچھ گچھ کی، چونکہ ان دنوں عراق، ایران، جنگ کا تنازعہ چل رہا تھا، لہٰزا وہ لوگ ہمیں عراقی جاسوس سمجھ رہے تھے، تھوڑی تفتیش کے بعد اس نے ہمیں فوجیوں کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا، تب ہم نے کہا کہ، گاڑی والے نے ہم سے کرایہ وصول کر لیا، اور وہ چلا گیا ہے، یہ سن کر آفیسر نے اپنے پاس سے، 50، تمان، ہمیں دئے، ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ بلا وجہ کی مصیبت سے بھی بچ گئے اور کچھ پیسے بھی واپس مل گئے، بہرحال ہمیں فوجی، گاڑی میں بٹھا کر بس اڈے کی طرف چل پڑے، لیکن اس وقت ہماری خوشی، پریشانی اور خوف میں بدل گئی جب، بس اڈے کو کراس کرتی ہوئی، گاڑی تیزی سے اس کے سامنے سے گزر گئی، ساتھ والے فوجیوں سے پوچھا تو انہوں نے خاموشی سے بیٹھنے کا اشارہ کیا، ہم نے عالمِ تخیل میں اپنے آپ کو فوجی ٹارچر سیل، میں محبوس دیکھا۔ خوف کے مارے ہم پر کپکپی طاری ہو چکی تھی، ۔۔۔۔ گاڑی تیزی کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے میں داخل ہوئی ۔ وہاں پر بنی فوجی چھاؤنی کے ایک بڑے سے کمرے میں ہمیں لے جایا گیا، جس میں ایک بڑی سی ٹیبل کے پیچھے کوئی بڑا سا فوجی آفیسر بیٹھا تھا، ٹیبل پر ایرانی فلیگ لگا تھا، اور دیوار پر امام خمینی کی تصویر آویزاں تھی ۔۔۔ ہمیں ایک طرف کرسیوں پر بٹھا دیا گیا، (ایک بات جو ہم نے خاص طور پر ایران میں محسوس کی، وہ یہ تھی کہ وہاں پر کسی بھی فوجی یا پولیس والے سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہم نے کوئی بھی عمر رسیدہ اہلکار وہاں پر نہیں دیکھا، وہ سب دیکھنے میں نوعمر، کسی کالج یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس لگتے تھے،) ۔۔۔۔ بہرحال وہاں پر ہمارے کاغذات چیک کئے گئے، اور ہسپتال میں فون کر کے، ڈاکٹر نعمت اللہ، سے ہمارے متعلق تصدیق کی گئی ۔۔۔۔۔۔ بعد ازاں آفیسر نے بڑے خوشگوار انداز میں، ہمارے نام، اور عقائد وغیرہ معلوم کئے، ہم نے بلا خوف بتا دیا کہ ہم "سُنی" عقیدہ رکھتے ہیں، وہ ہم سے دوستوں کی طرح بات کر رہا تھا، اس دوران ہم نے پینے کے لئے پانی طلب کیا، تو ایک اردلی عام سے گلاسوں میں پانی لیکر آیا، یہ دیکھ کر آفیسر نے اسے ڈانٹا، اور کہا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں، پانی اچھے سے گلاس میں لاؤ،،،، تب اعلیٰ قسم کے گلاسوں میں ہمیں پانی پیش کیا گیا ۔۔۔۔ بعد ازاں ڈرائیور کو حکم دیا کہ وہ ہمیں بااحترام بس ترمینل تک چھوڑ کر آئے، ۔۔۔رخصتی کے وقت ہاتھ ملاتے ہوئے، ڈاکٹر منیر پر شاید پاکستانیت طاری ہوگئی، چنانچہ اس نے آفیسر سے کہا کہ، سر! ویگن والا ہم سے 85 تمان لے گیا تھا ۔۔۔۔اور اب دوبارہ پھر ہمیں وہ کرایہ ادا کرنا پڑے گا ۔۔۔۔یہ سن کر آفیسر نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اور ایک سو، 100 تمان کا نوٹ نکال کر، منیر کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔۔۔۔اور یوں کُفر ٹوٹا خُدا خُدا کر کے ۔۔۔۔(میں سوچتا ہوں اگر اسی طرح کے حالات کسی کو پاکستان میں پیش آجاتے تو؟؟؟)..... تحریر۔۔۔جی ایم وامِق. ۔۔۔۔
تاریخِ سندھ کی لوک داستان ۔ــ مومل رانو (مختصر).. تحریر ـ غلام محمد وامِق ــــ مومل گوجر قوم کے حکمران " راجہ نند " کی بیٹی تھی ۔ جوان ہوتے ہوتے اس کے حسن کا شہرہ، دور و نزدیک تک پھیل چکا تھا، دور دراز سے راجے مہاراجوں کے پیغامات آنا شروع ہو گئے تھے، اور کسی کو ناراض کرنا بھی مناسب نہیں تھا، لہٰزا شہزادی مومل نے ایک خطرناک پہاڑی چوٹی پر اپنا ایک پراسرار محل بنوایا، محل کے دروازے کے دونوں طرف دو شیر کھڑے کئے گئے، جوکہ بڑی مہارت اور شعبدہ بازی سے تیار کئے گئے تھے، اور ان کے آگے ایک بہت بڑا دریا موجیں مار رہا تھا ۔ یہ سب حقیقت نہیں تھا، لیکن دیکھنے والوں کو حقیقت کا گمان ہوتا تھا، علاوہ ازیں محل کے اندر صحن میں، سات انتہائی دیدہ زیب اور نفیس پلنگ بہترین چادروں سمیت بچھے ہوئے تھے، جو کہ دیکھنے میں یکساں تھے ۔ جن میں سے چھ پلنگ کچے سوت سے بُنے ہوئے تھے ۔ اور ان کے نیچے گہرے گڑھے بنائے گئے تھے، ۔۔۔ مومل نے اعلان کروا دیا کہ جو شخص میرے اس محل میں داخل ہوکر، میرے اصل پلنگ پر آکر بیٹھ جائے گا تو وہ مجھے پا لے گا۔۔۔۔ بہت سے شہزادے اور امراء قسمت آزمائی کے لئے آئے۔۔۔لیکن کچھ تو پہاڑوں کی سختی سے ڈر کر ہی واپس چلے گئے، کچھ دریا کی موجیں اور شیروں کو دیکھ کر بھاگ گئے، اور چند ایک محل کے اندر پہنچ کر کچے سوت کے پلنگوں پر بیٹھ کر گڑھوں میں جا گرے، اور ناکام رہے ۔ بالآخر ۔۔۔ سندھ کاحکمران " ھمیر سومرو " بھی قسمت آزمائی کے لئے گیا، لیکن دریا کی موجیں اور دھاڑتے ہوئے شیروں کو دیکھ کر ہی نامراد واپس آ گیا ۔۔۔ یہ صورتحال دیکھ کر اس کا ایک زیرک اور بہادر وزیر رانا میندھرو، یہ مہم سر کرنے کے لئے نکلا، ۔۔۔ اُس نے دریا میں نیزہ مارا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ اصل نہیں ہے، اسی طرح وہ سمجھتا گیا کہ یہ سب شعبدہ بازی ہے، یہ اندازہ لگانے کے بعد وہ شیروں کو نظر انداز کرتا ہوا محل میں چلا گیا، وہاں پر ایک جیسے پلنگ نظر آئے تو اس نے ہر پلنگ پر بیٹھنے سے پہلے اپنا نیزہ مارا ۔۔۔۔ اور اس طرح انجام کار وہ اصل پلنگ پر جاکر بیٹھ گیا، شہزادی مومل اس کی محبت میں کھوگئی، اور اس کی ہوگئی، ۔۔ کُچھ روز کٹے یوں ہی برا وقت جب آیا، راجہ ھمیر سومرو کو وزیر کی کامیابی کی اطلاع ملی تو وہ رقابت کی آگ میں جل اُٹھا، اس نے وزیر." رانا میندھرو "، کو بلا کر اسے ایک جگہ پر نظر بند کر دیا، اور اس کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی ۔۔۔اب رانا میندھرو، رات ہوتے ہی اپنے تیز رفتار اونٹ (چانگ) پر سوار ہوتا، مومل سے ملتا اور فجر کے وقت صبح واپس اپنی جگہ پر پہنچ جاتا، یہ سلسلہ چلتا رہا، ایک بار کسی وجہ سے رانا دو تین راتیں مومل کے پاس نہ جاسکا، تو مومل اس کی یاد میں ماہیء بے آب کی طرح تڑپنے لگی، اور رانا کی یاد کم کرنے کے لئے اپنی چھوٹی بہن " سومل " کو، رانا جیسے مردانہ کپڑے پہناکر اپنے ساتھ پلنگ پر سلانے لگی۔۔۔۔ ایک رات جب رانا، مومل سے ملنے آیا تو اس نے ایک غیر مرد کو مومل کے ساتھ سوتے ہوئے. پایا۔..۔۔ اسے شدید غصہ آیا اور وہ بجائے ان کو جگانے کے اپنے دل میں بدگمانی اور غلط فہمی لیکر واپس چلا آیا۔۔۔۔ کچھ عرصہ کے بعد جب مومل کو اس معاملےکی اطلاع ہوئی تو وہ رانا کے پاس گئی، اسے ساری صورتحال سمجھانے کی کوشش کی، لیکن بدگمانی جڑ پکڑ چکی تھی، اس نے مومل کی ہر بات کو جھٹلا دیا، ۔۔۔۔ دل برداشتہ ہوکر مومل نے رانا کے محل کے سامنے بہت بڑا آگ کا الاؤ جلا کر اپنے آپ کو بھی اس میں جلا ڈالا ۔۔۔ محبت کے انداز کی یہ شدت دیکھ کر رانا میندھرو نے بھی اسی الاؤ میں کود کر اپنی جان دے دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ غلط فہمی سے بچو، اور دوسروں کے لئے اچھا گمان رکھو۔۔۔۔۔۔ تحریر ــ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ .
سوال :کیایہ صحیح ہے کہ امام ابو حنیفہ اور باقی تینوں آئمہ نے امام جعفر صادق سے علم حاصل کیا ہے؟ شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ امام جعفر کے شاگرد رہے ہیں آپ لوگ شاگرد کو مانتے ہو استاد کو کیوں نہیں ؟ کیا یہ دعوی درست ہے؟ تبصرہ: ـــ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں تو ایسی بات ممکن ہے، لیکن امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق صحیح نہیں کیونکہ جعفر صادق کی وفات کے بعد دونوں کی ولادت ہوئی ہے، جعفر صادق رحمہ اللہ کی وفات 149ھ میں ہوئی اور امام شافعی رحمہ اللہ کی ولادت 150ھ میں او رامام احمد رحمہ اللہ کی 164ھ میں کذا فی کتب الرجال والتراجم۔ یہ بات بہت عام ہے کہ امام ابو حنیفہ، امام جعفر الصادق کے شاگرد تھے لیکن اسکے متعلق بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے جھوٹ اور بہتان کہا ہے۔ یہ بھی کہ وہ روایت جھوٹی روایت ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کذب اور بہتان ہے جس میں ہے کہ امام صاحب نے کہا کہ لولا السنتان لھلک النعمان کہ اگر وہ دو سال(امام جعفر صادق کی شاگردی کے ) نہ ہوتے تو ابو حنیفہ ہلاک ہو جاتا۔ اس حوالے سے بھی اس موقف پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی پیدائش 80ھ میں ہوئی جبکہ امام جعفر، ان سے تین سال بعد 83ھ میں پیدا ہوئے تو امام ابو حنیفہ تو ان سے عمر میں بڑے ہیں بلکہ امام ابو حنیفہ، امام جعفر الصادق کے والد محمد الباقر رحمہ اللہ کی زندگی میں فتوی دیتے تھے تو جو والد کی زندگی میں مفتی بن چکا ہو، وہ بیٹے کا شاگرد کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر امام ابو حنیفہ، ساری عمر کوفہ میں رہے اور امام جعفر الصادق، مدینہ میں تھے تو کیسے استادی شاگردی ہو گئی؟ بالفرض ہم مان لیتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے دو سال امام جعفر الصادق کی شاگردی اختیار کی ہے؟ تو اب دو صورتیں ہیں؛ ایک صورت تو یہ ہے کہ دونوں کی فقہ ایک تھی، کچھ انیس بیس کا فرق تھا لہذا امام ابو حنیفہ کی فقہ وہی ہے جو ان کے استاذ کی تھی اور اہل تشیع نے امام جعفر الصادق پر جھوٹ بولا ہے کہ ایک نئی فقہ وضع کر لی، فقہ جعفری کے نام سے۔ یا دوسری صورت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ ایک طرف تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر میں امام جعفر کا شاگرد نہ ہوتا تو ہلاک ہو جاتا اور دوسری طرف امام جعفر کے مقابلے میں ایک فقہ وضع کر رہے ہیں یعنی خود اپنے ہلاک ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں؟ امام ابو حنیفہ کی طرف دوسری بات کی نسبت تو ناممکن ہے، البتہ پہلی کی نسبت ہو سکتی ہے لیکن اہل تشیع اس پر راضی نہ ہوں گے لہذا شاگردی کا قول ہی باطل ہے۔ بعض اہل تشیع قراء کے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ امام ابو حنفیہ نے امام جعفر سے قرآن مجید پڑھا حالانکہ امام ابوحنیفہ نے جن سے قرآن مجید پڑھا، وہ امام عاصم ہیں، علامہ ابن الجزری سے بڑھ کر قراءات کی اسناد کا احاطہ کس نے کیا ہے؟ انہوں نے النشر میں امام ابو حنیفہ کے قرآن کے استاذ کے طور امام عاصم وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ اور رہی فقہ کی بات تو اس میں امام ابو حنیفہ، حماد کے شاگرد ہیں۔ اور حماد، علقمہ کے، اور علقمہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔ البتہ بعض محدثین نے یہ بات کہی ہے کہ امام ابو حنیفہ نے امام جعفر سے روایت لی ہے اور روایت لینے کا لفظ کسی ایک روایت کو نقل کر دینے پر بھی بولا جاتا ہے۔ اسے اصول حدیث کی اصطلاح راوی الاقران کہتے ہیں یعنی ساتھیوں کا ایک دوسرے سے حدیث روایت کر لینا بلکہ بعض اوقات تو بڑے، اپنے چھوٹوں سے حدیث نقل کر لیتے تھے لیکن اس سے وہ شاگرد نہیں بن جاتے تھے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، کعب الاحبار سے روایت نقل کر لیتے تھے جبکہ کعب تابعی تھے اور عمر صحابی تھے۔ اسی طرح تابعین، اپنے چھوٹوں یعنی تبع تابعین سے روایت نقل کر لیتے تھے جیسا کہ اور عبد اللہ بن عون یحی بن سعید، امام مالک سے روایت کرتے ہیں جبکہ وہ دونوں تابعی ہیں اور امام مالک تبع تابعی۔ اس طرح بعض صوفیاء نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے سلوک وطریقت کے مراحل امام جعفرصادق سے دو سال میں طے کیے، جیسا کہ شیخ علی ہجویری رحمہ اللہ نے لکھا ۔شیخ ہجویری نے اگر چہ امام صاحب کو امام جعفر کا خلیفہ ومجاز قرار دیا ہے؛ لیکن امام صاحب کے عہد تک تصوف ایک فن کی حیثیت سے دیگر علوم اسلامی سے علیحدہ نہیں ہوا تھا اس کی اصطلاحات بھی بعد کی پیداوار ہیں، لہٰذا خلافت واجازت سے نوازنااس عہدمیں نہیں تھابلکہ شیخ کی صحبت میں رہ کر اصلاح باطن کی طرف توجہ دی جاتی تھی، یہ ممکن ہے۔ جہاں تک امام جعفر صادق کی اپنی ثقاہت کا تعلق ہے تو اکثر ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور یہ نہایت نیک وصالح اور زاہد تھے، اور ان کے بے شمار مناقب ہیں، البتہ ان سے منسوب فقہ جعفریہ کی روایات صحیح نہیں ہیں ۔ ان کے بہت سے شیعہ شاگردوں نے ان کی طرف سے بہت سی گھڑی ہوئی بے بنیاد باتیں منسوب کی ہیں ۔اہلسنت کے ہاں روایات کی تحقیق کا معیار سخت ہے، کوئی بات کسی صحابی سے بھی مروی ہو اسکے راویوں کی بھی باقائدہ تحقیق کی جاتی ہے ۔ اس لیے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے متعلق بھی جو باتیں صحیح اور معتبر اسانید سے مروی ہیں وہ ہم اہل السنة والجماعت بھی قبول وتسلیم کرتے ہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ (الادب المفرد میں) امام مسلم، امام ترمذی، امام ابوداوٴد، امام نسائی اور امام ابن ماجہ وغیرہ جلیل القدر محدثین نے تو ان کی بہت سی روایات بھی نقل کی ہیں، ہاں البتہ شیعہ نے اپنی طرف سے ان کی طرف جو غلط باتیں منسوب کردی ہیں وہ ہم نہیں مانتے ہیں ،ان کا انکار کرتے ہیں۔ــ انتخاب ـ غلام محمد وامق، محرابپور سندھ ...
خون پسینے کی کمائی،،، (ایک تمثیل) تحریر ـ غلام محمد وامِق === کہتے ہیں کہ ایک محنت کش مزدور جب بڑھاپے میں کچھ کمانے کے قابل نہیں رہا تو اس کی بیوی نے اپنے اکلوتے بیٹے کو کمانے کے لئے بازار بھیجا، لڑکا اپنے باپ کو بتاکر کام پر گیا لیکن شام کو ناکام گھر لوٹا، اس کی والدہ نے بیٹے کی نالائقی پر پردہ ڈالنے کے لئے اسے پانچ روپئے، دئے، اور کہا کہ اپنے والد کو اپنی کمائی بتاکر دے دو ۔۔۔لڑکے نے ایسا ہی کیا، تو والد نے بیٹے سے کہا کہ ان پانچ روپیوں کو جاکر کنویں میں ڈال آؤ،،،، بیٹا جاکر کنویں میں ڈال آیا، دو تین روز تک لژکے کو کام نہیں ملا، اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، ہر روز اس کی والدہ اس کی نالائقی پر پردہ ڈالتی رہتی، اور ہر روز اس کا باپ لڑکے کے پیسے کنویں میں ڈلواتا رہا ۔۔۔۔ آخر ایک روز لڑکے کو کام مل گیا، اور اس نے سارا دن سخت محنت کر کے شام کو مزدوری کے پانچ روپئے کما کر والدہ کے پاس لایا، اور پھر حسب معمول والد کو وہ رقم دینے گیا ،چنانچہ والد نے حسب معمول ان پیسوں کو کنویں میں ڈالنے کے لئے کہا تو بیٹے نے بے اختیار کہا، کہ ابا جان یہ تو میرے خون پسینے کی کمائی ہے، انہیں کیسے کنویں میں ڈال دوں؟؟؟ ۔۔ تب اس کے والد نے مسکرا کر کہا کہ، بیٹا، اس سے پہلے جو پیسے تو کنویں میں ڈالتا رہا ہے، وہ بھی تو میری خون پسینے کی ہی کمائی تھی،،، تب تو تجھے کوئی احساس نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ ہے عیاشی باپ کی کمائی پر ہی ہو سکتی ہے،،،، تحریر ــ غلام محمد وامِق ، محرابپور سندھ ـ
ہر سوال، سلگتا ہوا سوال ــ لعین مرزا غلام احمد قادیانی، 13 فروری، 1835ء کو بھارت کے شہر قادیان میں پیدا ہوا، اور وفات 26 مئی، 1908ء کو لاہور میں ہوئی، موت کے بعد میت کو " قادیان " لے جاکر دفن کیا گیا ــ لاریب، مرزا غلام احمد قادیانی مرتد تھا، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ مرزا قادیانی لعین کے دور میں مسلمانوں کے ہر فرقے سے بڑے بڑے جید عالمِ دین موجود تھے، ہر فرقے کے بڑے بڑے مجاہد اور انقلابی رہنما موجود تھے، قائداعظم اور حکیم الامت علامہ اقبال، اور اشرف علی تھانوی، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی، و دیگر اہم علماء کرام موجود تھے، لیکن کسی نے بھی مرزا قادیانی کے قتل کا فتویٰ صادر نہیں کیا، اور نہ ہی کسی نے اسے مرتد یا کافر قرار دیا، بلکہ اس کے ماننے والوں کو مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ " احمدیہ " کہا جاتا تھا، تو پھر اب ایسا کیا ہوا کہ اصل مرتد کے مرنے بعد اب ہم اس کے ماننے والوں کو قابلِ گردن زنی قرار دے رہے ہیں؟ جبکہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی دوسرے اسلامی ملک نے آئینی طور پر انہیں کافر قرار نہیں دیا ۔۔۔ چناں چہ اب لازمی طور پر ذہن میں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ، 1. کیا موجودہ احمدیوں کو بھی مرتد کہا جا سکتا ہے؟ 2.کیا احمدی، نبی اکرم صلی الله عليه وسلم کا استہزا کرتے ہیں؟ 3.احمدیوں سے جس قدر نفرت پاکستان میں ہے، کیا اتنی نفرت کسی اور اسلامی ملک میں بھی پائی جاتی ہے؟ 4.اگر احمدی اس لئے قابلِ گردن زنی ہیں کہ انہوں نے، نبی آخر الزماں کے بعد اپنا نیا نبی بنا لیا ہے، تو کیا یہ ہی کام اس سے تھوڑا عرصہ قبل سکھوں نے نہیں کیا تھا؟ ــ 5.اگر احمدی غیر مسلم اقلیت تسلیم کر لئے گئے ہیں تو پھر قانون کے مطابق پاکستان میں ان کی حفاظت ہونی چاہئے، جس طرح، عیسائی، یہودی، سکھ، اور ہندووں کی، اور دیگر اقلیتوں کی، کی جاتی ہے ؟ ـ 6.کیا پاکستان میں دیگر اقلیتوں کو بھی اتنا ہی برا سمجھا جاتا ہے ۔؟ ـ 7.کیا صرف، ہندو، اور احمدی ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استہزا کرتے ہیں؟ 8. کیا یہودی، عیسائی، سکھ، اور دیگر غیر مسلم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، کا احترام کرتے ہیں؟ 9.ہم پاکستانی مسلمان، غیر مسلموں سے نبیء آخرالزماں، کے احترام کی توقع کیوں کرتے ہیں؟ 10. کیا ناموسِ رسالت کو فرقہ بندی کی کسوٹی پر، پرکھا جانا چاہئے ۔۔؟ 11. عجیب بات ہے کہ پوری عیسائی دنیا نے قادیانیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی،حالانکہ ملعون مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو مسیحِ موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہوا ہے، یعنی خود کو حضرت عیسیٰ کہا ہے ـ جس کے لئے عیسائیوں اور مسلمانوں کا ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ دنیا میں قیامت کے قریب دوبارہ تشریف لائیں گے، عیسائی دنیا مسیحِ موعود کو خدا کا بیٹا اور خدا تسلیم کرتے ہیں، لیکن حیرت ہے کہ اس کے باوجود عیسائی دنیا میں اس کے خلاف کوئی نفرت نہیں پائی جاتی ـ وہ لوگ سب سے پہلے اپنی قوم اور ملک کی ترقی کو ترجیح دیتے ہیں، کسی بھی معاملے میں جذباتی نہیں ہوتے ـــ پلیز ۔۔۔ ذرا سوچئے، اور انگریزوں کی پالیسی لڑاؤ اور حکومت کرو سے بچئے. ...۔۔۔۔ شکریہ، (جی ایم وامق).
چنبیلی شاہ === تحریر ــ غلام محمد وامِق ـــ وہ جب پہلی بار محراب پور شہر میں نظر آیا، اُس وقت غالباً میں آٹھویں جماعت کا طالبِ علم تھا، وہ بظاہر تو فقیر ہی لگتا تھا، لیکن وہ بھیک مانگتے کبھی نظر نہیں آیا، معلوم ہوا کہ اس کا نام چنبیلی شاہ ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے متعلق عجیب قسم کے واقعات منسوب ہونے لگے، اور دوچار موالی لوگ بھی اس کے پیچھے چلنے لگے، اس کے ہاتھوں میں طنبورہ قسم کی کوئی چیز ہوتی تھی، جسے وہ رگڑتا رہتا تھا، اور خود بخود باتیں کرتا رہتا تھا ۔ اُن دنوں میرا مشغلہ ابنِ صفی کے جاسوسی ناول پڑھنا تھا، لہٰزا لامحالہ میں اسے انڈیا کا جاسوس سمجھنے لگا اور اس کے طنبورہ کو وائرلیس سیٹ سمجھتا تھا، چنانچہ اپنا فارغ وقت میں نے اس کی جاسوسی میں صرف کرنا شروع کر دیا ۔ دسویں جماعت تک میں اتنا جان چکا تھا کہ وہ چرس اور افیون وغیرہ بیچتا ہے، اور خود بھی استعمال کرتا ہے، بعض اوقات گالیاں بھی بکتا رہتا تھا، کئی ایک بار میرا اس کے ساتھ ہلکا پھلکا مکالمہ بھی ہوا، ۔۔۔ بعدازاں وہ شہر سے کہیں چلا گیا، اور میں نے بھی تعلیمی سلسلہ میں شہر کو خیرباد کہا ۔۔۔ کئی سال گزر گئے ایک بار میں بذریعہ کار نوابشاہ سے کُنب کی طرف جانے والے روڈ پر سفر کررہا تھا کہ راستہ میں ایک اسٹاپ پر نصب بورڈ پر نظر پڑی، جِس پر لکھا تھا ۔۔۔ مزار چنبیلی شاہ ۔۔۔۔۔۔ بہت حیرت ہوئی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اسی چنبیلی شاہ کا انتقال ہو چکا ہے، جسے یہاں پر دفن کیا گیا ہے، اور اب چنبیلی شاہ کے مرزا پر ہر سال باقاعدہ عرس ہوتا ہے، اور میلہ لگتا ہے، دور دور سے زائرین یہاں پر اپنی منتیں مانگنے آتے ہیں،،، کیا خیال ہے اس سلسلے میں آپ کا؟؟؟؟؟ تحریر ۔۔۔۔ جی ایم وامِق ۔۔۔۔ محراب پور سندھ ۔۔۔۔
عشق ،،،، ایک کڑوا سچ. ــــــ ،،، لفظ " عشق " صوفیاء کے ہاں تو بہت ملتا ہے ـ لیکن قرآن مجید اور احادیث میں اس کا کوئی وجود نہیں ملتا ـ حالانکہ یہ لفظ عربی ہے، اس کے برعکس لفظ " محبت " قرآن اور احادیث میں استعمال کیا گیا ہے ـ اکثر ماہرینِ نفسیات کے نزدیک " عشق " ایک نفسیاتی مرض ہے، اور قابلِ علاج بھی ہے ـــ ازـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ــ فون نمبر ـ 03153533437 ـ
جنات کی حقیقت :--- میری تصنیف, تحقیق پر مبنی کتاب "جنّات کی حقیقت " کی تقریبِ رونمائی کراچی پریس کلب میں مورخہ 12 نومبر، سال 2016ء بروز ہفتہ منعقد ہوئی، اس تقریب میں، میں نے درج ذیل تقریر کی ـــ عزیز دوستو۔ آج سے پہلے شاید ہی کسی نے لفظ ” جن “ کو سمجھنےکی کوشش کی ہو۔ ہمارے اسلاف میں سے سر سید احمد خان ۔ پہلا شخص ہے جس نے اس طرف کچھ اشارہ کیا ہے۔ لیکن باقاٸدہ دلاٸل کے ساتھ اس پر میرے علاہ کسی نے بھی نہیں لکھا ( الحمداللہ) ۔۔۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو دنیا بھر میں بیشمار لوگوں نے اپنا ذریعہ معاش بنالیا ہے۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بھارت۔یورپ۔امریکہ اور دیگر تمام ممالک میں ”جن“ نکالنا ایک کاروبار اور بزنس بن چکا ہے۔جوکہ مکمل جعل سازی اور فراڈ پر مشتمل ہے۔ اس کاروبار میں کچھ شعبدے بازیاں دکھاکر لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ چوں کہ دنیا کا ہر مذہب، اور عقیدہ روایتی ”جن“ کا قاٸل ہے۔۔۔ دنیا بھر میں پہلی بار اللہ رب العزت نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں نے جنات کے روایتی وجود کو دلاٸل کے ساتھ رد کر دیا ہے۔اور دنیا بھر میں روایتی جنٌات کے نہ ہونے کی عقلی۔تاریخی اور قرآن و حدیث سے دلاٸل دینے کے لٸے باقاٸدہ ایک کتاب مرتب کردی ہے۔ جس کا نام ہے ”جنات کی حقیقت“ (جس کی تقریب رونماٸی۔ 12 نومبر 2016 بروز ہفتہ۔۔۔کراچی پریس کلب میں منعقد کی گٸی۔ تقریب کے مہمان خصوصی، ڈاکٹر فراست رضوی، مہمانِ خصوصی، ڈاکٹر حیدر عباس واسطی، تھے جبکہ نظامت کے فراٸض جناب زیب اذکارحسین صاحب، جنرل سیکریٹری ادبی کمیٹی کراچی پریس کلب کراچی نے انجام دٸے تھے) ۔۔۔ بہرحال مجھے علم ہے کہ میرے اس جدید خیال کی بہت زیادہ مخالفت کی جاۓ گی۔ ممکن ہے کچھ نام نہاد علما کی طرف سے کوٸی فتوی بھی صادر کر دیا جاۓ۔۔ دراصل نسلِ انسانی کی ابتدا سے ہی پراسراریت کا تصور آدمی کے ذہن میں موجود ہے۔ اور ہمیشہ انسان نے پراسراریت کے آگے ہی سر جھکایا ہے۔ اور اللہ کی ذات تو مکمل ہی پراسرار ہے۔۔۔ لہذا ہم اللہ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور اسی لۓ ہم اللہ تعالی کے آگے سجدہ ریز بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن اللہ کے علاوہ بھی جو مخلوق لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اسے بھی لوگ سجدہ کرتے تھے۔ اور آج بھی بہت سے لوگ نادیدہ اشیا کو ہی سجدہ کرتے ہیں۔ اور اس سے خوف کھاتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں اسی خوف کے باعث لوگوں نے ان دیکھے محسوسات کے کچھ نام ایجاد کر لۓ۔ جیسا کہ ”جن“ ۔۔بھوت۔۔۔ پری۔۔۔ دیو۔۔۔ عفریت۔۔۔ اور ہمزاد وغیرہ۔۔۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ اور خیال جڑ پکڑتا گیا، اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا اس من گھڑت خیال کے شکنجہ میں بری طرح جکڑی جا چکی ہے۔ آج کی ساٸنس نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس طرح کے واقعات چند ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کے باعث وقوع پزیر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک مشہور بیماری ” ہسٹیریا“ بھی ہے۔ اسی کے باعث جعلساز اورفراڈ عامل، جنات کے وہم کو حقیقت میں بدل دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے روایتی ”جن“ کے نظرٸیے کو تقویت ملتی ہے۔۔۔ دراصل جو لوگ اپنے خیالات اور معروضی حالات سے مطابقت یا ہم آہنگی نہیں کر پاتے تو وہی لوگ اس ہسٹیریا کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور عاملوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ شیطان اور جن کو آگ سےپیدا کیا گیا ہے، فرشتے نور سے تخلیق کۓ گۓ ہیں، جبکہ آدمی کو مٹی سے بنایا گیا ہے۔۔۔ اس ضمن میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ لفظ ”جن“ کے لغوی معنی ہیں، نادیدہ مخلوق، یعنی جو عام حالات میں نظر نہ آۓ۔ اس کے علاوہ خفیہ جاندار اور خفیہ کارواٸی کرنے والے سرکش عناصر وغیرہ۔۔۔ جبکہ لفظ ”انس“ کے لغوی معنی ہیں ظاہری مخلوق یا قابلِ دید عناصر ۔۔۔ چنانچہ اسی پس منظر کے گرد ہی جنّات، اور بھوت و عفریت وغیرہ کی ساری کہانیاں گھومتی ہیں۔۔۔ اور یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت اور اصول ہے کہ مٹی کو ہی مٹی دیکھ سکتی ہے۔یعنی خاکی مخلوق کو ہی ہم دیکھ سکتے ہیں، ناکہ کسی بھی آگ کی یا ناری مخلوق کو۔۔۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔۔یعنی کہ میں نے نظر نہ آنے والی مخلوق (جراثیم۔ واٸرس۔ بیکٹیریا۔ وغیرہ۔) اور ان دیکھی کارواٸی کرنے والی سرکش مخلوق۔ اور نظر آنے والی مخلوق کو اپنی عبادت کے لۓ ہی پیدا کیا ہے۔۔ چنانچہ اسی آیت کو نہ سمجھتے ہوۓ، یا لفظ ”جن“ کو قدیم ترین معنی میں استعمال کرنے کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے جو ترجمہ کیا ہے، اسی سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی چلی آرہی ہیں۔ اور افسوس کہ کسی نے بھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اس لفظ ” جن “ کے معنی نہیں کۓ۔۔۔ جس کے باعث لفظ ”جن“ سے پوری دنیا ایک خوف کی کیفیت میں مبتلا ہے۔۔۔۔۔۔ آخر میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت دنیا کے تمام لوگوں کو اس ”جن“ کے وہم سے نجات دلاۓ۔ لوگوں کو عقل سلیم عطا فرماۓ۔۔اور صحیح سمجھ اور شعور عطا فرماۓ۔۔۔۔۔۔۔ والسلام۔۔۔ غلام محمد وامق (جی ایم وامق). محراب پور سندھ۔۔۔ رابطہ و واٹس اپ نمبر ۔۔۔ 03153533437
Subscribe to:
Posts (Atom)
Powered by Blogger.