محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی،،،، تحریر ــ غلام محمد وامِق ـــ حیرت ہے کہ آج تین چار سال کا بچہ، موبائل انٹر نیٹ اس طرح آپریٹ کر لیتا ہے، جیسے پیدائشی طور پر سیکھ کر آیا ہے ۔وہ جب ننھی ننھی انگلیوں سے ٹچ کرکے کسی تصویر کو دیکھتا ہے، رنگین روشنیوں کو دیکھتا ہے، وہ ٹچ کرتا ہے تو عجیب عجیب کارٹون دیکھتا ہے، اور کئی طرح کی موسیقی سنتا ہے تو اسے کوئی خوف یا حیرت نہیں ہوتی ۔۔۔ جبکہ ہماری ساری زندگی مسلسل حیرتوں میں گزری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پانچ سال کی عمر میں تختی اور سلیٹ ہاتھوں میں لیکر پیدل بازار سے گزرتے ہوئے اسکول جاتے تو پورے بازار میں صرف چنیوٹی شیخوں کی دکان پر، کوئی تین فٹ لمبا چوڑا ایک ڈبہ سا رکھا ہوتا تھا، جس میں سے کبھی گانے کی اور کبھی بولنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں، لوگ اُسے ریڈیو کہتے تھے ۔ اور یہ ریڈیو بیٹری پر چلتا تھا ۔ہم بچے سمجھتے تھے کہ، شاید اس ڈبے میں بونے آدمی بند کئے گئے ہیں ۔ اور ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی۔۔۔۔۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب بجلی چھوٹے شہروں تک نہیں پہنچی تھی، تب شہر کے اہم چوراہوں پر ٹاؤن کمیٹی کی طرف سے تیل سے جلنے والی لالٹینیں نصب ہوتی تھیں ۔ایسے میں ہم رات کے وقت گھروں سے نکلتے وقت اپنے ساتھ سیلوں سے جلنے والی ٹارچ رکھتے تھے ۔ جس سے روشنی میں راستہ دیکھتے تھے، تب بھی ہمیں حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔ پھر ہم ، شاید چوتھی جماعت کی کتاب میں ایک سبق پڑھتے تھے، جس کا عنوان تھا ٹیلیویژن ۔۔۔ ٹیچر ہمیں بتاتا کہ یہ ریڈیو جیسی کوئی چیز ایجاد کی گئی ہے، جس میں آواز کے ساتھ بولنے والے کی تصویر بھی نظر آتی ہے، اور یہ سن کر ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ ایک بار ایک جگہ پر ہمارا ایک جاننے والا ایک خوبصورت چھوٹی سی پیٹی اٹھا کر لایا، ہم جو بولتے، وہی آواز اس پیٹی سے سنائی دیتی، ہمیں بتایا گیا کہ اس کا نام ٹیپ ریکارڈر ہے،، اور ہمیں بڑی حیرت ہوئی ۔۔۔۔۔اُس وقت گھر والوں سے چوری ہم بلیک اینڈ وائٹ، سینما میں جاتے اور مووی دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ۔۔۔۔۔ اور جب پہلی بار اللہ رکھا ،کے حبیب ہوٹل پر بلیک اینڈ وائٹ ٹیلیویژن آیا تو دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ۔۔۔۔۔ بعد ازاں کچھ عرصے کے بعد رنگین ٹیلیویژن ہوٹل پر آیا تو حیرت مزید بڑھ گئی ۔۔۔۔۔اور اسی دور میں جب بلیک اینڈ وائٹ کیمرے سے فوٹوگرافر تصویر بناتا تو حیرت ہوتی ۔۔اور پھر بعد ازاں فوٹوگرافر رنگین تصاویر بنانے لگے تو حیرت میں مزید اضافہ ہوا ۔۔۔اُس دور میں، پی ٹی سی ایل، ٹیلیفون کہیں کہیں نظر آتا تھا، لوگ رسیور کان سے لگا کر تصاویر بنواتے تھے تو ہمیں حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔ پوسٹ آفس سے خط کی ترسیل پر ہمیں حیرت ہوتی تھی، اور پوسٹ آفس میں ٹِک ٹِک کر کے ٹیلی گرام آتا، تو حیرت ہوتی، اس کے بعد ٹائپنگ مشین، اور فیکس مشین آئی تو بھی ہم حیران رہ گئے ۔۔۔۔ اخبارات و رسائل میں اپنی کوئی تصویر چھپتی، اپنی کوئی تحریر، یا نظم وغیرہ چھپتی تو بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ۔۔۔۔ کسی لائبریری میں اچھی کتابیں نظر آتیں، تو حیرت ہوتی اور کسی وائرلیس پیغام کے متعلق سنتے تو حیرت ہوتی ۔۔۔۔ اور تب بھی حیرت ہوتی جب ٹیبل کلاک کا الارم بجتا،،، اور ماضی قریب میں بغیر تار کے موبائل فون کو دیکھا تو بھی ہم حیرت زدہ ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔ اور اب مزکورہ بالا تمام سہولتوں اور ایجادات کو صرف ایک چھوٹی سی پاکٹ ڈبیہ، (آئی فون)، میں دیکھتے ہیں اور اُن سے بہتر رزلٹ بھی دیکھتے ہیں تو اب بھی ہمیں حیرت ہوتی ہے،،،،،، اور بچے جو گیم اس میں کھیلتے ہیں وہ گیمیں تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سنی تھیں، اس لئے بھی ہم اکثر حیران رہ جاتے ہیں ۔لیکن آج کے بچوں کو کسی بات پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ تحریر ـــ غلام محمد وامق، ‏محرابپور ‏سندھ ‏...


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.