خون پسینے کی کمائی،،، (ایک تمثیل) تحریر ـ غلام محمد وامِق === کہتے ہیں کہ ایک محنت کش مزدور جب بڑھاپے میں کچھ کمانے کے قابل نہیں رہا تو اس کی بیوی نے اپنے اکلوتے بیٹے کو کمانے کے لئے بازار بھیجا، لڑکا اپنے باپ کو بتاکر کام پر گیا لیکن شام کو ناکام گھر لوٹا، اس کی والدہ نے بیٹے کی نالائقی پر پردہ ڈالنے کے لئے اسے پانچ روپئے، دئے، اور کہا کہ اپنے والد کو اپنی کمائی بتاکر دے دو ۔۔۔لڑکے نے ایسا ہی کیا، تو والد نے بیٹے سے کہا کہ ان پانچ روپیوں کو جاکر کنویں میں ڈال آؤ،،،، بیٹا جاکر کنویں میں ڈال آیا، دو تین روز تک لژکے کو کام نہیں ملا، اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، ہر روز اس کی والدہ اس کی نالائقی پر پردہ ڈالتی رہتی، اور ہر روز اس کا باپ لڑکے کے پیسے کنویں میں ڈلواتا رہا ۔۔۔۔ آخر ایک روز لڑکے کو کام مل گیا، اور اس نے سارا دن سخت محنت کر کے شام کو مزدوری کے پانچ روپئے کما کر والدہ کے پاس لایا، اور پھر حسب معمول والد کو وہ رقم دینے گیا ،چنانچہ والد نے حسب معمول ان پیسوں کو کنویں میں ڈالنے کے لئے کہا تو بیٹے نے بے اختیار کہا، کہ ابا جان یہ تو میرے خون پسینے کی کمائی ہے، انہیں کیسے کنویں میں ڈال دوں؟؟؟ ۔۔ تب اس کے والد نے مسکرا کر کہا کہ، بیٹا، اس سے پہلے جو پیسے تو کنویں میں ڈالتا رہا ہے، وہ بھی تو میری خون پسینے کی ہی کمائی تھی،،، تب تو تجھے کوئی احساس نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچ ہے عیاشی باپ کی کمائی پر ہی ہو سکتی ہے،،،، تحریر ــ غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏محرابپور ‏سندھ ‏ـ ‏


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.