ایک نظم - اقبال کے نام ۔ شاعر- غلام محمد وامِق اقبال کی جو فِکر ہے اُس پر ہمیں ہے ناز ۔ اقبال ہر زمانے میں رہتا ہے سرفراز ۔ اُمّت کے وہ حکیم تھے اور شاعرِ عوام ۔ مِلّت کے واسطے کیے اُس نے تمام کام ۔ اسلام کے عروج کی تھی اُن کو دیکھ فِکر ۔ اُن کے لبوں پہ رہتا تھا ہر دم خدا کا ذکر ۔ مشرق میں اُن کے فلسفے کی دھوم ہے مچی ۔ مغرب بھی اُن کی قدر تو کرتا ہے آج بھی ۔ طالب وہ خود کو کہتے تھے مولانا روم کے ۔ روحانی طور پر بھی جُڑے تھے وہ روم سے ۔ مدہوش ہم جو رہتے تھے لیل و نہار دیکھ ۔ سِرّ نہاں کو ہم پہ کیا آشکار دیکھ ۔ خودداری کا جو درس ہے، اقبال کا ہمیں ۔ قومی شعور اس سے ملا حال کا ہمیں ۔ شاہین کا لقب دیا اقبال نے ہمیں ۔ کرگس مگر بنا دیا ہے مال نے ہمیں ۔ ہم نے بھلا دیا ہے جو اقبال کا پیام ۔ ہم پھنس گئے ہیں مال کے اِس جال میں تمام ۔ اقبال کو بلند سدا رکھے گا خدا ۔ وامِق ہمیشہ کرتے رہو تم یہ ہی دعا ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ یہ نظم یکم نومبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔

 ایک نظم - اقبال کے نام ۔

شاعر- غلام محمد وامِق 


اقبال کی جو فِکر ہے اُس پر ہمیں ہے ناز ۔ 

اقبال ہر زمانے میں رہتا ہے سرفراز ۔ 


اُمّت کے وہ حکیم تھے اور شاعرِ عوام ۔ 

مِلّت کے واسطے کیے اُس نے تمام کام ۔ 


اسلام کے عروج کی تھی اُن کو دیکھ فِکر ۔ 

اُن کے لبوں پہ رہتا تھا ہر دم خدا کا ذکر ۔ 


مشرق میں اُن کے فلسفے کی دھوم ہے مچی ۔ 

مغرب بھی اُن کی قدر تو کرتا ہے آج بھی ۔ 


طالب وہ خود کو کہتے تھے مولانا روم کے ۔ 

روحانی طور پر بھی جُڑے تھے وہ روم سے ۔ 


مدہوش ہم جو رہتے تھے لیل و نہار دیکھ ۔ 

سِرّ نہاں کو ہم پہ کیا آشکار دیکھ ۔ 


خودداری کا جو درس ہے، اقبال کا ہمیں ۔ 

قومی شعور اس سے ملا حال کا ہمیں ۔ 


شاہین کا لقب دیا اقبال نے ہمیں ۔ 

کرگس مگر بنا دیا ہے مال نے ہمیں ۔ 


ہم نے بھلا دیا ہے جو اقبال کا پیام ۔ 

ہم پھنس گئے ہیں مال کے اِس جال میں تمام ۔ 


اقبال کو بلند سدا رکھے گا خدا ۔ 

وامِق ہمیشہ کرتے رہو تم یہ ہی دعا ۔ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــ 

مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات 

بحر- مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 

یہ نظم یکم نومبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔



SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.