غزل
غلام محمد وامِق
کم ہیں لیکن ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ضرور ۔
جن سے مل کر دل کو راحت روح کو آئے سرور ۔
گردشوں میں گردشیں ہیں کیا پتا حالات کا ۔
کب تلک مجھ سے رہو گے تم بھلا یوں دور دور ۔
تیری گردن میں جو سریا آ گیا ہے دیکھنا ۔
خاک میں مل جائے گا اِک روز یہ سارا غرور ۔
قَب٘ل اس کے جو مجھے تم سنگ دل کہنے لگو ۔
اپنے اندازِ سُخَن پر غور فرمائیں حضور ۔
حِرصِ دولت بڑھ رہی ہے حضرتِ انسان میں ۔
جیسے بھی ہو مال ہم نے جَم٘ع کرنا ہے ضرور ۔۔
کچھ نہیں ملتا ہے جنگوں سے یہ وامِق جان لے ۔
عورتیں اور بَچًے بوڑھے مرتے ہیں سب بے قصور ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلات ۔
بحر - رمل مثمن محذوف ۔
یہ غزل 19 نومبر 2925ء بروز بدھ مکمل ہوئی ۔
