نظم - جالب کے نام
غلام محمد وامِق
اِک شخص بہادر ایسا تھا جو جُھکتا اور نہ بِکتا تھا ۔
وہ ظلم حکومت کے سہتا اور پھر بھی سچ ہی لکھتا تھا ۔
کچھ ایسے لوگوں کے صدقے آباد یہ دنیا ہے ورنہ ۔
ظالم تو تباہی کے ساماں ہاں کرتا ہے اور کرتا تھا ۔
ہاں محنت کش مزدوروں کا بھی بوجھ اٹھایا اُس سَر نے ۔
وہ سَر جو کسی بھی آمر کے آگے نہ کبھی بھی جھکتا تھا ۔
اِک پَل نہ گوارا اُس نے کیا عیّاش حکومت میں رہنا ۔
مِسکین غریبوں کی خاطر وہ جیتا تھا اور مرتا تھا ۔
غُرَبا کے لیے پھولوں کی طرح تھی نرم طبیعت اُس کی مگر ۔
ہر لفظ تھا اُس کا اِک شعلہ شعروں سے دھواں سا اٹھتا تھا
وہ سچ کی خاطر جیلوں میں پابندِ سلاسل ہوتا رہا ۔
بِکنا نہ کیا منظور مگر فاقوں سے وہ اکثر رہتا تھا ۔
وہ جالِب تو تھا سب ہی کا اور سب ہی کا وہ حبیب بھی تھا
کردار کا اس کے سب کی طرح ہاں وامِق بھی دم بھرتا تھا ۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فَعِلن فعلن فعلن ۔
بحر- زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔
جنوری 1996ء میں کہی گئی نظم ۔
