سام ـ حام ـ یافث = کیا واقعی موجودہ دنیا کے جدِ اعلیٰ یہ ہی تھے؟ ....... ـــــــــــــــــــــــــــ از قلم ـ غلام محمد وامِق ... ایک انتہائی غور طلب مسئلہ ـ ( علمی عقلی منطقی تجزیہ) عام طور پر قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ـ جب حضرت نوح علیہ السلام اپنی سینکڑوں سالہ مسلسل تبلیغ کی ناکامی اور اپنی قوم کے کفر سے بیزار ہوگئے تو قرآنِ کریم کے مطابق " پس اُس نے اپنے رب سے دعا کی، میں بے بس ہوں، تُو میری مدد فرما ( سورۃ القمر، آیت نمبر ۱۰) ـ تب اس نے اللہ کے حکم سے بہت بڑی کشتی بنائی اور وقتِ مقررہ پر اس میں ہر ذی روح جانور کا جوڑا رکھا، کشتی میں حضرت نوح کے ساتھ اسّی (۸۰) مومن افراد اور نوح کے تین بیٹے، سام ـ حام اور یافث، بھی تھے ـ واضح ہوکہ ان تینوں بیٹوں کے نام اور تفصیل اسرائیلیات ( اسرائیلی روایات) میں تو ملتے ہیں، لیکن قرآنِ کریم میں نہیں ہے ـ قرآنِ کریم میں فقط نوح کے ایک نافرمان بیٹے کا ذکر ملتا ہے جو ایمان نہیں لایا تھا، اس نافرمان بیٹے کا نام بھی اسرائیلی روایات میں " کنعان " بتایا گیا ہے، نہ صرف بیٹا بلکہ نوح کی بیوی بھی ایمان نہیں لائی تھی، لہٰذا وہ دونوں طوفانِ نوح میں ہلاک ہوگئے تھے ـ ہمارا مقصد طوفانِ نوح یا اس کے اسباب پر بحث کرنا نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کا تنقیدی اور منطقی جائزہ لینا ہے کہ کیا حضرت نوح کے صرف مذکورہ تین بیٹے ہی تھے؟ اور کیا موجودہ دنیا ان تینوں کی نسل سے ہی ہے؟ ـافسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے تمام جدید اور قدیم علماء نے بار بار، اور ہر مقام پر یہ ہی بات بیان کی ہے، جوکہ مکمل طور پر اسرائیلیات سے اخذ کردہ ہے ـ اور جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر شخصیت پرستی کا رجحان رہا ہے، لہٰذا اگر کسی معروف عالم نے اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق کوئی بات کہدی یا کوئی نظریہ پیش کردیا تو پھر بعد میں آنے والے علماء بھی اس مسئلے پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ـ اور اندازِ بیاں تبدیل کرکے وہی روایات اپنی کتب میں آگے نقل کردیتے ہیں، جسے تحقیق ہرگز نہیں کہا جاسکتا البتہ ایسے عمل کو تقلید کہا جائے گا ـ آئیے اب ہم مذکورہ روایات کا منطقی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں ـ بعض اسرائیلی روایات کے مطابق بیان کیا جاتا ہے کہ، حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار اسی (۸۰) افراد طوفان سے صحیح سلامت بچنے کے چند روز بعد انتقال کرگئے تھے، اس لئے نوح کے ان تین بیٹوں سے ہی دنیا دوبارہ آباد ہوئی ہے ـ اس تناظر میں چند سوالات لازمی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ـ جوکہ درج ذیل ہیں ..... ۱. اگر ان تمام افراد کو کشتی سے اترتے ہی اللہ نے ماردینا تھا تو پھر ان کے لئے کشتی میں سوار کرنے کا حکم ہی کیوں دیا گیا ـ؟ ۲. اگر وہ سارے لوگ جن میں خواتین بھی شامل تھیں مرگئے، تو پھر نوح کے ان تین بیٹوں نے بغیر عورتوں کے اولاد کیسے پیدا کیں ـ؟ اب یہ کہنا تو مضحکہ خیز ہے کہ مرد مرگئے ہوں گے، عورتیں زندہ بچ گئیں ـ ۳. بعض روایات کے مطابق وہ تمام لوگ ( جن کی تعداد اسی بتائی گئی ہے، یہ کوئی مستند نہیں ہے، ان کی تعداد سینکڑوں بھی ہوسکتی ہے) مرے نہیں تھے بلکہ زندہ تھے تو پھر ان سے نسل آگے کیوں نہیں چلی؟ ـ ۴. حضرت نوح قرآنِ کریم کے مطابق ساڑھے نوسو سال زندہ رہے تھے، تو کیا اتنی طویل عمر میں انہوں نے فقط ایک ہی شادی کی تھی؟ اور وہ بھی ان سے جو منکرِ دین تھی اور طوفان میں مرگئی تھی، ان کی موجودگی میں یا پھر بعد میں حضرت نوح نے کوئی دوسری شادی کیوں نہیں کی؟ ـکیا قدیم زمانے میں فقط ایک ہی شادی کی جاتی تھی؟ جب کہ ہم اپنے اسلاف و اکابرین اور بزرگانِ دین کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کئی کئی شادیاں کیں ـ خلفائے راشدین نے بھی دو دو تین تین شادیاں کیں، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روایات کے مطابق نو ( ۹) شادیاں کیں، جن سے کم و بیش تیس بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے ـ ہمارے موجودہ دور میں بھی اکثر لوگ متعدد بیویاں رکھنے کے شوقین ہیں، اور سعودی عرب کے حکمرانوں کی بھی متعدد شادیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں اولادیں ہیں ـ قدیم دور میں تو ازواج رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی ـ اور حضرت نوح کا زمانہ تو دنیا کا ابتدائی دور تھا، اس زمانے میں کوئی زنانہ مردانہ بیماریاں بھی نہیں تھیں، اور انسان مکمل طور پر طاقتور ہوتا تھا، اور اس کے تقاضے بھی سوفیصد بھرپور ہوتے تھے، غاروں میں رہتے تھے، تو ایسی صورت میں یہ کہنا کہ بنی نوع انسان کے بابا ( آدمِ ثانی) کی فقط ایک بیوی (وہ بھی مرگئی تھی) اور صرف چار بیٹے تھے ( بیٹیاں بھی نہیں تھیں) ایک غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے اور تاریخی حقائق کے ساتھ ظلم ہے، جب کہ آدمِ اول کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں ہر روز صبح کو بیٹا اور شام کو بیٹی پیدا ہوتی تھی ـ ( واللہ اعلم بالصواب) ـ ۵. سام، حام، یافث، کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ تینوں بھائی دنیا کے الگ الگ براعظموں میں جاکر آباد ہوئے، چنانچہ سام کی اولاد یورپ، مشرقِ وسطیٰ، ایران، ہندوستان، میں آباد ہیں، اور اسی لئے انہیں سامی نسل کہا جاتا ہے ـ حام کی اولاد سیاہ فام لوگ ہیں، جوکہ افریقہ و حبشہ وغیرہ میں آباد ہیں، دیگر سیاہ فام اقوام کو بھی حام کی نسل بتایا جاتا ہے ـ جب کہ یافث کی نسل میں سفید فام لوگ، ترک، اور منگول نسل کے لوگ ( یاجوج ماجوج) شامل کئے جاتے ہیں ـ۶. سوچنے کی بات یہ ہے کہ روایات کے بقول دنیا بھر میں اس وقت فقط چار افراد تھے، یعنی حضرت نوح اور اس کے مذکورہ تین بیٹے، اور اگر مزید وسعتِ نظری سے دیکھ لیں تو مزید اسی (۸۰) افراد کو شامل کرکے کُل چوراسی افراد بنتے ہیں ـ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے کرہء ارض پر صرف چوراسی افراد ہوں ( پتھر کا زمانہ ہو، غاروں میں رہائش ہو، درندوں اور خوفناک جانوروں سے بھی مقابلہ ہو) تو ایسے میں وہ بھی ایک دوسرے سے دور دنیا کے مختلف خطوں میں جاکر آباد ہوجائیں؟ ـ ۷. ابنِ آدم کو معاشرتی حیوان کہا گیا ہے، اس کی فطرت میں مل جل کر اور معاشرہ بنا کر رہنا شامل کیا گیا ہے، چنانچہ ایسی قلتِ افراد کی صورت میں انسانی فطرت قریب قریب اور مِل کر رہنا پسند کرتی ہے ـ ایسے دور میں یہ خیال کرنا کہ پوری دنیا میں موجود فقط چند افراد ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور جاکر آباد ہوجائیں گے ( دُور بھی اتنا کہ جہاں پہنچنے کے لئے آج کے ترقی یافتہ جدید زمانے میں بھی ہوائی جہازوں کے ذریعے کئی کئی دن لگ جاتے ہیں) عقل سے بعید اور احمقانه خیال ہے ـ میرے نزدیک یہ تمام اسرائیلی روایات غلط اور جھوٹ پر مبنی ہیں ـ اور میں نے اپنی سوچ کے مطابق منطقی حقائق بیان کردئے ہیں، اب آپ انہیں تسلیم کریں یا نہ کریں یہ آپ کی اپنی مرضی ہے ـ وما علینا الی البلاغ المبین ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ مورخہ دس (۱۰) مئی سال ۲۰۲۲ ء ـ بروز منگل ـ


= سام ـ حام ـ یافث =  کیا واقعی موجودہ دنیا کے جدِ اعلیٰ یہ ہی تھے؟ ....... 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ از قلم ـ غلام محمد وامِق ... 
ایک انتہائی غور طلب مسئلہ ـ ( علمی عقلی منطقی تجزیہ) 

عام طور پر قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ـ جب حضرت نوح علیہ السلام اپنی سینکڑوں سالہ مسلسل تبلیغ کی ناکامی اور اپنی قوم کے کفر سے بیزار ہوگئے تو قرآنِ کریم کے مطابق " پس اُس نے اپنے رب سے دعا کی،  میں بے بس ہوں، تُو میری مدد فرما ( سورۃ القمر، آیت نمبر ۱۰) ـ تب اس نے اللہ کے حکم سے بہت بڑی کشتی بنائی اور وقتِ مقررہ پر اس میں ہر ذی روح جانور کا جوڑا رکھا،  کشتی میں حضرت نوح کے ساتھ اسّی (۸۰) مومن افراد اور نوح کے تین بیٹے، سام ـ حام اور یافث،  بھی تھے ـ واضح ہوکہ ان تینوں بیٹوں کے نام اور تفصیل اسرائیلیات ( اسرائیلی روایات) میں تو ملتے ہیں،  لیکن قرآنِ کریم میں نہیں ہے ـ قرآنِ کریم میں فقط نوح کے ایک نافرمان بیٹے کا ذکر ملتا ہے جو ایمان نہیں لایا تھا، اس نافرمان بیٹے کا نام بھی اسرائیلی روایات میں " کنعان " بتایا گیا ہے، نہ صرف بیٹا بلکہ نوح کی بیوی بھی ایمان نہیں لائی تھی، لہٰذا وہ دونوں طوفانِ نوح میں ہلاک ہوگئے تھے ـ 
ہمارا مقصد طوفانِ نوح یا اس کے اسباب پر بحث کرنا نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کا تنقیدی اور منطقی جائزہ لینا ہے کہ کیا حضرت نوح کے صرف مذکورہ تین بیٹے ہی تھے؟ اور کیا   موجودہ دنیا ان تینوں کی نسل سے ہی ہے؟ ـ
افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے تمام جدید اور قدیم علماء نے بار بار، اور ہر مقام پر یہ ہی بات بیان کی ہے، جوکہ مکمل طور پر اسرائیلیات سے اخذ کردہ ہے ـ اور جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر شخصیت پرستی کا رجحان رہا ہے، لہٰذا اگر کسی معروف عالم نے اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق کوئی بات کہدی یا کوئی نظریہ پیش کردیا تو پھر بعد میں آنے والے علماء بھی اس مسئلے پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ـ اور اندازِ بیاں تبدیل کرکے وہی روایات اپنی کتب میں آگے نقل کردیتے ہیں، جسے تحقیق ہرگز نہیں کہا جاسکتا البتہ ایسے عمل کو تقلید کہا جائے گا ـ
آئیے اب ہم مذکورہ روایات کا منطقی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں ـ بعض اسرائیلی روایات کے مطابق بیان کیا جاتا پے کہ، حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار اسی (۸۰)  افراد طوفان سے صحیح سلامت بچنے کے چند روز بعد انتقال کرگئے تھے، اس لئے نوح کے ان تین بیٹوں سے ہی دنیا دوبارہ آباد ہوئی ہے ـ اس تناظر میں چند سوالات لازمی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ـ جوکہ درج ذیل ہیں ..... 
۱. اگر ان تمام افراد کو کشتی سے اترتے ہی اللہ نے ماردینا تھا تو پھر ان کے لئے کشتی میں سوار کرنے کا حکم ہی کیوں دیا گیا ـ؟  
۲. اگر وہ سارے لوگ جن میں خواتین بھی شامل تھیں  مرگئے،  تو پھر نوح کے ان تین بیٹوں نے بغیر عورتوں کے اولاد کیسے پیدا کیں ـ؟ اب یہ کہنا تو مضحکہ خیز ہے کہ مرد مرگئے ہوں گے، عورتیں زندہ بچ گئیں ـ 
۳. بعض روایات کے مطابق وہ تمام لوگ ( جن کی تعداد اسی بتائی گئی ہے، یہ کوئی مستند نہیں ہے، ان کی تعداد سینکڑوں بھی ہوسکتی ہے)  مرے نہیں تھے بلکہ زندہ تھے تو پھر ان سے نسل آگے کیوں نہیں چلی؟  ـ 
۴. حضرت نوح قرآنِ کریم کے مطابق ساڑھے نوسو سال زندہ رہے تھے، تو کیا اتنی طویل عمر میں انہوں نے فقط ایک ہی شادی کی تھی؟ اور وہ بھی ان سے جو منکرِ دین تھی اور طوفان میں مرگئی تھی، ان کی موجودگی میں یا پھر بعد میں حضرت نوح نے کوئی دوسری شادی کیوں نہیں کی؟ ـ
کیا قدیم زمانے میں فقط ایک ہی شادی کی جاتی تھی؟   جب کہ ہم اپنے اسلاف و اکابرین اور بزرگانِ دین کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کئی کئی شادیاں کیں ـ خلفائے راشدین نے بھی دو دو تین تین شادیاں کیں، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روایات کے مطابق نو ( ۹)  شادیاں کیں، جن سے کم و بیش تیس بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے ـ ہمارے موجودہ دور میں بھی اکثر لوگ متعدد بیویاں رکھنے کے شوقین ہیں، اور سعودی عرب کے حکمرانوں کی بھی متعدد شادیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں اولادیں ہیں ـ قدیم دور میں تو ازواج رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی ـ اور حضرت نوح کا زمانہ تو دنیا کا ابتدائی دور تھا، اس زمانے میں کوئی زنانہ مردانہ بیماریاں بھی نہیں تھیں، اور انسان مکمل طور پر طاقتور ہوتا تھا، اور اس کے تقاضے بھی سوفیصد بھرپور ہوتے تھے، غاروں میں رہتے تھے، تو ایسی صورت میں یہ کہنا کہ بنی نوع انسان کے بابا ( آدمِ ثانی) کی فقط ایک بیوی (وہ بھی مرگئی تھی)  اور صرف چار بیٹے تھے ( بیٹیاں بھی نہیں تھیں) ایک غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے اور تاریخی حقائق کے ساتھ ظلم ہے، جب کہ آدمِ اول کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں ہر روز صبح کو بیٹا اور شام کو بیٹی پیدا ہوتی تھی ـ  ( واللہ اعلم بالصواب)  ـ 
۵. سام، حام، یافث، کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ تینوں بھائی دنیا کے الگ الگ براعظموں میں جاکر آباد ہوئے، چنانچہ سام کی اولاد یورپ، مشرقِ وسطیٰ، ایران، ہندوستان، میں آباد ہیں، اور اسی لئے انہیں سامی نسل کہا جاتا ہے ـ حام کی اولاد سیاہ فام لوگ ہیں، جوکہ افریقہ و حبشہ وغیرہ میں آباد ہیں، دیگر سیاہ فام اقوام کو بھی حام کی نسل بتایا جاتا ہے ـ جب کہ یافث کی نسل میں سفید فام لوگ، ترک، اور منگول نسل کے لوگ ( یاجوج ماجوج) شامل کئے جاتے ہیں ـ
۶. سوچنے کی بات یہ ہے کہ روایات کے بقول دنیا بھر میں اس وقت فقط چار افراد تھے، یعنی حضرت نوح اور اس کے مذکورہ تین بیٹے، اور اگر مزید وسعتِ نظری سے دیکھ لیں تو مزید اسی (۸۰) افراد کو شامل کرکے کُل چوراسی افراد بنتے ہیں ـ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے کرہء ارض پر صرف چوراسی افراد ہوں ( پتھر کا زمانہ ہو، غاروں میں رہائش ہو، درندوں اور خوفناک جانوروں سے بھی مقابلہ ہو) تو ایسے میں وہ بھی ایک دوسرے سے دور دنیا کے مختلف خطوں میں جاکر آباد ہوجائیں؟ ـ 
۷. ابنِ آدم کو معاشرتی حیوان کہا گیا ہے، اس کی فطرت میں مل جل کر اور معاشرہ بنا کر رہنا شامل کیا گیا ہے، چنانچہ ایسی قلتِ افراد کی صورت میں انسانی فطرت قریب قریب اور مِل کر رہنا پسند کرتی ہے ـ
 ایسے دور میں یہ خیال کرنا کہ پوری دنیا میں موجود فقط چند افراد ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور جاکر آباد ہوجائیں گے ( دُور بھی اتنا کہ جہاں پہنچنے کے لئے آج کے ترقی یافتہ جدید زمانے میں بھی ہوائی جہازوں کے ذریعے  کئی کئی دن لگ جاتے ہیں) عقل سے بعید اور احمقانه خیال ہے ـ 
  میرے نزدیک یہ تمام اسرائیلی روایات غلط اور جھوٹ پر مبنی ہیں ـ اور میں نے اپنی سوچ کے مطابق منطقی حقائق بیان کردئے ہیں، اب آپ انہیں تسلیم کریں یا نہ کریں یہ آپ کی اپنی مرضی ہے ـ وما علینا الی البلاغ المبین ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
 مورخہ دس (۱۰) مئی سال ۲۰۲۲ ء ـ بروز منگل ـ 

SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.