سال 1982ء میں لکھی گئی میری ایک تحریر,جسے ریڑیو پاکستان کراچی کے ایک پروگرام " بزمِ طلباء " کے تحریری مقابلے میں اول انعام حاصل ہوا۔ـــ ازــ غلام محمد وامِق === زندگی... آج اور صرف آج === زندگی ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ہر لمحہ غیر محسوس ہے۔ ہمیں احساس نہیں کہ زندگی برف کی مانند پگھل رہی ہے۔... چونکتے اس وقت ہیں جب آئینہ ہمیں چہرے پر پڑی ہوئی سلوٹیں دکھاتا ہے, کل کے لئے آج قربان کر دیتے ہیں۔ مگر کل کہاں... ؟ کسی نے کبھی کل نہیں دیکھا, سب کچھ آج ہے اور کچھ نہیں,... ہم آج ہی پیدا ہوئے اور آج ہی مرجائیں گے, میں آج چھوٹا سا ایک بچہ ہوں, کل بڑا ہونے کی خواہش میں آج فضول گزار دیتا ہوں, مگر کل نہیں ملتا,... میں آج بچہ ہوں, مجھے کھلونے چاہئے, میں بچہ ہوں مجھے ٹافیاں چاہئے۔...... میں آج ایک لڑکا ہوں, مجھے پیسے چاہئے, فلم دیکھنے کے لئے, دوستوں میں خرچ کرنے کے لئے, مگر پیسے نہیں ملتے,... مجھے کل کا انتظار ہے جب میں جوان ہوجاؤں گا۔ میرے پاس بھی پیسے ہوں گے۔ میں خود مختار ہوں گا, فلمیں دیکھوں گا۔ ڈرامے دیکھوں گا, دوستوں کے ساتھ محفلیں جماؤں گا, پیسہ دل کھول کر خرچ کروں گا۔.... میں آج ایک ذمیدار نوجوان ہوں مگر کل نہیں آیا... آج کا دن مجھ پر بہت گراں ہے۔ پیسوں کی ضرورت ہے, ایک ایک پیسہ دیکھ بھال کر خرچ کرتا ہوں, مجھے کل کا انتظار ہے۔ کل یکم کو تنخواہ ملے گی۔ آج کا دن گزرتا ہی نہیں کہ کل پیسے آئیں اور اپنے بچوں کے چہروں پر مسرت کی ایک چھوٹی سی لہر دیکھ سکوں, کل نہیں آیا, مگر آج ہی یکم تاریخ ہے۔ تنخواہ بھی ملی ہے۔... مگر یہ چھوٹی سی رقم کس طرح خرچ کروں، کہ مہینہ پورا ہو.. ؟ مجھے بہت فکر ہے۔ آخر یہ مہینہ اتنا طویل کیوں ہے۔ ؟ وقت کیوں نہیں گزرتا کہ کل سکون مل سکے,... مگر کل کہاں... ؟ اوہ... یہ کیا ؟ ... آج ہی آج میں میرے چہرے پر جھریوں کا جال بنتا جا رہا ہے، میں کیا کروں۔ ؟ .... ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏محراب ‏پور ‏سندھ ‏ــ ‏سال ‏1982ء ‏ــ ‏


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.