ھریانوی غزل = چاند پہ مانس چلے گئے پر دلاں مَیں بسنا بھول گئے ۔  انٹرنیٹ پہ رھن لاگ گے گھراں میں رھنا بھول گئے ۔   ایک بگڑ مَیں سویا کردے مِل کَے نَیں سب بھائی بھائی ۔  بنگلے گاڈی سب نَیں لے لی مِلنا جُلنا بھول گئے ۔   دیکھو بَڈیاں کی عِجَت آلا دور تو کَد کا چلیا گیا ۔  اِب تو چھوٹے ، بَڈیاں کَے گلَّے بات بی کرنا بھول گئے ۔   پنکھ پکھیرو اُڈن لاگ رے، ھام جو لالچ مَیں آئے ۔  اِسے پھنسے ھاں جال مَیں آ کَے، دانہ چُگنا بھول گئے ۔   مَن کا دریا چُپ سا ہوگیا کوئے بی اِس مَیں شور نہیں ۔  پیار کی لہراں کا وہ دریا، سُندر سپنا بھول گئے ۔   ڈاکو کیوکر بن گیا وہ، مجدور جو بالَک پالَے تھا ۔  قاضی جی نَیں سب کچھ پوچھا، پر اتنا پوچھنا بھول گئے ۔   بَکھت بڑا اے جالم سَے یُو، وامِق سوچ ریا سَے کے ؟  بُڈّے ہوگے ٹھاٹھ باٹھ تَے رھنا سھنا بھول گئے ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ  بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔  مورخہ 25 جولائی 2025 ء کو کہی گئی غزل ۔۔۔

ھریانوی غزل = چاند پہ مانس چلے گئے پر دلاں مَیں بسنا بھول گئے ۔ انٹرنیٹ پہ رھن لاگ گے گھراں میں رھنا بھول گئے ۔ ایک بگڑ مَیں سویا کردے مِل کَے نَیں سب بھائی بھائی ۔ بنگلے گاڈی سب نَیں لے لی مِلنا جُلنا بھول گئے ۔ دیکھو بَڈیاں کی عِجَت آلا دور تو کَد کا چلیا گیا ۔ اِب تو چھوٹے ، بَڈیاں کَے گلَّے بات بی کرنا بھول گئے ۔ پنکھ پکھیرو اُڈن لاگ رے، ھام جو لالچ مَیں آئے ۔ اِسے پھنسے ھاں جال مَیں آ کَے، دانہ چُگنا بھول گئے ۔ مَن کا دریا چُپ سا ہوگیا کوئے بی اِس مَیں شور نہیں ۔ پیار کی لہراں کا وہ دریا، سُندر سپنا بھول گئے ۔ ڈاکو کیوکر بن گیا وہ، مجدور جو بالَک پالَے تھا ۔ قاضی جی نَیں سب کچھ پوچھا، پر اتنا پوچھنا بھول گئے ۔ بَکھت بڑا اے جالم سَے یُو، وامِق سوچ ریا سَے کے ؟ بُڈّے ہوگے ٹھاٹھ باٹھ تَے رھنا سھنا بھول گئے ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔ مورخہ 25 جولائی 2025 ء کو کہی گئی غزل ۔۔۔

 ھریانوی غزل 

غلام محمد وامِق 


چاند پہ مانس چلے گئے پر دلاں مَیں بسنا بھول گئے ۔ 

انٹرنیٹ پہ رھن لاگ گے گھراں میں رھنا بھول گئے ۔ 


ایک بگڑ مَیں سویا کردے مِل کَے نَیں سب بھائی بھائی ۔ 

بنگلے گاڈی سب نَیں لے لی مِلنا جُلنا بھول گئے ۔ 


دیکھو بَڈیاں کی عِجَت آلا دور تو کَد کا چلیا گیا ۔ 

اِب تو چھوٹے ، بَڈیاں کَے گلَّے بات بی کرنا بھول گئے ۔ 


پنکھ پکھیرو اُڈن لاگ رے، ھام جو لالچ مَیں آئے ۔ 

اِسے پھنسے ھاں جال مَیں آ کَے، دانہ چُگنا بھول گئے ۔ 


مَن کا دریا چُپ سا ہوگیا کوئے بی اِس مَیں شور نہیں ۔ 

پیار کی لہراں کا وہ دریا، سُندر سپنا بھول گئے ۔ 


ڈاکو کیوکر بن گیا وہ، مجدور جو بالَک پالَے تھا ۔ 

قاضی جی نَیں سب کچھ پوچھا، پر اتنا پوچھنا بھول گئے ۔ 


بَکھت بڑا اے جالم سَے یُو، وامِق سوچ ریا سَے کے ؟ 

بُڈّے ہوگے ٹھاٹھ باٹھ تَے رھنا سھنا بھول گئے ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔ 

مورخہ 25 جولائی 2025 ء کو کہی گئی غزل ۔۔۔


हरियाणवी ग़ज़ल 

ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़


चांद प मांणस चले गऐ पर दिलां मं बसणा भूल गये।

इंटरनेट प रहण लाग गे घरां मं रहणा भूल गये। 


एक बगड़ मं सोया कर्दे मिल क नं सब भाई भाई। 

बंग्ले गाडी सब नं लेली , मिलणा जुलणा भूल गये। 


देखो बडियां कि इजत आला दोर   तो कद का चल्या गया।

इब तो छोटे, बडियां क गल्ल बात बि करणा भूल गये। 


पंख पखेरु उडण लाग रे, हाम जो लालच मं आए । 

इसे फंसे हां जाल मं आ क, दाणा चुगणा भूल गये। 


मन का दरिया चुप सा होगया कोए बि इस मं शोर नही। 

पियार कि लहरां का वो दरिया, सुन्दर सपना भूल गये। 


डाकू कियु कर बण गया वो, मजदूर जो बालक पा ल था। 

क़ाज़ी जि नं सब कुछ पुछा, पर इतना पुछणा भूल गये। 


बख्त बड़ा ए जालिम स उ, वामिक़ सोच रया स के ? 

बुड्डे होगे ठाठ बाठ त रहणा सहणा भूल गये। 

____________________ 

बहर - हिंदी मुतक़ारब मुसम्मन मुज़ाइफ़ 

25 जुलाई 2025 को कही ग ई ग़ज़ल।


  اسٹیشن =  کہتے ہیں جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے ، اور شہر بھی لاہور جس کے باشندوں کا دعویٰ ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ( جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں ) بالفاظِ دیگر کسی کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ نادرا کا سرٹیفیکیٹ نہیں لاہور کی ٹکیٹ ہو گئی ۔ تو جناب ہم نے بھی راولپنڈی سے محراب پور واپسی کے لیے ریل کا ٹکیٹ لینے کے بجائے بذریعہ بس لاہور کا ٹکیٹ خرید لیا ، ان دنوں موٹر وے نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں تھا یہ غالباً سال 1995-96 کا زمانہ تھا ۔ نئی نئی ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلی تھیں جن میں وی سی آر پر انڈین فلموں سے بھی مسافروں کو محظوظ کیا جاتا تھا، یہ ہی سب کچھ سوچ کر ہم نے براستہ لاہور محراب پور سندھ واپسی کا ارادہ کر لیا اور بس میں سوار ہو گئے میرا ایک ہمسفر بھی تھا جسے راستے میں لاہور سے پہلے کسی مقام پر اترنا تھا ، بس بہت آرام دہ تھی مزید لطف یہ کہ وی سی آر پر انڈین فلم " کرن ارجن" چلادی گئی تھی جو کہ ان دنوں نئی نئی ریلیز ہوئی تھی ۔ راستے میں میرا ہم سفر بھی لاہور سے کچھ مسافت پہلے اپنی منزل پر اتر گیا اور جاتے جاتے بس کنڈکٹر کو خاص تاکید کرتا گیا کہ وہ مجھے یاد کر کے اسٹیشن پر اتار دے ( یعنی لاہور اسٹیشن پر)  وی سی آر پر اب کوئی دوسری مووی چلا دی گئی تھی لہٰذا وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا کہ اچانک کنڈکٹر کی آواز نے چونکا دیا کہ باؤ جی اترو اسٹیشن آگیا میں نے باہر کی طرف دیکھا شام ہو چلی تھی مگر مجھے لاہور اسٹیشن کے آثار کہیں نظر نہیں آئے تو پوچھا کہ ادھر تو کوئی اسٹیشن نظر نہیں آ رہا ؟ تو کنڈکٹر نے کہا کہ جناب آپ اتریں تو سہی تھوڑا سا آگے چلو گے تو اسٹیشن بھی نظر آجائے گا ، میں بڑا پریشان کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ، لاہور اسٹیشن کوئی ماچس کی ڈبیہ تو نہیں کہ آگے چل کر نظر آجائے گا ۔ خیر میں نے اپنا مختصر سا بیگ اٹھایا اور حیران پریشان نظروں سے باہر دیکھتے ہوئے بس سے اتر گیا تو بس فوراً چل دی ۔ وہاں پر موجود لوگوں سے دریافت کیا کہ بھائی جی اسٹیشن کدھر ہے ؟ تو ایک نیم پختہ سی سڑک کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس پر چلتے جائیں یہ سیدھا اسٹیشن جائے گی ۔ بات سمجھ سے باہر ہوتی جا رہی تھی کہ لاہور اسٹیشن ہے یا کسی گاؤں کا  بس اڈہ ہے ؟ بہرحال مرتا کیا نہ کرتا سڑک پر چل پڑا وہ سڑک ویران و سنسان تھی دونوں طرف جھاڑیاں تھیں جس کے باعث خوف کی سرد سی لہر پورے جسم میں پھیلتی جا رہی تھی ۔ دس پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعد ریلوے لائن کے آثار نظر آئے ، تھوڑا آگے چلا تو ایک اسٹیشن بھی نظر آگیا ، اسٹیشن کا نام پڑھا تو لکھا تھا " شاہدرہ " وہاں سے فوراً پسپائی اختیار کی اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا ، واپس بس اسٹاپ پر آکر وہاں پر موجود لوگوں سے اپنی پریشانی بیان کی تو انہوں نے بتایا کہ جناب لاہور تو ابھی بہت آگے ہے یہ اسٹاپ تو شاہدرہ اسٹیشن کا ہے ۔ اور اس اسٹاپ کو اسٹیشن کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ۔ اب نہیں معلوم اس سارے مسئلے میں قصوروار کون تھا مگر میں اب درمیان میں پھنس چکا تھا وہاں سے کوئی بھی بس مُجھے لاہور تک پہنچانے کے لیے آمادہ نہیں تھی ، اب یاد نہیں کہ کس ذریعے سے میں لاہور اسٹیشن تک پہنچا لیکن پہنچ گیا ۔ میرا لاہور میں کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جاننے والا تھا لہٰذا مجھے اسی رات واپس آنا تھا ۔ چنانچہ جب اسٹیشن پر ٹکیٹ لینے کے لیے آیا تو دیکھا کہ سامنے دوسرے پلیٹ سے گاڑی روانہ ہو رہی ہے اس کے بعد رات بھر  کوئی دوسری گاڑی بھی نہیں تھی، اب ٹکیٹ خریدنے کا اور پل کے ذریعے دوسرے پلیٹ فارم تک پہنچنے کا وقت بھی نہیں تھا چنانچہ بھاگ کر لائنوں کے درمیان لکڑی کی  بنی ہوئی حدبندی ( ریلنگ) پر چڑھ گیا اور جیسے ہی ٹرین کے سیکنڈ کلاس کے ڈبے کا دروازہ میرے سامنے آیا فوراً ہی اللّٰہ کا نام لے کر چھلانگ لگا دی اور دھڑام سے جس چیز پر میں جا کر پڑا وہ نیچے سوئی ہوئی اللّٰہ کی غریب عوام تھی ۔ وہ اچانک آنے والی اس ناگہانی آفت سے ہڑ بڑا کر اٹھے اور پھر پنجابی زبان میں جس قدر وہ احتجاج کر سکتے تھے کیا ۔ میں خاموشی سے سنتا رہا کہ ہمارے ملک میں غریب عوام فقط احتجاج ہی تو کر سکتی ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ میں نے بہت ساری معزرتیں ( یہ معزرت کی نئی  ترکیب میں نے ابھی ایجاد کی ہے)  کیں تو وہ غریب عوام ٹھنڈے ہوئے ۔ بہرحال جیسے تیسے خانیوال اسٹیشن آیا تو میں نے وہاں سے محراب پور کے لئے ٹکیٹ خریدی اور خیر سے بدھو گھر کو آئے ۔۔۔ واقعی سچ کہا جاتا ہے کہ " لہور لہور اے " ۔۔۔  تحریر - غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔۔۔  تاریخ 26جولائی 2025ء بروز ہفتہ ۔۔۔۔۔۔

اسٹیشن = کہتے ہیں جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے ، اور شہر بھی لاہور جس کے باشندوں کا دعویٰ ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ( جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں ) بالفاظِ دیگر کسی کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ نادرا کا سرٹیفیکیٹ نہیں لاہور کی ٹکیٹ ہو گئی ۔ تو جناب ہم نے بھی راولپنڈی سے محراب پور واپسی کے لیے ریل کا ٹکیٹ لینے کے بجائے بذریعہ بس لاہور کا ٹکیٹ خرید لیا ، ان دنوں موٹر وے نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں تھا یہ غالباً سال 1995-96 کا زمانہ تھا ۔ نئی نئی ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلی تھیں جن میں وی سی آر پر انڈین فلموں سے بھی مسافروں کو محظوظ کیا جاتا تھا، یہ ہی سب کچھ سوچ کر ہم نے براستہ لاہور محراب پور سندھ واپسی کا ارادہ کر لیا اور بس میں سوار ہو گئے میرا ایک ہمسفر بھی تھا جسے راستے میں لاہور سے پہلے کسی مقام پر اترنا تھا ، بس بہت آرام دہ تھی مزید لطف یہ کہ وی سی آر پر انڈین فلم " کرن ارجن" چلادی گئی تھی جو کہ ان دنوں نئی نئی ریلیز ہوئی تھی ۔ راستے میں میرا ہم سفر بھی لاہور سے کچھ مسافت پہلے اپنی منزل پر اتر گیا اور جاتے جاتے بس کنڈکٹر کو خاص تاکید کرتا گیا کہ وہ مجھے یاد کر کے اسٹیشن پر اتار دے ( یعنی لاہور اسٹیشن پر) وی سی آر پر اب کوئی دوسری مووی چلا دی گئی تھی لہٰذا وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا کہ اچانک کنڈکٹر کی آواز نے چونکا دیا کہ باؤ جی اترو اسٹیشن آگیا میں نے باہر کی طرف دیکھا شام ہو چلی تھی مگر مجھے لاہور اسٹیشن کے آثار کہیں نظر نہیں آئے تو پوچھا کہ ادھر تو کوئی اسٹیشن نظر نہیں آ رہا ؟ تو کنڈکٹر نے کہا کہ جناب آپ اتریں تو سہی تھوڑا سا آگے چلو گے تو اسٹیشن بھی نظر آجائے گا ، میں بڑا پریشان کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ، لاہور اسٹیشن کوئی ماچس کی ڈبیہ تو نہیں کہ آگے چل کر نظر آجائے گا ۔ خیر میں نے اپنا مختصر سا بیگ اٹھایا اور حیران پریشان نظروں سے باہر دیکھتے ہوئے بس سے اتر گیا تو بس فوراً چل دی ۔ وہاں پر موجود لوگوں سے دریافت کیا کہ بھائی جی اسٹیشن کدھر ہے ؟ تو ایک نیم پختہ سی سڑک کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس پر چلتے جائیں یہ سیدھا اسٹیشن جائے گی ۔ بات سمجھ سے باہر ہوتی جا رہی تھی کہ لاہور اسٹیشن ہے یا کسی گاؤں کا بس اڈہ ہے ؟ بہرحال مرتا کیا نہ کرتا سڑک پر چل پڑا وہ سڑک ویران و سنسان تھی دونوں طرف جھاڑیاں تھیں جس کے باعث خوف کی سرد سی لہر پورے جسم میں پھیلتی جا رہی تھی ۔ دس پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعد ریلوے لائن کے آثار نظر آئے ، تھوڑا آگے چلا تو ایک اسٹیشن بھی نظر آگیا ، اسٹیشن کا نام پڑھا تو لکھا تھا " شاہدرہ " وہاں سے فوراً پسپائی اختیار کی اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا ، واپس بس اسٹاپ پر آکر وہاں پر موجود لوگوں سے اپنی پریشانی بیان کی تو انہوں نے بتایا کہ جناب لاہور تو ابھی بہت آگے ہے یہ اسٹاپ تو شاہدرہ اسٹیشن کا ہے ۔ اور اس اسٹاپ کو اسٹیشن کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ۔ اب نہیں معلوم اس سارے مسئلے میں قصوروار کون تھا مگر میں اب درمیان میں پھنس چکا تھا وہاں سے کوئی بھی بس مُجھے لاہور تک پہنچانے کے لیے آمادہ نہیں تھی ، اب یاد نہیں کہ کس ذریعے سے میں لاہور اسٹیشن تک پہنچا لیکن پہنچ گیا ۔ میرا لاہور میں کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جاننے والا تھا لہٰذا مجھے اسی رات واپس آنا تھا ۔ چنانچہ جب اسٹیشن پر ٹکیٹ لینے کے لیے آیا تو دیکھا کہ سامنے دوسرے پلیٹ سے گاڑی روانہ ہو رہی ہے اس کے بعد رات بھر کوئی دوسری گاڑی بھی نہیں تھی، اب ٹکیٹ خریدنے کا اور پل کے ذریعے دوسرے پلیٹ فارم تک پہنچنے کا وقت بھی نہیں تھا چنانچہ بھاگ کر لائنوں کے درمیان لکڑی کی بنی ہوئی حدبندی ( ریلنگ) پر چڑھ گیا اور جیسے ہی ٹرین کے سیکنڈ کلاس کے ڈبے کا دروازہ میرے سامنے آیا فوراً ہی اللّٰہ کا نام لے کر چھلانگ لگا دی اور دھڑام سے جس چیز پر میں جا کر پڑا وہ نیچے سوئی ہوئی اللّٰہ کی غریب عوام تھی ۔ وہ اچانک آنے والی اس ناگہانی آفت سے ہڑ بڑا کر اٹھے اور پھر پنجابی زبان میں جس قدر وہ احتجاج کر سکتے تھے کیا ۔ میں خاموشی سے سنتا رہا کہ ہمارے ملک میں غریب عوام فقط احتجاج ہی تو کر سکتی ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ میں نے بہت ساری معزرتیں ( یہ معزرت کی نئی ترکیب میں نے ابھی ایجاد کی ہے) کیں تو وہ غریب عوام ٹھنڈے ہوئے ۔ بہرحال جیسے تیسے خانیوال اسٹیشن آیا تو میں نے وہاں سے محراب پور کے لئے ٹکیٹ خریدی اور خیر سے بدھو گھر کو آئے ۔۔۔ واقعی سچ کہا جاتا ہے کہ " لہور لہور اے " ۔۔۔ تحریر - غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔۔۔ تاریخ 26جولائی 2025ء بروز ہفتہ ۔۔۔۔۔۔

 حقیقت پر مبنی ایک شگفتہ تحریر ۔ 

                  اسٹیشن 


کہتے ہیں جب گیدڑ کی شامت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے ، اور شہر بھی لاہور جس کے باشندوں کا دعویٰ ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ( جنے لہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں ) بالفاظِ دیگر کسی کی پیدائش کا سرٹیفیکیٹ نادرا کا سرٹیفیکیٹ نہیں لاہور کی ٹکیٹ ہو گئی ۔ تو جناب ہم نے بھی راولپنڈی سے محراب پور واپسی کے لیے ریل کا ٹکیٹ لینے کے بجائے بذریعہ بس لاہور کا ٹکیٹ خرید لیا ، ان دنوں موٹر وے نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں تھا یہ غالباً سال 1995-96 کا زمانہ تھا ۔ نئی نئی ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلی تھیں جن میں وی سی آر پر انڈین فلموں سے بھی مسافروں کو محظوظ کیا جاتا تھا، یہ ہی سب کچھ سوچ کر ہم نے براستہ لاہور محراب پور سندھ واپسی کا ارادہ کر لیا اور بس میں سوار ہو گئے میرا ایک ہمسفر بھی تھا جسے راستے میں لاہور سے پہلے کسی مقام پر اترنا تھا ، بس بہت آرام دہ تھی مزید لطف یہ کہ وی سی آر پر انڈین فلم " کرن ارجن" چلادی گئی تھی جو کہ ان دنوں نئی نئی ریلیز ہوئی تھی ۔ راستے میں میرا ہم سفر بھی لاہور سے کچھ مسافت پہلے اپنی منزل پر اتر گیا اور جاتے جاتے بس کنڈکٹر کو خاص تاکید کرتا گیا کہ وہ مجھے یاد کر کے اسٹیشن پر اتار دے ( یعنی لاہور اسٹیشن پر)  وی سی آر پر اب کوئی دوسری مووی چلا دی گئی تھی لہٰذا وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا کہ اچانک کنڈکٹر کی آواز نے چونکا دیا کہ باؤ جی اترو اسٹیشن آگیا میں نے باہر کی طرف دیکھا شام ہو چلی تھی مگر مجھے لاہور اسٹیشن کے آثار کہیں نظر نہیں آئے تو پوچھا کہ ادھر تو کوئی اسٹیشن نظر نہیں آ رہا ؟ تو کنڈکٹر نے کہا کہ جناب آپ اتریں تو سہی تھوڑا سا آگے چلو گے تو اسٹیشن بھی نظر آجائے گا ، میں بڑا پریشان کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ، لاہور اسٹیشن کوئی ماچس کی ڈبیہ تو نہیں کہ آگے چل کر نظر آجائے گا ۔ خیر میں نے اپنا مختصر سا بیگ اٹھایا اور حیران پریشان نظروں سے باہر دیکھتے ہوئے بس سے اتر گیا تو بس فوراً چل دی ۔ وہاں پر موجود لوگوں سے دریافت کیا کہ بھائی جی اسٹیشن کدھر ہے ؟ تو ایک نیم پختہ سی سڑک کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ اس پر چلتے جائیں یہ سیدھا اسٹیشن جائے گی ۔ بات سمجھ سے باہر ہوتی جا رہی تھی کہ لاہور اسٹیشن ہے یا کسی گاؤں کا  بس اڈہ ہے ؟ بہرحال مرتا کیا نہ کرتا سڑک پر چل پڑا وہ سڑک ویران و سنسان تھی دونوں طرف جھاڑیاں تھیں جس کے باعث خوف کی سرد سی لہر پورے جسم میں پھیلتی جا رہی تھی ۔ دس پندرہ منٹ پیدل چلنے کے بعد ریلوے لائن کے آثار نظر آئے ، تھوڑا آگے چلا تو ایک اسٹیشن بھی نظر آگیا ، اسٹیشن کا نام پڑھا تو لکھا تھا " شاہدرہ " وہاں سے فوراً پسپائی اختیار کی اندھیرا پھیلتا جا رہا تھا ، واپس بس اسٹاپ پر آکر وہاں پر موجود لوگوں سے اپنی پریشانی بیان کی تو انہوں نے بتایا کہ جناب لاہور تو ابھی بہت آگے ہے یہ اسٹاپ تو شاہدرہ اسٹیشن کا ہے ۔ اور اس اسٹاپ کو اسٹیشن کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے ۔ اب نہیں معلوم اس سارے مسئلے میں قصوروار کون تھا مگر میں اب درمیان میں پھنس چکا تھا وہاں سے کوئی بھی بس مُجھے لاہور تک پہنچانے کے لیے آمادہ نہیں تھی ، اب یاد نہیں کہ کس ذریعے سے میں لاہور اسٹیشن تک پہنچا لیکن پہنچ گیا ۔ میرا لاہور میں کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا اور نہ ہی کوئی جاننے والا تھا لہٰذا مجھے اسی رات واپس آنا تھا ۔ چنانچہ جب اسٹیشن پر ٹکیٹ لینے کے لیے آیا تو دیکھا کہ سامنے دوسرے پلیٹ سے گاڑی روانہ ہو رہی ہے اس کے بعد رات بھر  کوئی دوسری گاڑی بھی نہیں تھی، اب ٹکیٹ خریدنے کا اور پل کے ذریعے دوسرے پلیٹ فارم تک پہنچنے کا وقت بھی نہیں تھا چنانچہ بھاگ کر لائنوں کے درمیان لکڑی کی  بنی ہوئی حدبندی ( ریلنگ) پر چڑھ گیا اور جیسے ہی ٹرین کے سیکنڈ کلاس کے ڈبے کا دروازہ میرے سامنے آیا فوراً ہی اللّٰہ کا نام لے کر چھلانگ لگا دی اور دھڑام سے جس چیز پر میں جا کر پڑا وہ نیچے سوئی ہوئی اللّٰہ کی غریب عوام تھی ۔ وہ اچانک آنے والی اس ناگہانی آفت سے ہڑ بڑا کر اٹھے اور پھر پنجابی زبان میں جس قدر وہ احتجاج کر سکتے تھے کیا ۔ میں خاموشی سے سنتا رہا کہ ہمارے ملک میں غریب عوام فقط احتجاج ہی تو کر سکتی ہے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ میں نے بہت ساری معزرتیں ( یہ معزرت کی نئی  ترکیب میں نے ابھی ایجاد کی ہے)  کیں تو وہ غریب عوام ٹھنڈے ہوئے ۔ بہرحال جیسے تیسے خانیوال اسٹیشن آیا تو میں نے وہاں سے محراب پور کے لئے ٹکیٹ خریدی اور خیر سے بدھو گھر کو آئے ۔۔۔ واقعی سچ کہا جاتا ہے کہ " لہور لہور اے " ۔۔۔ 

تحریر - غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔۔۔ 

تاریخ 26جولائی 2025ء بروز ہفتہ ۔۔۔۔۔۔


===   غزل=  تجھ سے ہرگز نہیں غافِل ٹھہرے ۔  پھر بھی ہم ہی ہیں کہ سنگ دِل ٹھہرے ۔   جدّتِ علم کے جو ہیں وارث ۔  کیا تماشا ہے کہ جاہِل ٹھہرے ۔   زہر پیتے ہیں جو سچ کی خاطر ۔  ہائے سقراط وہ باطِل ٹھہرے ۔   پکڑا قاتل نہیں جا سکتا کبھی ۔  جب کہ قاتِل ہی جو عادِل ٹھہرے ۔   ہاں ڈبونے کو مجھے دریا میں ۔  جو بھی تھے ساتھ وہ ساحل ٹھہرے ۔   جن کو کہتے تھے کبھی سب پاگل ۔  عہدِ کم ظرف میں عاقل ٹھہرے ۔   زندگی کی جو دعا دیتے ہیں ۔  دیکھ وامِق ! وہی قاتل ٹھہرے ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فاعلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔   بحر۔ رمل مسدس مخبون محذوف مسکن ۔  شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔  8 جون سال 2024ء کو کہی گئی ۔

=== غزل= تجھ سے ہرگز نہیں غافِل ٹھہرے ۔ پھر بھی ہم ہی ہیں کہ سنگ دِل ٹھہرے ۔ جدّتِ علم کے جو ہیں وارث ۔ کیا تماشا ہے کہ جاہِل ٹھہرے ۔ زہر پیتے ہیں جو سچ کی خاطر ۔ ہائے سقراط وہ باطِل ٹھہرے ۔ پکڑا قاتل نہیں جا سکتا کبھی ۔ جب کہ قاتِل ہی جو عادِل ٹھہرے ۔ ہاں ڈبونے کو مجھے دریا میں ۔ جو بھی تھے ساتھ وہ ساحل ٹھہرے ۔ جن کو کہتے تھے کبھی سب پاگل ۔ عہدِ کم ظرف میں عاقل ٹھہرے ۔ زندگی کی جو دعا دیتے ہیں ۔ دیکھ وامِق ! وہی قاتل ٹھہرے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ بحر۔ رمل مسدس مخبون محذوف مسکن ۔ شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔ 8 جون سال 2024ء کو کہی گئی ۔

 ===   غزل   === 

           غلام محمد وامِق  


تجھ سے ہرگز نہیں غافِل ٹھہرے ۔ 

پھر بھی ہم ہی ہیں کہ سنگ دِل ٹھہرے ۔ 


جدّتِ علم کے جو ہیں وارث ۔ 

کیا تماشا ہے کہ جاہِل ٹھہرے ۔ 


زہر پیتے ہیں جو سچ کی خاطر ۔ 

ہائے سقراط وہ باطِل ٹھہرے ۔ 


پکڑا قاتل نہیں جا سکتا کبھی ۔ 

جب کہ قاتِل ہی جو عادِل ٹھہرے ۔ 


ہاں ڈبونے کو مجھے دریا میں ۔ 

جو بھی تھے ساتھ وہ ساحل ٹھہرے ۔ 


جن کو کہتے تھے کبھی سب پاگل ۔ 

عہدِ کم ظرف میں عاقل ٹھہرے ۔ 


زندگی کی جو دعا دیتے ہیں ۔ 

دیکھ وامِق ! وہی قاتل ٹھہرے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

فاعلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ 

 بحر۔ رمل مسدس مخبون محذوف مسکن ۔ 

شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔ 

8 جون سال 2024ء کو کہی گئی ۔


کربلا میں شہید ہونے والے 72 شہیدوں کے نام ۔۔۔ لیکن سند نامعلوم ہے ۔ سچ یا جھوٹ اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے ۔

کربلا میں شہید ہونے والے 72 شہیدوں کے نام ۔۔۔ لیکن سند نامعلوم ہے ۔ سچ یا جھوٹ اللّٰہ تعالیٰ جانتا ہے ۔

 کربلا میں شہید ہونے والے 72 شہیدوں کے نام ۔ لیکن اس کی سند نامعلوم ہے ۔ سچ یا جھوٹ اللّٰہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ 

غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔


رسول اللّٰہ کی اپنی نواسی  " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔  صحیح البخاری ۔ حدیث نمبر - 516  النسائی ۔ حدیث نمبر - 712  سُنن ابن ماجہ ۔ حدیث نمبر - 3644

رسول اللّٰہ کی اپنی نواسی " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔ صحیح البخاری ۔ حدیث نمبر - 516 النسائی ۔ حدیث نمبر - 712 سُنن ابن ماجہ ۔ حدیث نمبر - 3644

 رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ، کی اپنی نواسی  " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔ 

صحیح البخاری ۔ حدیث نمبر - 516 

النسائی ۔ حدیث نمبر - 712 

سُنن ابن ماجہ ۔ حدیث نمبر - 3644




مغیث و بریرہ  ( ایک سادہ مگر معنی خیز قصہ )  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بہت سی روایات احادیث کے مطابق، حضرت مغیث اور ان کی بیوی " بریرہ " مدینہ کے ایک یہودی کے غلام تھے ، دونوں مسلمان ہو چکے تھے ، اس لئے ان کا مالک ان پر تشدد کرتا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ تم بریرہ کو خرید لو ۔ چنانچہ بی بی عائشہ رضہ نے بریرہ کو خرید لیا، اور کچھ عرصے بعد اسے آزاد کردیا، لیکن بریرہ پھر بھی حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں ہی رہی ۔ لیکن اس کا شوہر مغیث ابھی بھی غلام ہی تھا تو اس لئے شریعت کے مطابق ان کا نکاح فسخ ہو چکا تھا ۔ لیکن اگر آزاد بیوی چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھ سکتی تھی اور اپنے شوہر کے پاس جا سکتی تھی ۔  مگر بریرہ نے اپنے شوہر کی طرف واپس رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور قطع تعلق کر لیا ۔  اب بریرہ جب بھی سودا سلف لانے کے لئے بازار جاتیں تو، مغیث اس کے پیچھے پیچھے روتا ہوا چلتا رہتا اور اسے واپس رجوع کرنے کے لئے التجا کرتا رہتا تھا ۔  یہ صورتحال دیکھ کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم نے کبھی ایسا شوہر دیکھا ہے جو اپنی بیوی کے لئے اس قدر روتا ہو اور پیچھے پیچھے پھرتا ہو ؟ ۔  اور بریرہ سے بھی کہا کہ تم مغیث سے رجوع کر لو ۔  بریرہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ، کیا یہ آپ کا حکم ہے ؟  اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ یہ حکم نہیں بلکہ سفارش ہے ، یا میرا مشورہ ہے ۔  اس پر بریرہ نے کہا تو پھر میرا دل مغیث کے پاس واپس جانے کو نہیں کرتا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ۔ یاد رہے کہ مغیث کالے رنگ کا حبشی غلام تھا ۔   تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔  تاریخ ۔ 16 ستمبر سال 2023ء ۔ بروز ہفتہ ۔

مغیث و بریرہ ( ایک سادہ مگر معنی خیز قصہ ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت سی روایات احادیث کے مطابق، حضرت مغیث اور ان کی بیوی " بریرہ " مدینہ کے ایک یہودی کے غلام تھے ، دونوں مسلمان ہو چکے تھے ، اس لئے ان کا مالک ان پر تشدد کرتا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ تم بریرہ کو خرید لو ۔ چنانچہ بی بی عائشہ رضہ نے بریرہ کو خرید لیا، اور کچھ عرصے بعد اسے آزاد کردیا، لیکن بریرہ پھر بھی حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں ہی رہی ۔ لیکن اس کا شوہر مغیث ابھی بھی غلام ہی تھا تو اس لئے شریعت کے مطابق ان کا نکاح فسخ ہو چکا تھا ۔ لیکن اگر آزاد بیوی چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھ سکتی تھی اور اپنے شوہر کے پاس جا سکتی تھی ۔ مگر بریرہ نے اپنے شوہر کی طرف واپس رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور قطع تعلق کر لیا ۔ اب بریرہ جب بھی سودا سلف لانے کے لئے بازار جاتیں تو، مغیث اس کے پیچھے پیچھے روتا ہوا چلتا رہتا اور اسے واپس رجوع کرنے کے لئے التجا کرتا رہتا تھا ۔ یہ صورتحال دیکھ کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم نے کبھی ایسا شوہر دیکھا ہے جو اپنی بیوی کے لئے اس قدر روتا ہو اور پیچھے پیچھے پھرتا ہو ؟ ۔ اور بریرہ سے بھی کہا کہ تم مغیث سے رجوع کر لو ۔ بریرہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ، کیا یہ آپ کا حکم ہے ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ یہ حکم نہیں بلکہ سفارش ہے ، یا میرا مشورہ ہے ۔ اس پر بریرہ نے کہا تو پھر میرا دل مغیث کے پاس واپس جانے کو نہیں کرتا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ۔ یاد رہے کہ مغیث کالے رنگ کا حبشی غلام تھا ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 16 ستمبر سال 2023ء ۔ بروز ہفتہ ۔

 مغیث و بریرہ  ( ایک سادہ مگر معنی خیز قصہ ) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بہت سی روایات احادیث کے مطابق، حضرت مغیث اور ان کی بیوی " بریرہ " مدینہ کے ایک یہودی کے غلام تھے ، دونوں مسلمان ہو چکے تھے ، اس لئے ان کا مالک ان پر تشدد کرتا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ سے فرمایا کہ تم بریرہ کو خرید لو ۔ چنانچہ بی بی عائشہ رضہ نے بریرہ کو خرید لیا، اور کچھ عرصے بعد اسے آزاد کردیا، لیکن بریرہ پھر بھی حضرت عائشہ صدیقہ کی خدمت میں ہی رہی ۔ لیکن اس کا شوہر مغیث ابھی بھی غلام ہی تھا تو اس لئے شریعت کے مطابق ان کا نکاح فسخ ہو چکا تھا ۔ لیکن اگر آزاد بیوی چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھ سکتی تھی اور اپنے شوہر کے پاس جا سکتی تھی ۔ 

مگر بریرہ نے اپنے شوہر کی طرف واپس رجوع کرنا مناسب نہیں سمجھا اور قطع تعلق کر لیا ۔ 

اب بریرہ جب بھی سودا سلف لانے کے لئے بازار جاتیں تو، مغیث اس کے پیچھے پیچھے روتا ہوا چلتا رہتا اور اسے واپس رجوع کرنے کے لئے التجا کرتا رہتا تھا ۔ 

یہ صورتحال دیکھ کر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ کیا تم نے کبھی ایسا شوہر دیکھا ہے جو اپنی بیوی کے لئے اس قدر روتا ہو اور پیچھے پیچھے پھرتا ہو ؟ ۔ 

اور بریرہ سے بھی کہا کہ تم مغیث سے رجوع کر لو ۔ 

بریرہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ، کیا یہ آپ کا حکم ہے ؟ 

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں ۔ یہ حکم نہیں بلکہ سفارش ہے ، یا میرا مشورہ ہے ۔ 

اس پر بریرہ نے کہا تو پھر میرا دل مغیث کے پاس واپس جانے کو نہیں کرتا ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے ۔ یاد رہے کہ مغیث کالے رنگ کا حبشی غلام تھا ۔ 


تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ 

تاریخ ۔ 16 ستمبر سال 2023ء ۔ بروز ہفتہ ۔




رسالہ سہ ماہی " فروغ کراچی " جولائی تا ستمبر 2025ء میں چھپنے والی میری غزل ۔۔۔   غزل  غلام محمد وامِق   عجب یہ زندگی میں دیکھیے آزار ہوتا ہے ۔  جسے اپنا سمجھتے ہیں وہی غدّار ہوتا ہے ۔   بہت مانوس جس سے ہوتے ہیں مُخلِص سمجھتے ہیں ۔  وہی انسان اکثر دیکھیے مکاّر ہوتا ہے ۔   سُہانی سیج ہی سمجھا تھا ہم نے یہ جہاں لیکن ۔  ہُوا معلوم یہ کانٹوں بھرا سنسار ہوتا ہے ۔   بہت غُنڈا بھی ہو بدمعاش بھی ہو اور ہو بدنام ۔  نظامِ ظُلم میں وہ آدمی سردار ہوتا ہے ۔   شریف النّفس ہو جو آدمی اور بے ضَرر بھی ہو ۔  ہمارے ملک میں وہ شخص ہی بے کار ہوتا ہے ۔   حقیقت اپنی کیا ہے دوستو گر جان لیں ہم یہ ۔  یہ ہی وہ علم ہے جو اِک بڑا اَسرار ہوتا ہے ۔  ہمارے سامنے وامِق ہمارے عیب جو کھولے ۔  ہماری آنکھ میں وہ شخص ہی بس خار ہوتا ہے ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــــ  شاعر - غلام محمد وامِق ۔ محراب پور سندھ ۔

رسالہ سہ ماہی " فروغ کراچی " جولائی تا ستمبر 2025ء میں چھپنے والی میری غزل ۔۔۔ غزل غلام محمد وامِق عجب یہ زندگی میں دیکھیے آزار ہوتا ہے ۔ جسے اپنا سمجھتے ہیں وہی غدّار ہوتا ہے ۔ بہت مانوس جس سے ہوتے ہیں مُخلِص سمجھتے ہیں ۔ وہی انسان اکثر دیکھیے مکاّر ہوتا ہے ۔ سُہانی سیج ہی سمجھا تھا ہم نے یہ جہاں لیکن ۔ ہُوا معلوم یہ کانٹوں بھرا سنسار ہوتا ہے ۔ بہت غُنڈا بھی ہو بدمعاش بھی ہو اور ہو بدنام ۔ نظامِ ظُلم میں وہ آدمی سردار ہوتا ہے ۔ شریف النّفس ہو جو آدمی اور بے ضَرر بھی ہو ۔ ہمارے ملک میں وہ شخص ہی بے کار ہوتا ہے ۔ حقیقت اپنی کیا ہے دوستو گر جان لیں ہم یہ ۔ یہ ہی وہ علم ہے جو اِک بڑا اَسرار ہوتا ہے ۔ ہمارے سامنے وامِق ہمارے عیب جو کھولے ۔ ہماری آنکھ میں وہ شخص ہی بس خار ہوتا ہے ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــ شاعر - غلام محمد وامِق ۔ محراب پور سندھ ۔







 رسالہ سہ ماہی " فروغ کراچی " جولائی تا ستمبر 2025ء میں چھپنے والی میری غزل ۔۔۔ 


غزل 

غلام محمد وامِق 


عجب یہ زندگی میں دیکھیے آزار ہوتا ہے ۔ 

جسے اپنا سمجھتے ہیں وہی غدّار ہوتا ہے ۔ 


بہت مانوس جس سے ہوتے ہیں مُخلِص سمجھتے ہیں ۔ 

وہی انسان اکثر دیکھیے مکاّر ہوتا ہے ۔ 


سُہانی سیج ہی سمجھا تھا ہم نے یہ جہاں لیکن ۔ 

ہُوا معلوم یہ کانٹوں بھرا سنسار ہوتا ہے ۔ 


بہت غُنڈا بھی ہو بدمعاش بھی ہو اور ہو بدنام ۔ 

نظامِ ظُلم میں وہ آدمی سردار ہوتا ہے ۔ 


شریف النّفس ہو جو آدمی اور بے ضَرر بھی ہو ۔ 

ہمارے ملک میں وہ شخص ہی بے کار ہوتا ہے ۔ 


حقیقت اپنی کیا ہے دوستو گر جان لیں ہم یہ ۔ 

یہ ہی وہ علم ہے جو اِک بڑا اَسرار ہوتا ہے ۔


ہمارے سامنے وامِق ہمارے عیب جو کھولے ۔ 

ہماری آنکھ میں وہ شخص ہی بس خار ہوتا ہے ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــ 

شاعر - غلام محمد وامِق ۔

محراب پور سندھ ۔

Powered by Blogger.