ہے انساں کی سوچوں پہ تلوار اب بھی ۔  یہ رسموں رواجوں کی دیوار اب بھی ۔   بظاہر جو لگتے ہیں ہر شئے سے غافل ۔  ہیں مطلب پہ اپنے وہ ہشیار اب بھی ۔   پرانا کہاں قصہ چنگیز خاں کا ۔  کہ بنتے ہیں لاشوں کے مینار اب بھی ۔  غریبوں کو کچھ بھی نہیں ملتا لیکن ۔  ہیں مالک یہ غلوں کے، زردار اب بھی ۔   سنو ! دعویداران  تقدیسِ انساں ۔  یہ انسانیت ہے ، سر دار اب بھی ۔   ہیں آزاد ہم یوں تو ظاہر میں لیکن ۔  مقید ، ہمارے ہیں افکار اب بھی ۔   کہیں پھر نہ فرہاد تیشہ اٹھالے ۔  کہ ڈر سے لرزتے ہیں کہسار اب بھی ۔   کبھی جرم الفت ہوا تھا، مگر دل ۔  صبح و شام ہوتا ہے سنگسار اب بھی ۔   شہیدِ محبت کے چہرے سے دیکھو ۔  ہویدا ہیں عظمت کے آثار اب بھی ۔   کبھی گل کے پہلو میں دیکھے تھے ہم نے ۔  کھٹکتے ہیں آنکھوں میں وہ خار اب بھی ۔   امنگیں جوانی کی مٹتی گئیں سب ۔  مگر جوں کا توں ہے تیرا پیار اب بھی ۔   ہے دل میں یقیں اس کو میری وفا پر ۔  مگر ضد کے باعث ہے انکار اب بھی ۔   جو لینے گئے جنس الفت تو دیکھا ۔  بھرے ہیں عداوت سے بازار اب بھی ۔   زباں تم نے کاٹی تو کیا غم ہے وامق ۔  یہ دل تو ہے حق کا پرستار اب بھی ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔  اکتوبر 1985ء میں کہی گئی غزل ۔

ہے انساں کی سوچوں پہ تلوار اب بھی ۔ یہ رسموں رواجوں کی دیوار اب بھی ۔ بظاہر جو لگتے ہیں ہر شئے سے غافل ۔ ہیں مطلب پہ اپنے وہ ہشیار اب بھی ۔ پرانا کہاں قصہ چنگیز خاں کا ۔ کہ بنتے ہیں لاشوں کے مینار اب بھی ۔ غریبوں کو کچھ بھی نہیں ملتا لیکن ۔ ہیں مالک یہ غلوں کے، زردار اب بھی ۔ سنو ! دعویداران تقدیسِ انساں ۔ یہ انسانیت ہے ، سر دار اب بھی ۔ ہیں آزاد ہم یوں تو ظاہر میں لیکن ۔ مقید ، ہمارے ہیں افکار اب بھی ۔ کہیں پھر نہ فرہاد تیشہ اٹھالے ۔ کہ ڈر سے لرزتے ہیں کہسار اب بھی ۔ کبھی جرم الفت ہوا تھا، مگر دل ۔ صبح و شام ہوتا ہے سنگسار اب بھی ۔ شہیدِ محبت کے چہرے سے دیکھو ۔ ہویدا ہیں عظمت کے آثار اب بھی ۔ کبھی گل کے پہلو میں دیکھے تھے ہم نے ۔ کھٹکتے ہیں آنکھوں میں وہ خار اب بھی ۔ امنگیں جوانی کی مٹتی گئیں سب ۔ مگر جوں کا توں ہے تیرا پیار اب بھی ۔ ہے دل میں یقیں اس کو میری وفا پر ۔ مگر ضد کے باعث ہے انکار اب بھی ۔ جو لینے گئے جنس الفت تو دیکھا ۔ بھرے ہیں عداوت سے بازار اب بھی ۔ زباں تم نے کاٹی تو کیا غم ہے وامق ۔ یہ دل تو ہے حق کا پرستار اب بھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ اکتوبر 1985ء میں کہی گئی غزل ۔


 غ ۔ ز ۔ ل 
      غلام محمد وامق 

ہے انساں کی سوچوں پہ تلوار اب بھی ۔ 
یہ رسموں رواجوں کی دیوار اب بھی ۔ 

بظاہر جو لگتے ہیں ہر شئے سے غافل ۔ 
ہیں مطلب پہ اپنے وہ ہشیار اب بھی ۔ 

پرانا کہاں قصہ چنگیز خاں کا ۔ 
کہ بنتے ہیں لاشوں کے مینار اب بھی ۔ 

غریبوں کو کچھ بھی نہیں ملتا لیکن ۔ 
ہیں مالک یہ غلوں کے، زردار اب بھی ۔ 

سنو ! دعویداران  تقدیسِ انساں ۔ 
یہ انسانیت ہے ، سر دار اب بھی ۔ 

ہیں آزاد ہم یوں تو ظاہر میں لیکن ۔ 
مقیّد ، ہمارے ہیں افکار اب بھی ۔ 

کہیں پھر نہ فرہاد تیشہ اٹھالے ۔ 
کہ ڈر سے لرزتے ہیں کہسار اب بھی ۔ 

شہیدِ محبت کے چہرے سے دیکھو ۔ 
ہُویدا ہیں عظمت کے آثار اب بھی ۔ 

کبھی گل کے پہلو میں دیکھے تھے ہم نے ۔ 
کھٹکتے ہیں آنکھوں میں وہ خار اب بھی ۔ 

امنگیں جوانی کی مٹتی گئیں سب ۔ 
مگر جوں کا توں ہے تیرا پیار اب بھی ۔ 

ہے دل میں یقیں اس کو میری وفا پر ۔ 
مگر ضد کے باعث ہے انکار اب بھی ۔ 

جو لینے گئے جنسِ الفت تو دیکھا ۔ 
بھرے ہیں عداوت سے بازار اب بھی ۔ 

زباں تم نے کاٹی تو کیا غم ہے وامق ۔ 
یہ دل تو ہے حق کا پرستار اب بھی ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فعولن فعولن فعولن فعولن ۔ 
بحر ۔ متقارب مثمن سالم 
شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ 
اکتوبر 1985ء میں کہی گئی غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محراب پور کی ادبی ڈائری ( کچھ باتیں کچھ یادیں)            مرحوم نور الحسن شیخ کے حوالے سے ۔   تحریر ۔ غلام محمد وامق ۔   کراچی میں چھ سال قیام کے بعد سال 1983ء کے اوائل میں جب ہم اپنے شہر محراب پور سندھ واپس آئے تو شہر کی فضا میں کافی اجنبیت محسوس ہوئی ، نئے جوان ہونے والے بچوں کے لئے ہم اجنبی تھے اور ہمارے لئے وہ اجنبی تھے ۔ یہاں آکر سب سے پہلے ہمیں اپنے ہم خیال ادب دوست افراد ڈھونڈنے کی فکر ہوئی ، پرانے کلاس فیلو اور دوست منتشر ہو چکے تھے ، اور ادبی حوالے سے وہ ہمارے کسی کام کے بھی نہیں تھے ۔ صحافت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے آپ جانتے ہیں ۔ عبدالمجید راہی ہمارے کلاس فیلو تھے اور صحافی بھی تھے ۔ انہوں نے مجھے شہر کی ایک معتبر شخصیت " نور الحسن شیخ  " صاحب سے ملوایا ۔   نور الحسن شیخ انتہائی خوش اخلاق ، ملنسار ، باادب ، مطالعہ کے شوقین اور مخلص انسان ثابت ہوئے ۔ وہ دوستوں کے بہت اچھے دوست تھے ، موصوف کو میں پہلے بھی جانتا تھا لیکن تفصیلی ملاقات نہیں تھی ، وہ بہت ہی خوبصورت اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے ، اب ان سے مل کر دل کو حقیقی خوشی اور اطمینان محسوس ہوا ۔  شہر کے مشہور چوک میں مکی مسجد سے ملحق ان کا مشہور و معروف میڈیکل اسٹور ، " نور میڈیکل اسٹور" کے نام سے تھا ، جہاں پر شہر کی کریم یعنی تعلیم یافتہ باشعور لوگ اکثر مل بیٹھتے تھے  اور ہر طرح کے مسائل زیرِ بحث آتے تھے ، ہم نے فوراً ہی مطلب کی بات کی اور ان کے مشورے سے ایک ادبی تنظیم " بزم ادب محراب پور" کے نام سے قائم کی گئی ۔  تنظیم کے صدر ۔ مغل عبدالغفور ساجد صاحب کو مقرر کیا گیا ، موصوف شہر کے چیئرمین تھے ، جو کہ انتہائی باذوق ، باادب اور فقیر منش انسان تھے ۔ ان کا ایک شعری مجموعہ " نوائے ساجد"  کے نام سے محراب پور کے ہی ایک پریس مدینہ پرنٹنگ پریس نے شایع کیا تھا، اور یہ پریس نور میڈیکل اسٹور کے ساتھ ہی واقع تھا ، سوئے اتفاق کہ وہ پریس بند ہوگیا ۔ اس موقع پر شہر کی ایک اور باذوق علمی شخصیت جناب " سید گوہر شاہ " صاحب مرحوم ، نے فی البدیہ ایک شعر ارشاد فرمایا تھا جو کہ مجھے یاد ہے ۔۔۔۔  ===  کتاب کیا چھپی ہے جنابِ غفور کی ۔  ===  ویران ہو گئی ہے گلی شیخ نور کی ۔  اب ایسی باذوق شخصیات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں ۔   بزم ادب کے نائب صدر ۔  " سید اسد عباس شاہ " کو مقرر کیا گیا ، جو کہ ہمارے کلاس فیلو ڈاکٹر قمر عباس شاہ کے بڑے بھائی تھے ۔  جنرل سیکریٹری ۔ اس بندہء ناچیز " غلام محمد وامق" کو منتخب کیا گیا ، اور میرے ساتھ جوائنٹ سیکریٹری جناب  " نور الحسن شیخ صاحب " کو بنایا گیا ۔  پریس سیکرٹری ۔ عبدالمجید راہی ( نامہ نگار روزنامہ جنگ کراچی) کو مقرر کیا گیا ۔  خازن ۔ ایڈووکیٹ ملک شیر دین بھٹی صاحب بنے ۔  جب کہ بزم کے سرپرست اعلیٰ " شوکت علی خان لودھی " کو مقرر کیا گیا ، جوکہ قبل ازیں بھی اور بعد ازاں بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے تھے ، اور ان کے بعد ان کے فرزند " فاروق احمد خان لودھی" بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے ۔  شہر کے دیگر بہت سے معززین نے بھی بزم کی رکنیت اختیار کی ، جن میں سے چند نام جو مجھے یاد ہیں درج ذیل ہیں ۔  سماجی رہنما خادم شہر " عمردین کمبوہ " جوکہ شہر کے نائب ناظم بھی رہے ۔ سندھی قوم پرست رہنما کامریڈ " قمر میمن " ۔ ان کے چھوٹے بھائی ایڈووکیٹ نور محمد میمن ( جو کہ ایک مدت سے اب تک لاپتہ ہیں) ۔ کاروباری شخصیت غلام مصطفیٰ سیٹھی ۔ زاہد شاہ ۔ ہمایوں شاہ ۔ شرافت ناز ۔ الیاس ہاشمی ( نامہ نگار روزنامہ امن ) ۔ کمبوہ اسلم آبشار مرحوم ۔ غلام رسول انمول مغل ( اب ایکسائیز انسپیکٹر نواب شاہ) ۔ ڈاکٹر سلیم الحق صدیقی ( سرکاری میڈیکل آفیسر) ۔ عبداللطیف مدنی ۔ یونس سیماب ۔ خلیق الرحمان زیب آرائیں ( اب کراچی میں ڈاکٹر ہیں ) ۔ سلیم آکاش مغل آرٹسٹ ۔ ظہیر شاہ جعفری مرحوم ۔ انصر محمود چیمہ ۔ محمد رمضان نایاب اعوان ۔ عبدالجبار مینجر حبیب بینک ۔ عبدالرحیم آرائیں مینجر ایم سی بی ۔ عطا حسین سہتو ۔ اور بہت سے جن کے نام یاد نہیں ۔  بزم کی ہر ہفتے ادبی نشستیں ہوتی تھیں ۔  بہرحال نور الحسن شیخ صاحب کا میڈیکل اسٹور باشعور ادبی شخصیات کی آماجگاہ بنا ہوتا تھا ۔  اور یہ نور الحسن شیخ صاحب کی سحر انگیز شخصیت کا ہی اثر تھا کہ شہر کے معززین جوق در جوق ہماری بزم میں شامل ہوتے رہے ۔  مورخہ 25 اپریل 1985ء کو ٹاؤن کمیٹی محراب پور میں بزم ادب کی جانب سے "کل سندھ مشاعرہ "  منعقد کروایا گیا ۔  مورخہ 19 مئی 1985ء کو ہمارے کراچی کے ادباء و شعراء دوست " بزم علم و دانش کراچی" کے ارکان ہمارے پاس محراب پور تشریف لائے ، اور ان کے قیام و طعام میں بھی ہمارے ساتھ " نور الحسن شیخ صاحب" نے بھرپور تعاون کیا ۔   یعنی ہر قدم پر نور الحسن شیخ صاحب ہمارے ساتھ قدم بہ قدم چلے ، اس دوران ان کی رفیقہ حیات کا بھی انتقال ہوگیا ۔  وہ انتہائی کم گو ، خوش اخلاق ، اور سوچ سوچ کر دھیمی آواز میں گفتگو کرنے والے مخلص دوست تھے ۔  کم و بیش بیس سال تک ہمارا اور نور الحسن شیخ صاحب کا ساتھ رہا ۔ وہ عمر میں ہم سے تقریباً تین چار سال بڑے تھے ۔ بالآخر رفتہ رفتہ وہ مختلف امراض کا شکار ہوتے چلے گئے ، اس کے باوجود وہ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔  ان کی بیماری کے دنوں میں کئی بار عیادت کے لئے میں ان کے پاس ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوتا رہا ۔  بالآخر مؤرخہ 31 جولائی سال 2023ء بروز سوموار ، مطابق 12 محرم الحرام 1445 ھجری کو شام چار بجے وہ اپنے خالق حقیقی کو پیارے ہوگئے ۔ اور اگلے روز صبح آٹھ بجے نماز جنازہ ادا کرنےکے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ انہوں نے اپنے پیچھے چار بیٹیاں اور دو جوان اور باادب بیٹے،  مسرور الحسن شیخ اور کامران الحسن شیخ سوگوار چھوڑے ۔ جو اپنے والد کا نام روشن کر رہے ہیں ، اور ماشاءاللہ سب بیٹے بیٹیاں شادی شدہ اور اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔  بقول شاعر ۔         موت سے کس کو رستگاری ہے ۔         آج وہ ، کل ہماری  باری  ہے ۔    ( مرزا شوق لکھنوی)  تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔  تاریخ ۔ 22 اگست 2023ء ۔ بروز منگل ۔

محراب پور کی ادبی ڈائری ( کچھ باتیں کچھ یادیں) مرحوم نور الحسن شیخ کے حوالے سے ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامق ۔ کراچی میں چھ سال قیام کے بعد سال 1983ء کے اوائل میں جب ہم اپنے شہر محراب پور سندھ واپس آئے تو شہر کی فضا میں کافی اجنبیت محسوس ہوئی ، نئے جوان ہونے والے بچوں کے لئے ہم اجنبی تھے اور ہمارے لئے وہ اجنبی تھے ۔ یہاں آکر سب سے پہلے ہمیں اپنے ہم خیال ادب دوست افراد ڈھونڈنے کی فکر ہوئی ، پرانے کلاس فیلو اور دوست منتشر ہو چکے تھے ، اور ادبی حوالے سے وہ ہمارے کسی کام کے بھی نہیں تھے ۔ صحافت اور ادب کا چولی دامن کا ساتھ ہے آپ جانتے ہیں ۔ عبدالمجید راہی ہمارے کلاس فیلو تھے اور صحافی بھی تھے ۔ انہوں نے مجھے شہر کی ایک معتبر شخصیت " نور الحسن شیخ " صاحب سے ملوایا ۔ نور الحسن شیخ انتہائی خوش اخلاق ، ملنسار ، باادب ، مطالعہ کے شوقین اور مخلص انسان ثابت ہوئے ۔ وہ دوستوں کے بہت اچھے دوست تھے ، موصوف کو میں پہلے بھی جانتا تھا لیکن تفصیلی ملاقات نہیں تھی ، وہ بہت ہی خوبصورت اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے ، اب ان سے مل کر دل کو حقیقی خوشی اور اطمینان محسوس ہوا ۔ شہر کے مشہور چوک میں مکی مسجد سے ملحق ان کا مشہور و معروف میڈیکل اسٹور ، " نور میڈیکل اسٹور" کے نام سے تھا ، جہاں پر شہر کی کریم یعنی تعلیم یافتہ باشعور لوگ اکثر مل بیٹھتے تھے اور ہر طرح کے مسائل زیرِ بحث آتے تھے ، ہم نے فوراً ہی مطلب کی بات کی اور ان کے مشورے سے ایک ادبی تنظیم " بزم ادب محراب پور" کے نام سے قائم کی گئی ۔ تنظیم کے صدر ۔ مغل عبدالغفور ساجد صاحب کو مقرر کیا گیا ، موصوف شہر کے چیئرمین تھے ، جو کہ انتہائی باذوق ، باادب اور فقیر منش انسان تھے ۔ ان کا ایک شعری مجموعہ " نوائے ساجد" کے نام سے محراب پور کے ہی ایک پریس مدینہ پرنٹنگ پریس نے شایع کیا تھا، اور یہ پریس نور میڈیکل اسٹور کے ساتھ ہی واقع تھا ، سوئے اتفاق کہ وہ پریس بند ہوگیا ۔ اس موقع پر شہر کی ایک اور باذوق علمی شخصیت جناب " سید گوہر شاہ " صاحب مرحوم ، نے فی البدیہ ایک شعر ارشاد فرمایا تھا جو کہ مجھے یاد ہے ۔۔۔۔ === کتاب کیا چھپی ہے جنابِ غفور کی ۔ === ویران ہو گئی ہے گلی شیخ نور کی ۔ اب ایسی باذوق شخصیات ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتیں ۔ بزم ادب کے نائب صدر ۔ " سید اسد عباس شاہ " کو مقرر کیا گیا ، جو کہ ہمارے کلاس فیلو ڈاکٹر قمر عباس شاہ کے بڑے بھائی تھے ۔ جنرل سیکریٹری ۔ اس بندہء ناچیز " غلام محمد وامق" کو منتخب کیا گیا ، اور میرے ساتھ جوائنٹ سیکریٹری جناب " نور الحسن شیخ صاحب " کو بنایا گیا ۔ پریس سیکرٹری ۔ عبدالمجید راہی ( نامہ نگار روزنامہ جنگ کراچی) کو مقرر کیا گیا ۔ خازن ۔ ایڈووکیٹ ملک شیر دین بھٹی صاحب بنے ۔ جب کہ بزم کے سرپرست اعلیٰ " شوکت علی خان لودھی " کو مقرر کیا گیا ، جوکہ قبل ازیں بھی اور بعد ازاں بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے تھے ، اور ان کے بعد ان کے فرزند " فاروق احمد خان لودھی" بھی شہر کے چیئرمین منتخب ہوتے رہے ۔ شہر کے دیگر بہت سے معززین نے بھی بزم کی رکنیت اختیار کی ، جن میں سے چند نام جو مجھے یاد ہیں درج ذیل ہیں ۔ سماجی رہنما خادم شہر " عمردین کمبوہ " جوکہ شہر کے نائب ناظم بھی رہے ۔ سندھی قوم پرست رہنما کامریڈ " قمر میمن " ۔ ان کے چھوٹے بھائی ایڈووکیٹ نور محمد میمن ( جو کہ ایک مدت سے اب تک لاپتہ ہیں) ۔ کاروباری شخصیت غلام مصطفیٰ سیٹھی ۔ زاہد شاہ ۔ ہمایوں شاہ ۔ شرافت ناز ۔ الیاس ہاشمی ( نامہ نگار روزنامہ امن ) ۔ کمبوہ اسلم آبشار مرحوم ۔ غلام رسول انمول مغل ( اب ایکسائیز انسپیکٹر نواب شاہ) ۔ ڈاکٹر سلیم الحق صدیقی ( سرکاری میڈیکل آفیسر) ۔ عبداللطیف مدنی ۔ یونس سیماب ۔ خلیق الرحمان زیب آرائیں ( اب کراچی میں ڈاکٹر ہیں ) ۔ سلیم آکاش مغل آرٹسٹ ۔ ظہیر شاہ جعفری مرحوم ۔ انصر محمود چیمہ ۔ محمد رمضان نایاب اعوان ۔ عبدالجبار مینجر حبیب بینک ۔ عبدالرحیم آرائیں مینجر ایم سی بی ۔ عطا حسین سہتو ۔ اور بہت سے جن کے نام یاد نہیں ۔ بزم کی ہر ہفتے ادبی نشستیں ہوتی تھیں ۔ بہرحال نور الحسن شیخ صاحب کا میڈیکل اسٹور باشعور ادبی شخصیات کی آماجگاہ بنا ہوتا تھا ۔ اور یہ نور الحسن شیخ صاحب کی سحر انگیز شخصیت کا ہی اثر تھا کہ شہر کے معززین جوق در جوق ہماری بزم میں شامل ہوتے رہے ۔ مورخہ 25 اپریل 1985ء کو ٹاؤن کمیٹی محراب پور میں بزم ادب کی جانب سے "کل سندھ مشاعرہ " منعقد کروایا گیا ۔ مورخہ 19 مئی 1985ء کو ہمارے کراچی کے ادباء و شعراء دوست " بزم علم و دانش کراچی" کے ارکان ہمارے پاس محراب پور تشریف لائے ، اور ان کے قیام و طعام میں بھی ہمارے ساتھ " نور الحسن شیخ صاحب" نے بھرپور تعاون کیا ۔ یعنی ہر قدم پر نور الحسن شیخ صاحب ہمارے ساتھ قدم بہ قدم چلے ، اس دوران ان کی رفیقہ حیات کا بھی انتقال ہوگیا ۔ وہ انتہائی کم گو ، خوش اخلاق ، اور سوچ سوچ کر دھیمی آواز میں گفتگو کرنے والے مخلص دوست تھے ۔ کم و بیش بیس سال تک ہمارا اور نور الحسن شیخ صاحب کا ساتھ رہا ۔ وہ عمر میں ہم سے تقریباً تین چار سال بڑے تھے ۔ بالآخر رفتہ رفتہ وہ مختلف امراض کا شکار ہوتے چلے گئے ، اس کے باوجود وہ ہر شخص سے خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔ ان کی بیماری کے دنوں میں کئی بار عیادت کے لئے میں ان کے پاس ان کی رہائش گاہ پر حاضر ہوتا رہا ۔ بالآخر مؤرخہ 31 جولائی سال 2023ء بروز سوموار ، مطابق 12 محرم الحرام 1445 ھجری کو شام چار بجے وہ اپنے خالق حقیقی کو پیارے ہوگئے ۔ اور اگلے روز صبح آٹھ بجے نماز جنازہ ادا کرنےکے بعد انہیں سپرد خاک کر دیا گیا ۔ انہوں نے اپنے پیچھے چار بیٹیاں اور دو جوان اور باادب بیٹے، مسرور الحسن شیخ اور کامران الحسن شیخ سوگوار چھوڑے ۔ جو اپنے والد کا نام روشن کر رہے ہیں ، اور ماشاءاللہ سب بیٹے بیٹیاں شادی شدہ اور اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔ بقول شاعر ۔ موت سے کس کو رستگاری ہے ۔ آج وہ ، کل ہماری باری ہے ۔ ( مرزا شوق لکھنوی) تحریر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ تاریخ ۔ 22 اگست 2023ء ۔ بروز منگل ۔


 

کیا کربلا میں اہل بیت پر پانی بند کیا گیا تھا شیعہ کتب سے ؟؟؟  اگر واقعہ کربلا کے بارے میں چند ایک ہی کتب کا مطالعہ کر لیا جائے تو مختلف مصنفین کے بیان کردہ واقعات میں اس قدر تضاد اور تغائر نظر آتا ہے کہ قاری انگشت بدنداں ہوجاتا ہے دورِ حاضر کے مصنفین کی کتُب و رسائل سے قطع نظر تاریخ کی معتبر سمجھی جانے والی کُتب بھی اس واقعہ کے بارے مین اس قدر مختلف البیان ہیں کہ ایک کتاب کے بیان کا دوسری کتاب سے اختلاف تو رہا ایک طرف ان کتابوں کی اپنی روایتیں بھی اس واقعہ کے بارے میں اول تا آخر کسی بات پر متفق نظر نہیں آتیں ایک راوی میدان کربلا کو بے آب وگیارہ ریگستان ثابت کرتا نظر آتا ہے تو دوسرا اس کو بانس اور نرکل کا گھنا جنگل قرار دیتا ہے کبھی قاتلانِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو شہداء کی لاشوں کا مثلہ اور انتہائی درجہ کی توہین ، حتی کہ شہداء کی لاشوں پر گھوڑے دوڑاے ہوئے پیش کیا جاتا ہے اور کبھی انہی قاتلوں کو اپنے جرم پر نادم و شرمندہ اور مصرف نوحہ و گریاں دکھایا جاتا ہے ان من گھڑت داستانوں کے ایک منظر میں تو خاندانِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچوں کو کربلا کی جھلسائی ہوئی گرمی میں شدت پیاس سے تڑپتے نظر آتے ہیں کہ بندش آپ کی وجہ سے ان کو پینے کےلیے پانی کا ایک گھونٹ نہ ملتا تھا جبکہ دوسری طرف افراد اس پانی سے نہ صرف یہ کہ غسل کرتے ہیں بلکہ مشک کی خوشبو سے بدن کو معطر کرتے ہین آج حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کی پیاس کا واسطہ دے دے کر منتیں اور مرادیں مانگنے والی اس قوم نے یہ بھی احساس نہ کیا کہ اس طرح حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کی حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ تو پیاس سے تڑپتے رہے اور دوسری جانب پانی کا ایسا بے دریغ استعمال کہ نہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی افراد نے پانی سے غسل کیا ؟؟؟  ملاحظہ کیجیے !  تاریخ ابن کثیر میں ایک روایت کچھ یوں ہے کہ ” فعدل الحسین الٰی خمیۃ قد نصیت فاغتسل فیھا وتطیب بمسک کثیر ودخل بعدہ بعض الامراء فعلوا کما فعل “  پس امام حسین رضی اللہ عنہ خیمے کی طرف آئے جو نصب کیا گیا تھا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور بہت سی مشک کی خوشبو لگائی اور ان کے بعد بہت سے امراء داخل ہوئے جنہوں نے آپ کی طرح کیا (یعنی غسل کیا اور خوشبو لگائی)  (البداية والنهاية ج٨ ص١٨۵)   اس روایت کو مقررین ہاتھ بھی نہیں لگاتے کیونکہ اگر اسے بیان کر دیا گیا تو پھر لوگوں کو رلانے کا کاروبار بند ہو جائے گا ، پھر کس منہ سے کہا جائے گا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔۔۔   شارح بخاری حضرت علامہ شریف الحق امجدی سے سوال کیا گیا کہ کیا امام حسین نے عاشورہ کی صبح کو غسل فرمایا تھا ؟؟؟ کیا یہ روایت صحیح ہے ؟؟؟  اگر صحیح ہے تو پھر خود علمائے اہل سنت جو بیان کرتے ہیں کہ تین دن تک حضرت امام حسین اور ان کے رفقا پر پانی بند کیا گیا ، یہاں تک کہ بچے پیاس سے بلکتے رہے  آپ جواباً لکھتے ہیں کہ  یہ روایت تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے ، مثلاً بدایہ نہایہ میں ہے : ” فعدل الحسین الی خیمة قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بانورۃ ... الخ “ "اس کے بعد امام حسین خیمے میں گئے اور اس میں جا کر غسل فرمایا اور ہڑتال استعمال فرمائی اور بہت زیادہ مشک جسم پر ملی ان کے بعد بعض رفقا بھی اس خیمے میں گئے اور انھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔۔۔ (البداية والنهاية ج٨ ص١٧٨)   اور اسی میں ایک صفحہ پہلے یہ بھی ہے :  ” وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا وصب علی وجھھا الماء “ حضرت زینب بے ہوش ہو کر گر پڑیں ، حضرت امام حسین ان کے قریب گئے اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا  (ایضاً ص١٧٧)   اور یہ بھی واضح ہے کہ ٧ محرم سے ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا دیا گیا تھا کہ امام حسین کے لشکر کے لوگ پانی نہ لے پائیں مگر یہ بھی روایت ہے کہ  اس پہرے کے باوجود حضرت عباس کچھ لوگوں کو لے کر کسی نہ کسی طرح سے پانی لایا کرتے تھے لیکن شہادت کے ذاکرین ہمارے مقررین آب بندی یعنی پانی بند ہونے کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں اگر نہ بیان کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمے گا۔۔۔  اس روایت میں اور وقت شہادت حضرت علی اکبر و حضرت علی اصغر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات (تضاد) نہیں ہو سکتا ہے کہ صبح کو پانی اس مقدار میں رہا ہو کہ سب نے غسل کر لیا پھر پانی ختم ہو گیا اور جنگ شروع ہو جانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادہ سختی کر دی ہو اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کہ حضرت عباس فرات سے مَشک بھر کر پانی لا رہے تھے کہ شہید ہوئے ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے مگر میں قطعی حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے ، حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں۔۔۔ (فتاوی شارح بخاری ج٢ ص٦٨/٦٧)  ملا باقر مجلسی شیعہ نے مجمع البحار میں اور اعثم الکوفی نے الفتوح ، لیلة العشوراء فی الحدیث الادب ، امالی للصدوق ، اور مدینة المعاجز میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکر کیا ہے :  ” ثم قال لا صحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلیٰ بھم الفجر “   پھر امام رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو ، پانی پیو ، شاید تمھارے لیے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو ، نہاؤ اور اپنے لباس کو دھو لو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں ، اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی۔۔۔ (بحارالانوار ج۴۴ ص٢١٧)  ” قال : ثم قال لأضحابه : قوموا فاشربوا من الماء ليكون آخر زادكم، و توضئوا و إغتسلوا، و إغسلوا “ (اثبات الھداة)  ” إن الحسين عليه السلام قال لأصحابه : قوموا فاشربوا من الماء يكون آخر زادکم، و توضئوا و اغتسلوا و اغسلوا ثيابكم لتكون أكفانكم ثم صلى بهم الفجر “ (امالی للصدوق ص٢٢١)(لیلة العشوراء فی الحدیث الادب ص٨٠) (مدینة المعاجز ص۴٧٣)  قارئین اگر واقعہ کربلا کے بارے میں گھڑے گئے دیگر افسانوں کو مدنظر رکھا جائے تو ان دونوں روایات میں سے کسی ایک کے بھی سچے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس دوسری روایت کی موجودگی میں پانی کی بندش اور قافلہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس کے افسانے کم از کم مشکوک ضرور ہو جاتے ہیں یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ سانحہ کربلا کے ضمن میں کتب تاریخ میں اس قسم کی متضاد روایات عام پائی جاتی ہیں  اور یہ بھی مشہور ہے کہ کربلا بے آب و گیاہ میدان تھا ، یہ غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا یہ میدان دریائے فرات یا اس سے نکلنے والی نھر کا کنارہ تھا طبری کی روایت میں ہے کہ  اصحاب امام حسین رضی اللہ عنہ کو تجربہ ہوا تھا کہ ذرا سا کھودنے پر پانی نکل آیا یہ بے پر کی اڑائی گئی کہ کربلا ریتلا علاقہ ہے  ” فقد بلغنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الٓا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی ھذا فامنعھم من حفرالٓا بار مااستطعت و ضیق علیھم ولا تدعھم یشربوامن ماء الفرات قطرۃ واحدة “ ابن زیاد نے کہا کہ مجھے خبر ملی ھے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد و اصحاب رضی اللہ عنہم نے پانی پینے کے لئے کنویں کھود رکھے ہیں اور میدان میں مختلف جگہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خبردار جب تمھیں میرا یہ خط مل جائے تو انہیں مزید کھدائی سے روک دیں اور انہیں اتنا تنگ کیاجائے کہ وہ فرات کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں۔۔۔ (الفتوح ج۵ ص٩١)  قارئین پانی بند ہونے والی صرف ایک طرف کی روایت کو بیان کرنا اور یہ کہنا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند پانی نہیں تھا، اس سے واضح ہے کہ مقصد صرف لوگوں کو رلانا اور محفل میں رنگ جمانا ہے اپنے مطلب کی روایات میں نمک مرچ لگا کر بیان کرنا اور دوسری روایات کو ہڑپ جانا  یہ کہاں کا انصاف ہے ؟؟؟

کیا کربلا میں اہل بیت پر پانی بند کیا گیا تھا شیعہ کتب سے ؟؟؟ اگر واقعہ کربلا کے بارے میں چند ایک ہی کتب کا مطالعہ کر لیا جائے تو مختلف مصنفین کے بیان کردہ واقعات میں اس قدر تضاد اور تغائر نظر آتا ہے کہ قاری انگشت بدنداں ہوجاتا ہے دورِ حاضر کے مصنفین کی کتُب و رسائل سے قطع نظر تاریخ کی معتبر سمجھی جانے والی کُتب بھی اس واقعہ کے بارے مین اس قدر مختلف البیان ہیں کہ ایک کتاب کے بیان کا دوسری کتاب سے اختلاف تو رہا ایک طرف ان کتابوں کی اپنی روایتیں بھی اس واقعہ کے بارے میں اول تا آخر کسی بات پر متفق نظر نہیں آتیں ایک راوی میدان کربلا کو بے آب وگیارہ ریگستان ثابت کرتا نظر آتا ہے تو دوسرا اس کو بانس اور نرکل کا گھنا جنگل قرار دیتا ہے کبھی قاتلانِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو شہداء کی لاشوں کا مثلہ اور انتہائی درجہ کی توہین ، حتی کہ شہداء کی لاشوں پر گھوڑے دوڑاے ہوئے پیش کیا جاتا ہے اور کبھی انہی قاتلوں کو اپنے جرم پر نادم و شرمندہ اور مصرف نوحہ و گریاں دکھایا جاتا ہے ان من گھڑت داستانوں کے ایک منظر میں تو خاندانِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچوں کو کربلا کی جھلسائی ہوئی گرمی میں شدت پیاس سے تڑپتے نظر آتے ہیں کہ بندش آپ کی وجہ سے ان کو پینے کےلیے پانی کا ایک گھونٹ نہ ملتا تھا جبکہ دوسری طرف افراد اس پانی سے نہ صرف یہ کہ غسل کرتے ہیں بلکہ مشک کی خوشبو سے بدن کو معطر کرتے ہین آج حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کی پیاس کا واسطہ دے دے کر منتیں اور مرادیں مانگنے والی اس قوم نے یہ بھی احساس نہ کیا کہ اس طرح حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کی حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ تو پیاس سے تڑپتے رہے اور دوسری جانب پانی کا ایسا بے دریغ استعمال کہ نہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی افراد نے پانی سے غسل کیا ؟؟؟ ملاحظہ کیجیے ! تاریخ ابن کثیر میں ایک روایت کچھ یوں ہے کہ ” فعدل الحسین الٰی خمیۃ قد نصیت فاغتسل فیھا وتطیب بمسک کثیر ودخل بعدہ بعض الامراء فعلوا کما فعل “ پس امام حسین رضی اللہ عنہ خیمے کی طرف آئے جو نصب کیا گیا تھا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور بہت سی مشک کی خوشبو لگائی اور ان کے بعد بہت سے امراء داخل ہوئے جنہوں نے آپ کی طرح کیا (یعنی غسل کیا اور خوشبو لگائی) (البداية والنهاية ج٨ ص١٨۵) اس روایت کو مقررین ہاتھ بھی نہیں لگاتے کیونکہ اگر اسے بیان کر دیا گیا تو پھر لوگوں کو رلانے کا کاروبار بند ہو جائے گا ، پھر کس منہ سے کہا جائے گا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔۔۔ شارح بخاری حضرت علامہ شریف الحق امجدی سے سوال کیا گیا کہ کیا امام حسین نے عاشورہ کی صبح کو غسل فرمایا تھا ؟؟؟ کیا یہ روایت صحیح ہے ؟؟؟ اگر صحیح ہے تو پھر خود علمائے اہل سنت جو بیان کرتے ہیں کہ تین دن تک حضرت امام حسین اور ان کے رفقا پر پانی بند کیا گیا ، یہاں تک کہ بچے پیاس سے بلکتے رہے آپ جواباً لکھتے ہیں کہ یہ روایت تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے ، مثلاً بدایہ نہایہ میں ہے : ” فعدل الحسین الی خیمة قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بانورۃ ... الخ “ "اس کے بعد امام حسین خیمے میں گئے اور اس میں جا کر غسل فرمایا اور ہڑتال استعمال فرمائی اور بہت زیادہ مشک جسم پر ملی ان کے بعد بعض رفقا بھی اس خیمے میں گئے اور انھوں نے بھی ایسا ہی کیا۔۔۔ (البداية والنهاية ج٨ ص١٧٨) اور اسی میں ایک صفحہ پہلے یہ بھی ہے : ” وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا وصب علی وجھھا الماء “ حضرت زینب بے ہوش ہو کر گر پڑیں ، حضرت امام حسین ان کے قریب گئے اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا (ایضاً ص١٧٧) اور یہ بھی واضح ہے کہ ٧ محرم سے ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا دیا گیا تھا کہ امام حسین کے لشکر کے لوگ پانی نہ لے پائیں مگر یہ بھی روایت ہے کہ اس پہرے کے باوجود حضرت عباس کچھ لوگوں کو لے کر کسی نہ کسی طرح سے پانی لایا کرتے تھے لیکن شہادت کے ذاکرین ہمارے مقررین آب بندی یعنی پانی بند ہونے کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں اگر نہ بیان کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمے گا۔۔۔ اس روایت میں اور وقت شہادت حضرت علی اکبر و حضرت علی اصغر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات (تضاد) نہیں ہو سکتا ہے کہ صبح کو پانی اس مقدار میں رہا ہو کہ سب نے غسل کر لیا پھر پانی ختم ہو گیا اور جنگ شروع ہو جانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادہ سختی کر دی ہو اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کہ حضرت عباس فرات سے مَشک بھر کر پانی لا رہے تھے کہ شہید ہوئے ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے مگر میں قطعی حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے ، حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں۔۔۔ (فتاوی شارح بخاری ج٢ ص٦٨/٦٧) ملا باقر مجلسی شیعہ نے مجمع البحار میں اور اعثم الکوفی نے الفتوح ، لیلة العشوراء فی الحدیث الادب ، امالی للصدوق ، اور مدینة المعاجز میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکر کیا ہے : ” ثم قال لا صحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلیٰ بھم الفجر “ پھر امام رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو ، پانی پیو ، شاید تمھارے لیے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو ، نہاؤ اور اپنے لباس کو دھو لو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں ، اس کے بعد امام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی۔۔۔ (بحارالانوار ج۴۴ ص٢١٧) ” قال : ثم قال لأضحابه : قوموا فاشربوا من الماء ليكون آخر زادكم، و توضئوا و إغتسلوا، و إغسلوا “ (اثبات الھداة) ” إن الحسين عليه السلام قال لأصحابه : قوموا فاشربوا من الماء يكون آخر زادکم، و توضئوا و اغتسلوا و اغسلوا ثيابكم لتكون أكفانكم ثم صلى بهم الفجر “ (امالی للصدوق ص٢٢١)(لیلة العشوراء فی الحدیث الادب ص٨٠) (مدینة المعاجز ص۴٧٣) قارئین اگر واقعہ کربلا کے بارے میں گھڑے گئے دیگر افسانوں کو مدنظر رکھا جائے تو ان دونوں روایات میں سے کسی ایک کے بھی سچے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس دوسری روایت کی موجودگی میں پانی کی بندش اور قافلہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس کے افسانے کم از کم مشکوک ضرور ہو جاتے ہیں یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ سانحہ کربلا کے ضمن میں کتب تاریخ میں اس قسم کی متضاد روایات عام پائی جاتی ہیں اور یہ بھی مشہور ہے کہ کربلا بے آب و گیاہ میدان تھا ، یہ غلط ہے حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا یہ میدان دریائے فرات یا اس سے نکلنے والی نھر کا کنارہ تھا طبری کی روایت میں ہے کہ اصحاب امام حسین رضی اللہ عنہ کو تجربہ ہوا تھا کہ ذرا سا کھودنے پر پانی نکل آیا یہ بے پر کی اڑائی گئی کہ کربلا ریتلا علاقہ ہے ” فقد بلغنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الٓا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی ھذا فامنعھم من حفرالٓا بار مااستطعت و ضیق علیھم ولا تدعھم یشربوامن ماء الفرات قطرۃ واحدة “ ابن زیاد نے کہا کہ مجھے خبر ملی ھے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد و اصحاب رضی اللہ عنہم نے پانی پینے کے لئے کنویں کھود رکھے ہیں اور میدان میں مختلف جگہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خبردار جب تمھیں میرا یہ خط مل جائے تو انہیں مزید کھدائی سے روک دیں اور انہیں اتنا تنگ کیاجائے کہ وہ فرات کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں۔۔۔ (الفتوح ج۵ ص٩١) قارئین پانی بند ہونے والی صرف ایک طرف کی روایت کو بیان کرنا اور یہ کہنا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند پانی نہیں تھا، اس سے واضح ہے کہ مقصد صرف لوگوں کو رلانا اور محفل میں رنگ جمانا ہے اپنے مطلب کی روایات میں نمک مرچ لگا کر بیان کرنا اور دوسری روایات کو ہڑپ جانا یہ کہاں کا انصاف ہے ؟؟؟

*پنج تن کی اصل حقیقت*  محترم قارئین ایک اصطلاح جو ہمارے برصغیر پاک و ہند میں دیگر بدعات و خرافات کی طرح بہت مقبول ہے وہ ہے پنج تن پاک. اس کے بارے میں عوامی ذہن یہ ہے کی اس اصطلاح کی بنیاد ایک حدیث مبارکہ ہے جسے حدیث کساء کے نام سے جانا جاتا ہے۔  مکمل تحریر پڑھ کر آپ سمجھ جائیں گے کہ اس اصطلاح و عقیدے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ھے بلکہ یہ منگھڑت اور خود ساختہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا کہ اس اصطلاح و عقیدے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں یہ لفظ یعنی (پنج تن)  عربی کا لفظ ہرگز نہیں ہے یہ فارسی لفظ ہے جس میں پنج کے معنی پانچ اور تن کے معنی جسم کے ہیں.  پانچ بُت (Five Idols) پنجتن (Five Worriors) پنچا دیوتا  اگر یہ لفظ پنجتن عربی کا ھوتا تو اس کے متبادل عربی کا کوئی تو لفظ ہونا چاہیئے تھا لیکن اس کے متبادل عربی کا بھی کوئی لفظ کسی ایک روایات تک میں بھی موجود نہیں ھے ! جس سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ یہ فارسی اختراع ہے روایات تک میں مزکور نہیں !  درحقیقت یہ ایرانی روافض کی ہی ایک چال اور ڈھونگ ہے جو بلکل جڑا ہوا ہے ان کے حب اہل بیت کے جھوٹے دعوے اور آیت تطہیر کی غلط اور خودساختہ تشریح سے جیسے آیت تطہیر میں شیعہ تحریف کرتے ہوئے حقیقی اہلبیت کو محروم کرتے ہیں ویسا ہی ڈھونگ حدیثیں گھڑ کے اور انکی خودساختہ تشریح کرتے ہوئے کرتے ہیں صرف اس اصطلاح و عقیدے کو تخلیق کرنے کے لیئے.  آیئے اب زرا ان کے دجل و فریب سے پردہ ٹھاتے ہیں. پنجتن میں شیعہ حسنین کریمینؓ کو تو شامل کرتے ہیں لیکن انہی حسنینؓ کی حقیقی ہمشیرہ ام کلثومؓ بنت علیؓ و فاطمہؓ کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں.  کبھی سوچا ہے ایسا کیوں؟  ایسا اس لیۓ کہ ملوکیت کے قیام و بقا۶ کیلۓ جو مذاہب اسلام کے نام پر گھڑے گۓ ان میں بھی قدیم پانچ بتوں کا نظریہ پنجتن بنانے کیلۓ یہودونصاریٰ کو اس پنجتن بت گروپ کیلۓ صرف ایک عورت کا کردار درکار تھا اس لیۓ حضرت علی کی بیٹی ام کلثومؓ کو پنجتن گروپ میں جگہ نا ملی   حقیقتا یہ شیعہ جن پانچ مقدس ہستیوں کو پنج تن کا مصداق بتاتے ہیں یہ بھی دجل و فریب ھے یہ اپنے اسلاف یہود و ہنود کے قدیم بتوں Five Idols کی پوجا ان ناموں کی آڑ لے کر کرتے ہیں اس حقیقت کو سمجھانے کے لیئے کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں غور فرمائیں  سورۃ نوح آیت نمبر ۲۳ مزکورہ آیت میں ود. سوا. یغوث. یعوق اور نصر کا زکر ہے یہ وہ پانچ بت تھے جن کی پوجا حضرت نوح علیہ سلام کی قوم نے کی.  ان میں سوا عورت تھی اور باقی چار مرد.  تاریخی طور پر یہ پہلے پنج تن تھے. ان کو یاد رکھنے کے لیئے ان کے بت بنائے گئے اور پھر آہستہ آہستہ ان کی پرستش شروع ہوگئی.  اور اس طرح یہ قوم نوحؑ کے گمراہوں کے مقدس پنج تن قرار پائے.  مثال ۲ سمورائیوں کے پنج تن  انلیاک. ان کی. نانا. اتو. ماما ان یں ماما دیوی تھی اور باقی دیوتا جبکہ بعد میں نانا کو بھی دیوی انا جانے لگا.  مثال ۳ اکاویوں کے پنج تن  ننگے. مولکے. ہیا. اروکی. ادو ان میں ننگے دیوی تھی اور باقی دیوتا  مثال۴ اہل بابل کے پجن تن  شمس. ثانی. نیبو. امراتوک. انی ان میں سے شمس دیوی تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج تک عربی لغت میں شمس مؤنث ہے. باقی دیوتا تھے.  مثال۵ قدیم مصر کے پج تن  اسیرس. ہورس. اسلیث. را. ایتوم ان میں اسلیث دیوی تھی اور باقی دیوتا.  مثال۶ چینی پنج تن  یونگ. سن. سکائے. مون. ایئر ان میں یونگ دھرتی ماں یعنی دیوی اور باقی دیوتا تھے.  مثال ۷ ہندو پنج تن پنچادیوتا پاروتی. ہری ہرا. براہما. وشنو. مہیش دیشو ان میں پاروتی دیوی ہے اور باقی دیوتا.  مثال ۸ ایرانی پنج تن آمورآماہزدا. انگرینو. آتش. شمس. زمین ان میں زمین دیوی ہے اور باقی دیوتا.  مثال ۹ یونانی پنج تن ذیوس. پوزیدان. اپراش. اپولو. دیمتار  مثال۱۰ رومی پنج تن مرکری. اپولو. سیروفا. بیجی کش. سیرنونو ان میں سیروفا دیوی اور اقی دیوتا تھے.  مثال ۱۱ توتانی پنج تن. |کیرمان ایران| تھور. ویریون. مزج. بلدور. فریر ان میں فریر دیوی اور باقی دیوتا ہیں  مثال ۱۲ سالوی پنج تن |ہندوستان| پیرکوماس. ادکوست. سوان. دولوس. دیمی ودال ان میں سوان دیوی اور باقی دیوتا ہیں.  مثال ۱۳ رام بھگتی پنج تن رام. لکشمن. لد. کیشو. سیتا ان میں سیتا دیوی ہے اور لد اور کیشو اس کے بچے . رام سیتا کا شوہر ہے اور لکشمن رام کا وفادار بھائی.  محترم قارعین جومثالیں آپ کو پیش کیں ان کو پڑھیں اور غور کریں کہ ان میں کس قدر مماثلت ہے شیعہ کے پنج تن سے کہ سب میں ۱ عورت اور باقی چار مرد ہیں. ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کے پنجتن کی بھی بنیاد ویسی ہی ہے جیسے ان کے پیش رو کفار کی تھی.  بیشک الکفر ملت واحدہ  ان شیعوں کی دیکھا دیکھی سنی سنائی پر عمل کرنے والے قرآن سے دور مشرک و اہل بدعت موجود فرقوں نے بھی اس پنج تن کی پرستش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس قدیم مشرکانہ عقیدے کا طوق اپنی گردن میں پھنسا لیا ھے اگرچہ ان پنج تن کے علاوہ بھی ان دونوں گروہوں نے اپنے دیگر بیشمار بُت تراش رکھے ہیں جن کے بارے میں غلو سے کام لے کر انہیں خدائی صفات کا حامل قرار دیتے ہیں اور شرک کے مرتکب ہوتے ہیں "مولوی اور پیر مسلمانوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کرتے ھیں" (مفہوم القرآن) سوچنا جرم نہیں ہے

*پنج تن کی اصل حقیقت* محترم قارئین ایک اصطلاح جو ہمارے برصغیر پاک و ہند میں دیگر بدعات و خرافات کی طرح بہت مقبول ہے وہ ہے پنج تن پاک. اس کے بارے میں عوامی ذہن یہ ہے کی اس اصطلاح کی بنیاد ایک حدیث مبارکہ ہے جسے حدیث کساء کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مکمل تحریر پڑھ کر آپ سمجھ جائیں گے کہ اس اصطلاح و عقیدے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ھے بلکہ یہ منگھڑت اور خود ساختہ ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا کہ اس اصطلاح و عقیدے کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں یہ لفظ یعنی (پنج تن) عربی کا لفظ ہرگز نہیں ہے یہ فارسی لفظ ہے جس میں پنج کے معنی پانچ اور تن کے معنی جسم کے ہیں. پانچ بُت (Five Idols) پنجتن (Five Worriors) پنچا دیوتا اگر یہ لفظ پنجتن عربی کا ھوتا تو اس کے متبادل عربی کا کوئی تو لفظ ہونا چاہیئے تھا لیکن اس کے متبادل عربی کا بھی کوئی لفظ کسی ایک روایات تک میں بھی موجود نہیں ھے ! جس سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ یہ فارسی اختراع ہے روایات تک میں مزکور نہیں ! درحقیقت یہ ایرانی روافض کی ہی ایک چال اور ڈھونگ ہے جو بلکل جڑا ہوا ہے ان کے حب اہل بیت کے جھوٹے دعوے اور آیت تطہیر کی غلط اور خودساختہ تشریح سے جیسے آیت تطہیر میں شیعہ تحریف کرتے ہوئے حقیقی اہلبیت کو محروم کرتے ہیں ویسا ہی ڈھونگ حدیثیں گھڑ کے اور انکی خودساختہ تشریح کرتے ہوئے کرتے ہیں صرف اس اصطلاح و عقیدے کو تخلیق کرنے کے لیئے. آیئے اب زرا ان کے دجل و فریب سے پردہ ٹھاتے ہیں. پنجتن میں شیعہ حسنین کریمینؓ کو تو شامل کرتے ہیں لیکن انہی حسنینؓ کی حقیقی ہمشیرہ ام کلثومؓ بنت علیؓ و فاطمہؓ کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں. کبھی سوچا ہے ایسا کیوں؟ ایسا اس لیۓ کہ ملوکیت کے قیام و بقا۶ کیلۓ جو مذاہب اسلام کے نام پر گھڑے گۓ ان میں بھی قدیم پانچ بتوں کا نظریہ پنجتن بنانے کیلۓ یہودونصاریٰ کو اس پنجتن بت گروپ کیلۓ صرف ایک عورت کا کردار درکار تھا اس لیۓ حضرت علی کی بیٹی ام کلثومؓ کو پنجتن گروپ میں جگہ نا ملی حقیقتا یہ شیعہ جن پانچ مقدس ہستیوں کو پنج تن کا مصداق بتاتے ہیں یہ بھی دجل و فریب ھے یہ اپنے اسلاف یہود و ہنود کے قدیم بتوں Five Idols کی پوجا ان ناموں کی آڑ لے کر کرتے ہیں اس حقیقت کو سمجھانے کے لیئے کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں غور فرمائیں سورۃ نوح آیت نمبر ۲۳ مزکورہ آیت میں ود. سوا. یغوث. یعوق اور نصر کا زکر ہے یہ وہ پانچ بت تھے جن کی پوجا حضرت نوح علیہ سلام کی قوم نے کی. ان میں سوا عورت تھی اور باقی چار مرد. تاریخی طور پر یہ پہلے پنج تن تھے. ان کو یاد رکھنے کے لیئے ان کے بت بنائے گئے اور پھر آہستہ آہستہ ان کی پرستش شروع ہوگئی. اور اس طرح یہ قوم نوحؑ کے گمراہوں کے مقدس پنج تن قرار پائے. مثال ۲ سمورائیوں کے پنج تن انلیاک. ان کی. نانا. اتو. ماما ان یں ماما دیوی تھی اور باقی دیوتا جبکہ بعد میں نانا کو بھی دیوی انا جانے لگا. مثال ۳ اکاویوں کے پنج تن ننگے. مولکے. ہیا. اروکی. ادو ان میں ننگے دیوی تھی اور باقی دیوتا مثال۴ اہل بابل کے پجن تن شمس. ثانی. نیبو. امراتوک. انی ان میں سے شمس دیوی تھی اور یہی وجہ ہے کہ آج تک عربی لغت میں شمس مؤنث ہے. باقی دیوتا تھے. مثال۵ قدیم مصر کے پج تن اسیرس. ہورس. اسلیث. را. ایتوم ان میں اسلیث دیوی تھی اور باقی دیوتا. مثال۶ چینی پنج تن یونگ. سن. سکائے. مون. ایئر ان میں یونگ دھرتی ماں یعنی دیوی اور باقی دیوتا تھے. مثال ۷ ہندو پنج تن پنچادیوتا پاروتی. ہری ہرا. براہما. وشنو. مہیش دیشو ان میں پاروتی دیوی ہے اور باقی دیوتا. مثال ۸ ایرانی پنج تن آمورآماہزدا. انگرینو. آتش. شمس. زمین ان میں زمین دیوی ہے اور باقی دیوتا. مثال ۹ یونانی پنج تن ذیوس. پوزیدان. اپراش. اپولو. دیمتار مثال۱۰ رومی پنج تن مرکری. اپولو. سیروفا. بیجی کش. سیرنونو ان میں سیروفا دیوی اور اقی دیوتا تھے. مثال ۱۱ توتانی پنج تن. |کیرمان ایران| تھور. ویریون. مزج. بلدور. فریر ان میں فریر دیوی اور باقی دیوتا ہیں مثال ۱۲ سالوی پنج تن |ہندوستان| پیرکوماس. ادکوست. سوان. دولوس. دیمی ودال ان میں سوان دیوی اور باقی دیوتا ہیں. مثال ۱۳ رام بھگتی پنج تن رام. لکشمن. لد. کیشو. سیتا ان میں سیتا دیوی ہے اور لد اور کیشو اس کے بچے . رام سیتا کا شوہر ہے اور لکشمن رام کا وفادار بھائی. محترم قارعین جومثالیں آپ کو پیش کیں ان کو پڑھیں اور غور کریں کہ ان میں کس قدر مماثلت ہے شیعہ کے پنج تن سے کہ سب میں ۱ عورت اور باقی چار مرد ہیں. ان باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ کے پنجتن کی بھی بنیاد ویسی ہی ہے جیسے ان کے پیش رو کفار کی تھی. بیشک الکفر ملت واحدہ ان شیعوں کی دیکھا دیکھی سنی سنائی پر عمل کرنے والے قرآن سے دور مشرک و اہل بدعت موجود فرقوں نے بھی اس پنج تن کی پرستش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اس قدیم مشرکانہ عقیدے کا طوق اپنی گردن میں پھنسا لیا ھے اگرچہ ان پنج تن کے علاوہ بھی ان دونوں گروہوں نے اپنے دیگر بیشمار بُت تراش رکھے ہیں جن کے بارے میں غلو سے کام لے کر انہیں خدائی صفات کا حامل قرار دیتے ہیں اور شرک کے مرتکب ہوتے ہیں "مولوی اور پیر مسلمانوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کرتے ھیں" (مفہوم القرآن) سوچنا جرم نہیں ہے

ہریانوی زبان م " الگت " جو کہ مجاہد ننکانوی صاحب نے لکھی ہے ۔  اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے ، معروف صحافی ادیب و قلمکار ، محترم سہیل احمد صدیقی صاحب کی فرمائش پر ۔ ذیل میں اصل نظم بھی درج ہے ۔ از۔ غلام محمد وامق ۔         نظم ۔۔۔۔  فرصت ۔ فراغت ۔        ترجمہ ۔ غلام محمد وامق ۔   بس یوں ہی دل لگی کی خاطر بات کہی تھی میں نے تو ۔  اے میری دادی یہ تو بتا کہ انڈیا کیوں تقسیم ہوا ؟  اور کیسے پاکستان بنا ؟   اتنی سی بس بات پہ دادی کی آنکھوں سے ۔ جیسے دریا رواں ہوئے ہوں ۔  حوصلہ کر کے بھیگی آنکھوں اور کانپتے ہونٹوں سے ۔  دادی بولی ۔۔۔۔  میرے بیٹے مت پوچھ وہ لمحے ،  کیسے پاکستان بنا تھا ،  یوں ہی تو یہ نہیں بنا تھا ۔  تلواروں نے لہو بہایا ،  دنیا بھر میں خون بہا تھا ۔   ماؤں کے تو لال کٹے تھے ،  بیٹیوں کے ارمان لٹے تھے ،  پانی کے جتنے کنویں تھے ،  لاشوں سے وہ سارے اٹے تھے ۔   ہم "  ھابڑی" گاؤں سے نکلے تھے ،  راہ میں ہم نے ، دشمن کے کئی وار سہے تھے ،  اور رستے میں سکھوں نے بھی ،  انسانوں کا لہو پیا تھا ۔   چھپ چھپا کر نکلے تھے ہم ،  لٹتے کٹتے اک دن آخر ، واہگہ پہنچے ،  ہم نے سکھ کا سانس لیا تھا ،  شکرانے کا سجدہ کیا تھا ۔   کلمہ پڑھتے ، نعرے لگاتے ،  ہم پاکستان آئے تھے ،  بچھڑے ہوئے اپنوں کا دکھ تھا ۔  آنکھوں میں سب کے ،  آنسو بھرے تھے ۔  پھر بھی زباں سے ہم کہتے تھے ،  جیوے ہمارا پاکستان ۔  جیوے ہمارا پاکستان ۔   شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔  تاریخ ۔ 07 اپریل 2023 ء بروز جمعرات ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔       *اُلگت۔۔۔۔۔۔ مجاہد ننکانوی*      ہریانوی(رانگڑی) زبان   نیوئیں چسکالین کے مارے بات کری تھی منےتو دادی ری ایک بات بھتائیے انڈیا کیوکر بنڈ گیاتھا؟؟؟ کیوکر پاکستان بنیا تھا؟؟   اتنی بات ءِ پوچھی تھی دادی کی آنکھاں تھے جیوکر دریا چال پڑھے ہوں حوصلہ کرکے بھیجی انکھاں  کانپ دے ہونٹھاں گیلاں  دادی بولی پوت کے پوچھے  ان گھڑیاں کا   کیوکر پاکستان بنیا تھا نیوئیں تو نھی بن گیا تھا تلواراں چالیں  لہو  بہیا  جگ خونم خون ھویا تھا  ماواں کے لال کٹے تھے  دھیاں کے پلو کھسے تھے پانی آلے سارے کنوے لھاشاں کے گیل اٹے تھے  ہابڑی گام تھےچالے تھے رستے میں ھم نیں دشمن کے کئی وار سہے تھے راہ مینھ تھے سکھاں کے ڈیرے جو پانی سمجھ کے لہو پیویں تھے لھکدے چھپدے لکڑے تھے ہم بچدے کٹدے ایک دن واہگہ آ لاگے ہم نیں سکھ کا سانس لیا تھا شکرانے کا سجدہ دیا تھا کلمہ پڈھدے نعرے لاندے پاکستان میں آئے تھے  بچھڑنیاں کا دکھ کھاوے تھا آنکھاں میں آنجھو بھر رھے تھے پھیر بھی منہہ تھے یوہ لکرے تھا جیوے مھارا پاکستان جیوے مھارا پاکستان  #مجاہد ننکانوی

ہریانوی زبان م " الگت " جو کہ مجاہد ننکانوی صاحب نے لکھی ہے ۔ اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے ، معروف صحافی ادیب و قلمکار ، محترم سہیل احمد صدیقی صاحب کی فرمائش پر ۔ ذیل میں اصل نظم بھی درج ہے ۔ از۔ غلام محمد وامق ۔ نظم ۔۔۔۔ فرصت ۔ فراغت ۔ ترجمہ ۔ غلام محمد وامق ۔ بس یوں ہی دل لگی کی خاطر بات کہی تھی میں نے تو ۔ اے میری دادی یہ تو بتا کہ انڈیا کیوں تقسیم ہوا ؟ اور کیسے پاکستان بنا ؟ اتنی سی بس بات پہ دادی کی آنکھوں سے ۔ جیسے دریا رواں ہوئے ہوں ۔ حوصلہ کر کے بھیگی آنکھوں اور کانپتے ہونٹوں سے ۔ دادی بولی ۔۔۔۔ میرے بیٹے مت پوچھ وہ لمحے ، کیسے پاکستان بنا تھا ، یوں ہی تو یہ نہیں بنا تھا ۔ تلواروں نے لہو بہایا ، دنیا بھر میں خون بہا تھا ۔ ماؤں کے تو لال کٹے تھے ، بیٹیوں کے ارمان لٹے تھے ، پانی کے جتنے کنویں تھے ، لاشوں سے وہ سارے اٹے تھے ۔ ہم " ھابڑی" گاؤں سے نکلے تھے ، راہ میں ہم نے ، دشمن کے کئی وار سہے تھے ، اور رستے میں سکھوں نے بھی ، انسانوں کا لہو پیا تھا ۔ چھپ چھپا کر نکلے تھے ہم ، لٹتے کٹتے اک دن آخر ، واہگہ پہنچے ، ہم نے سکھ کا سانس لیا تھا ، شکرانے کا سجدہ کیا تھا ۔ کلمہ پڑھتے ، نعرے لگاتے ، ہم پاکستان آئے تھے ، بچھڑے ہوئے اپنوں کا دکھ تھا ۔ آنکھوں میں سب کے ، آنسو بھرے تھے ۔ پھر بھی زباں سے ہم کہتے تھے ، جیوے ہمارا پاکستان ۔ جیوے ہمارا پاکستان ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ تاریخ ۔ 07 اپریل 2023 ء بروز جمعرات ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ *اُلگت۔۔۔۔۔۔ مجاہد ننکانوی* ہریانوی(رانگڑی) زبان نیوئیں چسکالین کے مارے بات کری تھی منےتو دادی ری ایک بات بھتائیے انڈیا کیوکر بنڈ گیاتھا؟؟؟ کیوکر پاکستان بنیا تھا؟؟ اتنی بات ءِ پوچھی تھی دادی کی آنکھاں تھے جیوکر دریا چال پڑھے ہوں حوصلہ کرکے بھیجی انکھاں کانپ دے ہونٹھاں گیلاں دادی بولی پوت کے پوچھے ان گھڑیاں کا کیوکر پاکستان بنیا تھا نیوئیں تو نھی بن گیا تھا تلواراں چالیں لہو بہیا جگ خونم خون ھویا تھا ماواں کے لال کٹے تھے دھیاں کے پلو کھسے تھے پانی آلے سارے کنوے لھاشاں کے گیل اٹے تھے ہابڑی گام تھےچالے تھے رستے میں ھم نیں دشمن کے کئی وار سہے تھے راہ مینھ تھے سکھاں کے ڈیرے جو پانی سمجھ کے لہو پیویں تھے لھکدے چھپدے لکڑے تھے ہم بچدے کٹدے ایک دن واہگہ آ لاگے ہم نیں سکھ کا سانس لیا تھا شکرانے کا سجدہ دیا تھا کلمہ پڈھدے نعرے لاندے پاکستان میں آئے تھے بچھڑنیاں کا دکھ کھاوے تھا آنکھاں میں آنجھو بھر رھے تھے پھیر بھی منہہ تھے یوہ لکرے تھا جیوے مھارا پاکستان جیوے مھارا پاکستان #مجاہد ننکانوی

 ہریانوی زبان میں ایک نظم ہے " الگت " جو کہ مجاہد ننکانوی صاحب نے لکھی ہے ۔ 

اس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے ، معروف صحافی ادیب و قلمکار ، محترم سہیل احمد صدیقی صاحب کی فرمائش پر ۔ ذیل میں اصل نظم بھی درج ہے ۔ از۔ غلام محمد وامق ۔ 


      نظم ۔۔۔۔  فرصت ۔ فراغت ۔ 

      ترجمہ ۔ غلام محمد وامق ۔ 


بس یوں ہی دل لگی کی خاطر بات کہی تھی میں نے تو ۔ 

اے میری دادی یہ تو بتا کہ انڈیا کیوں تقسیم ہوا ؟ 

اور کیسے پاکستان بنا ؟ 


اتنی سی بس بات پہ دادی کی آنکھوں سے ۔

جیسے دریا رواں ہوئے ہوں ۔ 

حوصلہ کر کے بھیگی آنکھوں اور کانپتے ہونٹوں سے ۔ 

دادی بولی ۔۔۔۔ 

میرے بیٹے مت پوچھ وہ لمحے ، 

کیسے پاکستان بنا تھا ، 

یوں ہی تو یہ نہیں بنا تھا ۔ 

تلواروں نے لہو بہایا ، 

دنیا بھر میں خون بہا تھا ۔ 


ماؤں کے تو لال کٹے تھے ، 

بیٹیوں کے ارمان لٹے تھے ، 

پانی کے جتنے کنویں تھے ، 

لاشوں سے وہ سارے اٹے تھے ۔ 


ہم "  ھابڑی" گاؤں سے نکلے تھے ، 

راہ میں ہم نے ، دشمن کے کئی وار سہے تھے ، 

اور رستے میں سکھوں نے بھی ، 

انسانوں کا لہو پیا تھا ۔ 


چھپ چھپا کر نکلے تھے ہم ، 

لٹتے کٹتے اک دن آخر ، واہگہ پہنچے ، 

ہم نے سکھ کا سانس لیا تھا ، 

شکرانے کا سجدہ کیا تھا ۔ 


کلمہ پڑھتے ، نعرے لگاتے ، 

ہم پاکستان آئے تھے ، 

بچھڑے ہوئے اپنوں کا دکھ تھا ۔ 

آنکھوں میں سب کے ، 

آنسو بھرے تھے ۔ 

پھر بھی زباں سے ہم کہتے تھے ، 

جیوے ہمارا پاکستان ۔ 

جیوے ہمارا پاکستان ۔ 


شاعر ۔ غلام محمد وامق ۔ 

تاریخ ۔ 07 اپریل 2023 ء بروز جمعرات ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


    *اُلگت۔۔۔۔۔۔ مجاہد ننکانوی*

     ہریانوی(رانگڑی) زبان 


نیوئیں چسکالین کے مارے

بات کری تھی منےتو

دادی ری ایک بات بھتائیے

انڈیا کیوکر بنڈ گیاتھا؟؟؟

کیوکر پاکستان بنیا تھا؟؟ 


اتنی بات ءِ پوچھی تھی

دادی کی آنکھاں تھے

جیوکر دریا چال پڑھے ہوں

حوصلہ کرکے

بھیجی انکھاں 

کانپ دے ہونٹھاں گیلاں 

دادی بولی

پوت کے پوچھے 

ان گھڑیاں کا 


کیوکر پاکستان بنیا تھا

نیوئیں تو نھی بن گیا تھا

تلواراں چالیں  لہو  بہیا 

جگ خونم خون ھویا تھا


ماواں کے لال کٹے تھے 

دھیاں کے پلو کھسے تھے

پانی آلے سارے کنوے

لھاشاں کے گیل اٹے تھے


ہابڑی گام تھےچالے تھے

رستے میں ھم نیں

دشمن کے کئی وار سہے تھے

راہ مینھ تھے سکھاں کے ڈیرے

جو پانی سمجھ کے

لہو پیویں تھے

لھکدے چھپدے لکڑے تھے ہم

بچدے کٹدے

ایک دن واہگہ آ لاگے

ہم نیں سکھ کا سانس لیا تھا

شکرانے کا سجدہ دیا تھا

کلمہ پڈھدے نعرے لاندے

پاکستان میں آئے تھے


بچھڑنیاں کا دکھ کھاوے تھا

آنکھاں میں آنجھو بھر رھے تھے

پھیر بھی منہہ تھے

یوہ لکرے تھا

جیوے مھارا پاکستان

جیوے مھارا پاکستان


#مجاہد ننکانوی

Powered by Blogger.