غ ۔ ز ۔ ل
ہے انساں کی سوچوں پہ تلوار اب بھی ۔ یہ رسموں رواجوں کی دیوار اب بھی ۔ بظاہر جو لگتے ہیں ہر شئے سے غافل ۔ ہیں مطلب پہ اپنے وہ ہشیار اب بھی ۔ پرانا کہاں قصہ چنگیز خاں کا ۔ کہ بنتے ہیں لاشوں کے مینار اب بھی ۔ غریبوں کو کچھ بھی نہیں ملتا لیکن ۔ ہیں مالک یہ غلوں کے، زردار اب بھی ۔ سنو ! دعویداران تقدیسِ انساں ۔ یہ انسانیت ہے ، سر دار اب بھی ۔ ہیں آزاد ہم یوں تو ظاہر میں لیکن ۔ مقید ، ہمارے ہیں افکار اب بھی ۔ کہیں پھر نہ فرہاد تیشہ اٹھالے ۔ کہ ڈر سے لرزتے ہیں کہسار اب بھی ۔ کبھی جرم الفت ہوا تھا، مگر دل ۔ صبح و شام ہوتا ہے سنگسار اب بھی ۔ شہیدِ محبت کے چہرے سے دیکھو ۔ ہویدا ہیں عظمت کے آثار اب بھی ۔ کبھی گل کے پہلو میں دیکھے تھے ہم نے ۔ کھٹکتے ہیں آنکھوں میں وہ خار اب بھی ۔ امنگیں جوانی کی مٹتی گئیں سب ۔ مگر جوں کا توں ہے تیرا پیار اب بھی ۔ ہے دل میں یقیں اس کو میری وفا پر ۔ مگر ضد کے باعث ہے انکار اب بھی ۔ جو لینے گئے جنس الفت تو دیکھا ۔ بھرے ہیں عداوت سے بازار اب بھی ۔ زباں تم نے کاٹی تو کیا غم ہے وامق ۔ یہ دل تو ہے حق کا پرستار اب بھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ ۔ اکتوبر 1985ء میں کہی گئی غزل ۔
غ ۔ ز ۔ ل