مزدور ‏کے ‏نام ‏ـ ‏‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏...  ‏جب ‏دھوپ ‏میں ‏تیزی ‏بڑھتی ‏ہو ‏، ‏اور ‏گرمی ‏میں ‏بھی ‏شدت ‏ہو ‏ـ ‏

مزدور ‏کے ‏نام ‏ـ ‏‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏جب ‏دھوپ ‏میں ‏تیزی ‏بڑھتی ‏ہو ‏، ‏اور ‏گرمی ‏میں ‏بھی ‏شدت ‏ہو ‏ـ ‏

<<<   مزدور کے نام   >>>  (  یومِ مزدور )   
              غلام محمد  وامق 

جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو۔
جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو ، اور اوپر نیچے حدت ہو ۔ ۔
جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعیّن مُدت ہو ۔۔
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ 

جب بچے بھوک سے روتے ہوں، اور گھر میں فاقہ مستی ہو۔
دُکھ ان کا کرے محسوس یہاں، نہ ایسی کوٸی ہستی ہو ۔۔
ہو عزّت بھی محفوظ جہاں، نہ ایسی کوٸی بستی ہو۔ ۔۔۔
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ 

جب خون پسینہ بنتا ہے، اور محنت انساں کرتا ہے ۔
جب اہلِ ثروَت کے ہاتھوں، ہر دور میں انساں لُٹتا ہے۔
ہر محنت کَش کی میّت پر جب بیٹھا قاتِل ہنستا ہے ۔
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ ۔

جب دور پہاڑی کانوں میں، وہ کام کریں طوفانوں میں۔
وہ جلتے سورج کے نیچے، اور تپتے ہوۓ میدانوں میں ۔
اِک عُمر گُزرتی ہے اُن کی، دُور اپنوں سے، بیگانوں میں۔
کیا ایسے عالم میں تم نے، مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ ۔

جب دانہ دانہ گندم کا وہ گوداموں میں ڈھیر کرے ۔
خود بھوکا سوۓ ہے لیکن، سب ہم وطنوں کا پیٹ بھرے۔
ہر آن مصیبت ہے اس کو،  وہ جیۓ  چاہے اور مرے ۔۔۔
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ ۔

اِک روز یہ بندھن ٹوٹیں گے، اِک روز یہ قیدی چھوٹے گا۔
تب کانپ اٹھیں گے اہلِ ہوَس، جب گھر کا بھیدی لُوٹے گا۔
جب بال و پر آجاٸیں گے، تب پنچھی پنجرا ٹُوٹے گا ۔۔۔
کیا ایسے عالَم میں تُم بھی مزدور کو بیٹھے دیکھو گے؟

اٍک روز گریں گی دیواریں، اک روز یہ زنداں ٹوٹے گا ۔۔۔
جب صُبح کی روشن کِرنوں سے یہ خوابِ پریشاں ٹوثے گا۔
جب چیخ اُٹھیں گی دیواریں، تب سحرِ خموشاں ٹوٹے گا ۔
کیا ایسے عالم میں تم بھی مزدور کو بیٹھے دیکھو گے ؟

جب قطرے خون کے جمتے ہیں، تب ظُلم کے پاٶں تھمتے ہیں
اے کاش! وہ آٸیں دن وامِق، جب لوگ گھروں میں بستے ہیں
کَل روتے پھریں گے وہ انساں، جو آج کسی پہ ہنستے ہیں ۔
کیا ایسے عالم میں تم بھی مزدور کو بیٹھے دیکھو گے ؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فِعلن فَعِلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن ۔ 
بحر زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 
ستمبر سال 1982ء کراچی پورٹ ایسٹ وارف ( بندرگاہ ) پر کہی گئی نظم ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
قرارداد ‏پاکستان ‏ـ ‏ایک ‏کڑوا ‏سچ ‏ـ ‏تحریر ‏ـ ‏مرزا ‏یاسین ‏بیگ ‏...انتخاب ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ـ ‏

قرارداد ‏پاکستان ‏ـ ‏ایک ‏کڑوا ‏سچ ‏ـ ‏تحریر ‏ـ ‏مرزا ‏یاسین ‏بیگ ‏...انتخاب ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ـ ‏

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1940 کی قرارداد پاکستان  انگریزوں کے کہنے پر ایک احمدی سر ظفراللہ خان نے لکھی تھی جسے مسلم لیگ نے لاہور کے اجلاس میں منظور کیا تھا
قراردادِ پاکستان کے بارے میں سب یہ جانتے ہیں کہ یہ قرارداد 23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس میں مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی مگر کوٸ یہ نہیں جانتا کے اس دو قومی نظرٸے یعنی ہندوستان کے بٹوارے کے خالق کون تھے؟ اور اس قراردادکے لکھنے کا خیال انھیں کیسے آیا تھا؟ یہ کام سر محمد ظفراللہ خان نے انگریزوں کے کہنے پر انجام دیا تھا ۔ اس بارے میں اس وقت کے واٸسرائے ( وکٹر ہوپ لنلتھگو، وائسرائے ہند ـ 18، اپریل 1936 سے یکم اکتوبر 1943ء)  کا حکومت برطانیہ کو لکھا جانے والا تاریخی خط ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیٸے:
”میری ہدایت پر ظفر اللہ نے ایک میمورنڈم دو ممالک کے متعلق لکھا ہے جو میں پہلے ہی آپ کو بھجوا چکا ہوں۔ میں نے انہیں مزید توضیح کے لیے بھی کہا ہے جو ان کے کہنے کے مطابق جلد ہی آ جائے گی۔البتہ ان کا اصرار ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ منصوبہ انہوں نے تیار کیا ہے۔ انہوں نے مجھے یہ اختیار دیا ہے میں اس کے ساتھ جو چاہوں کروں، جس میں آپ کو ایک نقل بھیجنا بھی شامل ہے۔ اس کی نقول جناح کو اور میرے خیال میں سر اکبر حیدری کو دی جا چکی ہیں۔ یہ دستاویز مسلم لیگ کی طرف سے اپنائے جانے اور اس کی مکمل تشہیر کے لیے تیار کر لی گئی ہے جبکہ ظفر اللہ اس کے مصنف ہونے کا اقرار نہیں کر سکتے۔“      ( لارڈ لنلتھگو 12 مارچ 1940)
واٸسراۓ لارڈ لنلتھگو کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ظفر اللہ خان احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے اگر عام مسلمانوں کو اس بارے میں پتہ چلا تو ان کی جانب سے تحفظات کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ منصوبہ پیش کرنے کے بارہ دن بعد اسے آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے لاہور کے اجلاس میں منظور کر لیا گیا اور یہ قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی ۔
یہی  ظفراللہ خان بعد میں  پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ بنے تھے ۔ ان کی شخصیت قاٸداعظم محمد علی جناح کے ہم پلّہ تھی ۔  بعدازاں محمد علی جناح کی درخواست پر ظفر اللہ خان نے مسلم لیگ کا مقدمہ ریڈکلف کمیشن کے سامنے پیش کیا تھا۔ 
(مرزا یاسین بیگ) ـــــ
بہروپیا ‏ـ ‏ایک قابلِ فکر ‏حکایت ‏ــ ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏.... ‏

بہروپیا ‏ـ ‏ایک قابلِ فکر ‏حکایت ‏ــ ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏.... ‏

=== ایک قابلِ فکر حکایت  ====  
ایک مشہور بادشاہ ( نام یاد نہیں) کے دربار میں ایک بہروپیا پیش ہوا اور اپنے فن کے انعام کی التجا کی ـ بادشاه نے کہا کہ اگر واقعی تو سچا بہروپیا ہے تو کوئی ایسا بہروپ بھر کہ ہم تمہیں پہچان نہ پائیں، تب تجھے انعام دیا جائے گا ـ بہروپئے نے ایسا کرنے کی ہامی بھری اور چلا گیا ـ دوچار سال گزرے کہ بادشاہ کو کسی بزرگ کی بڑی شہرت سننے میں آئی، جس نے شہر سے باہر پہاڑوں پر اپنا مسکن بنایا ہوا تھا ـ  بادشاہ کو ملنے کا اشتیاق ہوا، اور اپنے وزراء سمیت بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا ـ بزرگ کی باتیں سن کر بادشاہ بہت متاثر ہوا، چنانچہ بزرگ کی خدمت میں بیش بہا زر و جواہر اور تحائف پیش کئے، لیکن بزرگ نے یہ کہکر سارا مال واپس کردیا کہ. " اللہ والوں کو دنیا کے مال و متاع کی کوئی ضرورت نہیں، اللہ کے سچے بندے دنیا کے حریص نہیں ہوتے " ــ بادشاہ مزید متاثر ہوا اور واپس آگیا ـ چند روز بعد وہی بہروپیا دربار میں حاضر ہوا اور پھر انعام کا خواستگار ہوا ـ بادشاہ نے پوچھا انعام کس بات کا؟ ـ 
تب بہروپئے نے جواب دیا کہ حضور، آپ جس درویش کے پاس حاضر ہوئے تھے، وہ درویش میں ہی تھا ـ بادشاہ بہت حیران ہوا، اور پوچھا کہ تم تھوڑا سا انعام لینے کے لئیے یہاں آگئے، جب کہ اُس وقت میں تمہیں بیشمار دولت دے رہا تھا، تو تم نے اس کو ٹھکرادیا تھا،  کیوں ـ؟ ــ
بہروپئے نے کہا کہ حضور،  اُس وقت میں اللہ کے ولی کے روپ میں تھا، اور اس روپ یا کردار کا تقاضا یہ تھا کہ میں دنیا کی طرف رغبت نہ کروں،  اگر آپ کا مال لے لیتا تو اللہ کے ولی کا بہروپ اصل نہیں رہتا ـ
کیا آج کے نام نہاد اور پیشہ ور پیروں، فقیروں میں اس بہروپئے جتنا بھی ظرف ہمیں نظر آتا ہے ـ؟؟؟  ..... 
ـــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ 
مورخہ ـ 15، دسمبر ـ 2020ء ...

پھوٹی ‏کوڑی ‏کیا ‏ہے ‏؟ـ ‏ایک ‏معلوماتی ‏تحریر ‏ـ کاپی ‏پیسٹ ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ـ

پھوٹی ‏کوڑی ‏کیا ‏ہے ‏؟ـ ‏ایک ‏معلوماتی ‏تحریر ‏ـ کاپی ‏پیسٹ ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ـ

یہ معلوماتی تحریر محترم ڈاکٹر امانت اللہ پٹھان. ( Amanatullah Pathan.) صاحب کی وال سے کاپی کی گئی ہے .......
ـــــــــــــــــــــ از ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ .... 

       پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔ 

دنیا کا پُرانا ترین سکہ شاید یہی ’’پھوٹی کوڑی ‘‘ہے۔یہ پھوٹی کوڑی  ’’کوڑی‘‘ یا پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔ جسے کوڑی گھونگھے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا استعمال دنیا میں کوئی پانچ ہزار (5000) سال قبل وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں بطور کرنسی عام تھا۔ ’’پھوٹی ‘‘ کا نام اسے اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے کوڑی کا گھونگا ’’پھوٹی کوڑی‘‘ کہلایا۔ قدرتی طور پر گھونگھوں کی پیدا وار محدود تھی۔ اس کی کمیابی سے یہ مطلب لیا گیا کہ اس کی کوئی قدر / ویلیو ہے۔

تین پھوٹی کوڑیوں کے گھونگھے ایک پوری کوڑی کے برابر تھے۔ جو ایک چھوٹا سا سمندری گھونگھا تھا۔ لیکن ان دونوں کی کوئی آخری حیثیت / ویلیو تھی۔ وہ ’’روپا‘‘تھی۔ جسے بعد میں ’’روپیہ‘‘ کہاجانے لگا۔۔ ایک’’روپیہ ‘‘5,275’‘پھوٹی کوڑیوں‘‘ کے برابر تھا۔ ان کے درمیان دس مختلف سکے تھے۔جنہیں ’’کوڑی‘‘، دمڑی‘‘، ’’پائی‘‘، ’’دھیلا‘‘، ’’پیسہ‘‘، ’ٹکہ‘‘، ’’آنہ‘‘، ’’دونی‘‘، ’’چونی‘‘، ’’اٹھنی‘‘ اور پھر کہیں جا کر ’’روپیہ‘‘ بنتا تھا۔

‎کرنسی کی قیمت یہ تھی-

3 پھوٹی کوڑی= 1کوڑی 

10کوڑی =  1 دمڑی

 02دمڑى = 1.5پائى.

ڈیڑھ پائى = 1 دهيلا.

2دهيلا = 1  پيسہ .
تین پیسے= ایک ٹکہ
چھ پيسه یا دو ٹکے= 1 آنہ .
دو آنے= دونی 
چار آنے= چونی
آٹھ آنے= اٹھنی
16 آنے =   1 روپيہ

جس طرح اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔ اسی طرح 
کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جانا

چمڑی جاۓ دمڑی نہ جاۓ در اصل کنجوسی کی شدید حالت کو بیان کرنےکے لئیے استعمال ہوتا ہے 

ایک پائ نہ ہونا غربت کا مظہر ...
ایک دھیلے کا نہ ہونا ذراکم غربت ..
ایک ٹکے کی اوقات (ذلیل کرنے کا غیر مہذب بیانیہ)..
ٹکہ بنگلہ دیش کی کرنسی بھی ہے

کیونکہ سب سے اعلی اور مکمل حیثیت روپیہ کی تھی (جس میں سولہ آنے ہوتے تھے) اس لئیے بات کا سولہ آنے صحیح ہونا ۱۰۰ فیصد صحیح کے مترادف ہوتا تھا ــــ
کاپی پیسٹ و انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ــــ فون نمبر ـ 03153533437 .... dt.14.12.2020 ــــ
علامہ ‏اقبال ‏کے ‏جرمن ‏خاتون ‏" ‏ایما ‏ویگے ‏" ‏کو ‏لکھے ‏گئے ‏عشقیہ ‏خطوط ‏ـ ‏حصہ ‏دوم ‏ـ  ‏

علامہ ‏اقبال ‏کے ‏جرمن ‏خاتون ‏" ‏ایما ‏ویگے ‏" ‏کو ‏لکھے ‏گئے ‏عشقیہ ‏خطوط ‏ـ ‏حصہ ‏دوم ‏ـ ‏

ایما ویگے ناست کو لکھے گئے علامہ اقبال کے خطوط کا آخری حصہ 

21 جنوری 1908ء کو تحریر کیا : 

جب آپ کا پچھلا خط پہنچا تو میں بڑا بیمار تھا اور اس نے مجھے اور بھی بیمار کر ڈالا۔ کیونکہ آپ نے لکھا تھا کہ آپ نے بڑے طوفان میں سے گزرنے کے بعد اپنی آزادی دوبارہ حاصل کی ہے۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے ساتھ مزید خط و کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا۔ اب مجھے پھر آپ کا خط موصول ہوا ہے اور اس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ میں اکثر آپ کے بارے میں سوچتا ہوں اور آپ کے لیے میرا دل ہمیشہ بڑے حسین خیالات سے معمور رہتا ہے۔ ایک شرارے سے شعلہ اٹھتا ہے اور شعلے سے بڑا الاؤ روشن ہوجاتا ہے، لیکن آپ غیر جانبدار ہیں، غفلت شعار ہیں، آپ جو جی میں آئے کیجیے، میں بالکل کچھ نہ کہوں گا اور ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا۔ شاید جب میں ہندوستان روانہ ہوں گا تو آپ سے ملاقات کرسکوں گا۔ 

26 فروری 1908ء کو تحریر کیا :
 
میں ہر چیز کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے اس قدر مصروفیت رہی کہ آپ کو خط نہ لکھ سکا، مگر آپ چونکہ فرشتہ خصلت ہیں، اس لیے امید رکھتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کردیں گی۔ آج شام بھی مجھے ایک لیکچر دینا ہے، تصوف پر۔۔۔۔۔مجھے آپ کے کانوں کو اپنی بھونڈی جرمن سے مورد توہین بنانے پر شرم آتی ہے۔۔۔۔۔۔میں جولائی کے اوائل میں ہندوستان لوٹ رہا ہوں اور میری تمنا ہے کہ اپنے سفر سے پیشتر آپ سے ملاقات کا موقع مل جائے۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ چند روز کے لیے ہائیڈل برگ آسکوں، لیکن اگر ممکن ہو تو کیا آپ پیرس میں مجھ سے مل سکتی ہیں؟ ۔۔۔۔۔آپ تمام دن کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ مطالعہ کرتی ہیں یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں؟ آپ کی تصویر میری میز پر رکھی ہے اور ہمیشہ مجھے ان سہانے وقتوں کی یاد دلاتی ہے جو میں نے آپ کے ساتھ گزارے تھے۔ ایک تسبیحِ خیالاتِ خوش آیند کے ساتھ۔ 

3 جون 1908 ء کو تحریر کیا : 

براہِ کرم لکھیے اور مجھے بتائیے کہ آپ کیا کررہی ہیں اور کیا سوچ رہی ہیں۔ آپ میرے خط کا انتظار کیوں کرتی ہیں؟ میں ہر روز آپ سے اطلاع پانے کی آرزو رکھتا ہوں۔۔۔۔ میں بہت مصروف ہوں، جلد انگلستان سے رخصت ہورہا ہوں، آغاز جولائی میں۔ مجھے معلوم نہیں کہ آیا جرمنی کے رستے سفر کرنا ممکن ہوگا کہ نہیں، یہ میری بڑی تمنا ہے کہ میں ہندوستان لوٹنے سے پہلے آپ سے ملاقات کرسکوں، بے رحم نہ بنیے، براہ کرم جلد خط لکھیے اور تمام احوال بتائیے۔ میرا جسم یہاں ہے، میرے خیالات جرمنی میں ہیں۔ آج کل بہار کا موسم ہے، سورج مسکرا رہا ہے لیکن میرا دل غمگین ہے۔ مجھے کچھ سطریں لکھیے اور آپ کا خط میری بہار ہوگا۔ میرے دلِ غمگین میں آپ کے لیے بڑے خوبصورت خیالات ہیں اور یہ خاموشی سے یکے بعد دیگرے آپ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ 

10 جون 1908ء کو تحریر کیا : 

میں آپ کو پہلے خط لکھ چکا ہوں اور آپ کے خط کا منتظر ہوں۔ میں اپنی ایک تصویر لف کررہا ہوں۔شاید میں ایک اور تصویر آپ کو بھیجوں۔ میں 2 جولائی کو ہندوستان روانہ ہورہا ہوں اور وہاں سے خط لکھوں گا۔ 

لندن سے آخری خط 27 جون 1908ء کو تحریر کیا۔ لکھتے ہیں : 

میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ جرمنی کے رستے سفر کرسکوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ میں 3 جولائی کو انگلستان سے روانہ ہوں گا اور چند روز پیرس میں رکوں گا۔ جہاں مجھے کچھ کام ہے۔ براہ کرم فوراً لکھیے۔ میں ہندوستان روانہ ہونے سے پیشتر آپ کا خط پانے کا ممتنی ہوں۔ میں اگلے سال یورپ آنے اور آپ سے ملنے کی امید رکھتا ہوں۔ مت کہیے گا کہ کئی ملک اور سمندر ہمیں ایک دوسرے سے جدا کریں گے، پھر بھی ہمارے درمیان ایک غیر مرئی رشتہ قائم ہے۔ میرے خیالات ایک مقناطیسی قوت کے ساتھ آپ کی سمت دوڑیں گے اور اس بندھن کو مضبوط بنائیں گے۔ ہمیشہ مجھے لکھتے رہیے گا اور یاد رکھیے گا کہ آپ کا ایک سچا دوست ہے، اگرچہ وہ فاصلہ دراز پر ہے۔جب دل ایک دوسرے کے قریب ہوں تو فاصلہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔ 

ایما ویگے ناست کی ذات کے بارے میں محمد اکرام چغتائی نے ہائیڈل برگ جا کر تحقیق کی ہے اور اس سلسلے میں ان کا ایک مضمون "اقبال اور ایما ویگے ناست" نوائے وقت (جمعہ میگزین مورخہ 9 تا 15 نومبر 1984ء) میں چھپ چکا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق ایما ویگے ناست کچھ مدت پانسی یاں شیرر میں جرمن زبان پڑھاتی رہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے کلینک میں بطور کیمسٹ ملازم ہوئیں اور اٹھائیس برس تک یہی خدمت انجام دیتی رہیں۔
 
1947ء میں بعمر 68 سال ریٹائر ہوئیں۔ تمام عمر غیر شادی شدہ رہیں۔ ہائیڈل برگ میں اپنی بہن صوفی ویگے ناست کے ساتھ رہتی تھیں۔ 1956ء میں انہیں بڑھاپے الاؤنس ملنا شروع ہوا۔ بالآخر پچاسی سال کی عمر میں 16 اکتوبر 1964 کو وفات پاگئیں۔ 

اقبال کی ایما ویگے ناست کے ساتھ مراسلت جاری رہی، لیکن وہ پھر ایک دوسرے سے کبھی نہ مل سکے۔ اب تک دریافت شدہ خطوط کی تعداد ستائیس(27) ہے۔ پہلا 16 اکتوبر 1907ء کو اور آخری 21 جنوری 1933ء کو لکھا گیا۔سترہ(17) خط جرمن زبان میں ہیں اور دس(10) انگریزی میں۔ایما ویگے ناست جرمن زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہ جانتی تھیں۔ انہوں نے اقبال کو جو خطوط لکھے، وہ محفوظ نہیں۔ دونوں نے آپس میں تصاویر اور تحائف کا تبادلہ بھی کیا۔ اقبال انہیں اپنی تقاریر یا کلام بھی بھیجتے رہتے تھے اور بعض اوقات ان کے کلام کا جرمن ترجمہ بھی ایما ویگے ناست کی وساطت سے ہائیڈل برگ کے اخبارات میں چھپتا تھا۔ 

ایما ویگے ناست کی وفات سے چند برس پیشتر ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے کسی پاکستانی طالب علم کا وہاں کے اخبار میں مراسلہ شائع ہوا، جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ 1907ء میں اقبال اس شہر میں چند ماہ ٹھہرے تھے مگر معلوم نہیں کہ کہاں ٹھہرے تھے۔ یہ مراسلہ ایما ویگے ناست کی نظر سے گزرا اور انہوں نے پاکستانی طالب علم کو اپنے ساتھ لے جا کر اس مکان کی نشاندہی کرائی ـ

حوالہ کتاب : "زندہ رُود"
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال"
ص : 151..152..153
طالب دعا کاشف ترک
ـــــــــــــــــــ کاشف ترک کی وال سے کاپی پیسٹ، و انتخاب ـ از ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
فون نمبر ـ 03153533437 ..... dt.10.12.2020 
علامہ ‏اقبال ‏کی ‏محبوبہ  ‏" ایماویگے " اور ‏اقبال ‏کے ‏عشقیہ ‏خطوط ‏،  ‏حصہ ‏اول ‏ـ  ‏

علامہ ‏اقبال ‏کی ‏محبوبہ ‏" ایماویگے " اور ‏اقبال ‏کے ‏عشقیہ ‏خطوط ‏، ‏حصہ ‏اول ‏ـ ‏

علامہ اقبال اور ایما ویگے ناست  
               
جرمنی میں اقبال کا قیام اگرچہ مختصر تھا، لیکن اس کے باوجود اس سرزمین، جرمن شعر و ادب اور فلسفے سے انہیں گہری جذباتی اور روحانی وابستگی پیدا ہوگئی تھی۔ اس وابستگی کے پیدا کرنے میں ایما ویگے ناست کا بڑا ہاتھ تھا، کیونکہ جرمن زبان اور ادب و فلسفے سے ایما ویگے ناست ہی نے اقبال کو روشناس کرایا تھا۔ 

ایما ویگے ناست اقبال سے عمر میں دو سال چھوٹی تھیں۔ وہ 26 اگست 1879ء کو صوبہ بادن کے شہر ہائیل برون میں پیدا ہوئیں جو ہائیڈل برگ سے تقریباً اسّی کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے نیکر کے کنارے آباد ہے۔ ان کے اور بہن بھائی بھی تھے، لیکن اقبال کی ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ 

ایما ویگے ناست ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جرمن زبان کے ایک اسکول (پینسیون شیرر) سے منسلک ہوگئیں اور یہیں جولائی 1907ء میں اقبال کی ان سے ملاقات ہوئی۔ تب ایما ویگے ناست کی عمر اٹھائیس برس تھی۔ اقبال نے انہی سے جرمن زبان سیکھی اور جرمن شاعری اور ادب سے متعارف ہوئے۔ دونوں روزانہ ملتے اور گوئٹے کی تخلیقات اور جرمن فلسفے پر تبادلہ خیالات کرتے۔ 
ایما ویگے ناست ایک ذہین اور حسین خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے دل و دماغ کے فاصلے بتدریج کم ہوتے چلے گئے۔ 

یہاں تک کہ اقبال جب اوائل اکتوبر 1907ء میں ہائیڈل برگ میونخ گئے تو وہاں کے تقریباً ایک ماہ کے قیام کے دوران انہیں یکے بعد دیگرے تین خط لکھے۔ 

پہلا خط 16 اکتوبر 1907ء کو تحریر کیا گیا : 

افسوس کہ جرمن زبان سے میری محدود واقفیت ہمارے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران میں نے جرمن لکھنے کی مشق نہ کی، یہ پہلی تحریر ہے جو میں اس زبان میں لکھ رہا ہوں، خزاں کی دھیمی اور نم آلود ہوا بڑی خوشگوار ہے۔ موسم بڑا خوبصورت ہے۔ لیکن افسوس کہ ہر حسین شے کی طرح یہ بھی دوام ہے: 

دوسرا خط 23 اکتوبر 1907ء کو تحریر کیا گیا : 

یہ آپ کا بڑا کرم تھا کہ آپ نے خط لکھا لیکن نہایت مختصر میں اس وقت تک آپ کو بالکل نہیں لکھوں گا جب تک آپ مجھے وہ خط نہیں بھیجتیں جو آپ نے لکھ کر پھاڑ ڈالا۔یہ بڑی بے رحمی ہے۔ آپ ہائیڈل برگ میں تو ایسی نہ تھیں۔شاید ہائیل برون کی آب و ہوا نے آپ کو بے مہر بنادیا ہے۔ میں زیادہ لکھنا چاہتا ہوں، مگر وہ خط: آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میرا خط پھاڑ ڈالیں۔ 

اور تیسرا خط 27 اکتوبر 1907ء کو تحریر کیا گیا۔ لکھتے ہیں : 

آج میں باہر نہیں نکل سکا۔موسم خوشگوار نہیں ہے۔ براہ کرم میری بھدی جرمن زبان کا برا مت منائیے اور نہ اس کا جو میں نے اپنے پچھلے خط میں لکھا تھا۔ 
اقبال کی لندن روانگی سے قبل ایما ویگے ناست اپنے آبائی شہر ہائیل برون چلی گئیں اور کچھ مدت تک نا مساعد حالات کا شکار رہیں۔اقبال لندن سے واپس تو آگئے لیکن دل ابھی تک ہائیڈل برگ ہی میں تھا۔لندن میں تقریباً نو ماہ قیام کے دوران انہوں نے ایما ویگے ناست کو کئی خط لکھے۔ 

مثلاً 2 دسمبر 1907ء کو تحریر کرتے ہیں : 

میرا خیال تھا کہ ہائیل برون کے رستے سفر کروں گا لیکن یہ ممکن نہ ہوا میرے لیے یہ قطعی لازم تھا کہ 5 نومبر کو لندن میں ہوں۔پروفیسر آرنلڈ مصر گئے ہیں اور میں عربی کا پروفیسر مقرر ہوا ہوں۔میرے ذمے ہفتے میں دو لیکچر ہیں۔ میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، لیکن آپ تصور کرسکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش یہ ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کرسکوں اور آپ کو دیکھ سکوں،لیکن میں نہیں جانتا کہ کیا کروں۔ جو شخص آپ سے دوستی کرچکا ہو، اس کے لیے ممکن نہیں کہ آپ کے بغیر جی سکے۔ براہ کرم میں نے جو لکھا ہے، اس کے لیے مجھے معاف کردیجیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس قسم کے اظہار جذبات کو پسند نہیں رتیں۔ براہ کرم جلد لکھیے اور سب کچھ یہ اچھا نہیں کہ کسی شخص کا کچھ بگاڑا جائے، جو آپ کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ 

30 جنوری 1908ء کو تحریر کیا : 

میں آپ کی تصاویر کے لیے ہزار گونہ شکریہ ادا کرتا ہوں جو کل شام مجھے موصول ہوئیں۔۔۔۔دونوں تصویریں بہت خوبصورت ہیں اور وہ ہمیشہ میرے مطالعے کے کمرے میں میری میز پر رہیں گی۔ لیکن مت باور کیجیے کہ وہ صرف کاغذ ہی پر نقش ہیں بلکہ وہ میرے دل میں بھی جا پذیر ہیں اور تا دوام وہیں رہیں گی۔ شاید میرے لیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ میں دوبارہ آپ کو دیکھ سکوں۔۔۔۔مگر میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ آپ میری زندگی میں ایک حقیقی قوت بن چکی ہیں۔ میں آپ کو کبھی فراموش نہ کروں گا اور ہمیشہ آپ کے لطف و کرم کو یاد رکھوں گا۔ 

(اگلی پوسٹ بھی انھی بقایا خطوط کے حوالے سے ہوگی) 

حوالہ کتاب : "زندہ رُود" ( Zinda Rood) 
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال" 
ص : 150..151
طالب دعا کاشف ترک ــ
ـــــــــ کاشف ترک کی وال سے ـ کاپی پیسٹ و انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
فون نمبر ـ 03153533437 .....dt.10.12.2020 ,
علامہ ‏اقبال ‏کی ‏دوسری ‏اور ‏تیسری ‏بیوی ‏ـ ‏دوسرا ‏حصہ ‏ـ ‏

علامہ ‏اقبال ‏کی ‏دوسری ‏اور ‏تیسری ‏بیوی ‏ـ ‏دوسرا ‏حصہ ‏ـ ‏

علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی مختار بیگم اور سردار بیگم (آخری حصہ)     

دوسری شادی کے سلسلے میں جو 1910 ء میں ہوئی، مرزا جلال الدین کا بیان ہے کہ اقبال کے دوست شیخ گلاب دین وکیل نے موچی دروازے کے ایک کشمیری خاندان کی صاحبزادی کے متعلق تحریک کی جو اس وقت وکٹوریہ گرلز اسکول میں پڑھتی تھی۔ جب بات پکی ہوگئی تو اقبال کے بڑے بھائی سیالکوٹ سے آئے اور مرزا جلال الدین ، میاں شاہنواز، مولوی احمد دین اور شیخ گلاب دین کو ساتھ لے کر اقبال کے سسرال پہنچے اور وہاں ان کا نکاح سردار بیگم سے پڑھا گیا۔ اس موقع پر صرف نکاح ہوا، رخصتی عمل میں نہ آئی۔ 

اس سلسلے میں علی بخش کا بیان ہے کہ وہ اور والدہ اقبال، اقبال کے رشتے کی خاطر کسی کے گھر گئے۔ جب واپس آرہے تھے تو ایک نائن جو سیالکوٹ کی رہنے والی تھی والدہ اقبال سے ملی۔ والدہ اقبال نے اسے بتایا کہ وہ اپنے چھوٹے لڑکے کے لیےکسی موزوں رشتے کی تلاش میں ہیں۔ اس پر وہ نائن والدہ اقبال کو سردار بیگم کے گھر لے گئی، اور والدہ اقبال نے سردار بیگم کو دیکھتے ہی فیصلہ کرلیا کہ یہ رشتہ بہت مناسب ہے۔ 

سردار بیگم سے اقبال کے عقد کے متعلق منشی طاہرالدین کا بیان، جو ان کے فرزند شیخ بشیر احمد کی وساطت سے راقم تک پہنچا، قدرے مختلف ہے۔ اس بیان کے مطابق اقبال اپنی بیوی کا انتخاب اولاً خود کرنا چاہتے تھے۔ سردار بیگم کے برادر خواجہ عبدالغنی، منشی طاہرالدین کے احباب میں سے تھے۔ دونوں بہن بھائی موچی دروازے کے ایک غریب کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بچپن ہی سے یتیم ہوگئے تھے۔ دونوں کی پرورش ان کی پھوپھی نے کی۔  پھوپھا ضلع کچہری میں عرضی نویس تھے۔ سردار بیگم کسی اسکول نہ جاتی تھیں بلکہ انہوں نے قرآن مجید اور معمولی اردو پڑھنے لکھنے کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی تھی۔ خواجہ عبدالغنی قالین بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ جب سردار بیگم سے رشتے کے متعلق منشی طاہر الدین نے تحریک کی تو اقبال نے صاحبزادی کی تصویر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ منشی طاہرالدین نے تصویر خواجہ عبدالغنی سے یہ کہہ کر حاصل کی کہ والدہ اقبال کو دکھانے کے لیے سیالکوٹ بھیجنا ہے۔ اقبال نے سردار بیگم کی تصویر دیکھ کر انہیں پسند فرمایا۔ بعد میں والدہ اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئیں اور سردار بیگم کے گھر جا کر رشتے کی بات کی۔ پھر اقبال اپنے بڑے بھائی، والدہ اور چند احباب سمیت سسرال پہنچے، جہاں ان کا نکاح سردار بیگم سے پڑھا گیا۔ 

ان مختلف روایتوں میں سے خواہ کوئی بھی درست تسلیم کرلی جائے، حقیقت یہ ہے کہ سردار بیگم کسی سکول میں نہ پڑھتی تھیں۔ ان کا اقبال سے عقد 1910ء میں ہوا اور اس موقع پر صرف نکاح ہی پڑھا گیا، رخصتی عمل میں نہ آئی۔ 

راقم کے اندازے کے مطابق اس وقت سردار بیگم کی عمر انیس برس کے لگ بھگ تھی۔ 

رخصتی کا معاملہ اس لیے التوا میں پڑ گیا کہ نکاح کے فوراً بعد اقبال کو دو گمنام خط موصول ہوئے، جن میں سرداربیگم کے چال چلن پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اقبال شدید تذبذب میں پڑ گئے۔ یہ زمانہ ان کی ذہنی پریشانی کا تھا۔ ایک بیوی سے علیحدگی ہوچکی تھی۔ دوسری کے متعلق یہ صورت پیدا ہوگئی۔ احباب سے ذکر کیا۔ انہوں نے معاملے کی تہ تک پہنچنے کی ہامی بھرلی۔ بہر حال اقبال نے ارادہ کرلیا کہ سردار بیگم کو طلاق دے کر کہیں اور شادی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی تذبذب میں تین سال مزید گزر گئے۔ 

بالآخر اقبال کے ایک پرانے دوست سید بشیر حیدر جو اس زمانے میں ایکسائز انسپکٹر لدھیانہ تھے۔ لدھیانے کے ایک متمول کشمیری خاندان کی صاحبزادی مختار بیگم کے رشتے کا پیغام لے کر آئے۔ مختار بیگم کا خاندان لدھیانے میں "نو لکھیوں" کا خاندان کہلاتا تھا۔ چنانچہ جب رشتہ طے ہوگیا تو اقبال کی برات لاہور سے لدھیانہ گئی۔ مرزا جلال الدین نےاپنے بیان میں اس شادی کی تاریخ کا ذکر نہیں کیا، اسی طرح عبدالجید سالک نے بھی اقبال کی اس شادی کی تفصیل بیان کرتے وقت سن کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن غالب امکان ہے کہ یہ شادی 1913ء کے ابتدائی حصے میں ہوئی۔ اقبال، مختار بیگم کو ساتھ لے کر لاہور پہنچے جہاں انہوں نے انارکلی والے مکان میں قیام کیا۔ 

اسی اثناء میں سردار بیگم سے متعلق گمنام خطوط کے سلسلے میں جب مرزا جلال الدین اور اقبال کے دیگر احباب نے تحقیق کرائی تو راز کھلا کہ گمنام خطوط تحریر کرنے والا کوئی وکیل تھا، جو سردار بیگم کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ سردار بیگم نے جو اقبال سے عقد کے سبب تین سال تک طرح طرح کے مصائب برداشت کرتی رہیں،  خود بھی جرات کرکے ایک خط اقبال کو بھجوایا، جس میں لکھا کہ انہیں اس بہتان پر یقین نہ کرنا چاہیے تھا، اور یہ کہ میرا نکاح تو اب آپ سے ہوچکا ہے، اب میں دوسرے نکاح کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔اسی حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی اور روزِ قیامت آپ کی دامن گیر ہوں گی۔ 

اقبال یہ خط پڑھ کر اپنی غلطی پر سخت پشیمان ہوئے۔ مختار بیگم کو صورتِ حال سے با خبر کیا۔ وہ نہایت نرم دل اور حلیم طبیعت کی تھیں، کسی کا دکھ ان سے برداشت نہ ہوتا تھا، سردار بیگم کی بابت سن کر رونے لگیں۔ بالآخر اقبال، سردار بیگم کو گھر لانے کے لیے تیار ہوگئے، لیکن چونکہ ایک مرحلے پر دل میں انہیں طلاق دینے کا ارادہ کرچکے تھے اس لیے سردار بیگم سے اگست یا ستمبر 1913ء میں دوبارہ نکاح پڑھوایا گیا۔ ان ایّام میں مختار بیگم اپنے میکے لدھیانے روانہ ہوگئیں اور اقبال سردار بیگم کو ساتھ لے کر سیالکوٹ جا پہنچے۔  چند ہفتوں کے بعد انارکلی والے مکان میں دونوں بیویاں اکٹھی ہوگئیں۔ مختار بیگم اور سردار بیگم قریب قریب ایک ہی عمر کی تھیں اور دونوں میں ایسی محبت پیدا ہوگئی جو بہنوں میں بھی نہیں ہوتی۔ 

سردار بیگم سے شادی کے متعلق اقبال اپنے ایک خط محررہ 26 اکتوبر 1913ء بنام مہاراجہ کشن پرشاد میں تحریر کرتے ہیں : 

تیسری بیوی آپ کے تشریف لے جانے کے کچھ عرصے بعد کی۔ ضرورت نہ تھی، مگر یہ عشق و محبت کی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔ اقبال نے گوارا نہ کیا کہ جس عورت نے حیرت انگیز ثابت قدمی کے ساتھ تین سال تک اس کے لیے طرح طرح کے مصائب اٹھائے ہوں، اسے اپنی بیوی نہ بنائے۔ کاش دوسری بیوی کرنے سے پیشتر یہ حال معلوم ہوتا۔  

اقبال نے اپنی ازدواجی زندگی کے مسئلے کو سلجھانے کی خاطر پہلی بیوی سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ وہ کریم بی کی جگہ ایک رفیقہ حیات کے خواہاں تھے، مگر حالات نے ایسی صورت اختیار کی کہ انہیں ایک کی بجائے دو بیویوں کا شوہر بننا پڑگیا۔ 

انارکلی والا مکان، جس میں اقبال صرف علی بخش(ملازم) کے ساتھ رہا کرتے تھے، 1913ء میں سیالکوٹ والے گھر کی طرح خاصا آباد ہوگیا۔ مختار بیگم اور سردار بیگم کے علاوہ اقبال کی ایک غیر آباد بہن کریم بی بھی یہیں رہنے لگیں۔ نیز شیخ عطا محمد(علامہ کے بڑے بھائی) کی دو چھوٹی بیٹیوں عنایت بیگم اور وسیمہ بیگم کو سردار بیگم سیالکوٹ سے اپنے ساتھ لے آئیں۔ گھر میں چہل پہل ہوگئی۔ سب کے سب خوشی و مسرت سے دن گزارنے لگے۔ اقبال شام کو کاموں سے فراغت کے بعد اپنی بہن اور بیویوں کے ساتھ عموماً تاش یا لوڈو کھیلتے، اپنی بھتیجیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کی باتیں کرتے یا کوٹھے پر چڑھ کر کبوتر اڑاتے۔ 

بیویوں اور بہن کے اصرار پر اقبال نے اپنی پہلی بیوی کو بھی بلوالیا۔ سو کریم بی ایک آدھ بار انار کلی والے مکان میں آکر ان سب کے ساتھ رہیں، مگر صرف چند دنوں کے لیے۔ مردانے میں پہلے کی طرح اقبال کے احباب کی  محفلیں لگتیں۔ گرامی آجاتے تو کئی کئی دن قیام کرتے۔ گرمیوں کی تعطیلات میں سب سیالکوٹ چلے جاتے اور وہاں رونق لگتی۔ 

(اگلی پوسٹ ایما ویگے ناست کے حوالے سے ہو گی اقبال  انہی سے جرمن زبان اور جرمن شاعری ادب سے متعارف ہوئے۔ علامہ نے جو خطوط انہیں لکھے وہ مرحلہ وار پوسٹ ہوں گے۔) 

حوالہ کتاب : "زندہ رُود"
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال"
ص : 203..204..205
طالب دعا کاشف ترک ـ
ـــــــــــــــــــ کاشف ترک کی وال سے کاپی پیسٹ و انتخاب ــ از. غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
فون ـ 03153533437 ـــــــ dt. 09.12.2020 
علامہ ‏اقبال ‏کی  ‏ناقابلِ  یقین  ازدواجی ‏زندگی ـ ‏حصہ ‏اول ‏ـ ‏

علامہ ‏اقبال ‏کی ‏ناقابلِ یقین ازدواجی ‏زندگی ـ ‏حصہ ‏اول ‏ـ ‏

علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی
                
1893ء میں اقبال کی کریم بی کے ساتھ شادی رواج کے مطابق ان کے بزرگوں نے طے کی تھی اور ان کی اپنی بعد کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شادی پر رضامند نہ تھے، مگر چونکہ سولہ برس کی عمر کے لڑکے تھے اس لیے احترام کے پیشِ نظر انہیں اپنے بزرگوں کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہ ہوئی۔ 

شادی کے پہلے دو سال سیالکوٹ میں گزارے۔ اس دوران میں انہوں نے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کی تحصیل کی خاطر 1895ء میں لاہور آگئے۔لاہور میں چار سال کواڈرینگل ہوسٹل میں گزارے۔ کریم بی ہوسٹل میں ان کے ساتھ تو نہ رہ سکتی تھیں، اس لیے وہ بیشتر وقت اپنے والدین کے ساتھ یا اپنے میکے گجرات میں بسر کرتی تھیں اور بعض اوقات چند ماہ کے لیے سیالکوٹ آجاتیں۔

اقبال گرمیوں کی چھٹیاں عموماً سیالکوٹ میں اپنے والدین کے ساتھ گزارتے اور کبھی کبھار چند ہفتوں کے لیے اپنے سسرال گجرات چلے جاتے۔ اس دوران وہ دو بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ معراج بیگم 1896ء میں پیدا ہوئیں اور آفتاب اقبال 1898ء میں۔

1900ء سے لے کر 1905ء تک کی پانچ سالہ ملازمت کے دوران جب اقبال بھاٹی دروازے والے مکان میں رہائش پذیر تھے، کریم بی نے ان کے ساتھ مکان میں قیام نہ کیا۔ نذیر نیازی کی رائے میں کریم بی سے کشیدگی کی ابتدا انہی ایام میں ہوگئی تھی۔ 1905ء سے لے کر 1908ء تک کے تین سال اقبال نے یورپ میں گزارے۔ ان کی واپسی پر معراج بیگم بارہ برس کی اور آفتاب اقبال دس برس کے تھے۔ 

نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں :

یورپ سے واپسی کے بعد اگرچہ وہ (کریم بی) احیاً نا لاہور آتیں، محمد اقبال ان کا بڑا خیال رکھتے، مگر ایک دوسرے سے کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ تا آنکہ باپ اور بھائی کی کوششوں کے باوجود علیحدگی کی نوبت آگئی۔ 
یہ زمانہ محمد اقبال کے لیے بڑے اضطراب کا تھا۔ بغیر طلاق کے چارہ نہ رہا۔ لیکن والدہ آفتاب کی عزتِ نفس نے گوارا نہ کیا محمد اقبال کفالت کے ذمے دار ٹھہرے ۔ فرمایا شرعاً میرے سامنے دو ہی راستے تھے، طلاق یا کفاف کی ذمہ داری۔ والدہ آفتاب طلاق پر راضی نہ ہوئیں۔میں نے بخوشی کفاف کی ذمہ داری قبول کی۔
چنانچہ ایک مقررہ رقم ہر مہینے بھیج دیتے۔ حتیٰ کہ آخری علالت کے دوران میں بھی یہ رقم باقاعدہ روانہ کی جاتی۔ پھر جب علالت نے طول کھینچا اور مالی دشواریاں بڑھیں تو اس میں تخفیف کرنا پڑی، لیکن رقم کی ترسیل میں کوئی فرق نہ آیا۔ آخری منی آرڈر میرے ہاتھوں سے ہوا، میں نے تعمیل ارشاد کردی۔ 

اس سلسلے میں اقبال کی جو ذہنی کیفیت تھی وہ عطیہ فیضی کے نام ان کے خط محررہ 9 اپریل 1909ء سے ظاہر ہے۔ لکھتے ہیں : 

میں کوئی ملازمت نہیں کرنا چاہتا۔ میری خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد اس ملک سے بھاگ جاؤں۔ اس کی وجہ آپ کو معلوم ہے، میں اپنے بھائی کا ایک قسم کا اخلاقی قرضدار ہوں اور صرف اسی چیز نے مجھے روک رکھا ہے۔ میری زندگی نہایت مصیبت ناک ہے۔ یہ لوگ میری بیوی کو زبردستی مجھ پر منڈھ دینا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے والد کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی کردینے کا کوئی حق نہ تھا، بالخصوص جب کہ میں نے اس قسم کے تعلق میں پڑنے سے انکار کردیا تھا۔ میں اس کی کفالت کرنے پر آمادہ ہوں، لیکن اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنانے کو ہرگز تیار نہیں۔ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق ہے۔ اگر معاشرہ یا فطرت وہ حق مجھے دینے سے انکاری ہیں تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔ میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے خواری میں پناہ ڈھونڈوں، جس سے خودکشی آسان ہوجاتی ہے۔کتابوں کی یہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اندر اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بناسکتا ہوں۔ آپ کہیں گی کہ ایک اچھے خدا نے یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے، ممکن ہے ایسا ہی ہو، مگر اس زندگی کے تلخ حقائق کسی اور ہی نتیجے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ذہنی طور پر ایک اچھے خدا کی بجائے کسی قادر مطلق شیطان پر یقین لے آنا زیادہ آسان ہے۔ مہربانی کرکے ایسے خیالات کے اظہار کے لیے مجھے معاف کیجیے گا۔ میں ہمدردی کا خواستگار نہیں ہوں۔ میں تو صرف اپنی روح کا بوجھ اتارنا چاہتا تھا۔ 

اقبال کی اس شادی کی ناکامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کے دونوں بچے شفقت پدری سے محروم رہ گئے۔ ایسی صورت میں بچوں کی ہمدردیاں عموماً ماں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ معراج بیگم اور آفتاب اقبال کے بچپن اور جوانی کا بیشتر زمانہ ماں کے ساتھ ننھیال میں گزرا۔ جب دونوں کچھ بڑے ہوگئے تو دادا اور دادی کے پاس سیالکوٹ میں رہنے لگے۔ باپ کے ساتھ تو ان کی ملاقات شاذ و نادر ہی ہوتی تھی۔ اس کے باوجود اقبال معراج بیگم(بیٹی) سے بڑی محبت کرتے تھے۔ معراج بیگم(بیٹی) ماں باپ کے تعلقات میں کشیدگی پر اندر ہی اندر کڑھتی رہتیں، لیکن کیا کرسکتی تھیں، بے بس تھیں۔ انہیں جوانی ہی میں خنازیر کا مرض لاحق ہوا، اور انیس برس کی عمر میں 17 اکتوبر 1915ء کو وفات پاگئیں۔ 

آفتاب اقبال اپنے دادا کے منظور نظر تھے۔ ان کا نام بھی شیخ نور محمد ہی نے رکھا تھا۔لیکن شفقت پدری کی عدم موجودگی میں اپنے تایا کی سخت طبیعت کو انہوں نے کبھی قبول نہ کیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، آفتاب اقبال کے دل میں یہ بات ہمیشہ کے لیے بیٹھ گئی کہ ان کی ماں کے ساتھ باپ نے نا انصافی کی ہے۔ نتیجتاً باپ بیٹے کے اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ اقبال کے بعض احباب کی کوششوں کے باوجود ان کی آپس کی غلط فہمیاں دور نہ ہوسکیں، تا آنکہ اقبال کی زندگی ہی میں باپ بیٹے میں قطع تعلقی ہوگئی۔ 

(آنے والی پوسٹ علامہ اقبال کی دوسری ازواج سردار بیگم اور مختار بیگم کے حوالے سے ہوگی) 

حوالہ کتاب : "زندہ رُود"
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال"
ص : 199..200..201
طالب دعا کاشف ترک ـ
ـــــــــــــــــــــــــ کاشف ترک کی وال سے ـ کاپی پیسٹ و انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ــــ 
فون نمبر ـ 03153533437 ـــــ dt.08.12.2020 
دجال ‏صاحب ‏پر ‏ایک ‏نظر ‏ـ ‏ایک ‏مزاحیہ ‏تحریر ‏ـ ‏از ‏ــ  ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

دجال ‏صاحب ‏پر ‏ایک ‏نظر ‏ـ ‏ایک ‏مزاحیہ ‏تحریر ‏ـ ‏از ‏ــ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

دجال صاحب پر ایک فرضی نظر ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک نیم مزاحیہ تحریر،        ازــــ  غلام محمد وامِق ـ
ہم اس پر تو بات نہیں کریں گے کہ کووڈ 19،  کسے کہتے ہیں، البتہ ہم اردو کے کورونا کو کرونا ضرور پڑھ سکتے ہیں، یعنی کروـ نا، ــ یعنی ہر اچھے اور اسلامی کام سے انکار ــ
اب انکار کو عربی زبان میں " کفر " کہا جاتا ہے، اور انکار کرنے والے کو کافر ــ باالفاظِ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کرونا کے داعی کافر ہوئے (معزرت) ـ تو اب ہم جب دجال کے متعلق سوچتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا، (اب یہ معلوم نہیں کہ کیوں ہوگا؟ اور کیا یہ نقص پیدائشی ہوگا) ـ بہرحال ہم کانا ہونے کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب عالم کو ایک آنکھ سے دیکھے گا یعنی سب کو اپنا ہی ماتحت بنا کر رکھنے کی کوشش کرے گا ـ پھر اس کے ماتھے پر لفظ " کافر " واضح طور پر لکھا ہوگا، جوکہ ہمیں اب واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ " کرونا " کس کے ماتھے پر لکھا ہوا ہے ـ پھر وہ اسرائیل کی طرف سے آئے گا ــ پھر وہ تمام مسلمانوں کو عبادات کرنے سے روکے گا، مساجد بند کروادے گا ـ مسلمانوں کے عقائد میں شکوک وشبہات پیدا کرکے خود کو خدا تسلیم کروانے کی کوشش کرے گا ـ اور اپنا خوف پیدا کردے گا ــ سب لوگ اس سے ڈریں گے ــ
اب یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے، باقی حضرت عیسیٰ کا نزول، اور امام مہدی وغیرہ کے نزول، کا مسئلہ باقی ہے ـ
دیکھتے ہیں کہ پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے ـ؟
ــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
مورخہ ـ تین مئی دوہزار بیس ـــ بروز اتوار ــ
ماضی ‏کے ‏جھروکوں ‏سے ‏ـ ‏ایک ‏یادگار ‏واقعہ ‏... سابق ‏نگراں ‏وزیرِاعظم ‏پاکستان ‏ــ ‏ازـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏...‏

ماضی ‏کے ‏جھروکوں ‏سے ‏ـ ‏ایک ‏یادگار ‏واقعہ ‏... سابق ‏نگراں ‏وزیرِاعظم ‏پاکستان ‏ــ ‏ازـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏...‏

ماضی کے جھروکوں سے ـ ـ ـ  
یادوں کے دریچوں سے  ـ ـ ـ  
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ  ایک واقعہ،  " یادگار " 
از ـ غلام محمد وامِق،  ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سابق نگراں وزیرِاعظم پاکستان، اور سابق وزیرِاعلیٰ سندھ،  جناب " غلام مصطفٰے جتوئی " صاحب (مرحوم) نے ـ ـ ـ  "پاکستان پیلپلز پارٹی "  کو چھوڑ کر اپنی نئی پارٹی          " نیشنل پیپلز پارٹی "  (NPP)  بنائی، تو پارٹی کا دفتر کھولنے کے لئے محراب پور تشریف لائے، ... اس سے قبل اس وقت کے چیئرمین ٹاؤن کمیٹی محراب پور محترم " شوکت علی خان لودھی " صاحب  مرحوم، ( موجودہ چیئرمین فاروق خان لودھی کے والِد)  نے مجھے پیغام بھجوایا کہ، آپ نے جتوئی صاحب کے جلسہ میں کوئی نظم سنانی ہے، لہٰذا تیاری کرلیں،  یاد رہے کہ شوکت خان لودھی صاحب، ہماری ادبی تنظیم " بزمِ ادب محراب پور " کے اعزازی سرپرستِ اعلیٰ بھی تھے ـ ـ ـ
قصہ مختصر،  مورخہ 5 دسمبر 1986، بروز جمعة المبارک،  شوکت خان صاحب کے بنگلے پر مذکورہ پروگرام رکھا گیا ـ  شام کے وقت ایڈووکیٹ " شیردین بھٹی صاحب " مجھے اپنی موٹرسائیکل پر جلسہ گاہ لے گئے،  اسٹیج پر وقت کے بڑے بڑے رئیس، جاگیردار عمائدین، جتوئی صاحب کے ساتھ براجمان تھے ـ چند لوگ جو مجھے یاد ہیں، ہمارے موجودہ ایم این اے سید ابرار علی شاہ کے بڑے بھائی،  ھالانی کے " سید منظور علی شاہ صاحب " جوکہ ہمیشہ ایم پی اے یا ایم این اے منتخب ہوتے رہتے تھے ـ اور پیر آف رانی پور ( نام یاد نہیں) اور دیگر منسٹر وغیرہ شامل تھے ـ  ان سب لوگوں نے نئی پارٹی " این پی پی " کی تشکیل کی ضرورت اور اہمیت پر تقاریر کیں ـ آخر میں پارٹی کے بانی " غلام مصطفٰی جتوئی " صاحب کی تقریر سے پہلے مجھے بھی دعوتِ کلام دی گئی،  میں نے اسٹیج پر جاکر اپنی لکھی ہوئی نظم سنانی شروع کی تو میں نے محسوس کیا کہ سامنے والے حاضرینِ جلسہ تو واہ واہ کر ہی رہے تھے، لیکن اپنے پیچھے اسٹیج پر سے بھی مجھے داد دی جارہی تھی ـ  
نظم پڑھ کر جب میں واپسی کے لئے مُڑا تو میرے عین پیچھے بیٹھے ہوئے، " غلام مصطفٰے جتوئی " صاحب اٹھ کھڑے ہوئے، اور مجھ سے بغلگیر ہوکر اپنی خوشی کا اظہار کیا ـ پھر کیا تھا، اسٹیج پر موجود تمام ہی لوگ کھڑے ہوگئے، اور مجھ سے باری باری گلے ملنا شروع کردیا ـ  میں حیران و ششدر کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ـ؟  ــــ  بقولِ شاعر ـ " کِتھے مہرعلی، کتھے تیری ثنا " ـــ کہ جو لوگ مجھ جیسے لوگوں سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے، وہ مجھ سے ہنس ہنس کر بغلگیر ہورہے تھے ـ ـ ـ
بہرحال جتوئی صاحب کی تقریر کے بعد اجلاس کے اختتام کا اعلان کیا گیا اور  تمام حاضرین کو کھانے کے لئے اندر بلایا گیا، ..... تب میں نے دیکھا کہ انتظامیہ کی طرف سے دو قطاریں بنائی گئی ہیں، ایک قطار عمائدینِ خاص کے لئے، جبکہ دوسری قطار عام حاضرین کے لئے ـ  مجھے یہ دیکھ کر  کچھ عجیب سا لگا ــ  چنانچہ عام حاضرین کی قطار میں شامل ہونا میں نے مناسب نہیں سمجھا،  اور خاص عمائدین کی طرف مجھے بلایا نہیں گیا،  حالانکہ  کچھ عام لوگ بھی بغیر کہے خاص قطار میں شامل ہورہے تھے لیکن مجھے بات سمجھ نہیں آئی، لہٰذا چپ چاپ وہاں سے واپس گھر کی راہ لی ـــــــــــ  تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب ہور سندھ ـ
فون ـ 03153533437 .....  dt: 23.11.2019
‏ " ‏دعا ‏اور ‏تقدیر ‏" ـــ ‏تحریر ‏ـ ‏بانو ‏محبوب ‏جوکھیو ‏ـ ‏ہفتیوار  ‏سندھی اخبار ‏ساھتی ‏آواز ‏ـ‏

‏ " ‏دعا ‏اور ‏تقدیر ‏" ـــ ‏تحریر ‏ـ ‏بانو ‏محبوب ‏جوکھیو ‏ـ ‏ہفتیوار ‏سندھی اخبار ‏ساھتی ‏آواز ‏ـ‏


===  " دعا اور تقدیر "  مصنف ـ غلام محمد وامِق.  === 
تحریر ــ بانو محبوب جوکھیو ــ
اردو ترجمہ ـ غلام محمد وامِق ـ 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
محراب پور شہر کی معروف ادبی شخصیت، محترم غلام محمد وامِق کی تیسری کتاب " دعا اور تقدیر " کے عنوان سے شایع ہوکر مارکیٹ میں آچکی ہے ـ اس کتاب میں وامِق صاحب نے قدیم زمانے سے الجھے ہوئے مسئلے دعا اور تقدیر کو ایک نئے اسلوب سے سلجھانے کی کوشش کی ہے، جس کو پڑھنے والا نہ صرف یہ کہ بور نہیں ہوتا بلکہ اندازِ تحریر سے لطف اندوز بھی ہوتا رہتا ہے ـ اس کتاب میں دعا اور تقدیر جیسے خشک موضوع کو جدید سائنس اور ہلکے پھلکے تاریخی حوالوں سے انتہائی دلچسپ بناکر پیش کیا گیا ہے ـ وامِق صاحب کی اس سے پیشتر دو مزید کتابیں شایع ہوکر منظرعام پر آچکی ہیں ـ جن میں سے ایک اردو شاعری پر مشتمل مجموعہ کلام " نقشِ وفا " کے نام سے سال 2000ء میں شایع ہوا تھا، جس میں چند غزلیں سندھی زبان میں بھی شامل کی گئی ہیں ـ اس کتاب کی تقریبِ رونمائی سندھی روزنامہ " کاوش " اور کے ٹی این،  کے اشتراک سے محرابپور میں منعقدہ ایک رنگارنگ پروگرام میں کی گئی تھی، پروگرام کے منتظم سندھ کے معروف صحافی شہید عزیز میمن تھے ـ
وامِق صاحب کی دوسری کتاب  " جنات کی حقیقت "  کے نام سے اکتوبر 2016ء میں شایع ہوئی، جوکہ حیرت انگیز تحقیق پر مشتمل ہے، اس کتاب کی رونمائی نومبر 2016ء میں کراچی پریس کلب میں کی گئی ـ
غلام محمد وامِق صاحب 28 نومبر 1957ء میں پیدا ہوئے،  آپ کے والدین قیامِ پاکستان کے وقت ہندوستان کے صوبے    " ھریانہ " سے ہجرت کرکے محرابپور آکر آباد ہوئے ـ آپ نے ابتدائی تعلیم سندھی میڈیم میں حاصل کی، سال 1968ء میں  " مین گورنمنٹ سندھی پرائمری اسکول محرابپور " سے پرائمری پاس کرکے، سال 1973ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول محرابپور سے سندھی میڈیم میں میٹرک پاس کی ـ بعدازاں سپیریئر سائنس کالج خیرپور میں داخلہ لیا لیکن بعض مجبوریوں کے باعث انٹر تک تعلیم آرٹس سندھی میں ہی پاس کی ـ سال 1978ء میں پاکستان اسٹیل مل کراچی میں ملازمت حاصل کی، بعدازاں چند ناگزیر وجوہات کے باعث کراچی پورٹ کے ایک ادارے میں بطور سپروائزر اپنی خدمات انجام دیں ـ اسی دوران اپنے ادبی ذوق کے باعث کراچی کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کیا،  اور یوں مختلف ادبی تنظیموں سے تعلقات استوار ہوئے، چنانچہ  مختلف سیاسی و سماجی نظریات کو سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ـ 
اسی دوران آپ نے 1982ء میں وفاقی گورنمنٹ اردو آرٹس کالیج کراچی سے بی اے پاس کرکے، ایم اے میں داخلہ لیا، جبکہ اسی دوران انہیں ریڈیو پاکستان کراچی کے ایک ادبی پروگرام میں مستقل حصہ ملا ـ لیکن والد صاحب کی بیماری کے باعث اپنی تعلیم اور تمام شوق کو خیرباد کہکر مجبوراً واپس محرابپور آنا پڑا ـ کراچی سے واپسی پر آپ نے گزراوقات کے لئے ایک بک شاپ " المہران بک ڈپو " کے نام سے قائم کیا، جوکہ بفضلِ تعالیٰ آج بھی قائم و دائم ہے، جہاں پر اکثر اردو اور سندھی ادبی کتب دستیاب ہیں ـ ہم اپنے بچپن میں یہاں سے بچوں کی کہانیاں اور سندھی ماہوار رسالہ " گُل پھُل " خرید کر پڑھتے تھے ـ اس کے علاوہ مزید جس کتاب کی ضرورت ہوتی تھی منگوا بھی لیا کرتے تھے ـ غلام محمد وامِق کی مادری زبان جیسا کہ اردو نہیں،   ہریانوی ہے، لیکن آپ نے تعلیم سندھی زبان میں حاصل کی ہے، یہ ہی نہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو سندھی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ـ آپ نے شاعری اردو کے ساتھ ساتھ سندھی میں بھی کی ہے ـ آپ کی مذکورہ تین کتابوں کے علاوہ مزید دو کتب چھپنے کے لئے تیار ہیں،  جن میں سے ایک کتاب شاعری کی اور دوسری مختلف موضوعات کے کالموں پر مشتمل ہے ـ ان کے علاوہ بھی انہوں نے بہت سے مضامین اور مقالے تحریر کئے ہیں ــــ
کتاب کے بارے میں: -- 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ کتاب " دعا اور تقدیر " اردو زبان میں لکھی گئی ہے،  جس میں مصنف نے ایک اہم موضوع کا انتخاب کیا ہے،  انسانی تاریخ کے حوالے سے دیکھا جائے تو بہت سے لوگ معجزوں پر یقین رکھتے ہیں، اور معجزوں کے لئے وہ یا تو دعا پر یقین رکھتے ہیں یا پھر تقدیر پر ـ چنانچہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان ان دو خیالوں کے درمیان بھٹکتا رہتا ہے، کبھی وہ تقدیر پر یقین رکھتا ہے تو کبھی دعا پر ـ علامہ اقبال نے کہا ہے کہ " عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی "  کچھ لوگ دعاؤں پر تو کچھ لوگ تقدیر پر یقین رکھتے ہیں، بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے دعا مانگ لی ہے تو جلد ہی اب کوئی معجزہ ہونے والا ہے،  یا پھر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایسے بیٹھ جاتے ہیں کہ بابا تقدیر میں جو کچھ لکھا ہوا ہے، وہ تو مل کر ہی رہے گا،  تو پھر خواہ مخواہ تکلیف میں کیوں پڑیں؟ ـ وامِق صاحب نے بھی اس کتاب میں بہت سے واقعات، حقائق، اور مشاہدات کا تذکرہ کرتے ہوئے اس مسئلے جو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ صرف دعائیں کرکے مت بیٹھ جاؤ بلکہ عملی جدوجہد کرنا  بھی لازمی ہے ـ بچپن میں ہم ایک اردو شعر پڑھتے ہوتے تھے کہ،  " اُٹھ باندھ کمر کیوں ڈرتا ہے ـ پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے؟، یعنی فقط دعائیں کرکے مت بیٹھ جاؤ، کچھ ہاتھ پیر بھی چلاؤ ـ بچپن میں وتایو فقیر کا قصہ سنتے تھے،  کہ ایک بار وتایو نے کسی مسجد کے مولوی کو کہتے سنا کہ ـ روزی دینے والا اللہ ہے، جس نے زندگی دی ہے وہی کھانے کو بھی دیتا ہے ـ وتایو فقیر اس بات کو آزمانے کے لئے جنگل میں جاکر ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا،  اور انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں اللہ کیسے روزی پہنچاتا ہے،  صبح سے شام ہوگئی، بھوک کے مارے حالت خراب ہوگئی تو دیکھا کہ کچھ مسافر آئے اور اس درخت کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھانے لگے،  وتایو نے بہت انتظار کیا کہ ابھی یہ لوگ مجھے بھی اپنے ساتھ کھانے میں شریک کریں گے لیکن وہ اس کی موجودگی سے بے خبر کھانے میں مصروف رہے، تب مجبوراً وتایو فقیر نے کھانسنا اور کھنکارنا شروع کیا، تب مسافروں کو اس کی موجودگی کا احساس ہوا، اور اسے نیچے بلا کر اپنے ساتھ کھانے میں شریک کرلیا ـ دوسرے روز وتایو نے مولوی صاحب کو بتایا کہ " اللہ روزی تو دیتا ہے لیکن اس کے لئے بندے کو کچھ کھنکارنا پڑتا ہے " ــ چنانچہ فقط دعا بھی کام نہیں آتی جب تک اس کے لئے عملی جدوجہد اور محنت نہ کی جائے ـ ویسے بھی تو خدا سب کا ہے، وہ دعا بھی سب کی سنتا ہے ـ سندھی میں کہاوت ہے کہ " اللہ تو چوروں کا بھی ہے اور سادھوں کا بھی "  اگر وہ صرف سادھوں کی سنتا ہوتا تو چور بھوک مرتے، اور اگر چوروں کی سنتا تو سادھووں کی خیر نہیں تھی ـ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ تقدیر کا بھی زندگیوں میں عمل دخل ضرور ہوتا یے ـ چنانچہ دعا اور تقدیر کی آنکھ مچولی لوگوں کے لئے گویا کہ کوئی گورکھ دھندا بنا ہوا ہے ـ لیکن غلام محمد وامِق کی یہ کتاب پڑھنے سے جس میں بہت سے حقائق، مثالیں اور واقعات  اسلامی اور غیراسلامی شامل کئے گئے ہیں، ان سے یہ بات سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ـ 
مذکورہ کتاب سے چند حوالے پیشِ خدمت ہیں، جن سے دعا اور تقدیر کی مزید وضاحت ہوجاتی یے ـ " دعا دراصل عبادت کا دوسرا نام ہے، " بلکہ ایک حدیث کے مطابق دعا عبادت کی روح ہے ـ دعا یوں تو بظاہر تین حروف پر مبنی ایک لفظ ہے، لیکن دراصل دعا زمین و آسمانوں پر محیط ہے،  یہ دعا ہی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو تحفۃً عطا کی تھی ـ دعا مانگنے کی توفیق ہی دراصل دعا کی قبولیت کا اشارہ ہوتا ہے ـ دعا درحقیقت اپنے خالق سے براہِ راست تعلق ہے، جوکہ انسان کو دلی طاقت اور امید دلاتی ہے ـ لیکن یہاں پر تقدیر کا معاملہ پھر انسان کو الجھا دیتا ہے ـ ایسے ہی معاملات کو وامِق صاحب نے  تحقیقی طور پر، انسانی نفسیات، تاریخی،  مذہبی اور سائنسی طریقے سے شعور اور علم کی روشنی میں سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے ـ ایک مقام پر آپ سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ، اسٹیفن ہاکنگ نے تقدیر کے متعلق ایک عجیب بات کہی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا ہے کہ وہ لوگ جو یہ ضد کرتے ہیں کہ سب کچھ تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے، اور تقدیر کے لکھے کو ہرگز تبدیل نہیں کیا جاسکتا، وہ لوگ بھی روڈ پار کرتے ہوئے پہلے دائیں بائیں دیکھ کر ہی پھر روڈ کراس کرتے ہیں ـ وامِق صاحب ایک جگہ پر لکھتے ہیں کہ " مجھے بہت دکھ ہوتا ہے لوگوں کی سوچ پر، کہ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ سائنس خدا کا انکار کرتی ہے ـ ایسا ہرگز نہیں ہے، سائنس تو خود خدا کی قدرت کا اظہار کرتی ہے ـ
اس کتاب میں وامِق صاحب کے اپنے ذوق، شوق، علمی سوچ، اور وسیع مطالعہ کی عکاسی ہورہی ہے ـ دعا ہے کہ ان کا یہ ادبی سفر جاری و ساری رہے ـ اور آپ جس قدر لکھنا چاہتے ہیں وہ سب لکھ سکیں، خدا انہیں مزید لکھنے کی قوت عطا فرمائے ( آمین)  ــ
مورخہ 25 نومبر 2020ء ـ بروز بدھ ـ محرابپور سندھ ـ
فون نمبر ـ غلام محمد وامِق ـ 03153533437 ـــ
بہت ‏سی ‏احادیث ‏ہیں ‏جن ‏میں ‏بہترین ‏انسان ‏کی ‏علامات ‏بیان ‏کی ‏گئی ‏ہیں ‏،ان  ‏میں سے چند درج ‏ذیل ‏ہیں ‏، ‏اب انہیں  ‏پڑھ کر کیسے ‏پتہ ‏چلے ‏کہ ‏درحقیقت ‏سب ‏سے ‏بڑھ ‏کر ‏بہترین ‏انسان ‏کون ‏یے ‏؟ ‏...  ‏

بہت ‏سی ‏احادیث ‏ہیں ‏جن ‏میں ‏بہترین ‏انسان ‏کی ‏علامات ‏بیان ‏کی ‏گئی ‏ہیں ‏،ان ‏میں سے چند درج ‏ذیل ‏ہیں ‏، ‏اب انہیں ‏پڑھ کر کیسے ‏پتہ ‏چلے ‏کہ ‏درحقیقت ‏سب ‏سے ‏بڑھ ‏کر ‏بہترین ‏انسان ‏کون ‏یے ‏؟ ‏... ‏

❤️🌴 *من هــــم خيــــرُ الناس*🌴❤️؟
🔘  *لوگــــوں میں سب سےبہترکون ہیں؟* 
   
*رســــول الله ﷺ نے فرمایا*
     ▪️ خيركــــم من تعلم القرآن وعلمه 
تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا۔
صحيح البخاری:5027

▪️ خياركــــم أحاسنكم أخلاقا
تم میں بہتر وہ ہیں جن کے اخلاق تم میں سب سے بہتر ہیں۔
 صحيح البخاری:6035

▪️خيركــــم أحسنكم قضاء
أي عند رد القرض.
تم میں بہتر وہ ہیں جو تم میں ادائیگی میں سب سے بہتر ہیں۔
 صحيح البخاری::2305

▪️خيركــــم من يُرجى خيره ويُؤمٓن شره
 تم میں بہتر وہ ہیں جن سے خیر کی امید کی جائے اور ان کے شر سے امان ہو۔
 صحيح الترمذی:2263

▪️ خيركــــم خيركم لأهله
 تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لئے اچھے ہیں۔
صحيح ابن حبان:4177

▪️ خيركــــم من أطعم الطعام وردَّ السلام 
تم میں بہتر وہ ہیں جو کھانا کھلاتے ہیں اور سلام کا جواب دیتے ہیں۔
 صحيح الجامع:3318 

▪️ خياركــــم ألينُكم مناكب في الصلاة) 
أي: يفسح لمن يدخل الصف في الصلاة .
 تم میں بہتر وہ ہیں جو نماز میں کندھے نرم رکھیں 
یعنی: جو نماز کے دوران صف میں داخل ہو اس کو جگہ دیں۔
 الترغيب والترهيب:234/1
     
▪️ خيــــر الناس من طال عمره وحسن عمله
 تم میں بہتر وہ ہے جس کی عمر لمبی ہو اور اس کا عمل نیک ہو۔
 صحيح الجامع:3297

▪️ خيــــر الناس أنفعهم للناس
 لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ دینے والے ہیں 
صحيح الجامع:3289

▪️ خيــــرالأصحاب عند الله خيــــركم لصاحبه، وخيــــر الجيران عند الله خيــــركم لجاره
  اللہ کے ہاں سب سے بہتر ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لئے بہترین ہے اور اللہ کے ہاں سب سے بہتر ہمسایہ وہ ہے جو اپنے ہمسائے کے لئے بہترین ہے۔
صحيح الأدب المفرد/84
 
▪️ خيــــر النَّاس ذوالقلب المَخْمُوم واللِّسان الصَّادق
 قالوا : صدوق اللسان نعرفه ، فما مخموم القلب ؟ قال : هو النقي، التقي، لا إثم عليه، ولا بغي، ولا غل، ولا حسد
 لوگوں میں سب سے بہتر مخموم دل والے اور سچی زبان والے ہیں
صحابہ نے کہا : سچی زبان تو ہم جانتے ہیں مخموم دل سے کیا مراد ہے؟ 
فرمایا: وہ (دل) جو صاف ، بچنے والا ، جس پر کوئی گناہ نہ ہو ، باغی نہ ہو ، نہ اس میں دھوکہ ہو اور نہ حسد۔
صحيح الجامع:3291
ـــــــــــــــــــــــــــــــ کاپی پیسٹ ـ غلام محمد وامِق،
محراب پور سندھ ـ مورخہ، 10، نومبر 2020ء ـــ   بروز منگل ـ فون نمبر 03153533437. 
قدیم ‏ہندوستان ‏میں ‏ذات ‏پات ‏(فرقے ‏) ‏کم ‏، جبکہ جدید ‏پاکستان ‏میں ‏اضافہ ‏ہوتا ‏نظر آرہا ہے ‏ـ از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

قدیم ‏ہندوستان ‏میں ‏ذات ‏پات ‏(فرقے ‏) ‏کم ‏، جبکہ جدید ‏پاکستان ‏میں ‏اضافہ ‏ہوتا ‏نظر آرہا ہے ‏ـ از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

قدیم ہندوستان کی چار ذاتیں (فرقے) ـ جوکہ اب ہندوستان میں کم، اور جدید پاکستان کے اسلامی معاشرے میں زیادہ نظر آتی ہیں .......  
۱. برہمن ــ مذہب کے نام پر لُوٹ مار کرنے والے دھوکے باز ، دوسرے انسانوں کو حقیر سمجھنے والے ، اور دیگر ذاتوں کے انسانوں سے جانوروں جیسا رویہ رکھنے والا گروہ، اور لوگوں کے حقوق غصب کرکے اپنی جاگیریں اور سرمایہ بنانے والا، اور اپنی جھوٹی تعظیم کروانے والا گروہ ... 
۲.  کشتری (کھتری یا چھتری) ــ برہمنوں کے ساتھ ملی بھگت کرکے حکمرانی کرنے والا، مال بٹورنے، اور جنگ و جدل کرنے والا  گروہ یا ذات ـ ( باالفاظ دیگر برہمنوں کا سیاسی محافظ) ... 
۳. وَیش ـــ تجارت اور کھیتی باڑی کرکے، برہمن اور کشتریوں کے لئے عیاشی کا سامان بہم پہنچانے والا محنت کش گروہ، جسے اوپر والے دونوں طبقے، کمی کمین ( کام دھندا کرنے والے لوگ) کے نام سے پکارتے ہیں ... 
۴. شودر ــ اوپر بیان کئے گئے تینوں گروہوں کی خدمت کرنا، اور ان کی مرضی کے مطابق اپنی زندگی گزارنا، اور اپنی جان و مال ان کے لئے وقف کردینا نیز شہر کی اور نالیوں کی  صفائی ستھرائی کرنا، اور اس کے باوجود برہمنوں اور کشتریوں کا ہر ناجائز ظلم برداشت کرنا، اور برہمنوں کے ظلم و ستم کو اپنے لئے اعزاز بھی سمجھنا، ( یعنی گھٹیا ترین ذات) ..... تحقیق و تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ .............  dt.07.11.2020 ..
آنے ‏والے ‏.... ‏جا ‏سکتے ‏ہیں ‏ـــ ‏دل ‏کو ‏توڑ ‏کے ‏جاسکتے ‏ہیں ‏ـ ‏غزل ‏ـ  ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

آنے ‏والے ‏.... ‏جا ‏سکتے ‏ہیں ‏ـــ ‏دل ‏کو ‏توڑ ‏کے ‏جاسکتے ‏ہیں ‏ـ ‏غزل ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

=اٹلی کے اردو رسالے میں چھپنے والی میری غزل ... 

                  غـــــزل
            غلام محمد وامِق 

آنے والے  ...... جا سکتے ہیں ... 
دل کو توڑ کے جا سکتے ہیں ... 

خواب حقیقت کب ہوتے ہیں؟ ... 
لیکن دیکھے  جا سکتے  ہیں ... 

دیوانے کا خواب ہے دنیا ... 
خواب سجائے جا سکتے ہیں ... 

دنیا کے ہیں رنگ  نرالے ... 
پھر بھی سمجھے جا سکتے ہیں ... 

اُن کے لب کی مسکاہٹ پر ... 
پھول لُٹائے جا سکتے ہیں ... 

تجھ کو پانا  ناممکن  ہے ... 
خواب تو دیکھے جا سکتے ہیں ... 

افکار نئے ناپید ہوئے ہیں ... 
لیکن سوچے جا سکتے ہیں ... 

اب ہم آخری وقت میں وامِق ... 
کتنا  آگے  جا سکتے  ہیں؟ ... 
                                                    .................................
فعلن فعلن فعلن فعلن
فعلن فعل فعولن فعلن
فعل فعولن فعلن فعلن
بحر ہندی/ متقارب اثرم مقبوض محذوف
مرخہ 09، اکتوبر 2020 ء ـ کو کہی گئی ....
شاعر ۔ غلام محمد وامِق 

تین قطعات = پاکستان ‏میں ‏دھماکے ‏ـ ‏اور ‏سلمان ‏رشدی  ‏ملعون کو ‏سر ‏کا ‏خطاب ‏دینے ‏پر ‏دو ‏قطعات ‏...  ‏شاعر ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏. ‏

تین قطعات = پاکستان ‏میں ‏دھماکے ‏ـ ‏اور ‏سلمان ‏رشدی ‏ملعون کو ‏سر ‏کا ‏خطاب ‏دینے ‏پر ‏دو ‏قطعات ‏... ‏شاعر ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏. ‏

پاکستان میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں پر ذہن میں آنے والا ایک قطعہ ــ
ـــــــــــــــــــــــــــــ......... دھماکے ......... ـــــــــــــــ

دھماکے ہی دھماکے ہورہے ہیں، ہر طرف ...  

ہے   شبِ براءت  کا سا   اب سماں .......   

جل رہا ہے،  مُلک کا  ہر ایک فرد .......     

ہر طرف یے، آگ، شعلے، اور دھواں .......    
 
ــــــــــــــ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ.   
مورخہ، 19, جولائی 2007ء بروز جمعرات کہا گیا .. 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ملعون سلمان رشدی کو ملکہ برطانیہ " الزبتھ " کی طرف سے. " سر "  کا خطاب ملنے پر دو  قطعات ـــ 

....................... سر کا خطاب ..............

عالمِ اسلام کو کچھ اور زخم دینے کو ... 

دے دیا شیطان رشدی، کو بھی اب سر کا خطاب ... 

برطانوی تحریر میں، نقطے اہم ہوتے نہیں .... 

ورنہ تھا یہ، اصل میں،"سر " کا نہیں "شر " کا خطاب. 

ـــــــــــــــــ شاعر ـ غلام محمد وامق ... 
مورخہ 21، جون 2007ء بروز جمعرات، لکھا گیا ... 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

...................... فتویٰ ................... 

کس لئے ہیں مشتعل، دنیا کے مسلمان ؟ ..... 

شیطان نے، شیطان کو خطاب گر دیا .... 

اُس کے لئے بھی قتل کا فتویٰ تو چاہئے .... 

سر کا خطاب دے کے یہاں، جس نے شر کیا .... 

 شاعر ـ غلام محمد وامق، محرابپور سندھ، 
مورخہ 24. جون 2007ء بروز اتوار، لکھا گیا ــ 

دو ‏قطعات ‏ـ ‏" ‏خدا ‏کے ‏لئے ‏" ‏ ‏اور ‏ ‏" ‏لال ‏مسجد ‏" ‏...شاعر  ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏. ‏

دو ‏قطعات ‏ـ ‏" ‏خدا ‏کے ‏لئے ‏" ‏ ‏اور ‏ ‏" ‏لال ‏مسجد ‏" ‏...شاعر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏. ‏

پاکستان میں ایک فلم بنائی گئی، جس کا نام رکھا گیا " خدا کے لئے " ــ اسی تناظر میں ایک قطعہ ذہن میں آیا ــ ملاحظہ فرمائیں ــ 
                              خُدا کے لئے 
                         ــــــــــــــــــــــــ

فلمساز بھی بننے لگے شریعت ساز ... 

فلم کا نام بھی رکھا گیا " خدا کے لئے " ... 

کہ لہو و لعب تو جائز نہیں شریعت میں ... 

ذرا سی بات یہ سمجھو، ذرا خدا کے لئے ... 

ــــــ شاعرـ غلام محمد وامِق، dt.02.08.2007.  
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

دس سے گیارہ جولائی 2007ء بروز منگل، بدھ ـ کا دو روزہ فوجی آپریشن کیا گیا، مدرسہ " حفصہ "   اور       " لال مسجد " کے مہتمم و ناظمین کے خلاف، جس میں نائب مہتمم مولانا " عبدالرشید غازی " سمیت بہت سے طلباء و طالبات شہید ہوئے، اور رپورٹ کے مطابق بہت سا اسلحہ برآمد کر لیا گیا ـ اسی تناظر میں ایک قطعہ ذہن میں آیا جوکہ درج ذیل ہے ـ

            ـــــــــــــــ لال مسجد ــــــــــــــــ


رکھنے والوں نے کیا خوب رکھا ہے ... 

اسلام آباد و لال مسجد کا نام ... 

اسلام آباد میں رہتا ہے مسئلہء اسلام ...
 
اور لہو سے لال ہوئے مسجد کے دروبام ...

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ، 
dt. 13.07.2007 ...
پاکستان ‏کی ‏خبروں ‏میں ‏صرف ‏یہ ‏سننے ‏میں ‏آتا ‏ہے ‏... تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

پاکستان ‏کی ‏خبروں ‏میں ‏صرف ‏یہ ‏سننے ‏میں ‏آتا ‏ہے ‏... تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

پاکستان کی خبروں میں صرف یہ سننے میں آتا ہے ـ
فلاں قانون بنادیا گیا ـ
فلاں آرڈر جاری کردیا گیا ـ
یہ کہدیا گیا، وہ کہدیا گیا ـ
مجرموں کے خلاف گھیرا تنگ کردیا گیا ـ 
مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے ـ
قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے ـ
نوٹس لے لیا گیا ـــ 
مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی ـ 
کسی کو بھی قانون توڑنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ـ
کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا ـ 
عوام کو جلد رلیف دیا جائے گا ـ 
ـــــــــــــــــــ لیکن یہ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ .... 
فلاں قانون پر عملدرآمد کردیا گیا ـ
فلاں آرڈر کی تعمیل کردی گئی ـ
یہ کام کردیا گیا،  وہ کام بھی کردیا گیا ـ
مجرموں کو کیفرِکردار تک پہنچادیا گیا ـ
عوام سے کیا گیا یہ وعدہ پورا کردیا گیا ـ
مہنگائی کی کمر توڑ دی گئی ـ
ملک میں ترقی کا فلاں منصوبہ مکمل کرلیا گیا ـ
عوام کو فلاں سہولت یا آسانی مہیا کردی گئی ـ
 غریبوں کو بھی سستا اور جلد انصاف مہیا کردیا گیا ـ 
فلاں محکمے کو کرپشن سے پاک کردیا گیا ـ

عوام گذشتہ ترہتر سالوں سے ان اعلانات کی منتظر ہے ــ کاش کہ کبھی عوام کی یہ آرزو بھی پوری ہوسکے ـــ 
ـــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
مورخہ، 16، اکتوبر ـ 2020 ء ...
دو ‏قطعات ـــ ایک ‏ " ‏روزہ ‏" ‏ـــ ‏اور  دوسرا   " عام ‏عوام ‏کی ‏عید ‏" ــ از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏

دو ‏قطعات ـــ ایک ‏ " ‏روزہ ‏" ‏ـــ ‏اور دوسرا " عام ‏عوام ‏کی ‏عید ‏" ــ از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏

=== عام عوام کی عید === 
        غلام محمد وامِق 

عید پہ مسکراتے ہیں جو چہرے اتنے ... 

کوئی دیکھے کہ، پسِ پردہ ہیں آنسو کتنے ... 

یہ رہ و رسم کی خاطر جو بظاہر خوش ہیں

ان کو دکھ اتنے،  کہ آکاش پہ تارے جتنے ...         ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 شاعر ـ غلام محمد وامِق، مورخہ ـ 05. اگست 2007ء 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

=== روزہ === 

روزہ رکھنے کو لوگ،  رکھتے ہیں ... 

کتنے ہیں، اصل روزہ دار یہاں ــ؟  ... 

کتنے بچتے ہیں جھوٹ سے، اور کون  ... 

ہیں ذخیرہ اندوز و سود کار یہاں ـ؟  ... 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ مورخہ. 30، اگست ـ 2007ء ـــ جمعرات ... 



 کہاں ہیں اب جو محبّت میں مارے جاتے ہیں ؟  عجیب دور ہے دہشت میں مارے جاتے ہیں ۔   مخالفین تو ہوتے ہیں سرخرو اکثر ۔  یہ ایک ہم کہ حمایت میں مارے جاتے ہیں ۔   کہ بد کلامی سے مرتا نہیں ہے کوئی مگر ۔  نفیس لوگ نفاست میں مارے جاتے ہیں ۔   تمام عُمر لڑائی میں جو رہے غازی ۔  وہ ایک رات عبادت میں مارے جاتے ہیں ۔   یہ اہلِ حق نہیں مرتے ہیں دشمنوں سے کبھی ۔  فقیر لوگ مروّت میں مارے جاتے ہیں ۔   لَہُو پکارے گا اُن کا بھی روزِ محشر میں ۔  جو تیرے عہدِ امارت میں مارے جاتے ہیں ۔   جو چاہتے ہیں کہ انصاف ہو عدالت میں ۔  وہی تو لوگ عدالت میں مارے جاتے ہیں ۔   لٹیرے بخشے گئے " قومی مفاہمت" کے سبب ۔  شریف لوگ شرافت میں مارے جاتے ہیں ۔   یہ بے شمار جگر گوشے ماؤں کے وامِق ۔  فصول شوقِ شہادت میں مارے جاتے ہیں ۔ #  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔  بحر۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔  مورخہ 10، اکتوبر سال 2007ء میں کہی گئی غزل ۔  # ۔ وہ عناصر جو جہاد سمجھ کر اپنے ہی مسلمانوں کو مارتے ہیں، اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ (افسوس) ۔  نظرِ ثانی ۔ 6 جون سال 2024ء بروز جمعرات ۔

کہاں ہیں اب جو محبّت میں مارے جاتے ہیں ؟ عجیب دور ہے دہشت میں مارے جاتے ہیں ۔ مخالفین تو ہوتے ہیں سرخرو اکثر ۔ یہ ایک ہم کہ حمایت میں مارے جاتے ہیں ۔ کہ بد کلامی سے مرتا نہیں ہے کوئی مگر ۔ نفیس لوگ نفاست میں مارے جاتے ہیں ۔ تمام عُمر لڑائی میں جو رہے غازی ۔ وہ ایک رات عبادت میں مارے جاتے ہیں ۔ یہ اہلِ حق نہیں مرتے ہیں دشمنوں سے کبھی ۔ فقیر لوگ مروّت میں مارے جاتے ہیں ۔ لَہُو پکارے گا اُن کا بھی روزِ محشر میں ۔ جو تیرے عہدِ امارت میں مارے جاتے ہیں ۔ جو چاہتے ہیں کہ انصاف ہو عدالت میں ۔ وہی تو لوگ عدالت میں مارے جاتے ہیں ۔ لٹیرے بخشے گئے " قومی مفاہمت" کے سبب ۔ شریف لوگ شرافت میں مارے جاتے ہیں ۔ یہ بے شمار جگر گوشے ماؤں کے وامِق ۔ فصول شوقِ شہادت میں مارے جاتے ہیں ۔ # ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 10، اکتوبر سال 2007ء میں کہی گئی غزل ۔ # ۔ وہ عناصر جو جہاد سمجھ کر اپنے ہی مسلمانوں کو مارتے ہیں، اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ (افسوس) ۔ نظرِ ثانی ۔ 6 جون سال 2024ء بروز جمعرات ۔


+++  غزل  +++ 
غلام محمد وامِق 



 کہاں ہیں اب جو محبّت میں مارے جاتے ہیں ؟ 
عجیب دور ہے دہشت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

مخالفین تو ہوتے ہیں سرخرو اکثر ۔ 
یہ ایک ہم کہ حمایت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

کہ بد کلامی سے مرتا نہیں ہے کوئی مگر ۔ 
نفیس لوگ نفاست میں مارے جاتے ہیں ۔ 

تمام عُمر لڑائی میں جو رہے غازی ۔ 
وہ ایک رات عبادت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

یہ اہلِ حق نہیں مرتے ہیں دشمنوں سے کبھی ۔ 
فقیر لوگ مروّت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

لَہُو پکارے گا اُن کا بھی روزِ محشر میں ۔ 
جو تیرے عہدِ امارت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

جو چاہتے ہیں کہ انصاف ہو عدالت میں ۔ 
وہی تو لوگ عدالت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

لٹیرے بخشے گئے " قومی مفاہمت" کے سبب ۔ 
شریف لوگ شرافت میں مارے جاتے ہیں ۔ 

یہ بے شمار جگر گوشے ماؤں کے وامِق ۔ 
فصول شوقِ شہادت میں مارے جاتے ہیں ۔ # 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ 
بحر۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 
مورخہ 10، اکتوبر سال 2007ء میں کہی گئی غزل ۔ 
# ۔ وہ عناصر جو جہاد سمجھ کر اپنے ہی مسلمانوں کو مارتے ہیں، اور خود بھی مارے جاتے ہیں ۔ (افسوس) ۔ 
نظرِ ثانی ۔ 6 جون سال 2024ء بروز جمعرات ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بینظیربھٹو ‏کے ‏قتل ‏کے ‏بعد ‏ملک ‏بھر ‏میں ‏ہونے ‏والے ‏افسوسناک ‏سانحہ ‏پر ‏کہا ‏گیا ‏،ایک ‏قطعہ ‏ـ ‏شاعر ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

بینظیربھٹو ‏کے ‏قتل ‏کے ‏بعد ‏ملک ‏بھر ‏میں ‏ہونے ‏والے ‏افسوسناک ‏سانحہ ‏پر ‏کہا ‏گیا ‏،ایک ‏قطعہ ‏ـ ‏شاعر ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

مورخہ، 27 دسمبر 2007ء کو شام تقریباً ساڑھے چھ بجے راولپنڈی " لیاقت باغ " میں جلسہءعام کے بعد واپسی پر روڈ پر،  سابق وزیرِاعظم پاکستان، بینظیربھٹو شہید کردی گئیں، جس کے ردِعمل میں دوتین روز تک ملک بھر میں زبردست اور خوفناک جلاؤ گھیراﺅ کیا گیا، جس کے تاثرات میں نے درج ذیل قطعہ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ـ از ـ غلام محمد وامِق محرابپور سندھ.  
=== بینظیربھٹو قتل === 
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 
       غلام محمد وامِق  

اِس سانحے کا ردِعمل بھی عجب ہوا ...ـ

بیشک عظیم تھی، جو ہوئی قتل بینظیر ... 

لیکن یہ لوٹ مار ہوئی جس قدر یہاں ... 

تاریخ میں تو اس کی بھی ملتی نہیں نظیر ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مورخہ 30 دسمبر،2007ء بروز اتوار،  لکھا گیا قطعہ، 
از ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ،                  فون نمبر ـ 03153533437 ـــ

عجیب لوگ ہیں شب بھر قیام کرتے ہیں ۔  کہ زیست بھر کا مگر اہتمام کرتے ہیں ۔   جو ناگوارِ طبیعت ہیں روز ملتے ہیں ۔  طلَب ہے جن کی کہاں وہ کلام کرتے ہیں ۔   وہ مل بھی جائیں تو ملتے ہیں چند لمحوں کو ۔  کہ گھنٹوں جن کے لئے ہم قیام کرتے ہیں ۔   یہاں پہ کون کسی کو سلام کرتا ہے ؟  جو کرتے ہیں، وہ غرَض کو سلام کرتے ہیں ۔   جنازے میں کہاں آئے گا کوئی مفلس کے ۔  یہ کس کے واسطے اعلانِ عام کرتے ہیں ۔   غریب کو بھی ملے کوئی حق تو جینے کا ۔  اسی امید میں جیون تمام کرتے ہیں ۔   زہے نصیب سرِ راہ ہم جو مل جائیں ۔  وہ مسکرا کے نظر سے سلام کرتے ہیں ۔   عجیب اب تو طبیعت یہ ہو گئی وامق۔  کہ دن گزار کے مشکل سے شام کرتے ہیں ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق  مورخہ 23 جنوری سال 2008ء کو کہی گئی غزل ۔

عجیب لوگ ہیں شب بھر قیام کرتے ہیں ۔ کہ زیست بھر کا مگر اہتمام کرتے ہیں ۔ جو ناگوارِ طبیعت ہیں روز ملتے ہیں ۔ طلَب ہے جن کی کہاں وہ کلام کرتے ہیں ۔ وہ مل بھی جائیں تو ملتے ہیں چند لمحوں کو ۔ کہ گھنٹوں جن کے لئے ہم قیام کرتے ہیں ۔ یہاں پہ کون کسی کو سلام کرتا ہے ؟ جو کرتے ہیں، وہ غرَض کو سلام کرتے ہیں ۔ جنازے میں کہاں آئے گا کوئی مفلس کے ۔ یہ کس کے واسطے اعلانِ عام کرتے ہیں ۔ غریب کو بھی ملے کوئی حق تو جینے کا ۔ اسی امید میں جیون تمام کرتے ہیں ۔ زہے نصیب سرِ راہ ہم جو مل جائیں ۔ وہ مسکرا کے نظر سے سلام کرتے ہیں ۔ عجیب اب تو طبیعت یہ ہو گئی وامق۔ کہ دن گزار کے مشکل سے شام کرتے ہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق مورخہ 23 جنوری سال 2008ء کو کہی گئی غزل ۔

              +++   غزل    +++ 
               غلام محمد وامِق 

عجیب لوگ ہیں شب بھر قیام کرتے ہیں ۔ 
کہ زیست بھر کا مگر اہتمام کرتے ہیں ۔ 

جو ناگوارِ طبیعت ہیں روز ملتے ہیں ۔ 
طلَب ہے جن کی کہاں وہ کلام کرتے ہیں ۔ 

وہ مل بھی جائیں تو ملتے ہیں چند لمحوں کو ۔ 
کہ گھنٹوں جن کے لئے ہم قیام کرتے ہیں ۔ 

یہاں پہ کون کسی کو سلام کرتا ہے ؟ 
جو کرتے ہیں، وہ غرَض کو سلام کرتے ہیں ۔ 

جنازے میں کہاں آئے گا کوئی مفلس کے ۔ 
یہ کس کے واسطے اعلانِ عام کرتے ہیں ۔ 

غریب کو بھی ملے کوئی حق تو جینے کا ۔ 
اسی امید میں جیون تمام کرتے ہیں ۔ 

زہے نصیب سرِ راہ ہم جو مل جائیں ۔ 
وہ مسکرا کے نظر سے سلام کرتے ہیں ۔ 

عجیب اب تو طبیعت یہ ہو گئی وامق۔ 
کہ دن گزار کے مشکل سے شام کرتے ہیں ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔
بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف مسکن ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق 
مورخہ 23 جنوری سال 2008ء کو کہی گئی غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
محراب ‏پور ‏کا ‏مردِ ‏حُر ‏ــ ‏محمد ‏ہاشم ‏گھانگھرو ‏... تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

محراب ‏پور ‏کا ‏مردِ ‏حُر ‏ــ ‏محمد ‏ہاشم ‏گھانگھرو ‏... تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

<<<<<  محراب پور کا مردِ حُر  >>>>>
میں نے ہوش سنبھالتے ہی اسے سیاسی طور پر متحرک دیکھا، دیواروں پر "اندھا ٹیکس مردہ باد " لکھتا، تو کبھی اپنے گھر کے ایک درجن سے زیادہ افراد کے ساتھ سڑکوں پر حکمرانوں کے خلاف نعرے بازی کرتا ہوا نظر آتا، اُس وقت تک مجھے ان باتوں کا شعور نہ تھا، وہ جنرل ایوب خان کا دور تھا، سنتے تھے کہ اس نے اپنا بہت بڑا کاروبار "ہاری مزدور حقوق " کے حصول کی جدوجہد میں تباہ کر دیا تھا، 
سنتے تھے کہ وہ مولانا عبیداللہ سندھی کی ریشمی رومال تحریک سے بھی وابستہ رہا تھا، جب ہم جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہے تھے، وہ عمر کے آخری حصے میں تھا، اور اپنی معاشی ضروریات کے لئے ہاتھوں میں خوان رکھ کر دودھ سے بنا ماوہ اور سوہن حلوہ بیچتا تھا،  ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ حکومت تھا، وہ کاغز پر کوئلے سے کچھ لکھ رہا تھا، 
میں نے از راه تفنن پوچھا،  کیا آپ بھٹو صاحب کو خط لکھ رہے ہو؟ ۔۔۔ تو اس نے حقارت آمیز انداز میں جواب دیا، ہونہہ،  بھٹو کو خط کوئلے سے؟  اگر لکھنا پڑا تو اس گندی نالی کے پانی سے اسے خط لکھوں گا، اس نے نالی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ۔  
جنرل ضیاء الحق کے دور میں اس کے داماد، اور ہاری کمیٹی کے مشہور رہنما،  " نزیر عباسی " کو پھانسی دے دی گئی ... اس بہیمانہ قتل پر ہم نے نزیر عباسی کی بیوہ اور اس کی  بیٹی حمیدہ گھانگھرو کا ایک مفصل انٹرویو اسی دور میں بی بی سی لندن کی خبروں میں سنا تھا، جس میں حمیدہ گھانگھرو نے بڑی دلیری سے اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ..... 
بعد ازاں شاید بینظیر بھٹو کے پہلے دور میں محراب پور میں ہاری حقوق کمیٹی کا جلسہ تھا،  جس میں مرکزی لیڈر شریک تھے .... 
 دورانِ جلسہ فیصلہ کیا گیا کہ اس بزرگ رہنما کو بھی اجلاس میں لایا جائے، جو کہ ان دونوں اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہا تھا ۔۔۔ بہرحال اسے اسٹیج پر لا کر بٹھایا گیا، وہ کرسی پر نہیں بیٹھا بلکہ نماز پڑھنے کی حالت میں عوام کی طرف رخ کر کے اسٹیج پر ہی  نیچے بیٹھ گیا،،،  جلسہ کے اختتام پر انہیں بھی دعوتِ کلام دی گئی،،،  وہ اس وقت بیخودی کے عالم میں تھا، عصر کی آذان ہوچکی تھی، اس نے وہیں اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا، میں چوں کہ اگلی صف میں بلکل اس کے سامنے کرسی پر موجود تھا،  اس لئے سب صاف سن رہا تھا ... 
اس نے کہنا شروع کیا، بھائیو!  یہ نعرے بازی، جلسے جلوس، فضول ہیں، میں سب کچھ سمجھ چکا ہوں، یہ تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے، اگر اپنی نجات اور بھلائی چاہتے ہو تو آؤ،  میرے ساتھ نماز پڑھو،  انہوں نے یہ کہا اور وہیں پر بیٹھے بیٹھے، اللہ اکبر  کہہ کر نماز کی نیت باندھ لی ۔۔۔۔
جلسہ ختم ہو چکا تھا، اور حاضرین حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، ۔۔۔۔۔۔ کچھ دنوں کے بعد وہ اس ظالم دنیا کو چھوڑ گیا ۔۔۔۔  اُس مردِ مجاہد اور حریت پسند شخص کا نام تھا  ۔۔۔۔۔۔۔  محمد ہاشم گھانگھرو، ۔۔۔۔.....                        (تحریر ـ غلام محمد وامق).... 
بقول اقبال،  تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا، نہ وہ دنیا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  یہاں مرنے کی پابندی، وہاں جینے کی پابندی۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
میری ‏ایک ‏یادگار ‏مزاحیہ ‏غزل ‏ــــ  ‏مجھ کو غریب اور قرضدار دیکھ کر.....  جسے ‏سن ‏کر ‏محترم ‏" ‏رئیس ‏امروہوی ‏" ‏مرحوم ‏اور ‏،  ‏" ‏راغب ‏مراد ‏آبادی " ‏مرحوم  ‏نے  ‏بیساختہ داد ‏دی ‏تھی ... تحریر ‏ـ ‏غلام محمد وامِق ‏... ‏

میری ‏ایک ‏یادگار ‏مزاحیہ ‏غزل ‏ــــ ‏مجھ کو غریب اور قرضدار دیکھ کر..... جسے ‏سن ‏کر ‏محترم ‏" ‏رئیس ‏امروہوی ‏" ‏مرحوم ‏اور ‏، ‏" ‏راغب ‏مراد ‏آبادی " ‏مرحوم ‏نے ‏بیساختہ داد ‏دی ‏تھی ... تحریر ‏ـ ‏غلام محمد وامِق ‏... ‏

میری ایک یادگار " مزاحیہ غزل "  جو حیدرآباد میں منعقدہ کُل پاک و ہند مشاعرہ میں پڑھی گئی، جسے سن کر، محترم رئیس امروہوی صاحب مرحوم، اور راغب مرادآبادی مرحوم، نے بہت داد دی ـ غزل اور واقعہ،  اختصار کے ساتھ ملاحظہ فرمائیں ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
===   چٹ پٹی غزل  === 
       غلام محمد وامق 

مجھ کو غریب اور قرضدار دیکھ کر ۔ 
مجھ سے وہ دور ہے مجھے بے کار دیکھ کر ۔ 

پیدل ہمیں جو دیکھ کے کتراتے تھے کبھی ۔ 
اب لفٹ مانگتے ہیں وہی کار دیکھ کر ۔ 

عُشّاق سارے مر گئے اُن کے تو دیکھئے ۔ 
پچھتا رہے ہیں اب ہمیں بیمار دیکھ کر ۔ 

اب رہنمائی کرنے سے کترا رہے ہیں سب ۔ 
مشہور رہنما کو سرِ دار دیکھ کر ۔ 

کل رات اُس نے باجی بھی معشوق کو کہا ۔ 
اُس گھر میں اُس کی امّاں کو بیدار دیکھ کر ۔ 

مفلس تھا جب گلی میں بھی گھسنے نہیں دیا ۔ 
اب رشتہ دے رہے ہیں وہی کار دیکھ کر ۔ 

نکلا سنگھار خانے سے تُو بن سنور کے یوں ۔ 
میں ڈر گیا تھا کل تجھے اے یار دیکھ کر ۔ 

جب تم حسین تھے تو کبھی بات بھی نہ کی ۔ 
اب رو رہے ہو ضعف کے آثار دیکھ کر ۔ 

اچھّا ہے کوئی تو رہے آپس میں راز دار ۔ 
کیوں جل رہا ہے بے وجہ تُو پیار دیکھ کر ۔ 

وامِق کبھی تو ہم بھی بہت ہی شریف تھے ۔ 
بگڑا ہے یہ مزاج وی سی آر دیکھ کر ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن ۔ 
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 
شاعر۔ غلام محمد وامق ۔ 
اپریل سال 1986ء میں کہی گئی غزل ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
وضاحت:-- یہ غزل میں نے کُل پاک و ہند طنز و مزاح مشاعرہ حیدرآباد منعقدہ 17 اپریل سال 1986ء میں سنائی تھی جس پر رئیس امروہوی صاحب نے پیٹھ تھپک کر داد دی ۔ جب کہ ناظم مشاعرہ جناب راغب مرادآبادی صاحب نے فی البدیہہ یہ شعر پڑھ کر مجھے سراہا ۔ 
شرما رہی ہیں چند خواتین بزم میں ۔ 
وامِق کو نوجوانِ طرح دار دیکھ کر ۔ ۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
غزل سے منسلک واقعہ: -- مورخہ 17. اپریل 1986ء حیدرآباد سندھ میں،  ملک کے مشہور ادیب، صحافی، شاعر اور ڈرامہ نویس "عطاءالحق قاسمی "  کے بڑے  بھائی.        " ضیاءالحق قاسمی " صاحب مرحوم نے،  کُل پاک و ہند مشاعرہ منعقد کروایا، جس کی صدارت " سید ضمیر جعفری صاحب " نے کی،  جس میں ہندوستان کے معروف شعراء کے علاوہ، پاکستان کے تمام ہی معتبر اور مشہور شعراء کرام نے شرکت کی تھی ـ جن میں  دلاور فگار، انور مسعود، گستاخ گیاوی، خالد عرفان،  عطاءالحق قاسمی، پروفیسر عنایت علی خان صاحب،  عبیر ابوذری،  رئیس امروہوی، انعام الحق جاوید،  راغب مرادآبادی ( نظامت) ـ کے علاوہ دیگر بہت سے نامور شعراء شامل تھے،  جبکہ سامعین میں، صوبائی وزیر، سید احد یوسف، حیدرآباد کے ڈپٹی کمشنر، اور بیشمار اعلیٰ افسران بھی شامل تھے ــ اس مشاعرے کی روداد ملک کے تمام ہی بڑے  اخبارات میں شایع ہوئی، اور. 16, مئی، 1986ء کے روزنامہ " نوائے وقت " میں عطاءالحق قاسمی نے اپنے مشہور کالم،  " روزنِ دیوار سے " میں بھی شایع کی تھی ـ بعدازاں حیدرآباد، کراچی سے شایع ہونے والے " ماہنامہ ظرافت " کے پہلے شمارے میں مکمل روداد تمام شعراء کے منتخب اشعار کے ساتھ شایع کی گئی ـــ
وہ دور جنرل ضیاءالحق کی صدارت کا زمانہ تھا، اور کچھ ہی سال قبل، پاکستان کے پہلے  منتخب وزیرِاعظم،     " ذوالفقار علی بھٹو " کو پھانسی دی گئی تھی ـ چنانچہ جب میں نے اسٹیج پر آکر،  اپنی غزل کا یہ شعر ــ 
اب رہنمائی کرنے سے کترا رہے ہیں سب ... 
مشہور رہنما کو سرِ دار دیکھ کر ... 
پڑھا تو، میرے قریب بیٹھے ہوئے،  جناب "رئیس امروہوی " صاحب نے بے اختیار میری پیٹھ پر تھپکی دی اور بہت داد دی، بعدازاں جب میں نے اپنا کلام ختم کرکے اپنی جگہ لی تو مشاعرے کے اسٹیج سیکریٹری، اور ملک کے مشہور فی البدیہہ اشعار کہنے والے، محترم راغب مرادآبادی صاحب نے مجھے اپنے اس فی البدیہہ شعر کے ساتھ داد عنایت فرمائی، جوکہ میرے لئے ایک اعزاز ہے ـ
شرما رہی ہیں چند خواتین بزم میں ... 
وامِق،  کو نوجوانِ طرحدار دیکھ کر ... 
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ میرے لئے " راغب مرادآبادی صاحب "  کا  یہ شعر پاکستان کے پہلے مزاحیہ رسالے، ــــ         " ماہنامہ  ظرافت "  میں بھی شامل کیا گیا تھا ــ
ــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
مورخہ،  15، ستمبر ـ 2020ء ــ فون ـ 03153533437 ...
یومِ ‏دفاع ‏، ‏چھ ‏ستمبر ‏ـ ‏نظم ‏ـ ‏از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ــ  ‏

یومِ ‏دفاع ‏، ‏چھ ‏ستمبر ‏ـ ‏نظم ‏ـ ‏از ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ــ ‏

===  یومِ دفاع ( چھ ستمبر)  === 
              غلام محمد وامِق 

چھ ستمبر حاصلِ آزادیء افکار ہے ... 
دشمنوں کے واسطے شمشیرِ بے زنہار ہے ... 

ہر سپاہی ملک پہ دینے کو جاں تیار ہے ... 
زندگی سے بھی زیادہ سرحدوں سے پیار ہے ... 

اہلِ پاکستان کے خوابوں کی یہ تعبیر ہے ... 
افواج پاکستان کی ناقابلِ تسخیر ہے ...

رات کو جب نیند میں غافل شہر لاہور تھا ... 
پر نکل آئے تھے چیونٹی کے عجب وہ دور تھا ... 

بھارتی ٹینکوں کے حملے کا اچانک شور تھا ... 
ہاں ملی ان کو سزا ایسی کہ منظر اور تھا ... 

دیکھ لو دشمن کو اب تک خوف دامنگیر ہے ... 
افواج پاکستان کی ناقابلِ تسخیر ہے ... 

کس قدر مخفی تھا دیکھو، سینہء دشمن میں کھوٹ ... 
جب کیا دشمن نے حملہ، پرسکوں تھا سیالکوٹ. ... 

تب بھی یوں دشمن کو مارا اور ماری ایسی چوٹ
آج بھی ڈرتے ہیں دشمن نام سن کر سیالکوٹ. ... 

کس قدر مضبوط یہ اتحاد کی زنجیر ہے. ... 
افواج پاکستان کی ناقابلِ تسخیر ہے ... 

چھ ستمبر اب تلک بھارت کو ایسا یاد ہے ... 
دیکھ لو ان کا سکونِ قلب تک برباد ہے ... 

یہ شکستِ ہند کی یکسر کھلی روداد ہے .. 
اور ہمارا ملک پاکستان،  زندہ باد ہے ... 

چھ ستمبر،  حق و باطل کی عیاں تصویر ہے ... 
افواج پاکستان کی ناقابلِ تسخیر ہے ... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔  فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن 
بحر ۔ رمل مثمن محذوف ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق،  محراب پور سندھ  ستمبر83 19
 ء میں کہی گئی نظم ـــ

کس شان سے یہ آنسو آنکھوں میں مچلتے ہیں ــ غزل ـ شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ‏

کس شان سے یہ آنسو آنکھوں میں مچلتے ہیں ــ غزل ـ شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ‏


                  +++  غزل  ++++ 
                     غلام محمد وامِق 

کِس شان سے یہ آنسو، آنکھوں میں مچلتے ہیں 
کچھ  لوگ  شناسا   جب،    انداز  بدلتے   ہیں 

ہے خوف کا عالم بھی، ظلمت بھی بہت لیکن 
امید کے کچھ جگنو،آنکھوں میں  چمکتے ہیں 

کچھ بات کہی ہم نے، کچھ کہہ نہیں پائے ہم 
جزبات کہاں سارے، الفاظ  میں ڈھلتے ہیں ؟   

کچھ لمحوں کی دنیا میں ہم لمحوں کے ساتھی ہیں 
پھر کس لئے نفرت کی، ہم آگ میں جلتے ہیں ؟  

جنگل میں درندے  بھی اس طرح نہیں کرتے   
بیدردی سے جیسے ہم، اپنوں کو کچلتے  ہیں 

کردار  بدلتا ہے  ،،،،،،،،  نا وقت  بدلتا  ہے   
بس لوگ بدلتے ہیں، اور چہرے  بدلتے  ہیں  

دشمن سے نہیں خطرہ، ہے خوف یہ ہی وامِق 
یاروں سے بچیں کیسے؟  جو زہر اگلتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن ۔ 
بحر ۔ ہزج مثمن اخرب سالم ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 03 فروری سال 2008ء میں کہی گئی غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



 

یوں دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل گئے ــ غزل ـ غلام محمد وامِق ـ

یوں دیکھتے ہی دیکھتے منظر بدل گئے ــ غزل ـ غلام محمد وامِق ـ



 

****** غزل **** 
غلام محمد وامِق ـ

یوں دیکھتے ہی دیکھتے،   منظر بدل گئے ـ 
موسم کے ساتھ پھولوں کے تیور بدل گئے ـ

کہنے کو انقلاب بھی آیا نہیں مگر ـ
صحرا بدل گئے ہیں، سمندر بدل گئے ـ 

محفل میں اُن کی دیکھئے ہم جو گئے تو وہ 
مفہوم اپنی بات کا یکسر بدل گئے ـ 

جب ذکر بیوفائی کا اُن سے شروع کیا ـ 

موضوع کا رخ وہ دیکھئے ہنس کر بدل گئے ـ 

میں نے فقط نظر کا ہی انداز بدلا تھا.      
لیکن یہ کیسے سارے ہی منظر بدل گئے.      

وہ جو ثبات رکھتے تھے مانند پہاڑ کے.     
دیکھا غرض میں اپنی وہ اکثر بدل گئے.     

ہم شوق و اضطراب میں پہنچے جو اُس گلی.
وامِق! ہوا یہ علم،  کہ وہ گھر بدل گئے ـــــ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن
بحر۔ مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف 
شاعر ۔ غلام محمد وامق 
  مورخہ 20 , جولائی، 2009. کو کہی گئی غزل ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

نمکین غزل ـ شیخ صاحب جب حرم سے سوئے جاناں چل پڑے ــ شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ‏

نمکین غزل ـ شیخ صاحب جب حرم سے سوئے جاناں چل پڑے ــ شاعر ـ غلام محمد وامِق ـ ‏

           ===  نمکین غزل  === 
                 غلام محمد وامِق  

شیخ صاحب جب حرم سے سوئے جاناں چل پڑے ـ
تب اچانک سر پہ ان کے،  سینکڑوں  سینڈل پڑے . 

یوں ہی قصہ، ایک بڑھیا کے چلا تھا عشق کا ... 
چند بوڑھے جانے کیوں بس مُنہ چھپا کر چل پڑے ... 

میں نے سیٹی یوں ہی ماری تھی جو اپنے شوق میں ... 
کس لئے ماتھے پہ تیرے اتنے سارے بل پڑے ...

ایک دعوت میں جو دیکھی مولوی صاحب نے دال ... 
مُلّا جی،  لاحول پڑھتے، اس جگہ سے چل پڑے ... 

ایک دلہن شادی دفتر سے ملی جو دیکھئے ۔ 
آنکھ بھینگی، ناک غائب، چہرے پر تھے بَل پڑے ... 

جب کہ اِن آنکھوں میں تیری، کُکرے بھی، جالا بھی ہے ... 
کیسے ان میں سرمہ ڈالیں،  کس طرح کاجل پڑے؟ ... 

مولوی سب ڈٹ گئے تھے،  اپنے فتوے پر مگر ... 
جیب ان کی جب بھری، تو سارے واپس چل پڑے ... 

آؤ وامِق! ، پھر چلیں ہم شہرِ جاناں کی طرف ... 
چاہے اپنے راستے میں، پھر وہی دلدل پڑے ... 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ۔ 
بحر ۔ رمل مثمن محذوف ۔ 
شاعر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مارچ سال 1986ء میں کہی گئی نمکین غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

تجھ سے جب بھی خطاب کرتا ہوں ـ غزل ـ شاعر ـ  غلام محمد وامِق ‏... ‏

تجھ سے جب بھی خطاب کرتا ہوں ـ غزل ـ شاعر ـ غلام محمد وامِق ‏... ‏

 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  غزل   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
          غلام محمد وامِق 

تجھ سے جب بھی خطاب کرتا ہوں۔
باتیں کچھ بے حساب کرتا ہوں ۔

یہ عجب بات ہے کہ مِلنے میں ۔
وہ نہیں ، میں حجاب کرتا ہوں۔ 

تم جسے چاہو انتخاب کرو ۔ ۔
میں تمہیں انتخاب کرتا ہوں ۔ 

وحشتِ دل سے یہ ملا مجھ کو
دل کے کانٹے، گلاب کرتا ہوں ۔ 

دیکھ کر پھول اور بھٶنرے کو ۔
یاد   عہدِ   شباب   کرتا   ہوں ۔۔

فُرقتِ یار میں سکوں کیسا ؟ ۔۔
اپنی  دنیا  خراب  کرتا  ہوں ۔ 

ان کا چہرہ نکھر سا جاتا ہے ۔ 
روبرو  جب  گلاب  کرتا  ہوں ۔۔۔

دیکھ کر  بے رخی زمانے کی ۔۔
بام و در  سے  خطاب کرتا ہوں ۔ 

دیکھ !  مِٹتی ہے، تیرَگی وامِق ۔ 
 میں اُسے بے نقاب کرتا ہوں ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فاعلاتن مفاعلن فَع٘لن ۔ 
فاعلاتن مفاعلن فَعِلن ۔ 
بحر ۔ خفیف مسدس مخبون محذوف مقطوع
بحر ۔ خفیف مسدس مخبون محذوف 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ۔ 
جولائی سال 1982ء میں کہی گئی میری غزل ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
Powered by Blogger.