چنبیلی شاہ === تحریر ــ غلام محمد وامِق ـــ وہ جب پہلی بار محراب پور شہر میں نظر آیا، اُس وقت غالباً میں آٹھویں جماعت کا طالبِ علم تھا، وہ بظاہر تو فقیر ہی لگتا تھا، لیکن وہ بھیک مانگتے کبھی نظر نہیں آیا، معلوم ہوا کہ اس کا نام چنبیلی شاہ ہے۔ رفتہ رفتہ اس کے متعلق عجیب قسم کے واقعات منسوب ہونے لگے، اور دوچار موالی لوگ بھی اس کے پیچھے چلنے لگے، اس کے ہاتھوں میں طنبورہ قسم کی کوئی چیز ہوتی تھی، جسے وہ رگڑتا رہتا تھا، اور خود بخود باتیں کرتا رہتا تھا ۔ اُن دنوں میرا مشغلہ ابنِ صفی کے جاسوسی ناول پڑھنا تھا، لہٰزا لامحالہ میں اسے انڈیا کا جاسوس سمجھنے لگا اور اس کے طنبورہ کو وائرلیس سیٹ سمجھتا تھا، چنانچہ اپنا فارغ وقت میں نے اس کی جاسوسی میں صرف کرنا شروع کر دیا ۔ دسویں جماعت تک میں اتنا جان چکا تھا کہ وہ چرس اور افیون وغیرہ بیچتا ہے، اور خود بھی استعمال کرتا ہے، بعض اوقات گالیاں بھی بکتا رہتا تھا، کئی ایک بار میرا اس کے ساتھ ہلکا پھلکا مکالمہ بھی ہوا، ۔۔۔ بعدازاں وہ شہر سے کہیں چلا گیا، اور میں نے بھی تعلیمی سلسلہ میں شہر کو خیرباد کہا ۔۔۔ کئی سال گزر گئے ایک بار میں بذریعہ کار نوابشاہ سے کُنب کی طرف جانے والے روڈ پر سفر کررہا تھا کہ راستہ میں ایک اسٹاپ پر نصب بورڈ پر نظر پڑی، جِس پر لکھا تھا ۔۔۔ مزار چنبیلی شاہ ۔۔۔۔۔۔ بہت حیرت ہوئی، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اسی چنبیلی شاہ کا انتقال ہو چکا ہے، جسے یہاں پر دفن کیا گیا ہے، اور اب چنبیلی شاہ کے مرزا پر ہر سال باقاعدہ عرس ہوتا ہے، اور میلہ لگتا ہے، دور دور سے زائرین یہاں پر اپنی منتیں مانگنے آتے ہیں،،، کیا خیال ہے اس سلسلے میں آپ کا؟؟؟؟؟ تحریر ۔۔۔۔ جی ایم وامِق ۔۔۔۔ محراب پور سندھ ۔۔۔۔
عشق ،،،، ایک کڑوا سچ. ــــــ ،،، لفظ " عشق " صوفیاء کے ہاں تو بہت ملتا ہے ـ لیکن قرآن مجید اور احادیث میں اس کا کوئی وجود نہیں ملتا ـ حالانکہ یہ لفظ عربی ہے، اس کے برعکس لفظ " محبت " قرآن اور احادیث میں استعمال کیا گیا ہے ـ اکثر ماہرینِ نفسیات کے نزدیک " عشق " ایک نفسیاتی مرض ہے، اور قابلِ علاج بھی ہے ـــ ازـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ــ فون نمبر ـ 03153533437 ـ
جنات کی حقیقت :--- میری تصنیف, تحقیق پر مبنی کتاب "جنّات کی حقیقت " کی تقریبِ رونمائی کراچی پریس کلب میں مورخہ 12 نومبر، سال 2016ء بروز ہفتہ منعقد ہوئی، اس تقریب میں، میں نے درج ذیل تقریر کی ـــ عزیز دوستو۔ آج سے پہلے شاید ہی کسی نے لفظ ” جن “ کو سمجھنےکی کوشش کی ہو۔ ہمارے اسلاف میں سے سر سید احمد خان ۔ پہلا شخص ہے جس نے اس طرف کچھ اشارہ کیا ہے۔ لیکن باقاٸدہ دلاٸل کے ساتھ اس پر میرے علاہ کسی نے بھی نہیں لکھا ( الحمداللہ) ۔۔۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جس کو دنیا بھر میں بیشمار لوگوں نے اپنا ذریعہ معاش بنالیا ہے۔ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بھارت۔یورپ۔امریکہ اور دیگر تمام ممالک میں ”جن“ نکالنا ایک کاروبار اور بزنس بن چکا ہے۔جوکہ مکمل جعل سازی اور فراڈ پر مشتمل ہے۔ اس کاروبار میں کچھ شعبدے بازیاں دکھاکر لوگوں کو لوٹ لیا جاتا ہے۔ چوں کہ دنیا کا ہر مذہب، اور عقیدہ روایتی ”جن“ کا قاٸل ہے۔۔۔ دنیا بھر میں پہلی بار اللہ رب العزت نے مجھے یہ شرف بخشا ہے کہ میں نے جنات کے روایتی وجود کو دلاٸل کے ساتھ رد کر دیا ہے۔اور دنیا بھر میں روایتی جنٌات کے نہ ہونے کی عقلی۔تاریخی اور قرآن و حدیث سے دلاٸل دینے کے لٸے باقاٸدہ ایک کتاب مرتب کردی ہے۔ جس کا نام ہے ”جنات کی حقیقت“ (جس کی تقریب رونماٸی۔ 12 نومبر 2016 بروز ہفتہ۔۔۔کراچی پریس کلب میں منعقد کی گٸی۔ تقریب کے مہمان خصوصی، ڈاکٹر فراست رضوی، مہمانِ خصوصی، ڈاکٹر حیدر عباس واسطی، تھے جبکہ نظامت کے فراٸض جناب زیب اذکارحسین صاحب، جنرل سیکریٹری ادبی کمیٹی کراچی پریس کلب کراچی نے انجام دٸے تھے) ۔۔۔ بہرحال مجھے علم ہے کہ میرے اس جدید خیال کی بہت زیادہ مخالفت کی جاۓ گی۔ ممکن ہے کچھ نام نہاد علما کی طرف سے کوٸی فتوی بھی صادر کر دیا جاۓ۔۔ دراصل نسلِ انسانی کی ابتدا سے ہی پراسراریت کا تصور آدمی کے ذہن میں موجود ہے۔ اور ہمیشہ انسان نے پراسراریت کے آگے ہی سر جھکایا ہے۔ اور اللہ کی ذات تو مکمل ہی پراسرار ہے۔۔۔ لہذا ہم اللہ کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور اسی لۓ ہم اللہ تعالی کے آگے سجدہ ریز بھی ہوتے ہیں ۔ لیکن اللہ کے علاوہ بھی جو مخلوق لوگوں کو سمجھ نہیں آتی اسے بھی لوگ سجدہ کرتے تھے۔ اور آج بھی بہت سے لوگ نادیدہ اشیا کو ہی سجدہ کرتے ہیں۔ اور اس سے خوف کھاتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں اسی خوف کے باعث لوگوں نے ان دیکھے محسوسات کے کچھ نام ایجاد کر لۓ۔ جیسا کہ ”جن“ ۔۔بھوت۔۔۔ پری۔۔۔ دیو۔۔۔ عفریت۔۔۔ اور ہمزاد وغیرہ۔۔۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ اور خیال جڑ پکڑتا گیا، اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا اس من گھڑت خیال کے شکنجہ میں بری طرح جکڑی جا چکی ہے۔ آج کی ساٸنس نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس طرح کے واقعات چند ذہنی و نفسیاتی بیماریوں کے باعث وقوع پزیر ہوتے ہیں، جن میں سے ایک مشہور بیماری ” ہسٹیریا“ بھی ہے۔ اسی کے باعث جعلساز اورفراڈ عامل، جنات کے وہم کو حقیقت میں بدل دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے روایتی ”جن“ کے نظرٸیے کو تقویت ملتی ہے۔۔۔ دراصل جو لوگ اپنے خیالات اور معروضی حالات سے مطابقت یا ہم آہنگی نہیں کر پاتے تو وہی لوگ اس ہسٹیریا کے مرض میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اور عاملوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ شیطان اور جن کو آگ سےپیدا کیا گیا ہے، فرشتے نور سے تخلیق کۓ گۓ ہیں، جبکہ آدمی کو مٹی سے بنایا گیا ہے۔۔۔ اس ضمن میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ لفظ ”جن“ کے لغوی معنی ہیں، نادیدہ مخلوق، یعنی جو عام حالات میں نظر نہ آۓ۔ اس کے علاوہ خفیہ جاندار اور خفیہ کارواٸی کرنے والے سرکش عناصر وغیرہ۔۔۔ جبکہ لفظ ”انس“ کے لغوی معنی ہیں ظاہری مخلوق یا قابلِ دید عناصر ۔۔۔ چنانچہ اسی پس منظر کے گرد ہی جنّات، اور بھوت و عفریت وغیرہ کی ساری کہانیاں گھومتی ہیں۔۔۔ اور یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت اور اصول ہے کہ مٹی کو ہی مٹی دیکھ سکتی ہے۔یعنی خاکی مخلوق کو ہی ہم دیکھ سکتے ہیں، ناکہ کسی بھی آگ کی یا ناری مخلوق کو۔۔۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون۔۔یعنی کہ میں نے نظر نہ آنے والی مخلوق (جراثیم۔ واٸرس۔ بیکٹیریا۔ وغیرہ۔) اور ان دیکھی کارواٸی کرنے والی سرکش مخلوق۔ اور نظر آنے والی مخلوق کو اپنی عبادت کے لۓ ہی پیدا کیا ہے۔۔ چنانچہ اسی آیت کو نہ سمجھتے ہوۓ، یا لفظ ”جن“ کو قدیم ترین معنی میں استعمال کرنے کی وجہ سے ہمارے بزرگوں نے جو ترجمہ کیا ہے، اسی سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی چلی آرہی ہیں۔ اور افسوس کہ کسی نے بھی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اس لفظ ” جن “ کے معنی نہیں کۓ۔۔۔ جس کے باعث لفظ ”جن“ سے پوری دنیا ایک خوف کی کیفیت میں مبتلا ہے۔۔۔۔۔۔ آخر میں دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت دنیا کے تمام لوگوں کو اس ”جن“ کے وہم سے نجات دلاۓ۔ لوگوں کو عقل سلیم عطا فرماۓ۔۔اور صحیح سمجھ اور شعور عطا فرماۓ۔۔۔۔۔۔۔ والسلام۔۔۔ غلام محمد وامق (جی ایم وامق). محراب پور سندھ۔۔۔ رابطہ و واٹس اپ نمبر ۔۔۔ 03153533437
اسلام میں مال و متاع کی اہمیت: ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ اسلام میں مالدار ہونا کوئی عیب یا گناہ نہیں ہے , لیکن مال سے اور دنیا و مافیہا سے محبت گناہ کبیرہ اور شرک ہے, مال کو ذخیرہ اور خزانہ بنا کر رکھنا بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ " مومن کی طرف مفلسی ایسے آتی ہے، جیسے ڈھلان کی طرف پانی " ... حضرت عبدالرحمان بن عوف, حضرت عثمان، ام المومنین حضرت خدیجہ, و دیگر کئی صحابہ امیر ترین لوگ تھے, حضرت خدیجہ نے اپنا سارا مال رسول اللہ کے حوالے کردیا جوکہ ابتدائے اسلام کی جدوجہد میں خرچ ہوگیا, عبدالرحمان بن عوف کا انتقال ہوا تو ان کے پاس کفن کے لئے کپڑا پورا نہیں تھا۔ حضرت عثمان غنی نے اپنا سارا مال اسلام کے غلبہ کے لئے صرف کردیا, حضرت ابو ذر غفاری کا اللہ تعالیٰ پر توکل اس قدر تھا کہ ایک وقت کا کھانا کھاکر دوسرے وقت کے کھانے کا نہیں سوچتے تھے, اللہ کے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ " اپنے غریب پڑوسی کے مکان سے اونچا مکان مت بناؤ۔ اور اپنے مال کو اپنی عیاشی اور آسائش کا ذریعہ مت بناؤ۔ اعتدال پر رہو اور فضول خرچی نہ کرو. ذرا سوچئے آج ہمارا اور ہمارے علمائے دین کا کیا حال ہے ؟ وہ مال کے اور دنیا کے کس قدر حریص ہیں ؟ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے کہ سب سے پہلے ریاکار عالم کو جہنم میں پھینکا جائے گا۔ (واللہ اعلم باالصواب ) . اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم کرے اور ہمیں معاف فرمائے. آمین ــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ــ
یہ لطیفہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ایک پختون ایم این اے, نے خود سنایا تھا۔.. آپ بھی سنئیے.... ایک پٹھان کی شادی ہوئی... تو تین ماہ کے بعد بچہ پیدا ہو گیا....... خان صاحب بہت خوش ہوئے, تو باپ بننے کی خوشی میں گھر کے باہر ہوائی فائرنگ شروع کردی, کسی نے پوچھا, خان صاحب خیر تو ہے ؟ خان صاحب نے حقیقت بتائی تو پوچھنے والے نے اسے سمجھایا کہ خان صاحب بچہ تو شادی کے کم از کم نو ماہ کے بعد ہونا چاہئے۔ یہ تو سراسر ناجائز بچہ ہے۔ خان صاحب کے بات کچھ پلے پڑی تو وہی بندوق لے جا کر اپنی بیوی کے سینے پر رکھ کر کہا... ہو ....تم نے مجھے دھوکا دیا ؟ بچہ تو نو مہینے کے بعد ہوتا ہے۔ یہ تم نے تین مہینے میں کیسے بنا دیا ؟ ...... بیوی نے جواب دیا.... او.... خان صاحب آپ بھی بہت بھولے ہو .... خان نے کہا کیوں؟ بیوی نے بڑے پیار سے اسے سمجھایا, کہ دیکھو اس شخص نے تم سے مزاق کیا ہے۔ تمہیں پاگل بنانے کی کوشش کی ہے۔ اب دیکھو میں سمجھاتی ہوں تجھے...... دیکھو آپ کی شادی کو کتنے مہینے ہوئے ہیں۔... خان صاحب نے کہا تین مہینے. بیوی نے پوچھا اور میری شادی کو ؟... کہا تین مہینے,... اور بچہ کتنے ماہ کے بعد ہوا ؟ ...کہا تین مہینے.... ہاں یہ ہوئی نا بات... اب ان کو جمع کرو... کتنے بنے ؟ ... خان صاحب نے کہا نو مہینے... بیوی نے کہاکہ پھر پھڈا کس بات کا ہے۔ ؟ ..خان صاحب کو بات سمجھ میں آگئی اور دوبارہ پھر سے باہر جاکر فائرنگ شروع کردی..... ( ایسا ہی کچھ ہمارے حکمران بھی کر رہے ہیں شاید ) .................
.. حضرت عمر فاروق رضہ نے حضرت خالد بن ولید کے قصاص کا مطالبہ کردیا، سنئے ایک چشم کشا تاریخی حکایت ــ تحریر و انتخاب ــ غلام محمد وامِق ــ ابو بکر صدیقؓ کے دور خلافت میں جب حضرت خالد بن ولید ایران فتح، کر رہا تھا انہوں نے دشمنوں کا ایک پورا گاؤں تہس نہس کردیا, اسی میں غلطی سے ایک نو مسلم بھی مارا گیا۔ اس کی اطلاع دربار خلافت میں پہنچی تو حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے خون کے بدلے خون, کے قصاص کا دعویٰ کردیا, اللہ اکبر, آپ سمجھ رہے ہیں نا ؟ ... ایک عام نومسلم کے بدلے میں اسلام کا سپہ سالار اعظم, سیف الاسلام خالد بن ولید جوکہ ناقابل شکست صحابی رسولۖ تھا, کو حضرت عمر قصاص میں قتل کر نے کا مطالبہ کر رہا تھا. لیکن صدیق اکبر نے اپنی حکمت عملي اور ذہانت سے اس مسئلے کو حل کیا. تو جناب ایسے ہوتے تھے اصل مسلمان, جو کہ عام مسلمان کی جان کو بھی حد درجہ قیمتی سمجھتے تھے۔ وما علینا الی البلاغ ـــــ انتخاب و تحریر ـ غلام محمد وامِق ، محرابپور سندھ ...
Subscribe to:
Posts (Atom)
Powered by Blogger.