غزل
غلام محمد وامِق
دشمنوں کی دشمنی نے مجھ پہ احساں کر دیا ۔
جو سفر مشکل تھا مجھ پر وہ بھی آساں کر دیا ۔
یوں تو تھا، میں دشمنوں کے واسطے آساں ہَدَف ۔
پر خدا نے اُن کو ہی دست و گریباں کر دیا ۔
مسکرا کر دیکھتا ہے وہ مسلسل اب ہمیں ۔
دُشمنِ جاں نے ہمیں دیکھو پریشاں کر دیا ۔
جلد ہی ہوگا تمہارا بھی مکافاتِ عمل ۔
گو کہ تم نے ہم کو اب قیدیء زنداں کر دیا ۔
مسکرا کر ہم جو آئے جانبِ دار و رَسَن ۔
اِس عمل نے دیکھیے قاتل پریشاں کر دیا
ہم نہیں پیچھے ہٹے اپنے عزائم سے مگر ۔
اُن کو آزادی کے نعرے نے حراساں کر دیا ۔
یہ ہمارے خوابِ آزادی بہت انمول ہیں ۔
تم نے اپنے زعم میں خوابوں کو ارزاں کر دیا ۔
وقت ہے وامِق ہمارے سارے دردوں کا علاج ۔
رات دن کے اِس تغیّر نے تو حیراں کر دیا ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلُن ۔
بحر - رمل مثمن محذوف ۔
شاعر - غلام محمد وامِق ۔
مورخہ 06 ستمبر 2025ء مطابق 12 ربیع الاوّل 1447ھ بروز ہفتہ کہی گئی غزل ۔
