غزل= جن کو آنا ہے وہ بے خوف و خطر آتے ہیں ۔ دو قدم سے ہی نہیں کر کے سفر آتے ہیں ۔ شوقِ سچائی کا عالم ہے کہ وہ جانتے ہیں ۔ اُن کو آنا ہے سرِ دار مگر آتے ہیں ۔ کیا تماشا ہے ملیں امن کے انعام انہیں ۔ جن کو انساں کی تباہی کے ہنر آتے ہیں ۔ اس قدر ہم پہ ہے ابلاغ کے جادو کا اثر ۔ بے ضرر بھی ہمیں اب خطرہ نظر آتے ہیں ۔ جن سے خطرہ ہے حقیقت میں وہی اے مرے دوست بن کے معصوم ترے روز ہی گھر آتے ہیں ۔ آ رہے ہیں مری جانب وہ خدا خیر کرے ۔ ورنہ بے وجہ کہاں لوگ ادھر آتے ہیں ۔ اُن کی اولاد بھلا گھر میں رہے گی کیسے ؟ شام کو جاتے ہیں جو وقتِ سَحَر آتے ہیں ۔ سِحر انگیز ہیں دنیا کے مناظر وامِق ۔ ہوتے کچھ اور ہیں تو کچھ اور نظر آتے ہیں ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن بحر- رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔ بحر - رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ مارچ 2001ء میں کہی گئی غزل ۔

 غزل 


غلام محمد وامِق 


جن کو آنا ہے وہ بے خوف و خطر آتے ہیں ۔ 

دو قدم سے ہی نہیں کر کے سفر آتے ہیں ۔ 


شوقِ سچائی کا عالم ہے کہ وہ جانتے ہیں ۔ 

اُن کو آنا  ہے سرِ دار مگر آتے ہیں ۔ 


کیا تماشا ہے ملیں امن کے انعام انہیں ۔ 

جن کو انساں کی تباہی کے ہنر آتے ہیں ۔ 


اس قدر ہم پہ ہے ابلاغ کے جادو کا اثر ۔ 

بے ضرر بھی ہمیں اب خطرہ نظر آتے ہیں ۔


جن سے خطرہ ہے حقیقت میں وہی اے مرے  دوست 

بن کے معصوم ترے روز ہی گھر آتے ہیں ۔ 


آ رہے ہیں مری جانب وہ خدا خیر کرے ۔ 

ورنہ بے وجہ کہاں لوگ ادھر آتے ہیں ۔ 


اُن کی اولاد بھلا گھر میں رہے گی کیسے ؟ 

شام کو جاتے ہیں جو وقتِ سَحَر آتے ہیں ۔ 


سِحر انگیز ہیں دنیا کے مناظر وامِق ۔ 

ہوتے کچھ اور ہیں تو کچھ اور نظر آتے ہیں ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــ

  فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن 

فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن 

بحر- رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع ۔ 

بحر - رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ 

مارچ 2001ء میں کہی گئی غزل ۔


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.