مظلومِ مدینہ = عثمان غنی =  میں تاریخ سے لڑنا نہیں چاہتا ۔۔۔    اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 10 دن بند رہا تب بھی ٹھیک اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 7 دن بند رہا تب بھی ٹھیک، لیکن جب تاریخ کو چھیڑنے کے بجائے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے نظر آتاہے کہ اسلام کی تاریخ میں صرف حضرت حسینؓ کی ہی شھادت مظلومانہ یا دردناک نہیں بلکہ اگر ہم 10 محرم کی طرف جاتے ہوئے راستے میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شھادت دکھائی دیتی ہے جسمیں شہید ہونیوالے کا نام        " حضرت عثمانؓ " ہے ۔۔۔   جی ہاں__ وہی عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں  وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں  وہہ عثمان جسے ہم ناشر قرآن کہتے ہیں  وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں  وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں  وہی عثمانؓ جسکی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں وہی عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول اللہؐ کا دوہرا داماد کہتے ہیں خیر یہ باتیں تو آپکو طلبا و خطبا حضرات بتاتے رہتے ہیں ۔  کیونکہ حضرت عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی  حضرت عثمانؓ کی سیرت تو بیان کیجاتی ہے  حضرت عثمانؓ کی شرم حیا کے تذکرے تو کئے جاتے ہیں ان کے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے انکی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا انکی دردناک شھادت کا قصہ  عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا  میں کہتا ہوں کہ تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر عثمانؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  کی مظلومانہ شھادت کا ذکر کردیاجائے ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  بحرحال میں کوئی عالم یا خطیب نہیں لیکن  اتنا جانتا ہوں کہ عثمانؓ وہ مظلوم تھا جسکا 40 دن تک پانی بند رکھا گیا، آج وہ عثمانؓ پانی کو ترس رہاہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتاتھا ۔   حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی ہے کوئی جو مجھے پانی پلائے ؟  حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو وہ مشکیزہ لے کر  "عثمان ؓ  کا ساقی بن کر پانی پلانے آنا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن ۔   ہائے ۔۔۔ آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا باغیوں نے حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑ جائے اور کل قیامت کے روز عثمانؓ، اللہ کو شکایت نا لگاسکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نہیں آیا ۔۔۔   کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا  تو مدینہ میں  عثمانؓ کا ساقی علیؓ تھا ۔   اُس عثمانؓ کو 40 دن ہوگئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے ، جو عثمانؓ مسجد نبوی کیلئے جگہ خریدا کرتاتھا ۔   آج وہ عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا جسکی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ جوق درجوق آیاکرتے تھے ۔   40 دن گزر گئے اُس عثمانؓ کو کھانا نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ رسول اللّٰہ کی خدمت میں پیش کردیا کرتاتھا۔  آج اس عثمانؓ کی داڑھی کھینچی جارہی ہے جس عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیاکرتے تھے ۔   آج اس عثمانؓ پر ظلم کیا جارہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کا محافظ تھا ۔   آج اس عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ کے نام پر صحابہ کرام نے رسول اللّٰہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔   ہائے عثمانؓ میں نقطہ دان نہیں میں عالم نہیں جو تیری شھادت کو بیان کروں تو دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہوجائیں ۔    آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کردیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا ۔   آج رسولِ اکرم کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جارہی ہیں  18 #ذی الحج 35 ھجری ہے جمعہ کا دن ہے حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور حضرت عثمانؓ کی داڑھی کھینچتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتاہے ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتاہے ایک تلوار نکالتا ہے حضرت عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیتاہے ، قرآن سامنے پڑا تھا خون قرآن پر گرتا ہے تو قران بھی حضرت عثمانؓ کی شھادت کا گواہ بن گیا ۔    عثمانؓ زمین پر گر پڑے تو باغی عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپؓ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں حضرت عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شھید ہوگئے ۔   اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی ۔  دیا خون #صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی::  مدینہ منورہ جنت البقیع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی کو مدفون کیا گیا ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  انتخاب و کاپی پیسٹ ۔ غلام محمد وامِق ۔

مظلومِ مدینہ = عثمان غنی = میں تاریخ سے لڑنا نہیں چاہتا ۔۔۔ اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 10 دن بند رہا تب بھی ٹھیک اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 7 دن بند رہا تب بھی ٹھیک، لیکن جب تاریخ کو چھیڑنے کے بجائے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے نظر آتاہے کہ اسلام کی تاریخ میں صرف حضرت حسینؓ کی ہی شھادت مظلومانہ یا دردناک نہیں بلکہ اگر ہم 10 محرم کی طرف جاتے ہوئے راستے میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شھادت دکھائی دیتی ہے جسمیں شہید ہونیوالے کا نام " حضرت عثمانؓ " ہے ۔۔۔ جی ہاں__ وہی عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں وہہ عثمان جسے ہم ناشر قرآن کہتے ہیں وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں وہی عثمانؓ جسکی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں وہی عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول اللہؐ کا دوہرا داماد کہتے ہیں خیر یہ باتیں تو آپکو طلبا و خطبا حضرات بتاتے رہتے ہیں ۔ کیونکہ حضرت عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی حضرت عثمانؓ کی سیرت تو بیان کیجاتی ہے حضرت عثمانؓ کی شرم حیا کے تذکرے تو کئے جاتے ہیں ان کے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے انکی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا انکی دردناک شھادت کا قصہ عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا میں کہتا ہوں کہ تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر عثمانؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی مظلومانہ شھادت کا ذکر کردیاجائے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بحرحال میں کوئی عالم یا خطیب نہیں لیکن اتنا جانتا ہوں کہ عثمانؓ وہ مظلوم تھا جسکا 40 دن تک پانی بند رکھا گیا، آج وہ عثمانؓ پانی کو ترس رہاہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتاتھا ۔ حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی ہے کوئی جو مجھے پانی پلائے ؟ حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو وہ مشکیزہ لے کر "عثمان ؓ کا ساقی بن کر پانی پلانے آنا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن ۔ ہائے ۔۔۔ آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا باغیوں نے حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑ جائے اور کل قیامت کے روز عثمانؓ، اللہ کو شکایت نا لگاسکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نہیں آیا ۔۔۔ کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا تو مدینہ میں عثمانؓ کا ساقی علیؓ تھا ۔ اُس عثمانؓ کو 40 دن ہوگئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے ، جو عثمانؓ مسجد نبوی کیلئے جگہ خریدا کرتاتھا ۔ آج وہ عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا جسکی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ جوق درجوق آیاکرتے تھے ۔ 40 دن گزر گئے اُس عثمانؓ کو کھانا نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ رسول اللّٰہ کی خدمت میں پیش کردیا کرتاتھا۔ آج اس عثمانؓ کی داڑھی کھینچی جارہی ہے جس عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیاکرتے تھے ۔ آج اس عثمانؓ پر ظلم کیا جارہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کا محافظ تھا ۔ آج اس عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ کے نام پر صحابہ کرام نے رسول اللّٰہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ ہائے عثمانؓ میں نقطہ دان نہیں میں عالم نہیں جو تیری شھادت کو بیان کروں تو دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہوجائیں ۔ آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کردیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا ۔ آج رسولِ اکرم کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جارہی ہیں 18 #ذی الحج 35 ھجری ہے جمعہ کا دن ہے حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور حضرت عثمانؓ کی داڑھی کھینچتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتاہے ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتاہے ایک تلوار نکالتا ہے حضرت عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیتاہے ، قرآن سامنے پڑا تھا خون قرآن پر گرتا ہے تو قران بھی حضرت عثمانؓ کی شھادت کا گواہ بن گیا ۔ عثمانؓ زمین پر گر پڑے تو باغی عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپؓ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں حضرت عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شھید ہوگئے ۔ اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی ۔ دیا خون #صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی:: مدینہ منورہ جنت البقیع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی کو مدفون کیا گیا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انتخاب و کاپی پیسٹ ۔ غلام محمد وامِق ۔

 جس نے بھی لکھا ہے کیا خوب لکھا ہے۔ کاپی پیسٹ۔




#مظلوم_مدینہ


میں تاریخ سے لڑنا نہیں چاہتا ۔۔۔ 


 اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 10 دن بند رہا تب بھی ٹھیک اگر تاریخ کہے حضرت حسینؓ کا پانی 7 دن بند رہا تب بھی ٹھیک، لیکن جب تاریخ کو چھیڑنے کے بجائے تاریخ کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے نظر آتاہے کہ اسلام کی تاریخ میں صرف حضرت حسینؓ کی ہی شھادت مظلومانہ یا دردناک نہیں بلکہ اگر ہم 10 محرم کی طرف جاتے ہوئے راستے میں 18 ذی الحج کی تاریخ پڑھیں تو ایک ایسی شھادت دکھائی دیتی ہے جسمیں شہید ہونیوالے کا نام        " حضرت عثمانؓ " ہے ۔۔۔ 


جی ہاں__ وہی عثمانؓ جنہیں ہم ذالنورین کہتے ہیں 

وہی عثمانؓ جسے ہم داماد مصطفیؐ کہتے ہیں 

وہہ عثمان جسے ہم ناشر قرآن کہتے ہیں 

وہی عثمانؓ جسے ہم خلیفہ سوئم کہتے ہیں 

وہی عثمانؓ جو حضرت علیؓ کی شادی کا سارا خرچہ اٹھاتے ہیں 

وہی عثمانؓ جسکی حفاظت کیلئے حضرت علیؓ اپنے بیٹے حضرت حسینؓ کو بھیجتے ہیں

وہی عثمانؓ جسے جناب محمد الرسول اللہؐ کا دوہرا داماد کہتے ہیں خیر یہ باتیں تو آپکو طلبا و خطبا حضرات بتاتے رہتے ہیں ۔ 

کیونکہ حضرت عثمانؓ کی شان تو بیان کی جاتی 

حضرت عثمانؓ کی سیرت تو بیان کیجاتی ہے 

حضرت عثمانؓ کی شرم حیا کے تذکرے تو کئے جاتے ہیں ان کے قبل از اسلام اور بعد از اسلام کے واقعات سنائے جاتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے انکی مظلومیت کو بیان نہیں کیا جاتا انکی دردناک شھادت کا قصہ  عوام کے سامنے نہیں لایاجاتا


میں کہتا ہوں کہ تاریخ کی چیخیں نکل جائیں اگر عثمانؓ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 کی مظلومانہ شھادت کا ذکر کردیاجائے ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


بحرحال میں کوئی عالم یا خطیب نہیں لیکن  اتنا جانتا ہوں کہ عثمانؓ وہ مظلوم تھا جسکا 40 دن تک پانی بند رکھا گیا، آج وہ عثمانؓ پانی کو ترس رہاہے جو کبھی امت کیلئے پانی کے کنویں خریدا کرتاتھا ۔ 


حضرت عثمانؓ قید میں تھے تو پیاس کی شدت سے جب نڈھال ہوئے تو آواز لگائی ہے کوئی جو مجھے پانی پلائے ؟ 

حضرت علیؓ کو پتہ چلا تو وہ مشکیزہ لے کر  "عثمان ؓ  کا ساقی بن کر پانی پلانے آنا چاہتے ہیں ۔۔۔ لیکن ۔ 


ہائے ۔۔۔ آج کربلا میں علی اصغر پر برسنے والے تیروں کا ذکر تو ہوتا ہے لیکن حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر برسنے والے تیروں کا ذکر نہیں ہوتا باغیوں نے حضرت علیؓ کے مشکیزہ پر تیر برسانے شروع کئے تو علیؓ نے اپنا عمامہ ہوا میں اچھالا تاکہ عثمانؓ کی نظر پڑ جائے اور کل قیامت کے روز عثمانؓ، اللہ کو شکایت نا لگاسکے کہ اللہ میرے ہونٹ جب پیاسے تھے تو تیری مخلوق سے مجھے کوئی پانی پلانے نہیں آیا ۔۔۔ 


کربلا میں حسینؓ کا ساقی اگر عباس تھا 

تو مدینہ میں  عثمانؓ کا ساقی علیؓ تھا ۔ 


اُس عثمانؓ کو 40 دن ہوگئے ایک گھر میں بند کیئے ہوئے ، جو عثمانؓ مسجد نبوی کیلئے جگہ خریدا کرتاتھا ۔ 


آج وہ عثمانؓ کسی سے ملاقات نہیں کرسکتا جسکی محفل میں بیٹھنے کیلئے صحابہ جوق درجوق آیاکرتے تھے ۔ 


40 دن گزر گئے اُس عثمانؓ کو کھانا نہیں ملا جو اناج سے بھرے اونٹ رسول اللّٰہ کی خدمت میں پیش کردیا کرتاتھا۔


آج اس عثمانؓ کی داڑھی کھینچی جارہی ہے جس عثمان سے آسمان کے فرشتے بھی حیاکرتے تھے ۔ 


آج اس عثمانؓ پر ظلم کیا جارہا ہے جو کبھی غزوہ احد میں حضور نبی کریمؐ کا محافظ تھا ۔ 


آج اس عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیا گیا جس ہاتھ کے نام پر صحابہ کرام نے رسول اللّٰہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی ۔ 


ہائے عثمانؓ میں نقطہ دان نہیں میں عالم نہیں جو تیری شھادت کو بیان کروں تو دل پھٹ جائیں آنکھیں نم ہوجائیں ۔  


آج اس عثمانؓ کے جسم پر برچھی مار کر لہو لہان کردیا گیا جس عثمان نے بیماری کی حالت میں بھی بغیر کپڑوں کے کبھی غسل نہ کیا تھا ۔ 


آج رسولِ اکرم کی 2 بیٹیوں کے شوہر کو ٹھوکریں ماری جارہی ہیں


18 #ذی الحج 35 ھجری ہے جمعہ کا دن ہے حضرت عثمانؓ روزہ کی حالت میں ہیں باغی دیوار پھلانگ کر آتے ہیں اور حضرت عثمانؓ کی داڑھی کھینچتے ہیں برا بھلا کہتے ہیں ایک باغی پیٹھ پر برچھی مارتاہے ایک باغی لوہے کا آہنی ہتھیار سر پر مارتاہے ایک تلوار نکالتا ہے حضرت عثمانؓ کا ہاتھ کاٹ دیتاہے ، قرآن سامنے پڑا تھا خون قرآن پر گرتا ہے تو قران بھی حضرت عثمانؓ کی شھادت کا گواہ بن گیا ۔ 


 عثمانؓ زمین پر گر پڑے تو باغی عثمانؓ کو ٹھوکریں مارنے لگے جس سے آپؓ کی پسلیاں تک ٹوٹ گئیں حضرت عثمانؓ باغیوں کے ظلم سے شھید ہوگئے ۔ 


اسلام وہ شجر نہیں جس نے پانی سے غذا پائی ۔ 

دیا خون #صحابہؓ نے پھر اس میں بہار آئی::


مدینہ منورہ جنت البقیع میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی کو مدفون کیا گیا ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

انتخاب و کاپی پیسٹ ۔ غلام محمد وامِق ۔


رسول اکرم  کی اپنی نواسی  " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔

رسول اکرم کی اپنی نواسی " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔ ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔




 رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم ، کی اپنی نواسی  " امامہ بنت ابوالعاص" ( حضرت بی بی زینب رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کی بیٹی ) سے محبت کا عالم ۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں ۔

ان احادیث کو شاید ہی کوئی عالِم بیان کرتا ہو ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

تاریخ ۔ 25 جون سال  2024ء 


آرمی پبلک اسکول پشاور پر کئے گئے دہشت گرد حملے میں شہید 134 بچوں کے نام ۔ نظم ۔          غلام محمد وامِق   وہ معصوم کلیاں ، وہ معصوم بچّے ۔  جنہیں اُن کے اسکول میں مار ڈالا ۔   پشاور جو تھا ایک شہرِ گلستاں ۔  اُسے وحشیوں نے کیا تَہ و بالا ۔   ہاں بے شک ہوئی گود ماؤں کی خالی ۔  مگر اّن کو جنّت کی حوروں نے پالا ۔ #   #۔ مورخہ 16 دسمبر سال 2014ء کو سانحہ پشاور پر کہے گئے اشعار ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فعولن فعولن فعولن فعولن ۔   بحر۔ متقارب مثمن سالم ۔  شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

آرمی پبلک اسکول پشاور پر کئے گئے دہشت گرد حملے میں شہید 134 بچوں کے نام ۔ نظم ۔ غلام محمد وامِق وہ معصوم کلیاں ، وہ معصوم بچّے ۔ جنہیں اُن کے اسکول میں مار ڈالا ۔ پشاور جو تھا ایک شہرِ گلستاں ۔ اُسے وحشیوں نے کیا تَہ و بالا ۔ ہاں بے شک ہوئی گود ماؤں کی خالی ۔ مگر اّن کو جنّت کی حوروں نے پالا ۔ # #۔ مورخہ 16 دسمبر سال 2014ء کو سانحہ پشاور پر کہے گئے اشعار ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فعولن فعولن فعولن فعولن ۔ بحر۔ متقارب مثمن سالم ۔ شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

 آرمی پبلک اسکول پشاور پر کئے گئے دہشت گرد حملے میں شہید 134 بچوں کے نام ۔ نظم ۔ 

        غلام محمد وامِق 


وہ معصوم کلیاں ، وہ معصوم بچّے ۔ 

جنہیں اُن کے اسکول میں مار ڈالا ۔ 


پشاور جو تھا ایک شہرِ گلستاں ۔ 

اُسے وحشیوں نے کیا تَہ و بالا ۔ 


ہاں بے شک ہوئی گود ماؤں کی خالی ۔ 

مگر اّن کو جنّت کی حوروں نے پالا ۔ # 


#۔ مورخہ 16 دسمبر سال 2014ء کو سانحہ پشاور پر کہے گئے اشعار ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

فعولن فعولن فعولن فعولن ۔ 

 بحر۔ متقارب مثمن سالم ۔ 

شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  


===  دو اشعار  ===  غلام محمد وامِق   1. ایک لمحے کی سزا ہوتی ہے صدیوں پہ مُحیط ۔  ہر گھڑی غور کرو اور ہو لمحوں پہ نظر ۔   2. اپنے کاندھوں پہ صلیب اپنی اٹھائے رکھنا ۔         تم کو مصلوب کیا جائے گا                دیکھو در در ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔  بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔   فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔  بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع  شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

=== دو اشعار === غلام محمد وامِق 1. ایک لمحے کی سزا ہوتی ہے صدیوں پہ مُحیط ۔ ہر گھڑی غور کرو اور ہو لمحوں پہ نظر ۔ 2. اپنے کاندھوں پہ صلیب اپنی اٹھائے رکھنا ۔ تم کو مصلوب کیا جائے گا دیکھو در در ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔ بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

 ===  دو اشعار  === 

غلام محمد وامِق 


1. ایک لمحے کی سزا ہوتی ہے صدیوں پہ مُحیط ۔ 

ہر گھڑی غور کرو اور ہو لمحوں پہ نظر ۔ 


2. اپنے کاندھوں پہ صلیب اپنی اٹھائے رکھنا ۔ 

       تم کو مصلوب کیا جائے گا دیکھو در در ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلات ۔ 

بحر۔ رمل مثمن سالم مخبون محذوف ۔ 


فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعلن ۔ 

بحر ۔ رمل مثمن مخبون محذوف مقطوع 

شاعر۔ غلام محمد وامِق ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  = خاموش ہمیں کرنے کو آئے ہیں ستمگر ۔  خاموش کبھی رہ نہیں سکتے ہیں سخن ور ۔   حشرات کے کھانے کو بہت رزق ہے لیکن ۔  انسان کے سینے میں ہے افلاس کا خنجر ۔   چالاک بہت تھا ہوا آخر وہ گرفتار ۔  غافل جو پرندہ ہوا صیّاد سے پل بھر ۔   دریا میں بنانا ہے ہمیں راستہ خود ہی ۔  دیتی نہیں پانی کی یہ دیواریں کبھی در ۔   آسانی سے ملتا ہی نہیں گوہرِ مقصود ۔  حق کے لئے وامِق یہاں لڑنا ہے مقدّر ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔  بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔  مئی سال 1992ء میں کہی گئی غزل ۔  نظرِ ثانی ۔ 3 جون سال 2024ء

= خاموش ہمیں کرنے کو آئے ہیں ستمگر ۔ خاموش کبھی رہ نہیں سکتے ہیں سخن ور ۔ حشرات کے کھانے کو بہت رزق ہے لیکن ۔ انسان کے سینے میں ہے افلاس کا خنجر ۔ چالاک بہت تھا ہوا آخر وہ گرفتار ۔ غافل جو پرندہ ہوا صیّاد سے پل بھر ۔ دریا میں بنانا ہے ہمیں راستہ خود ہی ۔ دیتی نہیں پانی کی یہ دیواریں کبھی در ۔ آسانی سے ملتا ہی نہیں گوہرِ مقصود ۔ حق کے لئے وامِق یہاں لڑنا ہے مقدّر ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔ بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مئی سال 1992ء میں کہی گئی غزل ۔ نظرِ ثانی ۔ 3 جون سال 2024ء

 ===   غزل    === 

غلام محمد وامِق 


خاموش ہمیں کرنے کو آئے ہیں ستمگر ۔ 

خاموش کبھی رہ نہیں سکتے ہیں سخن ور ۔ 


حشرات کے کھانے کو بہت رزق ہے لیکن ۔ 

انسان کے سینے میں ہے افلاس کا خنجر ۔ 


چالاک بہت تھا ہوا آخر وہ گرفتار ۔ 

غافل جو پرندہ ہوا صیّاد سے پل بھر ۔ 


دریا میں بنانا ہے ہمیں راستہ خود ہی ۔ 

دیتی نہیں پانی کی یہ دیواریں کبھی در ۔ 


آسانی سے ملتا ہی نہیں گوہرِ مقصود ۔ 

حق کے لئے وامِق یہاں لڑنا ہے مقدّر ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن ۔ 

بحر ۔ ہزج مثمن اخرب مکفوف محذوف ۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مئی سال 1992ء میں کہی گئی غزل ۔ 

نظرِ ثانی ۔ 3 جون سال 2024ء

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


Powered by Blogger.