سام ـ حام ـ یافث = کیا واقعی موجودہ دنیا کے جدِ اعلیٰ یہ ہی تھے؟ ....... ـــــــــــــــــــــــــــ از قلم ـ غلام محمد وامِق ... ایک انتہائی غور طلب مسئلہ ـ ( علمی عقلی منطقی تجزیہ) عام طور پر قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ـ جب حضرت نوح علیہ السلام اپنی سینکڑوں سالہ مسلسل تبلیغ کی ناکامی اور اپنی قوم کے کفر سے بیزار ہوگئے تو قرآنِ کریم کے مطابق " پس اُس نے اپنے رب سے دعا کی، میں بے بس ہوں، تُو میری مدد فرما ( سورۃ القمر، آیت نمبر ۱۰) ـ تب اس نے اللہ کے حکم سے بہت بڑی کشتی بنائی اور وقتِ مقررہ پر اس میں ہر ذی روح جانور کا جوڑا رکھا، کشتی میں حضرت نوح کے ساتھ اسّی (۸۰) مومن افراد اور نوح کے تین بیٹے، سام ـ حام اور یافث، بھی تھے ـ واضح ہوکہ ان تینوں بیٹوں کے نام اور تفصیل اسرائیلیات ( اسرائیلی روایات) میں تو ملتے ہیں، لیکن قرآنِ کریم میں نہیں ہے ـ قرآنِ کریم میں فقط نوح کے ایک نافرمان بیٹے کا ذکر ملتا ہے جو ایمان نہیں لایا تھا، اس نافرمان بیٹے کا نام بھی اسرائیلی روایات میں " کنعان " بتایا گیا ہے، نہ صرف بیٹا بلکہ نوح کی بیوی بھی ایمان نہیں لائی تھی، لہٰذا وہ دونوں طوفانِ نوح میں ہلاک ہوگئے تھے ـ ہمارا مقصد طوفانِ نوح یا اس کے اسباب پر بحث کرنا نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کا تنقیدی اور منطقی جائزہ لینا ہے کہ کیا حضرت نوح کے صرف مذکورہ تین بیٹے ہی تھے؟ اور کیا موجودہ دنیا ان تینوں کی نسل سے ہی ہے؟ ـافسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے تمام جدید اور قدیم علماء نے بار بار، اور ہر مقام پر یہ ہی بات بیان کی ہے، جوکہ مکمل طور پر اسرائیلیات سے اخذ کردہ ہے ـ اور جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر شخصیت پرستی کا رجحان رہا ہے، لہٰذا اگر کسی معروف عالم نے اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق کوئی بات کہدی یا کوئی نظریہ پیش کردیا تو پھر بعد میں آنے والے علماء بھی اس مسئلے پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ـ اور اندازِ بیاں تبدیل کرکے وہی روایات اپنی کتب میں آگے نقل کردیتے ہیں، جسے تحقیق ہرگز نہیں کہا جاسکتا البتہ ایسے عمل کو تقلید کہا جائے گا ـ آئیے اب ہم مذکورہ روایات کا منطقی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں ـ بعض اسرائیلی روایات کے مطابق بیان کیا جاتا ہے کہ، حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار اسی (۸۰) افراد طوفان سے صحیح سلامت بچنے کے چند روز بعد انتقال کرگئے تھے، اس لئے نوح کے ان تین بیٹوں سے ہی دنیا دوبارہ آباد ہوئی ہے ـ اس تناظر میں چند سوالات لازمی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ـ جوکہ درج ذیل ہیں ..... ۱. اگر ان تمام افراد کو کشتی سے اترتے ہی اللہ نے ماردینا تھا تو پھر ان کے لئے کشتی میں سوار کرنے کا حکم ہی کیوں دیا گیا ـ؟ ۲. اگر وہ سارے لوگ جن میں خواتین بھی شامل تھیں مرگئے، تو پھر نوح کے ان تین بیٹوں نے بغیر عورتوں کے اولاد کیسے پیدا کیں ـ؟ اب یہ کہنا تو مضحکہ خیز ہے کہ مرد مرگئے ہوں گے، عورتیں زندہ بچ گئیں ـ ۳. بعض روایات کے مطابق وہ تمام لوگ ( جن کی تعداد اسی بتائی گئی ہے، یہ کوئی مستند نہیں ہے، ان کی تعداد سینکڑوں بھی ہوسکتی ہے) مرے نہیں تھے بلکہ زندہ تھے تو پھر ان سے نسل آگے کیوں نہیں چلی؟ ـ ۴. حضرت نوح قرآنِ کریم کے مطابق ساڑھے نوسو سال زندہ رہے تھے، تو کیا اتنی طویل عمر میں انہوں نے فقط ایک ہی شادی کی تھی؟ اور وہ بھی ان سے جو منکرِ دین تھی اور طوفان میں مرگئی تھی، ان کی موجودگی میں یا پھر بعد میں حضرت نوح نے کوئی دوسری شادی کیوں نہیں کی؟ ـکیا قدیم زمانے میں فقط ایک ہی شادی کی جاتی تھی؟ جب کہ ہم اپنے اسلاف و اکابرین اور بزرگانِ دین کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کئی کئی شادیاں کیں ـ خلفائے راشدین نے بھی دو دو تین تین شادیاں کیں، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روایات کے مطابق نو ( ۹) شادیاں کیں، جن سے کم و بیش تیس بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے ـ ہمارے موجودہ دور میں بھی اکثر لوگ متعدد بیویاں رکھنے کے شوقین ہیں، اور سعودی عرب کے حکمرانوں کی بھی متعدد شادیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں اولادیں ہیں ـ قدیم دور میں تو ازواج رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی ـ اور حضرت نوح کا زمانہ تو دنیا کا ابتدائی دور تھا، اس زمانے میں کوئی زنانہ مردانہ بیماریاں بھی نہیں تھیں، اور انسان مکمل طور پر طاقتور ہوتا تھا، اور اس کے تقاضے بھی سوفیصد بھرپور ہوتے تھے، غاروں میں رہتے تھے، تو ایسی صورت میں یہ کہنا کہ بنی نوع انسان کے بابا ( آدمِ ثانی) کی فقط ایک بیوی (وہ بھی مرگئی تھی) اور صرف چار بیٹے تھے ( بیٹیاں بھی نہیں تھیں) ایک غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے اور تاریخی حقائق کے ساتھ ظلم ہے، جب کہ آدمِ اول کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں ہر روز صبح کو بیٹا اور شام کو بیٹی پیدا ہوتی تھی ـ ( واللہ اعلم بالصواب) ـ ۵. سام، حام، یافث، کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ تینوں بھائی دنیا کے الگ الگ براعظموں میں جاکر آباد ہوئے، چنانچہ سام کی اولاد یورپ، مشرقِ وسطیٰ، ایران، ہندوستان، میں آباد ہیں، اور اسی لئے انہیں سامی نسل کہا جاتا ہے ـ حام کی اولاد سیاہ فام لوگ ہیں، جوکہ افریقہ و حبشہ وغیرہ میں آباد ہیں، دیگر سیاہ فام اقوام کو بھی حام کی نسل بتایا جاتا ہے ـ جب کہ یافث کی نسل میں سفید فام لوگ، ترک، اور منگول نسل کے لوگ ( یاجوج ماجوج) شامل کئے جاتے ہیں ـ۶. سوچنے کی بات یہ ہے کہ روایات کے بقول دنیا بھر میں اس وقت فقط چار افراد تھے، یعنی حضرت نوح اور اس کے مذکورہ تین بیٹے، اور اگر مزید وسعتِ نظری سے دیکھ لیں تو مزید اسی (۸۰) افراد کو شامل کرکے کُل چوراسی افراد بنتے ہیں ـ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے کرہء ارض پر صرف چوراسی افراد ہوں ( پتھر کا زمانہ ہو، غاروں میں رہائش ہو، درندوں اور خوفناک جانوروں سے بھی مقابلہ ہو) تو ایسے میں وہ بھی ایک دوسرے سے دور دنیا کے مختلف خطوں میں جاکر آباد ہوجائیں؟ ـ ۷. ابنِ آدم کو معاشرتی حیوان کہا گیا ہے، اس کی فطرت میں مل جل کر اور معاشرہ بنا کر رہنا شامل کیا گیا ہے، چنانچہ ایسی قلتِ افراد کی صورت میں انسانی فطرت قریب قریب اور مِل کر رہنا پسند کرتی ہے ـ ایسے دور میں یہ خیال کرنا کہ پوری دنیا میں موجود فقط چند افراد ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور جاکر آباد ہوجائیں گے ( دُور بھی اتنا کہ جہاں پہنچنے کے لئے آج کے ترقی یافتہ جدید زمانے میں بھی ہوائی جہازوں کے ذریعے کئی کئی دن لگ جاتے ہیں) عقل سے بعید اور احمقانه خیال ہے ـ میرے نزدیک یہ تمام اسرائیلی روایات غلط اور جھوٹ پر مبنی ہیں ـ اور میں نے اپنی سوچ کے مطابق منطقی حقائق بیان کردئے ہیں، اب آپ انہیں تسلیم کریں یا نہ کریں یہ آپ کی اپنی مرضی ہے ـ وما علینا الی البلاغ المبین ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــتحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ مورخہ دس (۱۰) مئی سال ۲۰۲۲ ء ـ بروز منگل ـ
Gm Wamiq Toor
12:55 PM
0 Comment
سام ـ حام ـ یافث ـ کیا واقعی پوری دنیا ان سے ہی آگے بڑھی ہے ؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ از قلم ـ غلام محمد وامِق ...
ایک انتہائی غور طلب مسئلہ ـ ( علمی عقلی منطقی تجزیہ)
عام طور پر قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ـ جب حضرت نوح علیہ السلام اپنی سینکڑوں سالہ مسلسل تبلیغ کی ناکامی اور اپنی قوم کے کفر سے بیزار ہوگئے تو قرآنِ کریم کے مطابق " پس اُس نے اپنے رب سے دعا کی، میں بے بس ہوں، تُو میری مدد فرما ( سورۃ القمر، آیت نمبر ۱۰) ـ تب اس نے اللہ کے حکم سے بہت بڑی کشتی بنائی اور وقتِ مقررہ پر اس میں ہر ذی روح جانور کا جوڑا رکھا، کشتی میں حضرت نوح کے ساتھ اسّی (۸۰) مومن افراد اور نوح کے تین بیٹے، سام ـ حام اور یافث، بھی تھے ـ واضح ہوکہ ان تینوں بیٹوں کے نام اور تفصیل اسرائیلیات ( اسرائیلی روایات) میں تو ملتے ہیں، لیکن قرآنِ کریم میں نہیں ہے ـ قرآنِ کریم میں فقط نوح کے ایک نافرمان بیٹے کا ذکر ملتا ہے جو ایمان نہیں لایا تھا، اس نافرمان بیٹے کا نام بھی اسرائیلی روایات میں " کنعان " بتایا گیا ہے، نہ صرف بیٹا بلکہ نوح کی بیوی بھی ایمان نہیں لائی تھی، لہٰذا وہ دونوں طوفانِ نوح میں ہلاک ہوگئے تھے ـ
ہمارا مقصد طوفانِ نوح یا اس کے اسباب پر بحث کرنا نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کا تنقیدی اور منطقی جائزہ لینا ہے کہ کیا حضرت نوح کے صرف مذکورہ تین بیٹے ہی تھے؟ اور کیا موجودہ دنیا ان تینوں کی نسل سے ہی ہے؟ ـ
افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے تمام جدید اور قدیم علماء نے بار بار، اور ہر مقام پر یہ ہی بات بیان کی ہے، جوکہ مکمل طور پر اسرائیلیات سے اخذ کردہ ہے ـ اور جیسا کہ ہمارے ہاں عام طور پر شخصیت پرستی کا رجحان رہا ہے، لہٰذا اگر کسی معروف عالم نے اپنے ذہن اور سوچ کے مطابق کوئی بات کہدی یا کوئی نظریہ پیش کردیا تو پھر بعد میں آنے والے علماء بھی اس مسئلے پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے ـ اور اندازِ بیاں تبدیل کرکے وہی روایات اپنی کتب میں آگے نقل کردیتے ہیں، جسے تحقیق ہرگز نہیں کہا جاسکتا البتہ ایسے عمل کو تقلید کہا جائے گا ـ
آئیے اب ہم مذکورہ روایات کا منطقی و تحقیقی جائزہ لیتے ہیں ـ بعض اسرائیلی روایات کے مطابق بیان کیا جاتا پے کہ، حضرت نوح کے ساتھ کشتی میں سوار اسی (۸۰) افراد طوفان سے صحیح سلامت بچنے کے چند روز بعد انتقال کرگئے تھے، اس لئے نوح کے ان تین بیٹوں سے ہی دنیا دوبارہ آباد ہوئی ہے ـ اس تناظر میں چند سوالات لازمی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ـ جوکہ درج ذیل ہیں .....
۱. اگر ان تمام افراد کو کشتی سے اترتے ہی اللہ نے ماردینا تھا تو پھر ان کے لئے کشتی میں سوار کرنے کا حکم ہی کیوں دیا گیا ـ؟
۲. اگر وہ سارے لوگ جن میں خواتین بھی شامل تھیں مرگئے، تو پھر نوح کے ان تین بیٹوں نے بغیر عورتوں کے اولاد کیسے پیدا کیں ـ؟ اب یہ کہنا تو مضحکہ خیز ہے کہ مرد مرگئے ہوں گے، عورتیں زندہ بچ گئیں ـ
۳. بعض روایات کے مطابق وہ تمام لوگ ( جن کی تعداد اسی بتائی گئی ہے، یہ کوئی مستند نہیں ہے، ان کی تعداد سینکڑوں بھی ہوسکتی ہے) مرے نہیں تھے بلکہ زندہ تھے تو پھر ان سے نسل آگے کیوں نہیں چلی؟ ـ
۴. حضرت نوح قرآنِ کریم کے مطابق ساڑھے نوسو سال زندہ رہے تھے، تو کیا اتنی طویل عمر میں انہوں نے فقط ایک ہی شادی کی تھی؟ اور وہ بھی ان سے جو منکرِ دین تھی اور طوفان میں مرگئی تھی، ان کی موجودگی میں یا پھر بعد میں حضرت نوح نے کوئی دوسری شادی کیوں نہیں کی؟ ـ
کیا قدیم زمانے میں فقط ایک ہی شادی کی جاتی تھی؟ جب کہ ہم اپنے اسلاف و اکابرین اور بزرگانِ دین کو دیکھتے ہیں کہ انہوں نے کئی کئی شادیاں کیں ـ خلفائے راشدین نے بھی دو دو تین تین شادیاں کیں، اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی روایات کے مطابق نو ( ۹) شادیاں کیں، جن سے کم و بیش تیس بیٹے بیٹیاں پیدا ہوئے ـ ہمارے موجودہ دور میں بھی اکثر لوگ متعدد بیویاں رکھنے کے شوقین ہیں، اور سعودی عرب کے حکمرانوں کی بھی متعدد شادیاں اور سینکڑوں کی تعداد میں اولادیں ہیں ـ قدیم دور میں تو ازواج رکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی ـ اور حضرت نوح کا زمانہ تو دنیا کا ابتدائی دور تھا، اس زمانے میں کوئی زنانہ مردانہ بیماریاں بھی نہیں تھیں، اور انسان مکمل طور پر طاقتور ہوتا تھا، اور اس کے تقاضے بھی سوفیصد بھرپور ہوتے تھے، غاروں میں رہتے تھے، تو ایسی صورت میں یہ کہنا کہ بنی نوع انسان کے بابا ( آدمِ ثانی) کی فقط ایک بیوی (وہ بھی مرگئی تھی) اور صرف چار بیٹے تھے ( بیٹیاں بھی نہیں تھیں) ایک غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے اور تاریخی حقائق کے ساتھ ظلم ہے، جب کہ آدمِ اول کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کے ہاں ہر روز صبح کو بیٹا اور شام کو بیٹی پیدا ہوتی تھی ـ ( واللہ اعلم بالصواب) ـ
۵. سام، حام، یافث، کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ تینوں بھائی دنیا کے الگ الگ براعظموں میں جاکر آباد ہوئے، چنانچہ سام کی اولاد یورپ، مشرقِ وسطیٰ، ایران، ہندوستان، میں آباد ہیں، اور اسی لئے انہیں سامی نسل کہا جاتا ہے ـ حام کی اولاد سیاہ فام لوگ ہیں، جوکہ افریقہ و حبشہ وغیرہ میں آباد ہیں، دیگر سیاہ فام اقوام کو بھی حام کی نسل بتایا جاتا ہے ـ جب کہ یافث کی نسل میں سفید فام لوگ، ترک، اور منگول نسل کے لوگ ( یاجوج ماجوج) شامل کئے جاتے ہیں ـ
۶. سوچنے کی بات یہ ہے کہ روایات کے بقول دنیا بھر میں اس وقت فقط چار افراد تھے، یعنی حضرت نوح اور اس کے مذکورہ تین بیٹے، اور اگر مزید وسعتِ نظری سے دیکھ لیں تو مزید اسی (۸۰) افراد کو شامل کرکے کُل چوراسی افراد بنتے ہیں ـ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ پورے کرہء ارض پر صرف چوراسی افراد ہوں ( پتھر کا زمانہ ہو، غاروں میں رہائش ہو، درندوں اور خوفناک جانوروں سے بھی مقابلہ ہو) تو ایسے میں وہ بھی ایک دوسرے سے دور دنیا کے مختلف خطوں میں جاکر آباد ہوجائیں؟ ـ
۷. ابنِ آدم کو معاشرتی حیوان کہا گیا ہے، اس کی فطرت میں مل جل کر اور معاشرہ بنا کر رہنا شامل کیا گیا ہے، چنانچہ ایسی قلتِ افراد کی صورت میں انسانی فطرت قریب قریب اور مِل کر رہنا پسند کرتی ہے ـ
ایسے دور میں یہ خیال کرنا کہ پوری دنیا میں موجود فقط چند افراد ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور جاکر آباد ہوجائیں گے ( دُور بھی اتنا کہ جہاں پہنچنے کے لئے آج کے ترقی یافتہ جدید زمانے میں بھی ہوائی جہازوں کے ذریعے کئی کئی دن لگ جاتے ہیں) عقل سے بعید اور احمقانه خیال ہے ـ
میرے نزدیک یہ تمام اسرائیلی روایات غلط اور جھوٹ پر مبنی ہیں ـ اور میں نے اپنی سوچ کے مطابق منطقی حقائق بیان کردئے ہیں، اب آپ انہیں تسلیم کریں یا نہ کریں یہ آپ کی اپنی مرضی ہے ـ وما علینا الی البلاغ المبین ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
مورخہ دس (۱۰) مئی سال ۲۰۲۲ ء ـ بروز منگل ـ
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ــ عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی .. ( علامہ اقبال) ایک علمی و منطقی تجزیہ === از ـ غلام محمد وامِق ـ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مخصوص سوچ کے اکثر لوگ علامہ کے مذکورہ شعر کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کو " حق " تک پہنچنے لے لئے عقل و دانائی کی نہیں بلکہ جذباتِ عشق کی ضرورت ہوتی ہے ـ لیکن میرے خیال اور منطق کے مطابق ایسا ہرگز نہیں ہے ـ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ شاعری ہے اور شاعری کوئی دلیل نہیں ہوتی ـ شاعری کسی کی بھی ہو ہمیشہ مبالغہ آمیزی پر مبنی ہوتی ہے، اور شاعر ایک ہی غزل میں کئی متضاد باتیں بیان کرتا ہے ــ خود اقبال نے اکثر ایسا کیا ہے، اہلِ علم اس بات کو جانتے ہیں، حوالے دینے کی ضرورت نہیں ـ بہت سے اشعار اقبال کے عقل و دانش، تدبر و حکمت کے موضوع پر بھی ہیں ـ اور ایک طویل جذباتی قصیدہ علامہ صاحب نے اس وقت کی ملکہ برطانیہ " وکٹوریہ " کی شان میں بھی کہا تھا، جس میں ملکہ کی حددرجہ مدح سرائی کی گئی تھی، جسے بعدازاں انہوں نے کسی مصلحت کی بنا پر، یعنی عقل کو مدنظر رکھتے ہوئے، اور حکمتِ عملی کی بنا پر، اسے اپنی کسی بھی کتاب میں شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا، اگر علامہ اقبال کی تمام شاعری کو مبالغہ آمیزی کی بجائے حقیقت مان لیا جائے تو پھر اس مشہور شعر کی وضاحت کیسے ہوگی؟ ـ اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے ـ گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا ـ مذکورہ شعر کے مطابق تو اقبال کے کردار و گفتار میں فرق تھا، یعنی جو وہ کہتے تھے، وہ کرتے نہیں تھے؟ ــ مزید یہ کہ علامہ اقبال کی پہلی تصنیف شاعری یا عشق پر نہیں تھی، بلکہ عقل و دانش سے بھرپور نثر تھی، اور اس کا موضوع تھا "علم الاقتصاد " علامہ اقبال نے اپنے دیگر نثری مضامین و خطوط میں بھی اکثر باتیں عقل اور حکمت پر مبنی کی ہیں، اسی لئے انہیں " حکیم الامت " کہا جاتا ہے، عاشق الامت نہیں کہا جاتا ـ میرا مقصد علامہ صاحب پر تنقید کرنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ خالی جذبات کسی بھی مسئلے کے حل کرنے میں معاون نہیں ہوتے بلکہ مضر ہوتے ہیں، اور کسی بھی الجھے مسئلے کو سلجھانے کے لئے عقل اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ کسی بھی قسم کے جذبات کی ـ البتہ جزبات کسی بھی عمل پر فوری ردّعمل دیتے ہیں ـ جنہیں اگر بر وقت کنٹرول نہ کیا جائے تو بڑے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ـ یہ ہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں بھی بار بار عقل و حکمت، غور و فکر اور تدبر اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے، قرآن نے کئی مقامات پر " یا اولوالالباب " کہ کر خطاب کیا ہے، اور جذباتی تصورات، اور اپنے ذہنی خیالات و خواہشات کو ترک کردینے کا حکم دیا ہے، اور یہ ہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں کہیں پر بھی لفظ " عشق " استعمال نہیں کیا گیا، اور نہ ہی احادیث میں لفظ عشق استعمال ہوا ہے، اس کے بجائے قرآن و احادیث میں لفظ " محبت " الفت چاہت اور پیار استعمال کیا گیا ہے، البتہ لفظ عشق کو ہمارے شعراء اور صوفیاء نے بہت زیادہ استعمال کیا ہے ـ اور مذکورہ شعر میں بھی مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہے، کہ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ـ درحقیقت آتشِ نمرود میں حضرت ابراہیم نے خود اپنے شوق اور جذبے سے چھلانگ نہیں لگائی تھی، یا وہ اپنی مرضی سے آگ میں نہیں کُودا تھا بلکہ اسے تو بادشاہ نمرود کے اہلکاروں نے زبردستی اٹھا کر منجنیق نما مشینوں کے ذریعے دور سے بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا تھا ـ حضرت ابراہیم نے کسی جذباتی فیصلے کے تحت خود آگ میں چھلانگ نہیں لگائی، آپ نے تو اپنی ذہنی عقل و فراست سے کام لے کر ستاروں، چاند اور سورج کو دیکھ کر اور اللہ کی مزید نشانیاں ملاحظہ فرماکر توحیدِ الٰہی کو سمجھا تھا اور یہ سبق اپنے والد اور قوم کو بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی، مزید اپنی دانش و عقل کو کام میں لاکر قرآنِ کریم کے مطابق مشرکین کو سمجھانے کے لئے ایک خاص موقع پر بت خانے کے تمام بت توڑ دئے اور بڑا بت چھوڑ دیا اور اپنا کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا، اور قوم کو کہا کہ اس بڑے بت سے پوچھو کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ شاید خود اسی نے یہ کام کیا ہے، کیوں کہ کلہاڑا تو اسی کے کندھے پر ہے ـ جسے سن کر اس کے باپ آزر اور قوم نے کہا کہ یہ بت ایسا کام کیسے کرسکتا ہے، یہ تو خود سے حرکت بھی نہیں کرسکتا، یہ تو پتھر ہے اسے کیا معلوم؟ ـ اور یوں حضرت ابراہیم نے انہیں حقیقی خدا کی تعلیم سمجھائی ـ مگر وہ اپنے بتوں سے اندھی عقیدت رکھتے تھے "یعنی انہیں بتوں سے عشق تھا " جس کے باعث انہوں نے کچھ بھی عقل کی بات ماننے سے انکار کردیا، اور اس کے باپ " آزر " نے بتوں کے عشق میں اندھا ہوکر اپنے ہی بیٹے کو گھر سے نکال دیا اور قطع تعلق کرلیا، جس کے بعد حضرت ابراہیم نے انہیں عقلی دلیل سے بات سمجھانے کے لئے مذکورہ بالا عقلی کاروائی کی ، جس کے نتیجے میں انہیں زبردستی آگ میں پھینک دیا گیا، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا، جس کے بعد وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر وادیء بے آب و گِیاہ، یعنی مکہ کی طرف ہجرت کرگئے ـ بہرحال یہ طویل قصہ ہے اور اس میں کہیں پر بھی جذباتی باتوں سے کام نہیں لیا گیا ـ مزید علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا اصل نام " تارح " تھا، اسے آزر اس لئے کہا جاتا تھا کہ جس بت سے اسے اندھا عشق تھا اور جس کی وہ پوجا کیا کرتا تھا اس بت کا نام " آزر " تھا، اور بت سے اسی عشقیہ نسبت کی بنا پر اسے بھی آزر کے نام سے پکارا جانے لگا ـ ( والله اعلم باالصواب) ـ مزید یہ واضح ہونا چاہئے کہ جدید ماہرینِ نفسیات کے مطابق عشق ایک نفسیاتی مرض ہے، جس کا نفسیاتی معالج (سائیکاٹرسٹ ڈاکٹرز) باقائدہ علاج کرتے ہیں، یعنی آج کے زمانے میں عشق کا دواؤں کے ذریعے علاج ممکن ہے، مرزا غالب نے آج سے تقریباﹰ ڈیڑھ سوسال قبل ہی اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا اور یہ کہہ دیا تھا کہ ـ کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا ـ مزید یہ کہ عشق جذباتی کیفیت کا نام ہے، اور جذبات میں آدمی ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے ـ عشق عجلت پسند ہوتا ہے، اس میں صبر و تحمل نہیں ہوتا ـ عشق میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، جب کہ عقل میں دلیل ہوتی ہے ـ کوئی بھی شخص اپنی ماں، بہن، بیٹی سے اظہارِ عشق نہیں کرتا، ان مقدس رشتوں سے اظہارِ محبت اور اظہارِ چاہت کیا جاتا ہے ـ اور عشقِ حقیقی و عشقِ مجازی کی اصطلاحات بھی میں اب غلط سمجھتا ہوں، جسے میں عالمِ شباب میں درست سمجھتا تھا ـ اور یہ جو ہم اپنے اردگرد نوجوانوں کو خودکشیاں کرتے دیکھتے ہیں ان میں سے اکثر عشق میں ناکامی کے باعث ہی خود کشی کرتے ہیں، یعنی اصل عاشق تو وہ ہیں جو عشقِ میں خودکشی کرلیتے ہیں، جوکہ شریعت میں حرام ہے ـ وماعلینا الی البلاغ ـتحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـمورخہ 21، اپریل 2022ء مطابق 19، رمضان المبارک 1443 ھجری ـ بروز جمعرات ـ
بے خطر کود پڑا آتش ِ نمرود میں عشق ـ
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی .. ( علامہ اقبال)
ایک علمی و منطقی تجزیہ === از ـ غلام محمد وامِق ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مخصوص سوچ کے اکثر لوگ علامہ کے مذکورہ شعر کو بنیاد بنا کر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کو " حق " تک پہنچنے لے لئے عقل و دانائی کی نہیں بلکہ جذباتِ عشق کی ضرورت ہوتی ہے ـ لیکن میرے خیال اور منطق کے مطابق ایسا ہرگز نہیں ہے ـ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ شاعری ہے اور شاعری کوئی دلیل نہیں ہوتی ـ شاعری کسی کی بھی ہو ہمیشہ مبالغہ آمیزی پر مبنی ہوتی ہے، اور شاعر ایک ہی غزل میں کئی متضاد باتیں بیان کرتا ہے ــ خود اقبال نے اکثر ایسا کیا ہے، اہلِ علم اس بات کو جانتے ہیں، حوالے دینے کی ضرورت نہیں ـ بہت سے اشعار اقبال کے عقل و دانش، تدبر و حکمت کے موضوع پر بھی ہیں ـ اور ایک طویل جذباتی قصیدہ علامہ صاحب نے اس وقت کی ملکہ برطانیہ " وکٹوریہ " کی شان میں بھی کہا تھا، جس میں ملکہ کی حددرجہ مدح سرائی کی گئی تھی، جسے بعدازاں انہوں نے کسی مصلحت کی بنا پر، یعنی عقل کو مدنظر رکھتے ہوئے، اور حکمتِ عملی کی بنا پر، اسے اپنی کسی بھی کتاب میں شامل کرنا مناسب نہیں سمجھا، اگر علامہ اقبال کی تمام شاعری کو مبالغہ آمیزی کی بجائے حقیقت مان لیا جائے تو پھر اس مشہور شعر کی وضاحت کیسے ہوگی؟ ـ
اقبال بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے ـ
گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا ـ
مذکورہ شعر کے مطابق تو اقبال کے کردار و گفتار میں فرق تھا، یعنی جو وہ کہتے تھے، وہ کرتے نہیں تھے؟
مزید یہ کہ علامہ اقبال کی پہلی تصنیف شاعری یا عشق پر نہیں تھی، بلکہ عقل و دانش سے بھرپور نثر تھی، اور اس کا موضوع تھا " علم الاقتصاد " اور علامہ اقبال نے اپنی دیگر نثری مضامین و خطوط میں بھی اکثر باتیں عقل و حکمت پر مبنی کی ہیں، اسی لئے انہیں " حکیم الامت " کہا جاتا ہے، عاشق الامت نہیں کہا جاتا ـ
میرا مقصد علامہ صاحب پر تنقید کرنا ہرگز نہیں ہے، بلکہ یہ واضح کرنا ہے کہ خالی جذبات کسی بھی مسئلے کے حل کرنے میں معاون نہیں ہوتے بلکہ مضر ہوتے ہیں، اور کسی بھی الجھے مسئلے کو سلجھانے کے لئے عقل اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے ناکہ کسی بھی قسم کے جذبات کی ـ البتہ جزبات کسی بھی عمل پر فوری ردّعمل دیتے ہیں ـ جنہیں اگر بر وقت کنٹرول نہ کیا جائے تو بڑے نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے ـ یہ ہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں بھی بار بار عقل و حکمت، غور و فکر اور تدبر اختیار کرنے پر زور دیا گیا ہے، قرآن نے کئی مقامات پر " یا اولوالالباب " کہ کر خطاب کیا ہے، اور جذباتی تصورات، اور اپنے ذہنی خیالات و خواہشات کو ترک کردینے کا حکم دیا ہے، اور یہ ہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں کہیں پر بھی لفظ " عشق " استعمال نہیں کیا گیا، اور نہ ہی احادیث میں لفظ عشق استعمال ہوا ہے، اس کے بجائے قرآن و احادیث میں لفظ " محبت " الفت چاہت اور پیار استعمال کیا گیا ہے، البتہ لفظ عشق کو ہمارے شعراء اور صوفیاء نے بہت زیادہ استعمال کیا ہے ـ اور مذکورہ شعر میں بھی مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہے، کہ بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق ـ درحقیقت آتشِ نمرود میں حضرت ابراہیم نے خود اپنے شوق اور جذبے سے چھلانگ نہیں لگائی تھی، یا وہ اپنی مرضی سے آگ میں نہیں کُودا تھا بلکہ اسے تو بادشاہ نمرود کے اہلکاروں نے زبردستی اٹھا کر منجنیق نما مشینوں کے ذریعے دور سے بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکا گیا تھا ـ حضرت ابراہیم نے کسی جذباتی فیصلے کے تحت خود آگ میں چھلانگ نہیں لگائی، آپ نے تو اپنی ذہنی عقل و فراست سے کام لے کر ستاروں، چاند اور سورج کو دیکھ کر اور اللہ کی مزید نشانیاں ملاحظہ فرماکر توحیدِ الٰہی کو سمجھا تھا اور یہ سبق اپنے والد اور قوم کو بھی سمجھانے کی کوشش کی تھی، مزید اپنی دانش و عقل کو کام میں لاکر قرآنِ کریم کے مطابق مشرکین کو سمجھانے کے لئے ایک خاص موقع پر بت خانے کے تمام بت توڑ دئے اور بڑا بت چھوڑ دیا اور اپنا کلہاڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھ دیا، اور قوم کو کہا کہ اس بڑے بت سے پوچھو کہ یہ کام کس نے کیا ہے؟ شاید خود اسی نے یہ کام کیا ہے، کیوں کہ کلہاڑا تو اسی کے کندھے پر ہے ـ جسے سن کر اس کے باپ آزر اور قوم نے کہا کہ یہ بت ایسا کام کیسے کرسکتا ہے، یہ تو خود سے حرکت بھی نہیں کرسکتا، یہ تو پتھر ہے اسے کیا معلوم؟ ـ اور یوں حضرت ابراہیم نے انہیں حقیقی خدا کی تعلیم سمجھائی ـ مگر وہ اپنے بتوں سے اندھی عقیدت رکھتے تھے "یعنی انہیں بتوں سے عشق تھا " جس کے باعث انہوں نے کچھ بھی عقل کی بات ماننے سے انکار کردیا، اور اس کے باپ " آزر " نے بتوں کے عشق میں اندھا ہوکر اپنے ہی بیٹے کو گھر سے نکال دیا اور قطع تعلق کرلیا، جس کے بعد حضرت ابراہیم نے انہیں عقلی دلیل سے بات سمجھانے کے لئے مذکورہ بالا عقلی کاروائی کی ، جس کے نتیجے میں انہیں زبردستی آگ میں پھینک دیا گیا، مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا، جس کے بعد وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر وادیء بے آب و گِیاہ، یعنی مکہ کی طرف ہجرت کرگئے ـ بہرحال یہ طویل قصہ ہے اور اس میں کہیں پر بھی جذباتی باتوں سے کام نہیں لیا گیا ـ مزید علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم کے والد کا اصل نام " تارح " تھا، اسے آزر اس لئے کہا جاتا تھا کہ جس بت سے اسے اندھا عشق تھا اور جس کی وہ پوجا کیا کرتا تھا اس بت کا نام " آزر " تھا، اور بت سے اسی عشقیہ نسبت کی بنا پر اسے بھی آزر کے نام سے پکارا جانے لگا ـ ( والله اعلم باالصواب) ـ مزید یہ واضح ہونا چاہئے کہ جدید ماہرینِ نفسیات کے مطابق عشق ایک نفسیاتی مرض ہے، جس کا نفسیاتی معالج (سائیکاٹرسٹ ڈاکٹرز) باقائدہ علاج کرتے ہیں، یعنی آج کے زمانے میں عشق کا دواؤں کے ذریعے علاج ممکن ہے،
مرزا غالب نے آج سے تقریباﹰ ڈیڑھ سوسال قبل ہی اس حقیقت کا ادراک کر لیا تھا اور یہ کہ دیا تھا کہ ـ
کہتے ہیں جس کو عشق، خلل ہے دماغ کا ـ
مزید یہ کہ عشق جذباتی کیفیت کا نام ہے، اور جذبات میں آدمی ہمیشہ نقصان اٹھاتا ہے، عشق عجلت پسند ہوتا ہے، اس میں صبر و تحمل نہیں ہوتا ـ عشق میں کوئی دلیل نہیں ہوتی، جب کہ عقل میں دلیل ہوتی ہے ـ کوئی بھی شخص اپنی ماں، بہن، بیٹی سے اظہارِ عشق نہیں کرتا، ان مقدس رشتوں سے اظہارِ محبت اور اظہارِ چاہت کیا جاتا ہے ـ اور عشقِ حقیقی و عشقِ مجازی کی اصطلاحات بھی میں اب غلط سمجھتا ہوں، جسے میں عالمِ شباب میں درست سمجھتا تھا ـ
اور یہ جو ہم اپنے اردگرد نوجوانوں کو خودکشیاں کرتے دیکھتے ہیں ان میں سے اکثر عشق میں ناکامی کے باعث ہی خود کشی کرتے ہیں، یعنی اصل عاشق تو وہ ہیں جو عشقِ میں خودکشی کرلیتے ہیں، جوکہ شریعت میں حرام ہے ـ وماعلینا الی البلاغ ـ
تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
مورخہ 21، اپریل 2022ء مطابق 19، رمضان المبارک 1443 ھجری ـ بروز جمعرات ـ
رسول اکرمﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ کی جا رہی ہے کہ آپﷺ نے ایک غریب شخص ( ابنِ مکتوم ، نابینا صحابی ) کو اہمیت نہیں دی ، جوکہ آپ سے کسی مسئلے کے لئے ملنے آیا تھا ،اور آپ سرداروں کے ساتھ بات چیت میں مصروف رہے ـ سورۃ عبس ، آیت نمبر ـ 1 سے 11 , تک ـ
علم حاصل کرنے کے لئے چین جانے والی انتہائی باحکمت ، اور قابلِ تقلید اور قابلِ فہم حدیث کو بھی، بعض علماء نے متنازعہ بنا دیا ہے ـ دیکھئے تفصیل ...
Subscribe to:
Posts (Atom)
Powered by Blogger.