مزدور ‏کے ‏نام ‏ـ ‏‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏...  ‏جب ‏دھوپ ‏میں ‏تیزی ‏بڑھتی ‏ہو ‏، ‏اور ‏گرمی ‏میں ‏بھی ‏شدت ‏ہو ‏ـ ‏

مزدور ‏کے ‏نام ‏ـ ‏‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏جب ‏دھوپ ‏میں ‏تیزی ‏بڑھتی ‏ہو ‏، ‏اور ‏گرمی ‏میں ‏بھی ‏شدت ‏ہو ‏ـ ‏

<<<   مزدور کے نام   >>>  (  یومِ مزدور )   
              غلام محمد  وامق 

جب دھوپ میں تیزی بڑھتی ہو اور گرمی میں بھی شدت ہو۔
جب پیٹ کا دوزخ جلتا ہو ، اور اوپر نیچے حدت ہو ۔ ۔
جب مزدوروں کی محنت کا نہ وقت متعیّن مُدت ہو ۔۔
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ 

جب بچے بھوک سے روتے ہوں، اور گھر میں فاقہ مستی ہو۔
دُکھ ان کا کرے محسوس یہاں، نہ ایسی کوٸی ہستی ہو ۔۔
ہو عزّت بھی محفوظ جہاں، نہ ایسی کوٸی بستی ہو۔ ۔۔۔
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ 

جب خون پسینہ بنتا ہے، اور محنت انساں کرتا ہے ۔
جب اہلِ ثروَت کے ہاتھوں، ہر دور میں انساں لُٹتا ہے۔
ہر محنت کَش کی میّت پر جب بیٹھا قاتِل ہنستا ہے ۔
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ ۔

جب دور پہاڑی کانوں میں، وہ کام کریں طوفانوں میں۔
وہ جلتے سورج کے نیچے، اور تپتے ہوۓ میدانوں میں ۔
اِک عُمر گُزرتی ہے اُن کی، دُور اپنوں سے، بیگانوں میں۔
کیا ایسے عالم میں تم نے، مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ ۔

جب دانہ دانہ گندم کا وہ گوداموں میں ڈھیر کرے ۔
خود بھوکا سوۓ ہے لیکن، سب ہم وطنوں کا پیٹ بھرے۔
ہر آن مصیبت ہے اس کو،  وہ جیۓ  چاہے اور مرے ۔۔۔
کیا ایسے عالم میں تم نے مزدور کو بیٹھے دیکھا ہے ؟ ۔

اِک روز یہ بندھن ٹوٹیں گے، اِک روز یہ قیدی چھوٹے گا۔
تب کانپ اٹھیں گے اہلِ ہوَس، جب گھر کا بھیدی لُوٹے گا۔
جب بال و پر آجاٸیں گے، تب پنچھی پنجرا ٹُوٹے گا ۔۔۔
کیا ایسے عالَم میں تُم بھی مزدور کو بیٹھے دیکھو گے؟

اٍک روز گریں گی دیواریں، اک روز یہ زنداں ٹوٹے گا ۔۔۔
جب صُبح کی روشن کِرنوں سے یہ خوابِ پریشاں ٹوثے گا۔
جب چیخ اُٹھیں گی دیواریں، تب سحرِ خموشاں ٹوٹے گا ۔
کیا ایسے عالم میں تم بھی مزدور کو بیٹھے دیکھو گے ؟

جب قطرے خون کے جمتے ہیں، تب ظُلم کے پاٶں تھمتے ہیں
اے کاش! وہ آٸیں دن وامِق، جب لوگ گھروں میں بستے ہیں
کَل روتے پھریں گے وہ انساں، جو آج کسی پہ ہنستے ہیں ۔
کیا ایسے عالم میں تم بھی مزدور کو بیٹھے دیکھو گے ؟ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
فِعلن فَعِلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن فِعلن ۔ 
بحر زمزمہ/ متدارک مثمن مضاعف ۔ 
شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 
ستمبر سال 1982ء کراچی پورٹ ایسٹ وارف ( بندرگاہ ) پر کہی گئی نظم ۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
قرارداد ‏پاکستان ‏ـ ‏ایک ‏کڑوا ‏سچ ‏ـ ‏تحریر ‏ـ ‏مرزا ‏یاسین ‏بیگ ‏...انتخاب ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ـ ‏

قرارداد ‏پاکستان ‏ـ ‏ایک ‏کڑوا ‏سچ ‏ـ ‏تحریر ‏ـ ‏مرزا ‏یاسین ‏بیگ ‏...انتخاب ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ـ ‏

یہ تاریخی حقیقت ہے کہ 1940 کی قرارداد پاکستان  انگریزوں کے کہنے پر ایک احمدی سر ظفراللہ خان نے لکھی تھی جسے مسلم لیگ نے لاہور کے اجلاس میں منظور کیا تھا
قراردادِ پاکستان کے بارے میں سب یہ جانتے ہیں کہ یہ قرارداد 23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس میں مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی مگر کوٸ یہ نہیں جانتا کے اس دو قومی نظرٸے یعنی ہندوستان کے بٹوارے کے خالق کون تھے؟ اور اس قراردادکے لکھنے کا خیال انھیں کیسے آیا تھا؟ یہ کام سر محمد ظفراللہ خان نے انگریزوں کے کہنے پر انجام دیا تھا ۔ اس بارے میں اس وقت کے واٸسرائے ( وکٹر ہوپ لنلتھگو، وائسرائے ہند ـ 18، اپریل 1936 سے یکم اکتوبر 1943ء)  کا حکومت برطانیہ کو لکھا جانے والا تاریخی خط ہر پاکستانی کو پڑھنا چاہیٸے:
”میری ہدایت پر ظفر اللہ نے ایک میمورنڈم دو ممالک کے متعلق لکھا ہے جو میں پہلے ہی آپ کو بھجوا چکا ہوں۔ میں نے انہیں مزید توضیح کے لیے بھی کہا ہے جو ان کے کہنے کے مطابق جلد ہی آ جائے گی۔البتہ ان کا اصرار ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ منصوبہ انہوں نے تیار کیا ہے۔ انہوں نے مجھے یہ اختیار دیا ہے میں اس کے ساتھ جو چاہوں کروں، جس میں آپ کو ایک نقل بھیجنا بھی شامل ہے۔ اس کی نقول جناح کو اور میرے خیال میں سر اکبر حیدری کو دی جا چکی ہیں۔ یہ دستاویز مسلم لیگ کی طرف سے اپنائے جانے اور اس کی مکمل تشہیر کے لیے تیار کر لی گئی ہے جبکہ ظفر اللہ اس کے مصنف ہونے کا اقرار نہیں کر سکتے۔“      ( لارڈ لنلتھگو 12 مارچ 1940)
واٸسراۓ لارڈ لنلتھگو کا یہ بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ ظفر اللہ خان احمدیہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے اگر عام مسلمانوں کو اس بارے میں پتہ چلا تو ان کی جانب سے تحفظات کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ منصوبہ پیش کرنے کے بارہ دن بعد اسے آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے لاہور کے اجلاس میں منظور کر لیا گیا اور یہ قرارداد پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی ۔
یہی  ظفراللہ خان بعد میں  پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ بنے تھے ۔ ان کی شخصیت قاٸداعظم محمد علی جناح کے ہم پلّہ تھی ۔  بعدازاں محمد علی جناح کی درخواست پر ظفر اللہ خان نے مسلم لیگ کا مقدمہ ریڈکلف کمیشن کے سامنے پیش کیا تھا۔ 
(مرزا یاسین بیگ) ـــــ
بہروپیا ‏ـ ‏ایک قابلِ فکر ‏حکایت ‏ــ ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏.... ‏

بہروپیا ‏ـ ‏ایک قابلِ فکر ‏حکایت ‏ــ ‏تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏.... ‏

=== ایک قابلِ فکر حکایت  ====  
ایک مشہور بادشاہ ( نام یاد نہیں) کے دربار میں ایک بہروپیا پیش ہوا اور اپنے فن کے انعام کی التجا کی ـ بادشاه نے کہا کہ اگر واقعی تو سچا بہروپیا ہے تو کوئی ایسا بہروپ بھر کہ ہم تمہیں پہچان نہ پائیں، تب تجھے انعام دیا جائے گا ـ بہروپئے نے ایسا کرنے کی ہامی بھری اور چلا گیا ـ دوچار سال گزرے کہ بادشاہ کو کسی بزرگ کی بڑی شہرت سننے میں آئی، جس نے شہر سے باہر پہاڑوں پر اپنا مسکن بنایا ہوا تھا ـ  بادشاہ کو ملنے کا اشتیاق ہوا، اور اپنے وزراء سمیت بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا ـ بزرگ کی باتیں سن کر بادشاہ بہت متاثر ہوا، چنانچہ بزرگ کی خدمت میں بیش بہا زر و جواہر اور تحائف پیش کئے، لیکن بزرگ نے یہ کہکر سارا مال واپس کردیا کہ. " اللہ والوں کو دنیا کے مال و متاع کی کوئی ضرورت نہیں، اللہ کے سچے بندے دنیا کے حریص نہیں ہوتے " ــ بادشاہ مزید متاثر ہوا اور واپس آگیا ـ چند روز بعد وہی بہروپیا دربار میں حاضر ہوا اور پھر انعام کا خواستگار ہوا ـ بادشاہ نے پوچھا انعام کس بات کا؟ ـ 
تب بہروپئے نے جواب دیا کہ حضور، آپ جس درویش کے پاس حاضر ہوئے تھے، وہ درویش میں ہی تھا ـ بادشاہ بہت حیران ہوا، اور پوچھا کہ تم تھوڑا سا انعام لینے کے لئیے یہاں آگئے، جب کہ اُس وقت میں تمہیں بیشمار دولت دے رہا تھا، تو تم نے اس کو ٹھکرادیا تھا،  کیوں ـ؟ ــ
بہروپئے نے کہا کہ حضور،  اُس وقت میں اللہ کے ولی کے روپ میں تھا، اور اس روپ یا کردار کا تقاضا یہ تھا کہ میں دنیا کی طرف رغبت نہ کروں،  اگر آپ کا مال لے لیتا تو اللہ کے ولی کا بہروپ اصل نہیں رہتا ـ
کیا آج کے نام نہاد اور پیشہ ور پیروں، فقیروں میں اس بہروپئے جتنا بھی ظرف ہمیں نظر آتا ہے ـ؟؟؟  ..... 
ـــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ 
مورخہ ـ 15، دسمبر ـ 2020ء ...

پھوٹی ‏کوڑی ‏کیا ‏ہے ‏؟ـ ‏ایک ‏معلوماتی ‏تحریر ‏ـ کاپی ‏پیسٹ ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ـ

پھوٹی ‏کوڑی ‏کیا ‏ہے ‏؟ـ ‏ایک ‏معلوماتی ‏تحریر ‏ـ کاپی ‏پیسٹ ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏ـ

یہ معلوماتی تحریر محترم ڈاکٹر امانت اللہ پٹھان. ( Amanatullah Pathan.) صاحب کی وال سے کاپی کی گئی ہے .......
ـــــــــــــــــــــ از ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ .... 

       پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔ 

دنیا کا پُرانا ترین سکہ شاید یہی ’’پھوٹی کوڑی ‘‘ہے۔یہ پھوٹی کوڑی  ’’کوڑی‘‘ یا پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔ جسے کوڑی گھونگھے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا استعمال دنیا میں کوئی پانچ ہزار (5000) سال قبل وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں بطور کرنسی عام تھا۔ ’’پھوٹی ‘‘ کا نام اسے اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے کوڑی کا گھونگا ’’پھوٹی کوڑی‘‘ کہلایا۔ قدرتی طور پر گھونگھوں کی پیدا وار محدود تھی۔ اس کی کمیابی سے یہ مطلب لیا گیا کہ اس کی کوئی قدر / ویلیو ہے۔

تین پھوٹی کوڑیوں کے گھونگھے ایک پوری کوڑی کے برابر تھے۔ جو ایک چھوٹا سا سمندری گھونگھا تھا۔ لیکن ان دونوں کی کوئی آخری حیثیت / ویلیو تھی۔ وہ ’’روپا‘‘تھی۔ جسے بعد میں ’’روپیہ‘‘ کہاجانے لگا۔۔ ایک’’روپیہ ‘‘5,275’‘پھوٹی کوڑیوں‘‘ کے برابر تھا۔ ان کے درمیان دس مختلف سکے تھے۔جنہیں ’’کوڑی‘‘، دمڑی‘‘، ’’پائی‘‘، ’’دھیلا‘‘، ’’پیسہ‘‘، ’ٹکہ‘‘، ’’آنہ‘‘، ’’دونی‘‘، ’’چونی‘‘، ’’اٹھنی‘‘ اور پھر کہیں جا کر ’’روپیہ‘‘ بنتا تھا۔

‎کرنسی کی قیمت یہ تھی-

3 پھوٹی کوڑی= 1کوڑی 

10کوڑی =  1 دمڑی

 02دمڑى = 1.5پائى.

ڈیڑھ پائى = 1 دهيلا.

2دهيلا = 1  پيسہ .
تین پیسے= ایک ٹکہ
چھ پيسه یا دو ٹکے= 1 آنہ .
دو آنے= دونی 
چار آنے= چونی
آٹھ آنے= اٹھنی
16 آنے =   1 روپيہ

جس طرح اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔ اسی طرح 
کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جانا

چمڑی جاۓ دمڑی نہ جاۓ در اصل کنجوسی کی شدید حالت کو بیان کرنےکے لئیے استعمال ہوتا ہے 

ایک پائ نہ ہونا غربت کا مظہر ...
ایک دھیلے کا نہ ہونا ذراکم غربت ..
ایک ٹکے کی اوقات (ذلیل کرنے کا غیر مہذب بیانیہ)..
ٹکہ بنگلہ دیش کی کرنسی بھی ہے

کیونکہ سب سے اعلی اور مکمل حیثیت روپیہ کی تھی (جس میں سولہ آنے ہوتے تھے) اس لئیے بات کا سولہ آنے صحیح ہونا ۱۰۰ فیصد صحیح کے مترادف ہوتا تھا ــــ
کاپی پیسٹ و انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ــــ فون نمبر ـ 03153533437 .... dt.14.12.2020 ــــ
علامہ ‏اقبال ‏کے ‏جرمن ‏خاتون ‏" ‏ایما ‏ویگے ‏" ‏کو ‏لکھے ‏گئے ‏عشقیہ ‏خطوط ‏ـ ‏حصہ ‏دوم ‏ـ  ‏

علامہ ‏اقبال ‏کے ‏جرمن ‏خاتون ‏" ‏ایما ‏ویگے ‏" ‏کو ‏لکھے ‏گئے ‏عشقیہ ‏خطوط ‏ـ ‏حصہ ‏دوم ‏ـ ‏

ایما ویگے ناست کو لکھے گئے علامہ اقبال کے خطوط کا آخری حصہ 

21 جنوری 1908ء کو تحریر کیا : 

جب آپ کا پچھلا خط پہنچا تو میں بڑا بیمار تھا اور اس نے مجھے اور بھی بیمار کر ڈالا۔ کیونکہ آپ نے لکھا تھا کہ آپ نے بڑے طوفان میں سے گزرنے کے بعد اپنی آزادی دوبارہ حاصل کی ہے۔ میں یہ سمجھا کہ آپ میرے ساتھ مزید خط و کتابت نہیں کرنا چاہتیں اور اس بات سے مجھے بڑا دکھ ہوا۔ اب مجھے پھر آپ کا خط موصول ہوا ہے اور اس سے مجھے بڑی مسرت ہوئی ہے۔ میں اکثر آپ کے بارے میں سوچتا ہوں اور آپ کے لیے میرا دل ہمیشہ بڑے حسین خیالات سے معمور رہتا ہے۔ ایک شرارے سے شعلہ اٹھتا ہے اور شعلے سے بڑا الاؤ روشن ہوجاتا ہے، لیکن آپ غیر جانبدار ہیں، غفلت شعار ہیں، آپ جو جی میں آئے کیجیے، میں بالکل کچھ نہ کہوں گا اور ہمیشہ صابر و شاکر رہوں گا۔ شاید جب میں ہندوستان روانہ ہوں گا تو آپ سے ملاقات کرسکوں گا۔ 

26 فروری 1908ء کو تحریر کیا :
 
میں ہر چیز کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ مجھے اس قدر مصروفیت رہی کہ آپ کو خط نہ لکھ سکا، مگر آپ چونکہ فرشتہ خصلت ہیں، اس لیے امید رکھتا ہوں کہ آپ مجھے معاف کردیں گی۔ آج شام بھی مجھے ایک لیکچر دینا ہے، تصوف پر۔۔۔۔۔مجھے آپ کے کانوں کو اپنی بھونڈی جرمن سے مورد توہین بنانے پر شرم آتی ہے۔۔۔۔۔۔میں جولائی کے اوائل میں ہندوستان لوٹ رہا ہوں اور میری تمنا ہے کہ اپنے سفر سے پیشتر آپ سے ملاقات کا موقع مل جائے۔ میں پوری کوشش کروں گا کہ چند روز کے لیے ہائیڈل برگ آسکوں، لیکن اگر ممکن ہو تو کیا آپ پیرس میں مجھ سے مل سکتی ہیں؟ ۔۔۔۔۔آپ تمام دن کیا کرتی ہیں؟ کیا آپ مطالعہ کرتی ہیں یا دوستوں کے ساتھ وقت گزارتی ہیں؟ آپ کی تصویر میری میز پر رکھی ہے اور ہمیشہ مجھے ان سہانے وقتوں کی یاد دلاتی ہے جو میں نے آپ کے ساتھ گزارے تھے۔ ایک تسبیحِ خیالاتِ خوش آیند کے ساتھ۔ 

3 جون 1908 ء کو تحریر کیا : 

براہِ کرم لکھیے اور مجھے بتائیے کہ آپ کیا کررہی ہیں اور کیا سوچ رہی ہیں۔ آپ میرے خط کا انتظار کیوں کرتی ہیں؟ میں ہر روز آپ سے اطلاع پانے کی آرزو رکھتا ہوں۔۔۔۔ میں بہت مصروف ہوں، جلد انگلستان سے رخصت ہورہا ہوں، آغاز جولائی میں۔ مجھے معلوم نہیں کہ آیا جرمنی کے رستے سفر کرنا ممکن ہوگا کہ نہیں، یہ میری بڑی تمنا ہے کہ میں ہندوستان لوٹنے سے پہلے آپ سے ملاقات کرسکوں، بے رحم نہ بنیے، براہ کرم جلد خط لکھیے اور تمام احوال بتائیے۔ میرا جسم یہاں ہے، میرے خیالات جرمنی میں ہیں۔ آج کل بہار کا موسم ہے، سورج مسکرا رہا ہے لیکن میرا دل غمگین ہے۔ مجھے کچھ سطریں لکھیے اور آپ کا خط میری بہار ہوگا۔ میرے دلِ غمگین میں آپ کے لیے بڑے خوبصورت خیالات ہیں اور یہ خاموشی سے یکے بعد دیگرے آپ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ 

10 جون 1908ء کو تحریر کیا : 

میں آپ کو پہلے خط لکھ چکا ہوں اور آپ کے خط کا منتظر ہوں۔ میں اپنی ایک تصویر لف کررہا ہوں۔شاید میں ایک اور تصویر آپ کو بھیجوں۔ میں 2 جولائی کو ہندوستان روانہ ہورہا ہوں اور وہاں سے خط لکھوں گا۔ 

لندن سے آخری خط 27 جون 1908ء کو تحریر کیا۔ لکھتے ہیں : 

میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ جرمنی کے رستے سفر کرسکوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ میں 3 جولائی کو انگلستان سے روانہ ہوں گا اور چند روز پیرس میں رکوں گا۔ جہاں مجھے کچھ کام ہے۔ براہ کرم فوراً لکھیے۔ میں ہندوستان روانہ ہونے سے پیشتر آپ کا خط پانے کا ممتنی ہوں۔ میں اگلے سال یورپ آنے اور آپ سے ملنے کی امید رکھتا ہوں۔ مت کہیے گا کہ کئی ملک اور سمندر ہمیں ایک دوسرے سے جدا کریں گے، پھر بھی ہمارے درمیان ایک غیر مرئی رشتہ قائم ہے۔ میرے خیالات ایک مقناطیسی قوت کے ساتھ آپ کی سمت دوڑیں گے اور اس بندھن کو مضبوط بنائیں گے۔ ہمیشہ مجھے لکھتے رہیے گا اور یاد رکھیے گا کہ آپ کا ایک سچا دوست ہے، اگرچہ وہ فاصلہ دراز پر ہے۔جب دل ایک دوسرے کے قریب ہوں تو فاصلہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔ 

ایما ویگے ناست کی ذات کے بارے میں محمد اکرام چغتائی نے ہائیڈل برگ جا کر تحقیق کی ہے اور اس سلسلے میں ان کا ایک مضمون "اقبال اور ایما ویگے ناست" نوائے وقت (جمعہ میگزین مورخہ 9 تا 15 نومبر 1984ء) میں چھپ چکا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق ایما ویگے ناست کچھ مدت پانسی یاں شیرر میں جرمن زبان پڑھاتی رہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے کلینک میں بطور کیمسٹ ملازم ہوئیں اور اٹھائیس برس تک یہی خدمت انجام دیتی رہیں۔
 
1947ء میں بعمر 68 سال ریٹائر ہوئیں۔ تمام عمر غیر شادی شدہ رہیں۔ ہائیڈل برگ میں اپنی بہن صوفی ویگے ناست کے ساتھ رہتی تھیں۔ 1956ء میں انہیں بڑھاپے الاؤنس ملنا شروع ہوا۔ بالآخر پچاسی سال کی عمر میں 16 اکتوبر 1964 کو وفات پاگئیں۔ 

اقبال کی ایما ویگے ناست کے ساتھ مراسلت جاری رہی، لیکن وہ پھر ایک دوسرے سے کبھی نہ مل سکے۔ اب تک دریافت شدہ خطوط کی تعداد ستائیس(27) ہے۔ پہلا 16 اکتوبر 1907ء کو اور آخری 21 جنوری 1933ء کو لکھا گیا۔سترہ(17) خط جرمن زبان میں ہیں اور دس(10) انگریزی میں۔ایما ویگے ناست جرمن زبان کے علاوہ اور کوئی زبان نہ جانتی تھیں۔ انہوں نے اقبال کو جو خطوط لکھے، وہ محفوظ نہیں۔ دونوں نے آپس میں تصاویر اور تحائف کا تبادلہ بھی کیا۔ اقبال انہیں اپنی تقاریر یا کلام بھی بھیجتے رہتے تھے اور بعض اوقات ان کے کلام کا جرمن ترجمہ بھی ایما ویگے ناست کی وساطت سے ہائیڈل برگ کے اخبارات میں چھپتا تھا۔ 

ایما ویگے ناست کی وفات سے چند برس پیشتر ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے کسی پاکستانی طالب علم کا وہاں کے اخبار میں مراسلہ شائع ہوا، جس میں تحریر کیا گیا تھا کہ 1907ء میں اقبال اس شہر میں چند ماہ ٹھہرے تھے مگر معلوم نہیں کہ کہاں ٹھہرے تھے۔ یہ مراسلہ ایما ویگے ناست کی نظر سے گزرا اور انہوں نے پاکستانی طالب علم کو اپنے ساتھ لے جا کر اس مکان کی نشاندہی کرائی ـ

حوالہ کتاب : "زندہ رُود"
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال"
ص : 151..152..153
طالب دعا کاشف ترک
ـــــــــــــــــــ کاشف ترک کی وال سے کاپی پیسٹ، و انتخاب ـ از ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
فون نمبر ـ 03153533437 ..... dt.10.12.2020 
علامہ ‏اقبال ‏کی ‏محبوبہ  ‏" ایماویگے " اور ‏اقبال ‏کے ‏عشقیہ ‏خطوط ‏،  ‏حصہ ‏اول ‏ـ  ‏

علامہ ‏اقبال ‏کی ‏محبوبہ ‏" ایماویگے " اور ‏اقبال ‏کے ‏عشقیہ ‏خطوط ‏، ‏حصہ ‏اول ‏ـ ‏

علامہ اقبال اور ایما ویگے ناست  
               
جرمنی میں اقبال کا قیام اگرچہ مختصر تھا، لیکن اس کے باوجود اس سرزمین، جرمن شعر و ادب اور فلسفے سے انہیں گہری جذباتی اور روحانی وابستگی پیدا ہوگئی تھی۔ اس وابستگی کے پیدا کرنے میں ایما ویگے ناست کا بڑا ہاتھ تھا، کیونکہ جرمن زبان اور ادب و فلسفے سے ایما ویگے ناست ہی نے اقبال کو روشناس کرایا تھا۔ 

ایما ویگے ناست اقبال سے عمر میں دو سال چھوٹی تھیں۔ وہ 26 اگست 1879ء کو صوبہ بادن کے شہر ہائیل برون میں پیدا ہوئیں جو ہائیڈل برگ سے تقریباً اسّی کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے نیکر کے کنارے آباد ہے۔ ان کے اور بہن بھائی بھی تھے، لیکن اقبال کی ان سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ 

ایما ویگے ناست ہائیڈل برگ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد جرمن زبان کے ایک اسکول (پینسیون شیرر) سے منسلک ہوگئیں اور یہیں جولائی 1907ء میں اقبال کی ان سے ملاقات ہوئی۔ تب ایما ویگے ناست کی عمر اٹھائیس برس تھی۔ اقبال نے انہی سے جرمن زبان سیکھی اور جرمن شاعری اور ادب سے متعارف ہوئے۔ دونوں روزانہ ملتے اور گوئٹے کی تخلیقات اور جرمن فلسفے پر تبادلہ خیالات کرتے۔ 
ایما ویگے ناست ایک ذہین اور حسین خاتون تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں کے دل و دماغ کے فاصلے بتدریج کم ہوتے چلے گئے۔ 

یہاں تک کہ اقبال جب اوائل اکتوبر 1907ء میں ہائیڈل برگ میونخ گئے تو وہاں کے تقریباً ایک ماہ کے قیام کے دوران انہیں یکے بعد دیگرے تین خط لکھے۔ 

پہلا خط 16 اکتوبر 1907ء کو تحریر کیا گیا : 

افسوس کہ جرمن زبان سے میری محدود واقفیت ہمارے درمیان ایک دیوار کی طرح حائل ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ہائیڈل برگ میں قیام کے دوران میں نے جرمن لکھنے کی مشق نہ کی، یہ پہلی تحریر ہے جو میں اس زبان میں لکھ رہا ہوں، خزاں کی دھیمی اور نم آلود ہوا بڑی خوشگوار ہے۔ موسم بڑا خوبصورت ہے۔ لیکن افسوس کہ ہر حسین شے کی طرح یہ بھی دوام ہے: 

دوسرا خط 23 اکتوبر 1907ء کو تحریر کیا گیا : 

یہ آپ کا بڑا کرم تھا کہ آپ نے خط لکھا لیکن نہایت مختصر میں اس وقت تک آپ کو بالکل نہیں لکھوں گا جب تک آپ مجھے وہ خط نہیں بھیجتیں جو آپ نے لکھ کر پھاڑ ڈالا۔یہ بڑی بے رحمی ہے۔ آپ ہائیڈل برگ میں تو ایسی نہ تھیں۔شاید ہائیل برون کی آب و ہوا نے آپ کو بے مہر بنادیا ہے۔ میں زیادہ لکھنا چاہتا ہوں، مگر وہ خط: آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میرا خط پھاڑ ڈالیں۔ 

اور تیسرا خط 27 اکتوبر 1907ء کو تحریر کیا گیا۔ لکھتے ہیں : 

آج میں باہر نہیں نکل سکا۔موسم خوشگوار نہیں ہے۔ براہ کرم میری بھدی جرمن زبان کا برا مت منائیے اور نہ اس کا جو میں نے اپنے پچھلے خط میں لکھا تھا۔ 
اقبال کی لندن روانگی سے قبل ایما ویگے ناست اپنے آبائی شہر ہائیل برون چلی گئیں اور کچھ مدت تک نا مساعد حالات کا شکار رہیں۔اقبال لندن سے واپس تو آگئے لیکن دل ابھی تک ہائیڈل برگ ہی میں تھا۔لندن میں تقریباً نو ماہ قیام کے دوران انہوں نے ایما ویگے ناست کو کئی خط لکھے۔ 

مثلاً 2 دسمبر 1907ء کو تحریر کرتے ہیں : 

میرا خیال تھا کہ ہائیل برون کے رستے سفر کروں گا لیکن یہ ممکن نہ ہوا میرے لیے یہ قطعی لازم تھا کہ 5 نومبر کو لندن میں ہوں۔پروفیسر آرنلڈ مصر گئے ہیں اور میں عربی کا پروفیسر مقرر ہوا ہوں۔میرے ذمے ہفتے میں دو لیکچر ہیں۔ میں زیادہ لکھ یا کہہ نہیں سکتا، لیکن آپ تصور کرسکتی ہیں کہ میری روح میں کیا ہے۔ میری بہت بڑی خواہش یہ ہے کہ میں دوبارہ آپ سے بات کرسکوں اور آپ کو دیکھ سکوں،لیکن میں نہیں جانتا کہ کیا کروں۔ جو شخص آپ سے دوستی کرچکا ہو، اس کے لیے ممکن نہیں کہ آپ کے بغیر جی سکے۔ براہ کرم میں نے جو لکھا ہے، اس کے لیے مجھے معاف کردیجیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اس قسم کے اظہار جذبات کو پسند نہیں رتیں۔ براہ کرم جلد لکھیے اور سب کچھ یہ اچھا نہیں کہ کسی شخص کا کچھ بگاڑا جائے، جو آپ کا کچھ نہیں بگاڑتا۔ 

30 جنوری 1908ء کو تحریر کیا : 

میں آپ کی تصاویر کے لیے ہزار گونہ شکریہ ادا کرتا ہوں جو کل شام مجھے موصول ہوئیں۔۔۔۔دونوں تصویریں بہت خوبصورت ہیں اور وہ ہمیشہ میرے مطالعے کے کمرے میں میری میز پر رہیں گی۔ لیکن مت باور کیجیے کہ وہ صرف کاغذ ہی پر نقش ہیں بلکہ وہ میرے دل میں بھی جا پذیر ہیں اور تا دوام وہیں رہیں گی۔ شاید میرے لیے یہ ممکن نہ ہوگا کہ میں دوبارہ آپ کو دیکھ سکوں۔۔۔۔مگر میں یہ ضرور تسلیم کرتا ہوں کہ آپ میری زندگی میں ایک حقیقی قوت بن چکی ہیں۔ میں آپ کو کبھی فراموش نہ کروں گا اور ہمیشہ آپ کے لطف و کرم کو یاد رکھوں گا۔ 

(اگلی پوسٹ بھی انھی بقایا خطوط کے حوالے سے ہوگی) 

حوالہ کتاب : "زندہ رُود" ( Zinda Rood) 
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال" 
ص : 150..151
طالب دعا کاشف ترک ــ
ـــــــــ کاشف ترک کی وال سے ـ کاپی پیسٹ و انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ
فون نمبر ـ 03153533437 .....dt.10.12.2020 ,
علامہ ‏اقبال ‏کی ‏دوسری ‏اور ‏تیسری ‏بیوی ‏ـ ‏دوسرا ‏حصہ ‏ـ ‏

علامہ ‏اقبال ‏کی ‏دوسری ‏اور ‏تیسری ‏بیوی ‏ـ ‏دوسرا ‏حصہ ‏ـ ‏

علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی مختار بیگم اور سردار بیگم (آخری حصہ)     

دوسری شادی کے سلسلے میں جو 1910 ء میں ہوئی، مرزا جلال الدین کا بیان ہے کہ اقبال کے دوست شیخ گلاب دین وکیل نے موچی دروازے کے ایک کشمیری خاندان کی صاحبزادی کے متعلق تحریک کی جو اس وقت وکٹوریہ گرلز اسکول میں پڑھتی تھی۔ جب بات پکی ہوگئی تو اقبال کے بڑے بھائی سیالکوٹ سے آئے اور مرزا جلال الدین ، میاں شاہنواز، مولوی احمد دین اور شیخ گلاب دین کو ساتھ لے کر اقبال کے سسرال پہنچے اور وہاں ان کا نکاح سردار بیگم سے پڑھا گیا۔ اس موقع پر صرف نکاح ہوا، رخصتی عمل میں نہ آئی۔ 

اس سلسلے میں علی بخش کا بیان ہے کہ وہ اور والدہ اقبال، اقبال کے رشتے کی خاطر کسی کے گھر گئے۔ جب واپس آرہے تھے تو ایک نائن جو سیالکوٹ کی رہنے والی تھی والدہ اقبال سے ملی۔ والدہ اقبال نے اسے بتایا کہ وہ اپنے چھوٹے لڑکے کے لیےکسی موزوں رشتے کی تلاش میں ہیں۔ اس پر وہ نائن والدہ اقبال کو سردار بیگم کے گھر لے گئی، اور والدہ اقبال نے سردار بیگم کو دیکھتے ہی فیصلہ کرلیا کہ یہ رشتہ بہت مناسب ہے۔ 

سردار بیگم سے اقبال کے عقد کے متعلق منشی طاہرالدین کا بیان، جو ان کے فرزند شیخ بشیر احمد کی وساطت سے راقم تک پہنچا، قدرے مختلف ہے۔ اس بیان کے مطابق اقبال اپنی بیوی کا انتخاب اولاً خود کرنا چاہتے تھے۔ سردار بیگم کے برادر خواجہ عبدالغنی، منشی طاہرالدین کے احباب میں سے تھے۔ دونوں بہن بھائی موچی دروازے کے ایک غریب کشمیری خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور بچپن ہی سے یتیم ہوگئے تھے۔ دونوں کی پرورش ان کی پھوپھی نے کی۔  پھوپھا ضلع کچہری میں عرضی نویس تھے۔ سردار بیگم کسی اسکول نہ جاتی تھیں بلکہ انہوں نے قرآن مجید اور معمولی اردو پڑھنے لکھنے کی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی تھی۔ خواجہ عبدالغنی قالین بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ جب سردار بیگم سے رشتے کے متعلق منشی طاہر الدین نے تحریک کی تو اقبال نے صاحبزادی کی تصویر دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ منشی طاہرالدین نے تصویر خواجہ عبدالغنی سے یہ کہہ کر حاصل کی کہ والدہ اقبال کو دکھانے کے لیے سیالکوٹ بھیجنا ہے۔ اقبال نے سردار بیگم کی تصویر دیکھ کر انہیں پسند فرمایا۔ بعد میں والدہ اقبال سیالکوٹ سے لاہور آئیں اور سردار بیگم کے گھر جا کر رشتے کی بات کی۔ پھر اقبال اپنے بڑے بھائی، والدہ اور چند احباب سمیت سسرال پہنچے، جہاں ان کا نکاح سردار بیگم سے پڑھا گیا۔ 

ان مختلف روایتوں میں سے خواہ کوئی بھی درست تسلیم کرلی جائے، حقیقت یہ ہے کہ سردار بیگم کسی سکول میں نہ پڑھتی تھیں۔ ان کا اقبال سے عقد 1910ء میں ہوا اور اس موقع پر صرف نکاح ہی پڑھا گیا، رخصتی عمل میں نہ آئی۔ 

راقم کے اندازے کے مطابق اس وقت سردار بیگم کی عمر انیس برس کے لگ بھگ تھی۔ 

رخصتی کا معاملہ اس لیے التوا میں پڑ گیا کہ نکاح کے فوراً بعد اقبال کو دو گمنام خط موصول ہوئے، جن میں سرداربیگم کے چال چلن پر نکتہ چینی کی گئی تھی۔ اقبال شدید تذبذب میں پڑ گئے۔ یہ زمانہ ان کی ذہنی پریشانی کا تھا۔ ایک بیوی سے علیحدگی ہوچکی تھی۔ دوسری کے متعلق یہ صورت پیدا ہوگئی۔ احباب سے ذکر کیا۔ انہوں نے معاملے کی تہ تک پہنچنے کی ہامی بھرلی۔ بہر حال اقبال نے ارادہ کرلیا کہ سردار بیگم کو طلاق دے کر کہیں اور شادی کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی تذبذب میں تین سال مزید گزر گئے۔ 

بالآخر اقبال کے ایک پرانے دوست سید بشیر حیدر جو اس زمانے میں ایکسائز انسپکٹر لدھیانہ تھے۔ لدھیانے کے ایک متمول کشمیری خاندان کی صاحبزادی مختار بیگم کے رشتے کا پیغام لے کر آئے۔ مختار بیگم کا خاندان لدھیانے میں "نو لکھیوں" کا خاندان کہلاتا تھا۔ چنانچہ جب رشتہ طے ہوگیا تو اقبال کی برات لاہور سے لدھیانہ گئی۔ مرزا جلال الدین نےاپنے بیان میں اس شادی کی تاریخ کا ذکر نہیں کیا، اسی طرح عبدالجید سالک نے بھی اقبال کی اس شادی کی تفصیل بیان کرتے وقت سن کا ذکر نہیں کیا۔ لیکن غالب امکان ہے کہ یہ شادی 1913ء کے ابتدائی حصے میں ہوئی۔ اقبال، مختار بیگم کو ساتھ لے کر لاہور پہنچے جہاں انہوں نے انارکلی والے مکان میں قیام کیا۔ 

اسی اثناء میں سردار بیگم سے متعلق گمنام خطوط کے سلسلے میں جب مرزا جلال الدین اور اقبال کے دیگر احباب نے تحقیق کرائی تو راز کھلا کہ گمنام خطوط تحریر کرنے والا کوئی وکیل تھا، جو سردار بیگم کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کرنا چاہتا تھا۔ سردار بیگم نے جو اقبال سے عقد کے سبب تین سال تک طرح طرح کے مصائب برداشت کرتی رہیں،  خود بھی جرات کرکے ایک خط اقبال کو بھجوایا، جس میں لکھا کہ انہیں اس بہتان پر یقین نہ کرنا چاہیے تھا، اور یہ کہ میرا نکاح تو اب آپ سے ہوچکا ہے، اب میں دوسرے نکاح کا تصور بھی نہیں کرسکتی ۔اسی حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی اور روزِ قیامت آپ کی دامن گیر ہوں گی۔ 

اقبال یہ خط پڑھ کر اپنی غلطی پر سخت پشیمان ہوئے۔ مختار بیگم کو صورتِ حال سے با خبر کیا۔ وہ نہایت نرم دل اور حلیم طبیعت کی تھیں، کسی کا دکھ ان سے برداشت نہ ہوتا تھا، سردار بیگم کی بابت سن کر رونے لگیں۔ بالآخر اقبال، سردار بیگم کو گھر لانے کے لیے تیار ہوگئے، لیکن چونکہ ایک مرحلے پر دل میں انہیں طلاق دینے کا ارادہ کرچکے تھے اس لیے سردار بیگم سے اگست یا ستمبر 1913ء میں دوبارہ نکاح پڑھوایا گیا۔ ان ایّام میں مختار بیگم اپنے میکے لدھیانے روانہ ہوگئیں اور اقبال سردار بیگم کو ساتھ لے کر سیالکوٹ جا پہنچے۔  چند ہفتوں کے بعد انارکلی والے مکان میں دونوں بیویاں اکٹھی ہوگئیں۔ مختار بیگم اور سردار بیگم قریب قریب ایک ہی عمر کی تھیں اور دونوں میں ایسی محبت پیدا ہوگئی جو بہنوں میں بھی نہیں ہوتی۔ 

سردار بیگم سے شادی کے متعلق اقبال اپنے ایک خط محررہ 26 اکتوبر 1913ء بنام مہاراجہ کشن پرشاد میں تحریر کرتے ہیں : 

تیسری بیوی آپ کے تشریف لے جانے کے کچھ عرصے بعد کی۔ ضرورت نہ تھی، مگر یہ عشق و محبت کی ایک عجیب و غریب داستان ہے۔ اقبال نے گوارا نہ کیا کہ جس عورت نے حیرت انگیز ثابت قدمی کے ساتھ تین سال تک اس کے لیے طرح طرح کے مصائب اٹھائے ہوں، اسے اپنی بیوی نہ بنائے۔ کاش دوسری بیوی کرنے سے پیشتر یہ حال معلوم ہوتا۔  

اقبال نے اپنی ازدواجی زندگی کے مسئلے کو سلجھانے کی خاطر پہلی بیوی سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ وہ کریم بی کی جگہ ایک رفیقہ حیات کے خواہاں تھے، مگر حالات نے ایسی صورت اختیار کی کہ انہیں ایک کی بجائے دو بیویوں کا شوہر بننا پڑگیا۔ 

انارکلی والا مکان، جس میں اقبال صرف علی بخش(ملازم) کے ساتھ رہا کرتے تھے، 1913ء میں سیالکوٹ والے گھر کی طرح خاصا آباد ہوگیا۔ مختار بیگم اور سردار بیگم کے علاوہ اقبال کی ایک غیر آباد بہن کریم بی بھی یہیں رہنے لگیں۔ نیز شیخ عطا محمد(علامہ کے بڑے بھائی) کی دو چھوٹی بیٹیوں عنایت بیگم اور وسیمہ بیگم کو سردار بیگم سیالکوٹ سے اپنے ساتھ لے آئیں۔ گھر میں چہل پہل ہوگئی۔ سب کے سب خوشی و مسرت سے دن گزارنے لگے۔ اقبال شام کو کاموں سے فراغت کے بعد اپنی بہن اور بیویوں کے ساتھ عموماً تاش یا لوڈو کھیلتے، اپنی بھتیجیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کی باتیں کرتے یا کوٹھے پر چڑھ کر کبوتر اڑاتے۔ 

بیویوں اور بہن کے اصرار پر اقبال نے اپنی پہلی بیوی کو بھی بلوالیا۔ سو کریم بی ایک آدھ بار انار کلی والے مکان میں آکر ان سب کے ساتھ رہیں، مگر صرف چند دنوں کے لیے۔ مردانے میں پہلے کی طرح اقبال کے احباب کی  محفلیں لگتیں۔ گرامی آجاتے تو کئی کئی دن قیام کرتے۔ گرمیوں کی تعطیلات میں سب سیالکوٹ چلے جاتے اور وہاں رونق لگتی۔ 

(اگلی پوسٹ ایما ویگے ناست کے حوالے سے ہو گی اقبال  انہی سے جرمن زبان اور جرمن شاعری ادب سے متعارف ہوئے۔ علامہ نے جو خطوط انہیں لکھے وہ مرحلہ وار پوسٹ ہوں گے۔) 

حوالہ کتاب : "زندہ رُود"
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال"
ص : 203..204..205
طالب دعا کاشف ترک ـ
ـــــــــــــــــــ کاشف ترک کی وال سے کاپی پیسٹ و انتخاب ــ از. غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
فون ـ 03153533437 ـــــــ dt. 09.12.2020 
علامہ ‏اقبال ‏کی  ‏ناقابلِ  یقین  ازدواجی ‏زندگی ـ ‏حصہ ‏اول ‏ـ ‏

علامہ ‏اقبال ‏کی ‏ناقابلِ یقین ازدواجی ‏زندگی ـ ‏حصہ ‏اول ‏ـ ‏

علامہ اقبال کی ازدواجی زندگی
                
1893ء میں اقبال کی کریم بی کے ساتھ شادی رواج کے مطابق ان کے بزرگوں نے طے کی تھی اور ان کی اپنی بعد کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شادی پر رضامند نہ تھے، مگر چونکہ سولہ برس کی عمر کے لڑکے تھے اس لیے احترام کے پیشِ نظر انہیں اپنے بزرگوں کے سامنے دم مارنے کی ہمت نہ ہوئی۔ 

شادی کے پہلے دو سال سیالکوٹ میں گزارے۔ اس دوران میں انہوں نے ایف۔اے کا امتحان پاس کیا اور مزید تعلیم کی تحصیل کی خاطر 1895ء میں لاہور آگئے۔لاہور میں چار سال کواڈرینگل ہوسٹل میں گزارے۔ کریم بی ہوسٹل میں ان کے ساتھ تو نہ رہ سکتی تھیں، اس لیے وہ بیشتر وقت اپنے والدین کے ساتھ یا اپنے میکے گجرات میں بسر کرتی تھیں اور بعض اوقات چند ماہ کے لیے سیالکوٹ آجاتیں۔

اقبال گرمیوں کی چھٹیاں عموماً سیالکوٹ میں اپنے والدین کے ساتھ گزارتے اور کبھی کبھار چند ہفتوں کے لیے اپنے سسرال گجرات چلے جاتے۔ اس دوران وہ دو بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ معراج بیگم 1896ء میں پیدا ہوئیں اور آفتاب اقبال 1898ء میں۔

1900ء سے لے کر 1905ء تک کی پانچ سالہ ملازمت کے دوران جب اقبال بھاٹی دروازے والے مکان میں رہائش پذیر تھے، کریم بی نے ان کے ساتھ مکان میں قیام نہ کیا۔ نذیر نیازی کی رائے میں کریم بی سے کشیدگی کی ابتدا انہی ایام میں ہوگئی تھی۔ 1905ء سے لے کر 1908ء تک کے تین سال اقبال نے یورپ میں گزارے۔ ان کی واپسی پر معراج بیگم بارہ برس کی اور آفتاب اقبال دس برس کے تھے۔ 

نذیر نیازی تحریر کرتے ہیں :

یورپ سے واپسی کے بعد اگرچہ وہ (کریم بی) احیاً نا لاہور آتیں، محمد اقبال ان کا بڑا خیال رکھتے، مگر ایک دوسرے سے کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ تا آنکہ باپ اور بھائی کی کوششوں کے باوجود علیحدگی کی نوبت آگئی۔ 
یہ زمانہ محمد اقبال کے لیے بڑے اضطراب کا تھا۔ بغیر طلاق کے چارہ نہ رہا۔ لیکن والدہ آفتاب کی عزتِ نفس نے گوارا نہ کیا محمد اقبال کفالت کے ذمے دار ٹھہرے ۔ فرمایا شرعاً میرے سامنے دو ہی راستے تھے، طلاق یا کفاف کی ذمہ داری۔ والدہ آفتاب طلاق پر راضی نہ ہوئیں۔میں نے بخوشی کفاف کی ذمہ داری قبول کی۔
چنانچہ ایک مقررہ رقم ہر مہینے بھیج دیتے۔ حتیٰ کہ آخری علالت کے دوران میں بھی یہ رقم باقاعدہ روانہ کی جاتی۔ پھر جب علالت نے طول کھینچا اور مالی دشواریاں بڑھیں تو اس میں تخفیف کرنا پڑی، لیکن رقم کی ترسیل میں کوئی فرق نہ آیا۔ آخری منی آرڈر میرے ہاتھوں سے ہوا، میں نے تعمیل ارشاد کردی۔ 

اس سلسلے میں اقبال کی جو ذہنی کیفیت تھی وہ عطیہ فیضی کے نام ان کے خط محررہ 9 اپریل 1909ء سے ظاہر ہے۔ لکھتے ہیں : 

میں کوئی ملازمت نہیں کرنا چاہتا۔ میری خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد اس ملک سے بھاگ جاؤں۔ اس کی وجہ آپ کو معلوم ہے، میں اپنے بھائی کا ایک قسم کا اخلاقی قرضدار ہوں اور صرف اسی چیز نے مجھے روک رکھا ہے۔ میری زندگی نہایت مصیبت ناک ہے۔ یہ لوگ میری بیوی کو زبردستی مجھ پر منڈھ دینا چاہتے ہیں۔ میں نے اپنے والد کو لکھ دیا ہے کہ انہیں میری شادی کردینے کا کوئی حق نہ تھا، بالخصوص جب کہ میں نے اس قسم کے تعلق میں پڑنے سے انکار کردیا تھا۔ میں اس کی کفالت کرنے پر آمادہ ہوں، لیکن اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنانے کو ہرگز تیار نہیں۔ ایک انسان ہونے کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا حق ہے۔ اگر معاشرہ یا فطرت وہ حق مجھے دینے سے انکاری ہیں تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔ میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے خواری میں پناہ ڈھونڈوں، جس سے خودکشی آسان ہوجاتی ہے۔کتابوں کی یہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اندر اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ میں ان کتابوں کو اور ان کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بناسکتا ہوں۔ آپ کہیں گی کہ ایک اچھے خدا نے یہ سب کچھ تخلیق کیا ہے، ممکن ہے ایسا ہی ہو، مگر اس زندگی کے تلخ حقائق کسی اور ہی نتیجے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ ذہنی طور پر ایک اچھے خدا کی بجائے کسی قادر مطلق شیطان پر یقین لے آنا زیادہ آسان ہے۔ مہربانی کرکے ایسے خیالات کے اظہار کے لیے مجھے معاف کیجیے گا۔ میں ہمدردی کا خواستگار نہیں ہوں۔ میں تو صرف اپنی روح کا بوجھ اتارنا چاہتا تھا۔ 

اقبال کی اس شادی کی ناکامی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ ان کے دونوں بچے شفقت پدری سے محروم رہ گئے۔ ایسی صورت میں بچوں کی ہمدردیاں عموماً ماں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ معراج بیگم اور آفتاب اقبال کے بچپن اور جوانی کا بیشتر زمانہ ماں کے ساتھ ننھیال میں گزرا۔ جب دونوں کچھ بڑے ہوگئے تو دادا اور دادی کے پاس سیالکوٹ میں رہنے لگے۔ باپ کے ساتھ تو ان کی ملاقات شاذ و نادر ہی ہوتی تھی۔ اس کے باوجود اقبال معراج بیگم(بیٹی) سے بڑی محبت کرتے تھے۔ معراج بیگم(بیٹی) ماں باپ کے تعلقات میں کشیدگی پر اندر ہی اندر کڑھتی رہتیں، لیکن کیا کرسکتی تھیں، بے بس تھیں۔ انہیں جوانی ہی میں خنازیر کا مرض لاحق ہوا، اور انیس برس کی عمر میں 17 اکتوبر 1915ء کو وفات پاگئیں۔ 

آفتاب اقبال اپنے دادا کے منظور نظر تھے۔ ان کا نام بھی شیخ نور محمد ہی نے رکھا تھا۔لیکن شفقت پدری کی عدم موجودگی میں اپنے تایا کی سخت طبیعت کو انہوں نے کبھی قبول نہ کیا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، آفتاب اقبال کے دل میں یہ بات ہمیشہ کے لیے بیٹھ گئی کہ ان کی ماں کے ساتھ باپ نے نا انصافی کی ہے۔ نتیجتاً باپ بیٹے کے اختلافات بڑھتے چلے گئے۔ اقبال کے بعض احباب کی کوششوں کے باوجود ان کی آپس کی غلط فہمیاں دور نہ ہوسکیں، تا آنکہ اقبال کی زندگی ہی میں باپ بیٹے میں قطع تعلقی ہوگئی۔ 

(آنے والی پوسٹ علامہ اقبال کی دوسری ازواج سردار بیگم اور مختار بیگم کے حوالے سے ہوگی) 

حوالہ کتاب : "زندہ رُود"
از : "ڈاکٹر جاوید اقبال"
ص : 199..200..201
طالب دعا کاشف ترک ـ
ـــــــــــــــــــــــــ کاشف ترک کی وال سے ـ کاپی پیسٹ و انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ــــ 
فون نمبر ـ 03153533437 ـــــ dt.08.12.2020 
دجال ‏صاحب ‏پر ‏ایک ‏نظر ‏ـ ‏ایک ‏مزاحیہ ‏تحریر ‏ـ ‏از ‏ــ  ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

دجال ‏صاحب ‏پر ‏ایک ‏نظر ‏ـ ‏ایک ‏مزاحیہ ‏تحریر ‏ـ ‏از ‏ــ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏... ‏

دجال صاحب پر ایک فرضی نظر ـ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک نیم مزاحیہ تحریر،        ازــــ  غلام محمد وامِق ـ
ہم اس پر تو بات نہیں کریں گے کہ کووڈ 19،  کسے کہتے ہیں، البتہ ہم اردو کے کورونا کو کرونا ضرور پڑھ سکتے ہیں، یعنی کروـ نا، ــ یعنی ہر اچھے اور اسلامی کام سے انکار ــ
اب انکار کو عربی زبان میں " کفر " کہا جاتا ہے، اور انکار کرنے والے کو کافر ــ باالفاظِ دیگر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کرونا کے داعی کافر ہوئے (معزرت) ـ تو اب ہم جب دجال کے متعلق سوچتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک آنکھ سے کانا ہوگا، (اب یہ معلوم نہیں کہ کیوں ہوگا؟ اور کیا یہ نقص پیدائشی ہوگا) ـ بہرحال ہم کانا ہونے کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سب عالم کو ایک آنکھ سے دیکھے گا یعنی سب کو اپنا ہی ماتحت بنا کر رکھنے کی کوشش کرے گا ـ پھر اس کے ماتھے پر لفظ " کافر " واضح طور پر لکھا ہوگا، جوکہ ہمیں اب واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ " کرونا " کس کے ماتھے پر لکھا ہوا ہے ـ پھر وہ اسرائیل کی طرف سے آئے گا ــ پھر وہ تمام مسلمانوں کو عبادات کرنے سے روکے گا، مساجد بند کروادے گا ـ مسلمانوں کے عقائد میں شکوک وشبہات پیدا کرکے خود کو خدا تسلیم کروانے کی کوشش کرے گا ـ اور اپنا خوف پیدا کردے گا ــ سب لوگ اس سے ڈریں گے ــ
اب یہاں تک تو بات سمجھ آتی ہے، باقی حضرت عیسیٰ کا نزول، اور امام مہدی وغیرہ کے نزول، کا مسئلہ باقی ہے ـ
دیکھتے ہیں کہ پردۂ غیب سے کیا ظہور میں آتا ہے ـ؟
ــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ
مورخہ ـ تین مئی دوہزار بیس ـــ بروز اتوار ــ
ماضی ‏کے ‏جھروکوں ‏سے ‏ـ ‏ایک ‏یادگار ‏واقعہ ‏... سابق ‏نگراں ‏وزیرِاعظم ‏پاکستان ‏ــ ‏ازـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏...‏

ماضی ‏کے ‏جھروکوں ‏سے ‏ـ ‏ایک ‏یادگار ‏واقعہ ‏... سابق ‏نگراں ‏وزیرِاعظم ‏پاکستان ‏ــ ‏ازـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏...‏

ماضی کے جھروکوں سے ـ ـ ـ  
یادوں کے دریچوں سے  ـ ـ ـ  
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ  ایک واقعہ،  " یادگار " 
از ـ غلام محمد وامِق،  ــــــــــــــــــــــــــــــــــ

سابق نگراں وزیرِاعظم پاکستان، اور سابق وزیرِاعلیٰ سندھ،  جناب " غلام مصطفٰے جتوئی " صاحب (مرحوم) نے ـ ـ ـ  "پاکستان پیلپلز پارٹی "  کو چھوڑ کر اپنی نئی پارٹی          " نیشنل پیپلز پارٹی "  (NPP)  بنائی، تو پارٹی کا دفتر کھولنے کے لئے محراب پور تشریف لائے، ... اس سے قبل اس وقت کے چیئرمین ٹاؤن کمیٹی محراب پور محترم " شوکت علی خان لودھی " صاحب  مرحوم، ( موجودہ چیئرمین فاروق خان لودھی کے والِد)  نے مجھے پیغام بھجوایا کہ، آپ نے جتوئی صاحب کے جلسہ میں کوئی نظم سنانی ہے، لہٰذا تیاری کرلیں،  یاد رہے کہ شوکت خان لودھی صاحب، ہماری ادبی تنظیم " بزمِ ادب محراب پور " کے اعزازی سرپرستِ اعلیٰ بھی تھے ـ ـ ـ
قصہ مختصر،  مورخہ 5 دسمبر 1986، بروز جمعة المبارک،  شوکت خان صاحب کے بنگلے پر مذکورہ پروگرام رکھا گیا ـ  شام کے وقت ایڈووکیٹ " شیردین بھٹی صاحب " مجھے اپنی موٹرسائیکل پر جلسہ گاہ لے گئے،  اسٹیج پر وقت کے بڑے بڑے رئیس، جاگیردار عمائدین، جتوئی صاحب کے ساتھ براجمان تھے ـ چند لوگ جو مجھے یاد ہیں، ہمارے موجودہ ایم این اے سید ابرار علی شاہ کے بڑے بھائی،  ھالانی کے " سید منظور علی شاہ صاحب " جوکہ ہمیشہ ایم پی اے یا ایم این اے منتخب ہوتے رہتے تھے ـ اور پیر آف رانی پور ( نام یاد نہیں) اور دیگر منسٹر وغیرہ شامل تھے ـ  ان سب لوگوں نے نئی پارٹی " این پی پی " کی تشکیل کی ضرورت اور اہمیت پر تقاریر کیں ـ آخر میں پارٹی کے بانی " غلام مصطفٰی جتوئی " صاحب کی تقریر سے پہلے مجھے بھی دعوتِ کلام دی گئی،  میں نے اسٹیج پر جاکر اپنی لکھی ہوئی نظم سنانی شروع کی تو میں نے محسوس کیا کہ سامنے والے حاضرینِ جلسہ تو واہ واہ کر ہی رہے تھے، لیکن اپنے پیچھے اسٹیج پر سے بھی مجھے داد دی جارہی تھی ـ  
نظم پڑھ کر جب میں واپسی کے لئے مُڑا تو میرے عین پیچھے بیٹھے ہوئے، " غلام مصطفٰے جتوئی " صاحب اٹھ کھڑے ہوئے، اور مجھ سے بغلگیر ہوکر اپنی خوشی کا اظہار کیا ـ پھر کیا تھا، اسٹیج پر موجود تمام ہی لوگ کھڑے ہوگئے، اور مجھ سے باری باری گلے ملنا شروع کردیا ـ  میں حیران و ششدر کہ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے ـ؟  ــــ  بقولِ شاعر ـ " کِتھے مہرعلی، کتھے تیری ثنا " ـــ کہ جو لوگ مجھ جیسے لوگوں سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے، وہ مجھ سے ہنس ہنس کر بغلگیر ہورہے تھے ـ ـ ـ
بہرحال جتوئی صاحب کی تقریر کے بعد اجلاس کے اختتام کا اعلان کیا گیا اور  تمام حاضرین کو کھانے کے لئے اندر بلایا گیا، ..... تب میں نے دیکھا کہ انتظامیہ کی طرف سے دو قطاریں بنائی گئی ہیں، ایک قطار عمائدینِ خاص کے لئے، جبکہ دوسری قطار عام حاضرین کے لئے ـ  مجھے یہ دیکھ کر  کچھ عجیب سا لگا ــ  چنانچہ عام حاضرین کی قطار میں شامل ہونا میں نے مناسب نہیں سمجھا،  اور خاص عمائدین کی طرف مجھے بلایا نہیں گیا،  حالانکہ  کچھ عام لوگ بھی بغیر کہے خاص قطار میں شامل ہورہے تھے لیکن مجھے بات سمجھ نہیں آئی، لہٰذا چپ چاپ وہاں سے واپس گھر کی راہ لی ـــــــــــ  تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب ہور سندھ ـ
فون ـ 03153533437 .....  dt: 23.11.2019
Powered by Blogger.