عورتوں کو بھی مردوں کے برابر  حقوق ملنے چاہئیں ===  انتخاب و  ترمیم  ــ  غلام محمد وامِق ــ  میں مرد ہوں مجھے عورت کی برابری کے حقوق چاہئیں ـــ میں جب بس میں سوار ہوں تو لڑکیاں مجھے دیکھ کر سیٹ چھوڑ دیں میں جب بینک،ڈاکخانے یا کسی بھی دفتر میں جاؤں تو لڑکیاں مجھے لائن کراس کر کے آگے جانے دیں،اور خود انیسویں نمبر سے شروع ہوں۔ جب کبھی پبلک میں میری کسی لڑکی سے لڑائی ہو جائے، یا کوئی لڑکی رش میں غلطی سے مجھ سے ٹکراجائے،  تو میرا حق ہے کہ میں لڑکی کو وٹ وٹ چپیڑیں ماروں اور لڑکی آگے سے ہاتھ نہ اٹھائے، جیسے مرد سے توقع کی جاتی ہے ۔۔۔ میرا حق ہے، میں جیسے چاہوں کپڑے پہنوں۔۔لہذا اب سے میں صرف اور صرف  سکن ٹائٹ انڈر وئیر میں گھوما کروں گا ــــــــ اور سنو اگر میرے باڈی کٹس یا کسی بھی عضو کی ظاہر ہوتی شبیہ کسی لڑکی کو بری لگی تو یہ میرا قصور نہیں اس کے ذہن کی گندگی ہو گی۔۔ بائیک پنکچر ہونے پر لڑکا روڈ سائیڈ سٹاپ پر کھڑا ہو کے موبائل پر گیم کھیلے گا، اور لڑکی موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھ کے چلاتے ہوئے پنکچر لگوانے جائے گی۔۔ــ اور بالکل ایسے ہی کار میں پٹرول ختم ہونے پر لڑکا سٹیرنگ سنبھالے گا اور لڑکی کار کو دھکا لگائے گی۔۔۔ دیکھئے میں برابری کا قائل ہوں مجھے برابری کے حقوق دینے بھی ہیں،  خواتین کو میں اپنے سے کم نہیں سمجھتا۔۔ لہذا دسمبر، جنوری کی سردیوں میں جب کسی لوکل بس میں سوار ہوتے ہوئے جگہ کم  نظر آئی تو میں بھاگ کر سیٹ پر بیٹھ جاوں گا اور نبیلہ، شکیلہ،  صائمہ، کھڑی ہوں گی۔ــــ  صبا، مہوش، صدف، عائشہ وغیرہ بس کے باہر لگے ہوئے پائپ کو پکڑ کر لٹکی ہوں گی، روبینہ، ارم، بشریٰ، سدرہ وغیرہ بس کی چھت پر چڑھ کر بیٹھیں گی، جہاں پر سامنے سے آنی والی زور دار ہوا بھلے ان کا میک اپ اکھاڑ پھینکے اور منہ میں اور آنکھوں میں گھس کر انہیں باگڑ بلا بنا دے ــــــ ہمارے محلے کا گٹر بند ہے اور میں کسی فیمنسٹ عورت کو بلاؤں گا جو گٹر میں گلے تک اتر کر گٹر صاف کرے اور بالٹیاں بھر بھر کے دور پھینک کے آئے۔۔۔ نیز نالیوں اور گلیوں کی.صفائی کے لئے خواتین کو بھی سینیٹری ورکرز کے جاب ملنے چاہئیں، اس کے بغیر تو برابری ممکن نہیں ـــ اور آج میرے ہمسائے کی کھیت میں پانی لگانے کی باری ہے، اس نے بتایا ہوا ہے گھر،  کہ بیٹے جبار کو بخار ہے وہ نہیں جائے گا تین بجے رات کو پانی لگانے، لہذا بیٹی کو سمجھا دیا ہے کہ بیلچہ کدال وغیرہ سنبھال لے اور صبح ادھا گھنٹا پہلے ہی اٹھ جائے کہیں پانی کو دیر نہ ہو جائے۔۔دیکھو اب یہ آپشن نہیں ہے لڑکی کے لیے کہ جاب مل گئی تو مل گئی ورنہ گھر بیٹھی رہی،  نہ نہ نہ ۔ یہ تو کمزوری ظاہر ہو جائے گی۔۔ اب نوکری نہ ملنے پر چاچے غفورے کے اینٹوں کے بھٹے پر جانا ہے سمیرا نے۔۔اور ثوبیہ کی ٹھیکیدار سے بات ہو گئی ہے، جو سڑک بنا رہا ہے، وہاں تارکول ڈالنے کے لیے مزدور چاہیئے 450 روپے دے گا دن کے۔۔۔اور ساتھ ہی شمائلہ کی بھی بات بن گئی، منڈی جائے گی صبح 4 بجے کپاس کی ٹرالی بھرنے اور پھر اسی ٹرالی کے اوپر بیٹھ کر 170 کلو میٹر واپسی کا سفر بھی کرنا ہے ۔۔ـــ واپس آ کر بڑا ٹرالہ کھاد کا اتارنا ہے،  دس روپے فی بوری کے ہیں، سو سو بوری بھی اتاری تو ہزار ہزار روپے۔۔۔واہ۔۔۔واہ ــ کمائیاں۔۔۔   اور  سنئے ! ـ اب پیسوں کا مسئلہ نہیں،  گاؤں کے چوہدری سے قرض لے سکتی ہیں آپ،ـــ  20 ہزار کے بدلے مہینے میں 20 بار ذلیل ہی کرے گا نا تو کیا ہوا مرد بھی تو ہوتے رہتے ہیں کئی ذلیل ،  اور آپ کوئی مردوں سے کم تھوڑی ہیں۔؟ ۔  اور ہاں اگر قرض چکانے میں دیر ہو گئی تو چوہدری آپکو اٹھوا کر اپنے  ڈیرے پر لے جائے گا،  6 بندوں سے پٹوائے گا، غنڈے لاتوں گھونسوں پر رکھ لیں گے تْنی(ناف) میں ٹھڈے ماریں گے کھا لینا آرام سے جیسے مرد کھاتے ہیں، ( اور کوئی بنیادی حقوق کی انجمن درمیان میں نہیں آئے گی) ــــــ دیکھو اب اگر بوڑھی بھی ہو گئی ہو تو پریشان مت ہونا،   اگر وزنی کام نہیں کیا جاتا تو بس سائیکل پر کھلونے لادو اور دیہاتوں میں نکل جاؤ بیچنے کے لئے، ــ یا پھر صبح سے شام تک  ٹوٹی ہوئی جوتی پہنے چیتھڑوں جیسے دو کپڑے ڈالے، سرد ٹھٹھرتی رات میں گرم انڈوں کا کولر اٹھاؤ اور نکل جاؤ شہر کی سڑکوں پر آوازیں لگاتے ہوئے۔۔۔آنڈے گرم آنڈے۔۔ــــــ آفٹر آل آپ مردوں سے کم تھوڑی ہیں۔۔! ! ـــــــــــــ نوٹ: ــــ یہ پوسٹ ان خواتین کے نام ہے جو اپنے مردوں سے برابری چاہتی ہیں , دیہاتی اور پردہ نشیں خواتین کی تو ایسی کوئی خواہش نہیں ہے ـــــــــ انتخاب ـ غلام محمد وامِق،  محرابپور سندھ ـــــــــــ  مورخہ ـ 05، مارچ،  2020. ــــــ

عورتوں کو بھی مردوں کے برابر حقوق ملنے چاہئیں === انتخاب و ترمیم ــ غلام محمد وامِق ــ میں مرد ہوں مجھے عورت کی برابری کے حقوق چاہئیں ـــ میں جب بس میں سوار ہوں تو لڑکیاں مجھے دیکھ کر سیٹ چھوڑ دیں میں جب بینک،ڈاکخانے یا کسی بھی دفتر میں جاؤں تو لڑکیاں مجھے لائن کراس کر کے آگے جانے دیں،اور خود انیسویں نمبر سے شروع ہوں۔ جب کبھی پبلک میں میری کسی لڑکی سے لڑائی ہو جائے، یا کوئی لڑکی رش میں غلطی سے مجھ سے ٹکراجائے، تو میرا حق ہے کہ میں لڑکی کو وٹ وٹ چپیڑیں ماروں اور لڑکی آگے سے ہاتھ نہ اٹھائے، جیسے مرد سے توقع کی جاتی ہے ۔۔۔ میرا حق ہے، میں جیسے چاہوں کپڑے پہنوں۔۔لہذا اب سے میں صرف اور صرف سکن ٹائٹ انڈر وئیر میں گھوما کروں گا ــــــــ اور سنو اگر میرے باڈی کٹس یا کسی بھی عضو کی ظاہر ہوتی شبیہ کسی لڑکی کو بری لگی تو یہ میرا قصور نہیں اس کے ذہن کی گندگی ہو گی۔۔ بائیک پنکچر ہونے پر لڑکا روڈ سائیڈ سٹاپ پر کھڑا ہو کے موبائل پر گیم کھیلے گا، اور لڑکی موٹر سائیکل کی ٹینکی پر بیٹھ کے چلاتے ہوئے پنکچر لگوانے جائے گی۔۔ــ اور بالکل ایسے ہی کار میں پٹرول ختم ہونے پر لڑکا سٹیرنگ سنبھالے گا اور لڑکی کار کو دھکا لگائے گی۔۔۔ دیکھئے میں برابری کا قائل ہوں مجھے برابری کے حقوق دینے بھی ہیں، خواتین کو میں اپنے سے کم نہیں سمجھتا۔۔ لہذا دسمبر، جنوری کی سردیوں میں جب کسی لوکل بس میں سوار ہوتے ہوئے جگہ کم نظر آئی تو میں بھاگ کر سیٹ پر بیٹھ جاوں گا اور نبیلہ، شکیلہ، صائمہ، کھڑی ہوں گی۔ــــ صبا، مہوش، صدف، عائشہ وغیرہ بس کے باہر لگے ہوئے پائپ کو پکڑ کر لٹکی ہوں گی، روبینہ، ارم، بشریٰ، سدرہ وغیرہ بس کی چھت پر چڑھ کر بیٹھیں گی، جہاں پر سامنے سے آنی والی زور دار ہوا بھلے ان کا میک اپ اکھاڑ پھینکے اور منہ میں اور آنکھوں میں گھس کر انہیں باگڑ بلا بنا دے ــــــ ہمارے محلے کا گٹر بند ہے اور میں کسی فیمنسٹ عورت کو بلاؤں گا جو گٹر میں گلے تک اتر کر گٹر صاف کرے اور بالٹیاں بھر بھر کے دور پھینک کے آئے۔۔۔ نیز نالیوں اور گلیوں کی.صفائی کے لئے خواتین کو بھی سینیٹری ورکرز کے جاب ملنے چاہئیں، اس کے بغیر تو برابری ممکن نہیں ـــ اور آج میرے ہمسائے کی کھیت میں پانی لگانے کی باری ہے، اس نے بتایا ہوا ہے گھر، کہ بیٹے جبار کو بخار ہے وہ نہیں جائے گا تین بجے رات کو پانی لگانے، لہذا بیٹی کو سمجھا دیا ہے کہ بیلچہ کدال وغیرہ سنبھال لے اور صبح ادھا گھنٹا پہلے ہی اٹھ جائے کہیں پانی کو دیر نہ ہو جائے۔۔دیکھو اب یہ آپشن نہیں ہے لڑکی کے لیے کہ جاب مل گئی تو مل گئی ورنہ گھر بیٹھی رہی، نہ نہ نہ ۔ یہ تو کمزوری ظاہر ہو جائے گی۔۔ اب نوکری نہ ملنے پر چاچے غفورے کے اینٹوں کے بھٹے پر جانا ہے سمیرا نے۔۔اور ثوبیہ کی ٹھیکیدار سے بات ہو گئی ہے، جو سڑک بنا رہا ہے، وہاں تارکول ڈالنے کے لیے مزدور چاہیئے 450 روپے دے گا دن کے۔۔۔اور ساتھ ہی شمائلہ کی بھی بات بن گئی، منڈی جائے گی صبح 4 بجے کپاس کی ٹرالی بھرنے اور پھر اسی ٹرالی کے اوپر بیٹھ کر 170 کلو میٹر واپسی کا سفر بھی کرنا ہے ۔۔ـــ واپس آ کر بڑا ٹرالہ کھاد کا اتارنا ہے، دس روپے فی بوری کے ہیں، سو سو بوری بھی اتاری تو ہزار ہزار روپے۔۔۔واہ۔۔۔واہ ــ کمائیاں۔۔۔ اور سنئے ! ـ اب پیسوں کا مسئلہ نہیں، گاؤں کے چوہدری سے قرض لے سکتی ہیں آپ،ـــ 20 ہزار کے بدلے مہینے میں 20 بار ذلیل ہی کرے گا نا تو کیا ہوا مرد بھی تو ہوتے رہتے ہیں کئی ذلیل ، اور آپ کوئی مردوں سے کم تھوڑی ہیں۔؟ ۔ اور ہاں اگر قرض چکانے میں دیر ہو گئی تو چوہدری آپکو اٹھوا کر اپنے ڈیرے پر لے جائے گا، 6 بندوں سے پٹوائے گا، غنڈے لاتوں گھونسوں پر رکھ لیں گے تْنی(ناف) میں ٹھڈے ماریں گے کھا لینا آرام سے جیسے مرد کھاتے ہیں، ( اور کوئی بنیادی حقوق کی انجمن درمیان میں نہیں آئے گی) ــــــ دیکھو اب اگر بوڑھی بھی ہو گئی ہو تو پریشان مت ہونا، اگر وزنی کام نہیں کیا جاتا تو بس سائیکل پر کھلونے لادو اور دیہاتوں میں نکل جاؤ بیچنے کے لئے، ــ یا پھر صبح سے شام تک ٹوٹی ہوئی جوتی پہنے چیتھڑوں جیسے دو کپڑے ڈالے، سرد ٹھٹھرتی رات میں گرم انڈوں کا کولر اٹھاؤ اور نکل جاؤ شہر کی سڑکوں پر آوازیں لگاتے ہوئے۔۔۔آنڈے گرم آنڈے۔۔ــــــ آفٹر آل آپ مردوں سے کم تھوڑی ہیں۔۔! ! ـــــــــــــ نوٹ: ــــ یہ پوسٹ ان خواتین کے نام ہے جو اپنے مردوں سے برابری چاہتی ہیں , دیہاتی اور پردہ نشیں خواتین کی تو ایسی کوئی خواہش نہیں ہے ـــــــــ انتخاب ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـــــــــــ مورخہ ـ 05، مارچ، 2020. ــــــ

Powered by Blogger.