جِبِلَّت اور فطرت === تحریر ــ غلام محمد وامِق ــــــــــــ یہ ایک خالص علمی گفتگو ہے، لہٰذا دلیل کے ساتھ اختلاف کرنے کا آپ کو مکمل حق حاصل ہے ــــ اہلِ علم حضرات کے لئے یہ عنوان کوئی غیرمانوس نہیں ہے ـ دراصل یہ علمی اور فلسفیانہ بحث ہے، بہت سے علماء نے اس موضوع پر اپنی بیش قیمت آراء لکھی ہیں ـ لیکن کوئی ٹھوس، مدلل اور قطعی فیصلہ نہیں دیا گیا ـ مختلف مکتبہء فکر نے مختلف آراء کا اظہار فرمایا ہے ـ اور اس مسئلے پر بڑی بڑی فلسفیانہ بحثیں کی گئی ہیں، بات تو بہت لمبی ہوسکتی ہے لیکن میں انتہائی اختصار کے ساتھ اس مسئلے پر بات کروں گا ــ کچھ علماء نے فطرت اور جبلت کی الگ الگ تشریحات کی ہیں، اور کچھ نے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کردیا ہے ـ جبکہ کچھ نے جبلت اور فطرت کو ایک ہی جذبے اور احساس کا نام دیا ہے، اس مسئلے پر میں کسی سے اختلاف نہیں کررہا بلکہ بات مزید واضح کرنے اور سمجھنے کے لئے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں ـ مختصراّ یہ کہ جِبِلَّت میں کوئی بھی ارادہ یا اختیار شامل نہیں ہوتا، جبکہ فطرت میں تھوڑا بہت ارادہ بھی شامل ہوتا ہے، دوسرے لفظوں میں فطرت، عادت کے قریب ترین عمل ہے ـ عادت کو تبدیل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا جبکہ فطرت پر کنٹرول کرنا تقریباّ ناممکن ہوتا ہے ـ فطرت اور جبلت میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ سب انسانوں کی فطرت ایک جیسی نہیں ہوتی، فطرت نیک اور بد بھی ہوتی ہے، جبکہ تمام انسانوں کی جبلت ایک جیسی ہوتی ہے ـ فطرت کے متعلق ہم عام طور پر سنتے ہیں کہ فلاں شخص نیک فطرت ہے، اور فلاں شخص بدفطرت ہے ـ بعض جبلتیں انسانوں اور حیوانوں میں یکساں ہوتی ہیں، مثال کے طور پر بھوک، پیاس لگنا، رفع حاجت کرنا، کسی بھی قسم کی قید اور پابندیوں کو برضا ورغبت قبول نہ کرنا، جنسی تسکین حاصل کرنا، دشمن سے محفوظ ہونا، وغیرہ وغیرہ ــ ـ جبکہ انسانی فطرت میں خوب سے خوب تر کی تلاش، رہائش اور جنسی تسکین کے لئے پرسکون حالات، شامل ہیں ـ مزید انسانی فطرت میں زندگی کو خوبصورت بنانا، اپنی نسل کی بقا کی خواہش کرنا، بھی شامل ہیں، جنہیں ہر انسان اپنے اپنے دستیاب ماحول اور حالات کے مطابق پورا کرتا ہے ـ نیز حاکم بننا، محکوم رہنا، لڑنا جھگڑنا، حسد کرنا، اور چاہنا، اور چاہے جانے کی خواہش، نفرت اور محبت کے جزبات بھی انسانی فطرت میں شامل ہیں ـ نیز مل جل کر رہنا اور سماجی و معاشی زندگی گزارنا بھی انسانی فطرت کی خصوصیات ہیں ـ جبلت، فطرت سے اولین درجہ رکھتی ہے، کیونکہ جبلت انسانی ہو یا حیوانی تبدیل نہیں ہوسکتی ـ جیسا کہ درندے ( شیر وغیرہ) چیر پھاڑ کر کھاتے ہیں " گوشت کھاتے ہیں، وہ گھاس نہیں کھاسکتے، اسی طرح چوپائے گھاس کھاتے ہیں وہ گوشت نہیں کھاسکتے یہ ان کی جبلت میں شامل ہے، اسے مزید ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے، جیسا کہ اولین انسان حضرت آدم کے بڑے بیٹے قابیل نے اپنے چھوٹے بھائی ہابیل کو فقط ایک عورت کے حصول کے لئے قتل کردیا تھا، وجہ جنسی رقابت تھی، جنسی تسکین ہر انسان کی جبلت میں شامل ہے، لیکن اس کا حصول ہر انسان اپنی فطرت کے مطابق کرتا ہے. قابیل اور ہابیل اپنی جبلت ( جنسی تسکین) کے لئے فطری طور پر ایک ہی عورت کو چاہتے تھے ـ چنانچہ قابیل کی فطرت میں جارحیت اور تشدد تھا، لہٰذا اس نے اپنی فطرت سے مجبور ہوکر اپنے بھائی کو بھی قتل کردیا، جبکہ ہابیل کی فطرت میں امن پسندی، رحم اور صلح جوئی تھا، جس کی وجہ سے ہابیل نے خود جارحیت مناسب نہ سمجھی اور قاتل بننے کی بجائے مقتول بن گیا ــ میرے اندازِ فکر کے مطابق جبلت اور فطرت کا فرق شاید بہت حد تک واضح ہوگیا ہے، وماعلیناالی البلاغ ـــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ 07.11.2019. dt .... فون ـ 03153533437
Subscribe to:
Posts (Atom)
Powered by Blogger.