....... غیرت کے نام پر قتل، یا " کاروکاری " .......ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق :ـــ نظریاتی اور سرحدی اختلافات کے باوجود پاک و ہند کے مابین چند گہرے ثقافتی اور جزباتی رسم و رواج ابھی تک برقرار اور یکساں ہیں ـ ان میں اچھی روایات کے ساتھ ساتھ ایک انتہائی تشویشناک اور قبیح عمل کا رواج بھی شامل ہے، جی ہاں وہ ہے غیرت کے نام پر قتل، جسے ہمارے ہاں سندھ میں " کاروکاری " بھی کہا جاتا ہے ـیہ ایک انتہائی متشددانہ، غیرفطری اور غیرانسانی رسم ہے، جوکہ قدیم دور سے چلی آرہی ہے، اس ہیبت ناک رسم پر دونوں ممالک میں سے کسی ملک میں بھی اعلیٰ سطح پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا ـ اور نہ ہی اس مسئلے پر لوگوں کی ذہنی تربیت کا کوئی معقول بندوبست کیا گیا ہے ـ " بس چلی جارہی ہے خدا کے سہارے " ــــــــانڈیا میں یہ قتل و غارتگری خاندانی غیرت اور خاندانی وقار کے نام پر کی جاتی ہے ـ جبکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ درندگی خاندانی وقار کے علاوہ اسلام اور قبائلی جذبۂ انتقام کے نام پر بھی کی جاتی ہے ـ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس قدر گھناؤنے جرم پر کوئی بھی پشیمان یا شرمسار نہیں ہوتا، بلکہ اس شرمناک فعل کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے، اور اس فعل کے بعد اپنی انا کی ناک کو مزید اونچا سمجھ لیا جاتا ہے ـالمیہ یہ ہے کہ اس طرح کے قتل یا جرائم کوئی باقائدہ جرائم پیشہ قاتل، یا کوئی جنونی لوگ نہیں کرتے، بلکہ بقول شاعر ـــ " اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے "، کے مصداق یہ قابلِ نفرت کام قریب ترین اعزاء اور رشتہ دار انجام دیتے ہیں، جیسا کہ باپ، ماں، بیٹا، بھائی، چچا، تایا، دیور، جیٹھ، بھتیجا، بھانجہ وغیرہ ـ بعض مقامات پر یہ درندگی قبیلے کے سردار یا سرپنچ کے حکم پر بھی عمل میں لائی جاتی ہے ـــاس طرح کے قتل کو عام طور پر " اسلامی غیرت " کا نام بھی دیا جاتا ہے، حالانکہ تاریخِ اسلام اور اسلامی احکامات میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ـ جبکہ مشرکینِ مکہ نے دورِ جہالت میں چند ایک واقعات کے مطابق اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور ضرور کیا تھا، وہ بھی اس لئے کہ جہالت کے زیرِ اثر ان کا خیال تھا کہ ہم کسی کو اپنا داماد بناکر اپنی بیٹی اس کے حوالے کیوں کریں ـ وہ اس لئے کہ اس بات سے انہیں ندامت اور اپنی کمتری کا احساس ہوتا تھا ـ دوسرا یہ کہ بچیوں کو ماردینے کی ایک وجہ ان لوگوں کی غربت بھی ہوتی تھی ـ مزید یہ کہ اس طرح کے واقعات بھی تاریخ میں تقریباّ نہ ہونے کے برابر ہیں ـ قرآن و احادیث میں کہیں پر بھی اس طرح کے فعلِ مذموم کرنے کا کوئی اشارہ تک نہیں ملتا ـ اسلامی تعلیم کے مطابق تو اگر آپ کی بیوی اپنی عصمت میں خیانت کی مرتکب پائی جاتی ہے تو آپ اسے زیادہ سے زیادہ طلاق دیکر خود کو اس سے علیحدہ کرسکتے ہیں، اسے قتل نہیں کرسکتے ـ اگر آپ کی بہن یا بیٹی آپ کی مرضی کے خلاف کسی سے شادی کرنا چاہتی ہے تو آپ اسے سمجھا سکتے ہیں، بصورتِ دیگر اس کی پسند میں رکاوٹ اس حد تک نہ بنیں کہ اسے قتل کرنے کی نوبت آجائے ـ اگر کوئی لڑکی کسی غیر مذہب سے شادی کرنا چاہتی ہے تو تب بھی قتل کرنا حد درجہ ظلم سمجھا جائے گا ـ ان باتوں کا حل صرف یہ ہی ہوسکتا ہے کہ بچی کو اس کی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے، اور اس کی بھلائی کے لئے خدا سے دعا کرنی چاہئے ـ اگر وہ غلط ہے تو اس کی سرکشی کا بدلہ خدا کے ہاں اسے مل جائے گا ـــ آپ کو اسے اپنی ناک یا خاندانی غیرت کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے ـ کیونکہ ہر عمل انسان کی تربیت اور سوچ کی وجہ سے ہوتا ہے ــ ان تمام محرکات میں قابلِ غور بات یہ بھی ہے کہ اگر آپ کی بیٹی کسی کو چاہتی ہے تو آپ اسے اور اس کے آشنا کو قتل کردیتے ہیں، اس کے برعکس اگر آپ کا بیٹا کسی لڑکی کے ساتھ پکڑا جائے تو آپ اس معاملے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں، اور اسے جوانی کی بھول کہہ کر بھلا دیا جاتا ہے ـ ـ ـ کیا یہ غیرت کا دوہرا معیار نہیں ہے ــ؟ ؟ ؟ ــــسوچئے گا ضرور ــ کہ کہیں یہ مکافاتِ عمل تو نہیں ـ؟ کسی بچی کو قتل کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں ضرور جھانک لیجئے گا، کہ کہیں آپ کے فعلِ بد کی سزا تو آپ کو آپ کی بچی یا بہن کے فعلِ بد کی شکل میں تو نہیں مل رہی ـ؟ ؟ ؟ ـــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ محراب پور سندھ فون ـ 03153533437 ..... ‏dt: 19.11.2019


SHARE THIS
Previous Post
Next Post
Powered by Blogger.