‎نظریاتی عدم برداشت کا خوفناک رجحان  ــ      تحریر ـ  غلام محمد وامِق ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک وقت تھا کہ پاکستان کے لوگوں میں تحمل، برداشت اور بردباری عروج پر ہوتی تھی ـ کسی بھی خلافِ مِزاج بات یا خلافِ عقیدہ بات کا جواب دلیل سے دیا جاتا تھا،  دونوں اطراف سے دلائل کی جنگ ہوتی تھی، جس کے باعث لوگوں میں علمی ذوق بڑھتا تھا ـ ـ ـ  آج تو کسی بھی قسم کی نظریاتی مخالفت ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے ـــ اور مخالف سوچ کے آدمی کو ردِعمل میں قتل کردیا جاتا ہے ـ  کسی بھی شخص کے ماردینے سے اس کے نظریات ختم نہیں ہوتے،  بلکہ مزید بڑھتے ہیں ـ یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ مخالف نظریات کی بنا پر کسی آدمی کو ماردینے سے، آدمی تو مر جاتا ہے لیکن اس کے نظریات زندہ ہوجاتے ہیں ـ زور اور زبردستی سے کئے گئے ہر عمل کا ردِعمل انتہائی شدید ہوتا ہے ـ اگر کسی کے نظریات کو مارنا ہے تو دلائل سے مارو ـ ـ ـ اگر آپ کے دلائل میں وزن ہے اور وہ مضبوط اور سچے ہیں تو مخالف نظریات خودبخود مرجائیں گے ـــ اور جب کسی کے نظریات مرجائیں تو ان کا حامل شخص بھی خودبخود اپنی حیثیت کھودیتا ہے، گویا وہ بھی مرجاتا ہے ـ چنانچہ دلیل کا جواب دلیل سے دو، اور خود بھی جیو اور دوسروں کو بھی جینے دو ـــ  اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ ـ           ( وماعلینا الی البلاغ ) ـ ـ ـ  از ـ جی ایم وامِق، محراب پور سندھ ـ ‏dated..25.08.2019 ــ فون  ــ 03153533437

‎نظریاتی عدم برداشت کا خوفناک رجحان ــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک وقت تھا کہ پاکستان کے لوگوں میں تحمل، برداشت اور بردباری عروج پر ہوتی تھی ـ کسی بھی خلافِ مِزاج بات یا خلافِ عقیدہ بات کا جواب دلیل سے دیا جاتا تھا، دونوں اطراف سے دلائل کی جنگ ہوتی تھی، جس کے باعث لوگوں میں علمی ذوق بڑھتا تھا ـ ـ ـ آج تو کسی بھی قسم کی نظریاتی مخالفت ناقابلِ برداشت ہوگئی ہے ـــ اور مخالف سوچ کے آدمی کو ردِعمل میں قتل کردیا جاتا ہے ـ کسی بھی شخص کے ماردینے سے اس کے نظریات ختم نہیں ہوتے، بلکہ مزید بڑھتے ہیں ـ یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ مخالف نظریات کی بنا پر کسی آدمی کو ماردینے سے، آدمی تو مر جاتا ہے لیکن اس کے نظریات زندہ ہوجاتے ہیں ـ زور اور زبردستی سے کئے گئے ہر عمل کا ردِعمل انتہائی شدید ہوتا ہے ـ اگر کسی کے نظریات کو مارنا ہے تو دلائل سے مارو ـ ـ ـ اگر آپ کے دلائل میں وزن ہے اور وہ مضبوط اور سچے ہیں تو مخالف نظریات خودبخود مرجائیں گے ـــ اور جب کسی کے نظریات مرجائیں تو ان کا حامل شخص بھی خودبخود اپنی حیثیت کھودیتا ہے، گویا وہ بھی مرجاتا ہے ـ چنانچہ دلیل کا جواب دلیل سے دو، اور خود بھی جیو اور دوسروں کو بھی جینے دو ـــ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرو اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ ـ ( وماعلینا الی البلاغ ) ـ ـ ـ از ـ جی ایم وامِق، محراب پور سندھ ـ ‏dated..25.08.2019 ــ فون ــ 03153533437

یومِ آزادی پاکستان ـ یومِ قیامِ پاکستان ـ یومِ تشکیلِ پاکستان ـ؟؟؟ انتہائی معزرت کے ساتھ ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق  ــــــــــ   برائے تمہید ـــ ایک عام آدمی کی سوچ ــ ایک خاص آدمی کی سوچ ـ ایک محقق آدمی کی سوچ ـ عام آدمی سے مراد، وہ لوگ ہیں جو ہر کام صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے کرتے ہیں ـ خاص آدمی سے مراد ایسے تمام متحرک لوگ ہیں جو اپنی اپنی سوچ کے مطابق معاشرے کے تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ـ ـ ـ  مثلاﹰ، سماجی ورکر، سیاستدان، شاعر، ادیب،  صحافی وغیرہ ـ ـ ـ جبکہ محقق آدمی تمام مروج اصولوں اور نظریات سے قطع نظر اپنے سامنے آنے والے ہر مسئلے اور ہر منظر کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، اور بغیر تحقیق کسی بھی سوچ یا نظرئے کے مقلد نہیں بنتے ـــ تو جب ہم ایک محقق کی نظر سے مذکورہ بالا عنوان کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شدید حیرت و استعجاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ہم لوگ ہرسال باقاعدگی سے پاکستان کی آزادی کا جشن مناتے ہیں لیکن کسی بھی اربابِ اقتدار نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ " پاکستان " تو کبھی غلام رہا ہی نہیں تو آزادی کس بات کی ـ؟  غلام تو برِصغیر ہندوستان تھا ـ جس میں ہمارا یہ خطہ جسے بعد میں پاکستان کا نام دیاگیا، یہ متحدہ ہندوستان کی صورت میں برطانیہ کا غلام تھا ـ  ہندوستان کی آزادی کے فوراﹰ  بعد ہی پاکستان دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا ـ اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا، یا پاکستان کی تشکیل ہوئی ـ  لہٰذا ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ، یہ خطہ غلام ضرور رہا ہے، لیکن بحیثیتِ پاکستان ہم کبھی کسی کے غلام نہیں رہے ـ ــ یعنی ہندوستان کی آزادی کے بعد پاکستان تخلیق کیا گیا ـ  لہٰذا ہمیں چودہ اگست کے دن کو " جشنِ آزادی " کے بجائے " جشنِ قیامِ پاکستان " منانا چاہئے ـــ ‏No, ‏Independence day of Pakistan.  ‏But ‎...... ‏Creative day of Pakistan  ‎................................  اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے ـــ شاید کہ اتر جائے، تیرے دل میں میری بات ـ (علامہ اقبال) تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ                فون نمبر ـ 03153533437 ...... ‏dt: 14.08.2019

یومِ آزادی پاکستان ـ یومِ قیامِ پاکستان ـ یومِ تشکیلِ پاکستان ـ؟؟؟ انتہائی معزرت کے ساتھ ـ تحریر ـ غلام محمد وامِق ــــــــــ برائے تمہید ـــ ایک عام آدمی کی سوچ ــ ایک خاص آدمی کی سوچ ـ ایک محقق آدمی کی سوچ ـ عام آدمی سے مراد، وہ لوگ ہیں جو ہر کام صرف اور صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے کرتے ہیں ـ خاص آدمی سے مراد ایسے تمام متحرک لوگ ہیں جو اپنی اپنی سوچ کے مطابق معاشرے کے تمام مسائل حل کرنا چاہتے ہیں ـ ـ ـ مثلاﹰ، سماجی ورکر، سیاستدان، شاعر، ادیب، صحافی وغیرہ ـ ـ ـ جبکہ محقق آدمی تمام مروج اصولوں اور نظریات سے قطع نظر اپنے سامنے آنے والے ہر مسئلے اور ہر منظر کو تحقیق کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں، اور بغیر تحقیق کسی بھی سوچ یا نظرئے کے مقلد نہیں بنتے ـــ تو جب ہم ایک محقق کی نظر سے مذکورہ بالا عنوان کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں شدید حیرت و استعجاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ ہم لوگ ہرسال باقاعدگی سے پاکستان کی آزادی کا جشن مناتے ہیں لیکن کسی بھی اربابِ اقتدار نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ " پاکستان " تو کبھی غلام رہا ہی نہیں تو آزادی کس بات کی ـ؟ غلام تو برِصغیر ہندوستان تھا ـ جس میں ہمارا یہ خطہ جسے بعد میں پاکستان کا نام دیاگیا، یہ متحدہ ہندوستان کی صورت میں برطانیہ کا غلام تھا ـ ہندوستان کی آزادی کے فوراﹰ بعد ہی پاکستان دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا ـ اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا، یا پاکستان کی تشکیل ہوئی ـ لہٰذا ہم یہ بات کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ، یہ خطہ غلام ضرور رہا ہے، لیکن بحیثیتِ پاکستان ہم کبھی کسی کے غلام نہیں رہے ـ ــ یعنی ہندوستان کی آزادی کے بعد پاکستان تخلیق کیا گیا ـ لہٰذا ہمیں چودہ اگست کے دن کو " جشنِ آزادی " کے بجائے " جشنِ قیامِ پاکستان " منانا چاہئے ـــ ‏No, ‏Independence day of Pakistan. ‏But ‎...... ‏Creative day of Pakistan ‎................................ اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے ـــ شاید کہ اتر جائے، تیرے دل میں میری بات ـ (علامہ اقبال) تحریر ـ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ـ فون نمبر ـ 03153533437 ...... ‏dt: 14.08.2019

Powered by Blogger.