دولت کے سب گورکھ دھندے  نظم = غلام محمد وامِق   دُنیا میں اندھیر مچا ہے  الٹا ہر اِک کام ہوا ہے ۔  دیکھو کیسا دور ہے آیا  باعثِ عزّت ہے سرمایہ  رشتے ناطے خواب ہوئے ہیں  مہر و وفا نایاب ہوئے ہیں ۔  شیطاں نے پھیلائے پھندے ۔  دولت کے سب گورکھ دھندے ۔   دولت دیکھ کے جھکتے ہیں سَر  دولت مسجد ،  دولت مندَر   ۔  دولت دین ہے ، دولت مذہب ۔  غیرت عزّت ، دولت ہے سب ۔  دولت ہی مسجود ہوئی ہے ۔  دولت ہی معبود ہوئی ہے ۔  دولت کے سب بن گئے بندے ۔  دولت کے سب گورکھ دھندے ۔   دولت کا ہر اِک شیدائی ۔  دولت مند ہیں بھائی بھائی ۔ مفلس سے ہے کِس کا ناطہ ۔  دولت باپ ہے ،  دولت بیٹا ۔ دولت ہے شیطاں کا حربہ ۔  ظلم و ستم ہے اِس سے برپا ۔  حرص و ہَوَس میں ہیں سب اندھے ۔  دولت کے سب گورکھ دھندے ۔   دولت ہے دشمن انساں کی ۔  یہ ہے خواہش ہر شیطاں کی ۔  اسی سے اکثر بنے ہیں شیطاں ۔  دولت آئے ، جائے ایماں ۔   گر مُنصِف کی جھولی بھر دے ۔ مقتولوں کو قاتِل کر دے ۔  بھینسیں اُن کی جن کے ڈنڈے ۔  دولت کے سب گورکھ دھندے ۔   تھانہ کچہری اور عدالت ۔  مُفلِس کے حق میں ہے آفت ۔  کیسی یاری کیسی عداوت ۔  کیسی شفقت اور سخاوت ۔  کیسی دلیری اور شجاعت ۔  کیسی وامِق تیری ریاضت ۔  بن گئے سب کھانے کے دھندے ۔  دولت کے سب گورکھ دھندے ۔  دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فعلن فعلن فعل فعولن  فعل فعولن فعل فعولن ۔  بحر- ہندی متقارب اثرم مقبوض محذوف ۔  دسمبر 1993ء میں کہی گئی ۔

دولت کے سب گورکھ دھندے نظم = غلام محمد وامِق دُنیا میں اندھیر مچا ہے الٹا ہر اِک کام ہوا ہے ۔ دیکھو کیسا دور ہے آیا باعثِ عزّت ہے سرمایہ رشتے ناطے خواب ہوئے ہیں مہر و وفا نایاب ہوئے ہیں ۔ شیطاں نے پھیلائے پھندے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ دولت دیکھ کے جھکتے ہیں سَر دولت مسجد ، دولت مندَر ۔ دولت دین ہے ، دولت مذہب ۔ غیرت عزّت ، دولت ہے سب ۔ دولت ہی مسجود ہوئی ہے ۔ دولت ہی معبود ہوئی ہے ۔ دولت کے سب بن گئے بندے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ دولت کا ہر اِک شیدائی ۔ دولت مند ہیں بھائی بھائی ۔ مفلس سے ہے کِس کا ناطہ ۔ دولت باپ ہے ، دولت بیٹا ۔ دولت ہے شیطاں کا حربہ ۔ ظلم و ستم ہے اِس سے برپا ۔ حرص و ہَوَس میں ہیں سب اندھے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ دولت ہے دشمن انساں کی ۔ یہ ہے خواہش ہر شیطاں کی ۔ اسی سے اکثر بنے ہیں شیطاں ۔ دولت آئے ، جائے ایماں ۔ گر مُنصِف کی جھولی بھر دے ۔ مقتولوں کو قاتِل کر دے ۔ بھینسیں اُن کی جن کے ڈنڈے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ تھانہ کچہری اور عدالت ۔ مُفلِس کے حق میں ہے آفت ۔ کیسی یاری کیسی عداوت ۔ کیسی شفقت اور سخاوت ۔ کیسی دلیری اور شجاعت ۔ کیسی وامِق تیری ریاضت ۔ بن گئے سب کھانے کے دھندے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ فعلن فعلن فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن ۔ بحر- ہندی متقارب اثرم مقبوض محذوف ۔ دسمبر 1993ء میں کہی گئی ۔

 دولت کے سب گورکھ دھندے 

نظم = غلام محمد وامِق 


دُنیا میں اندھیر مچا ہے 

الٹا ہر اِک کام ہوا ہے ۔ 

دیکھو کیسا دور ہے آیا 

باعثِ عزّت ہے سرمایہ 

رشتے ناطے خواب ہوئے ہیں 

مہر و وفا نایاب ہوئے ہیں ۔ 

شیطاں نے پھیلائے پھندے ۔ 

دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ 


دولت دیکھ کے جھکتے ہیں سَر 

دولت مسجد ،  دولت مندَر   ۔ 

دولت دین ہے ، دولت مذہب ۔ 

غیرت عزّت ، دولت ہے سب ۔ 

دولت ہی مسجود ہوئی ہے ۔ 

دولت ہی معبود ہوئی ہے ۔ 

دولت کے سب بن گئے بندے ۔ 

دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ 


دولت کا ہر اِک شیدائی ۔ 

دولت مند ہیں بھائی بھائی ۔

مفلس سے ہے کِس کا ناطہ ۔ 

دولت باپ ہے ،  دولت بیٹا ۔

دولت ہے شیطاں کا حربہ ۔ 

ظلم و ستم ہے اِس سے برپا ۔ 

حرص و ہَوَس میں ہیں سب اندھے ۔ 

دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ 


دولت ہے دشمن انساں کی ۔ 

یہ ہے خواہش ہر شیطاں کی ۔ 

اسی سے اکثر بنے ہیں شیطاں ۔ 

دولت آئے ، جائے ایماں ۔ 

 گر مُنصِف کی جھولی بھر دے ۔

مقتولوں کو قاتِل کر دے ۔ 

بھینسیں اُن کی جن کے ڈنڈے ۔ 

دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ 


تھانہ کچہری اور عدالت ۔ 

مُفلِس کے حق میں ہے آفت ۔ 

کیسی یاری کیسی عداوت ۔ 

کیسی شفقت اور سخاوت ۔ 

کیسی دلیری اور شجاعت ۔ 

کیسی وامِق تیری ریاضت ۔ 

بن گئے سب کھانے کے دھندے ۔ 

دولت کے سب گورکھ دھندے ۔ 

دولت کے سب گورکھ دھندے ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

فعلن فعلن فعل فعولن 

فعل فعولن فعل فعولن ۔ 

بحر- ہندی متقارب اثرم مقبوض محذوف ۔ 

دسمبر 1993ء میں کہی گئی ۔


تصاویر ، مجسمے ، قلعے ، حوضوں کے برابر بڑے بڑے پیالے یا تھال اور بڑی بڑی دیگیں جو کہ چولہوں پر دھری ہوئی ہوتی تھیں، جنّات ( یعنی حیرت انگیز طور پر انتہائی ماہر کاریگر ، آرکیٹیکچر اور انجینئرز) حضرت سلیمان کے لیے تیار کرتے تھے ۔  آیت نمبر 13 ، سورہ سبا ۔

تصاویر ، مجسمے ، قلعے ، حوضوں کے برابر بڑے بڑے پیالے یا تھال اور بڑی بڑی دیگیں جو کہ چولہوں پر دھری ہوئی ہوتی تھیں، جنّات ( یعنی حیرت انگیز طور پر انتہائی ماہر کاریگر ، آرکیٹیکچر اور انجینئرز) حضرت سلیمان کے لیے تیار کرتے تھے ۔ آیت نمبر 13 ، سورہ سبا ۔

 تصاویر ، مجسمے ، قلعے ، حوضوں کے برابر بڑے بڑے پیالے یا تھال اور بڑی بڑی دیگیں جو کہ چولہوں پر دھری ہوئی ہوتی تھیں، جنّات ( یعنی حیرت انگیز طور پر انتہائی ماہر کاریگر ، آرکیٹیکچر اور انجینئرز) حضرت سلیمان کے لیے تیار کرتے تھے ۔ لفظ تماثیل کا مطلب تصاویر بھی ہوتا ہے اور مجسمے بھی ، اور دونوں بھی یعنی مجسمے اور تصاویر دونوں بناتے تھے ۔ 

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر شرک کی نیت نہیں ہے تو تصاویر اور مجسمے بنانا ممنوع نہیں ہیں ۔ 

آیت نمبر 13 ، سورہ سبا ۔


ھریانوی نظم  " آپنَے دیس کا حال "  غلام محمد وامِق   مھارَے دیس کی ماٹی مَیں تَے لِکڑَیں دیکھو ھیرے موتی ۔  کھاجَیں سب یہ مال لٹیرے قوم پھرَے سَے روتی روتی ۔   مِل جُل کَے نَیں لُٹ ٹیں ھام نَیں حاکم مھارے اِیسے اِیسے ۔  اِسے وجہ سَے مانگ کَے کھاوَیں ھالی ار مجدور بی روٹی ۔   سب پَے اے مانگَیں سَیں یہ قرضہ نام عوام کا لَے لَے کَے نَیں ۔ پھیر بی آپنے لوگاں کی یَیں کھاوَیں کر کَے تِکّہ بوٹی ۔   خان بڈیرے بَن جَیں سَیں یَیں خون چوس کَے مجبوراں کا ۔  مال پرایا کھا کھا کَے نَیں نیاڑ بی ھوجَے اِن کی موٹی ۔   عیش کَرَیں یہ بُڈ ڈے ھَوکَے، جاکَے باھر کے مُلکاں مَیں ۔  گات پَے مھارَے چھوڈی کونی اِن نَیں چھوٹی سی لنگوٹی ۔   کر کَے مال جخیرہ اِن نَیں کردی دیکھو مہنگائی ۔  پَیچ جو اِن کے کَسے جاوَیں تو سب نَیں مِل جَے گی روٹی ۔   اللّٰہ کی ھر نعمت سَے اِس دیس مَیں پھیر بی کیوں وامِق ؟  گات پَے کوئے لَتّا کونی قسمت ھوگی کیوں کھوٹی ؟  ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ  بحر- متقارب مثمن مضاعف ۔  پہلے دو اشعار - متقارب اثرم مقبوض محذوف مضاعف ۔  شاعر - غلام محمد وامِق ۔  مورخہ 25 ستمبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔

ھریانوی نظم " آپنَے دیس کا حال " غلام محمد وامِق مھارَے دیس کی ماٹی مَیں تَے لِکڑَیں دیکھو ھیرے موتی ۔ کھاجَیں سب یہ مال لٹیرے قوم پھرَے سَے روتی روتی ۔ مِل جُل کَے نَیں لُٹ ٹیں ھام نَیں حاکم مھارے اِیسے اِیسے ۔ اِسے وجہ سَے مانگ کَے کھاوَیں ھالی ار مجدور بی روٹی ۔ سب پَے اے مانگَیں سَیں یہ قرضہ نام عوام کا لَے لَے کَے نَیں ۔ پھیر بی آپنے لوگاں کی یَیں کھاوَیں کر کَے تِکّہ بوٹی ۔ خان بڈیرے بَن جَیں سَیں یَیں خون چوس کَے مجبوراں کا ۔ مال پرایا کھا کھا کَے نَیں نیاڑ بی ھوجَے اِن کی موٹی ۔ عیش کَرَیں یہ بُڈ ڈے ھَوکَے، جاکَے باھر کے مُلکاں مَیں ۔ گات پَے مھارَے چھوڈی کونی اِن نَیں چھوٹی سی لنگوٹی ۔ کر کَے مال جخیرہ اِن نَیں کردی دیکھو مہنگائی ۔ پَیچ جو اِن کے کَسے جاوَیں تو سب نَیں مِل جَے گی روٹی ۔ اللّٰہ کی ھر نعمت سَے اِس دیس مَیں پھیر بی کیوں وامِق ؟ گات پَے کوئے لَتّا کونی قسمت ھوگی کیوں کھوٹی ؟ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ بحر- متقارب مثمن مضاعف ۔ پہلے دو اشعار - متقارب اثرم مقبوض محذوف مضاعف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 25 ستمبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔

 ھریانوی نظم 

" آپنَے دیس کا حال " 

غلام محمد وامِق 


مھارَے دیس کی ماٹی مَیں تَے لِکڑَیں دیکھو ھیرے موتی ۔ 

کھاجَیں سب یہ مال لٹیرے قوم پھرَے سَے روتی روتی ۔ 


مِل جُل کَے نَیں لُٹ ٹیں ھام نَیں حاکم مھارے اِیسے اِیسے ۔ 

اِسے وجہ سَے مانگ کَے کھاوَیں ھالی ار مجدور بی روٹی ۔ 


سب پَے اے مانگَیں سَیں یہ قرضہ نام عوام کا لَے لَے کَے نَیں ۔

پھیر بی آپنے لوگاں کی یَیں کھاوَیں کر کَے تِکّہ بوٹی ۔ 


خان بڈیرے بَن جَیں سَیں یَیں خون چوس کَے مجبوراں کا ۔ 

مال پرایا کھا کھا کَے نَیں نیاڑ بی ھوجَے اِن کی موٹی ۔ 


عیش کَرَیں یہ بُڈ ڈے ھَوکَے، جاکَے باھر کے مُلکاں مَیں ۔ 

گات پَے مھارَے چھوڈی کونی اِن نَیں چھوٹی سی لنگوٹی ۔ 


کر کَے مال جخیرہ اِن نَیں کردی دیکھو مہنگائی ۔ 

پَیچ جو اِن کے کَسے جاوَیں تو سب نَیں مِل جَے گی روٹی ۔ 


اللّٰہ کی ھر نعمت سَے اِس دیس مَیں پھیر بی کیوں وامِق ؟ 

گات پَے کوئے لَتّا کونی قسمت ھوگی کیوں کھوٹی ؟ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

بحر- متقارب مثمن مضاعف ۔ 

پہلے دو اشعار - متقارب اثرم مقبوض محذوف مضاعف ۔ 

شاعر - غلام محمد وامِق ۔ 

مورخہ 25 ستمبر 2025ء کو مکمل ہوئی ۔

हरियाणवी कविता 

आप्णे देस का हाल 

ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़ 


म्हारे देश की माट्टी म्हं तै लिकड़ैं देक्खौ हीरे-मोत्ती । 

खा जैं सब यें माल़ लुटेरे क़ौम फिरै सै रोत्ती- रोत्ती । 


मिल जुल कै नै लुट्टैं हाम्नैं हाकिम म्हारे इसे-इसे । 

इसे वजह सै मांग कै खावैं हाल़ी अर मजदूर बि रोट्टी । 


सबपै ए मांग्गैं सैं यें क़र्ज़ा नाम अवाम का ले ले कै नै। 

फेर बि आप्णे लोगां की यें खावैं कर कै तिक्का-बोट्टी । 


ख़ान बडेरे बण जैं सैं यें खून चूस कै मजबूरां का ।

माल पराया खा खा कै नै नियाड़ बि हो जै इनकी मोटी । 


ऐश करैं यें बुड्डे हो कै, जा कै बाहर के मुल्कां मं । 

गात पै म्हारे छोड्डी कोनी इन नै छोट्टी सी लंगोट्टी । 


कर कै माल जखीरा इन नै कर दी देक्खो महंगाई। 

पेच जो इनके कसे जावैं तो सब नै मिल जै गी रोट्टी । 


अल्लाह की हर नेमत सै इस देश मं फेर बि क्यूं वामिक़ ।

गात पै कोए लत्ता कोनी किस्मत होगी क्यूं खोट्टी ? । 


कवि - ग़ुलाम मुहम्मद वामिक़


ھریانوی غزل - کام کِمے نئیں کرنا ھام نَیں نارے  مار دے رھنا بس ۔  کِسے نَیں گھٹیا بولنا سَے تو کِسے نَیں بڈیا کہنا بس ۔   آپس مَیں اے لڑدے رہنا مجہب ار عقیدیاں پَے ۔  ناں سائنس ناں ٹیکنالوجی مارو ماری کرنا بس ۔   کوئے جِسا بی کام کَرے گا اس نے اَس کا پھل مل جَے گا ۔  قدرت کا قانون سَے یُو اے کرنَے کا سَے بھرنا بس ۔   جو بویا سَے کاٹنا سَے وہ قدرت کا دستور پرانا ۔  کانڈے تھام نَیں بوئے سَیں تو جخمی تھام نَیں ھونا بس ۔   انساناں کا جنگل سَے یُو دیکھو سارے بَیری سَیں ۔  آپنی ھمت آپے کر کَے پار یُو جنگل کرنا بس ۔   دُنیا کَے جو گَیل چلو گے جِبَے تو منجل پاؤ گے ۔  سمجھو گے جو سب نَیں بَیری پھیر تو پچھے اے رہنا بس ۔   کِس نَیں وامِق سمجھاوَے گا کوئے بی سننے آلا نئیں ۔  چالو گے جو مُوند کَے آنکھاں کھڈے مَیں پَھیر تو گِرنا بس ۔  ـــــــــــــــــــــــــــــــــ  بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔  شاعر - غلام محمد وامِق

ھریانوی غزل - کام کِمے نئیں کرنا ھام نَیں نارے مار دے رھنا بس ۔ کِسے نَیں گھٹیا بولنا سَے تو کِسے نَیں بڈیا کہنا بس ۔ آپس مَیں اے لڑدے رہنا مجہب ار عقیدیاں پَے ۔ ناں سائنس ناں ٹیکنالوجی مارو ماری کرنا بس ۔ کوئے جِسا بی کام کَرے گا اس نے اَس کا پھل مل جَے گا ۔ قدرت کا قانون سَے یُو اے کرنَے کا سَے بھرنا بس ۔ جو بویا سَے کاٹنا سَے وہ قدرت کا دستور پرانا ۔ کانڈے تھام نَیں بوئے سَیں تو جخمی تھام نَیں ھونا بس ۔ انساناں کا جنگل سَے یُو دیکھو سارے بَیری سَیں ۔ آپنی ھمت آپے کر کَے پار یُو جنگل کرنا بس ۔ دُنیا کَے جو گَیل چلو گے جِبَے تو منجل پاؤ گے ۔ سمجھو گے جو سب نَیں بَیری پھیر تو پچھے اے رہنا بس ۔ کِس نَیں وامِق سمجھاوَے گا کوئے بی سننے آلا نئیں ۔ چالو گے جو مُوند کَے آنکھاں کھڈے مَیں پَھیر تو گِرنا بس ۔ ـــــــــــــــــــــــــــــــــ بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔ شاعر - غلام محمد وامِق

 ھریانوی غزل 

غزل 

غلام محمد وامِق 


کام کِمے نئیں کرنا ھام نَیں نارے  مار دے رھنا بس ۔ 

کِسے نَیں گھٹیا بولنا سَے تو کِسے نَیں بڈیا کہنا بس ۔ 


آپس مَیں اے لڑدے رہنا مجہب ار عقیدیاں پَے ۔ 

ناں سائنس ناں ٹیکنالوجی مارو ماری کرنا بس ۔ 


کوئے جِسا بی کام کَرے گا اس نے اَس کا پھل مل جَے گا ۔ 

قدرت کا قانون سَے یُو اے کرنَے کا سَے بھرنا بس ۔ 


جو بویا سَے کاٹنا سَے وہ قدرت کا دستور پرانا ۔ 

کانڈے تھام نَیں بوئے سَیں تو جخمی تھام نَیں ھونا بس ۔ 


انساناں کا جنگل سَے یُو دیکھو سارے بَیری سَیں ۔ 

آپنی ھمت آپے کر کَے پار یُو جنگل کرنا بس ۔ 


دُنیا کَے جو گَیل چلو گے جِبَے تو منجل پاؤ گے ۔ 

سمجھو گے جو سب نَیں بَیری پھیر تو پچھے اے رہنا بس ۔ 


کِس نَیں وامِق سمجھاوَے گا کوئے بی سننے آلا نئیں ۔ 

چالو گے جو مُوند کَے آنکھاں کھڈے مَیں پَھیر تو گِرنا بس ۔ 

ـــــــــــــــــــــــــــــــــ 

بحر - ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔ 

شاعر - غلام محمد وامِق


Powered by Blogger.