واقعہ کربلا حقیقت کے آئینے میں ۔ ( سوچ کا ایک منفرد زاویہ )
تحریر - غلام محمد وامِق ۔
عام طور پر شہادتِ امام حسین علیہ السّلام کا جو واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس سے ہر مکتبہء فکر کے علماء اور عوام بالعموم متفق ہیں ، مگر سب کا اندازِ بیاں الگ الگ ہوتا ہے ۔
لیکن اس سارے واقعے کو ایک دوسرے زاویے سے بھی تو دیکھا جا سکتا ہے جس کی طرف کسی کی بھی نظر نہیں جاتی یا پھر کوئی اس اندازِ نظر سے دیکھنا ہی نہیں چاہتا ۔ عام طور پر ہمیں جو واقعہ پڑھایا اور سنایا جاتا ہے وہ آپ سب کو معلوم ہے ، لیکن اس واقعہ کو تنقیدی نظر سے اگر دیکھیں یا اس کا منطقی جائزہ لیں تو پھر اس واقعہ کے متعلق بہت سے سوالات ذہن میں آتے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔
( یہ سوالات عام قسم کے تقلیدی ذہن میں نہیں آتے)
1. واقعہ کربلا دس 10 محرم الحرام سن 61 ھجری، مطابق 9 یا 10 اکتوبر سال 680 عیسوی کو پیش آیا ۔
2. اس واقعہ کو شہادتِ امام حسین علیہ السّلام کے ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصہ کے بعد کوفہ کے رہنے والے ایک داستان گو اور جھوٹی کہانیاں گھڑنے والے ایک شخص " ابو مخنف لوط بن یحییٰ" نے سب سے پہلے قلم بند کیا، ابو مخنف نے یہ داستان " مقتلِ الحسین " کے عنوان سے تحریر کی تھی، ابو مخنف نے سال 175 ھجری میں وفات پائی ۔ بعد میں دیگر مورخین نے اسی سے نقل کر کے اور اس میں کمی یا اضافہ کر کے اپنے اپنے الفاظ میں اپنے اپنے خیال کے مطابق بیان کر دیا ۔
3. حضرت امام حسین کے قتل کا انتقام امام حسین کی نسل میں سے کسی نے بھی نہیں لیا حالاں کہ واقعہ کے وقت امام حسین کے صاحب زادے امام زین العابدین تقریباً چوبیس 24 سال کے نوجوان تھے، جب کہ اُس زمانے میں قصاص اور بدلہ لینے کا عام رواج بھی تھا ۔
4. شہادتِ امام حسین کے چند سالوں کے بعد ایک غیر متعلقہ شخص " مختار ثقفی" نے موقعہ غنیمت جان کر اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے قتلِ حسین کا انتقام لینے کا اعلان کیا، اور اس کے گروہ نے بنو امیہ کے چند مخصوص لوگوں پر الزام عائد کر کے انہیں قتل کردیا، اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مل کر یزید کے پیرو کاروں سے جنگ کی، بعد ازاں مختار ثقفی ( جو کہ مشہور اموی گورنر حجاج بن یوسف ثقفی کے خاندان سے تھا) نے عبداللہ بن زبیر سے بھی غداری کی جس کے نتیجے میں اسے بھی قتل کر دیا گیا ۔
5. حضرت امام حسین کی بیوی " شہر بانو " جو کہ امام زین العابدین کی والدہ تھیں ان کے متعلق بھی روایات میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ، بعض کا کہنا تھا کہ ان کا انتقال امام زین العابدین کی ولادت کے وقت ہو گیا تھا ، جب کہ اکثر روایات کے مطابق شہر بانو بھی کربلا میں امام حسین کے ساتھ تھیں ، لیکن واقعہ میں اس کا کوئی بھی تذکرہ نہیں ملتا ، بعض روایات کے مطابق وہ کربلا سے ایران چلی گئی تھیں، اور ایران کے شہر " رے " میں اب بھی ان کا مزار ایک پہاڑی پر مرجع خلائق ہے ۔
6. یہ بڑی عجیب بات ہے کہ اکثر روایات میں " یزید بن معاویہ" کو بڑا ظالم ، فاسق ، بدکردار ، شرابی اور زانی بیان کیا جاتا ہے ، تو پھر ایسا بدکردار اور با اختیار شخص دشمن کی قیدی اسیر خواتین کے ساتھ کوئی بدسلوکی یا بد فعلی کیوں نہیں کرتا ؟ تمام اسیر شہزادیوں کے ساتھ بڑے احترام کے ساتھ کیوں پیش آتا ہے ؟ جب کہ اس دور میں قیدیوں کو غلام اور لونڈیاں بنانے کا عام رواج تھا ۔
7. یزید اپنے دشمن کے نوجوان بیٹے امام زین العابدین کو عزت و احترام کے ساتھ واپس مدینہ کیوں بھجوا دیتا ہے ؟ ۔
8. بی بی زینب ، یزید کے پاس شام (دمشق ) میں ہی رہنا کیوں پسند کرتی ہے ؟ وہ زین العابدین کے ساتھ مدینہ کیوں نہیں گئی ؟ جب کہ انتقال کے بعد ان کا مزار بھی شام میں ہی بنایا گیا تھا ۔
9. روایات کے مطابق حضرت امام حسین کا سَر کاٹ کر نیزے پر رکھ کر پہلے کوفہ ابنِ زیاد کے پاس اور پھر دمشق یزید کے پاس لے جایا گیا، لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ سر کہاں گیا ؟ اس معاملے میں روایات کا بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے ۔
بعض راویوں کے نزدیک سَر مبارک کو مدینہ لے جا کر دفن کیا گیا ، بعض کے نزدیک سَر کو کربلا لے جا کر جسم کے ساتھ دفن کیا گیا ، کہیں پر لکھا یوا ہے کہ سر دمشق کے سرکاری مال خانے میں پڑا رہا جسے برس ہا برس کے بعد اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک نے دمشق کے قبرستان میں دفن کروا دیا تھا ۔ کچھ کہتے ہیں کہ نجف اشرف میں روضہء علی علیہ السلام میں دفن ہے ، بعض کے نزدیک دریائے فُرات کے کنارے واقع " مسجدِ رقہ " میں ہے ، کچھ لکھتے ہیں کہ بعد ازاں فاطمی سلطنت مصر والوں نے سر مبارک کو لے جا کر " قاہرہ" میں دفن کر دیا جہاں پر سر مبارک کی درگاھ بھی بنی ہوئی ہے جہاں پر آج بھی لوگ جوق در جوق حاضری دیتے ہیں ۔
10. مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سانحہء کربلا کے وقت دشمنوں نے شہیدوں کے جسموں پر گھوڑے دوڑا کر جسموں کو نابود کر دیا تھا ، تو پھر ایسی صورت میں یہ کیسے معلوم ہوا کہ ان لاشوں میں سے حضرت امام حسین علیہ السّلام کی لاش کون سی ہے ؟ جب کہ اکثر لاشوں کے ساتھ ان کے سر بھی نہیں تھے ۔
11. اگر آپ مکہ سے کوفہ ( عراق ) جائیں گے تو راستے میں کربلا کا مقام نہیں آتا، جب کہ اگر آپ مکہ سے دمشق ( شام ) جائیں تو پھر راستے میں کربلا کا مقام آتا ہے ۔ یعنی مکہ سے دمشق اور کوفہ کے راستے متضاد اطراف میں ہیں، یعنی ایک شمال مشرق کی طرف تو دوسرا شمال مغرب کی طرف ، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امام حسین مکہ سے کوفہ نہیں بلکہ شام (دمشق) یزید کے پاس جا رہے تھے ۔
اب اس قدر اہم سوالات کے تسلی بخش جوابات نا ملنے کی وجہ سے جو حقیقی صورت حال سامنے آتی ہے وہ میرے خیال کے مطابق کچھ اس طرح سے بنتی ہے ۔۔۔۔
دراصل اس پوری داستان میں اصل کردار خفیہ ہیں جس کی طرف کسی بھی مورخ کا دھیان نہیں گیا یا پھر جان بوجھ کر دشمن کی خفیہ سرگرمیوں سے چشم پوشی کی گئی ہے تاکہ عالم اسلام کبھی بھی متحد نہ ہو سکے ۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہوگا کہ رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہء مبارک سے ہی دشمنانِ اسلام یعنی روم و ایران اور یہودیوں کے جاسوس رسول اللّٰہ کو ناکام کرنے کے لیے سرگرمِ عمل رہتے تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں وہ اپنے مشن میں ناکام رہے تھے ، بعد ازاں خلیفہء اول حضرت ابوبکر صدیق کے عہد میں ان کی شَہ پر " مسیلمہ کذاب " کی بغاوت کے خوفناک فتنے نے سر اٹھایا جسے حضرت خالد بن ولید کی سرکردگی میں ختم کر دیا گیا ۔
بعد ازاں یہودیوں کا ایک جاسوس مسلمانوں کے روپ میں وارد ہوا جسے تاریخ " عبداللہ بن سبا " کے نام سے جانتی ہے ۔
وہ پہلے مدینے میں شورش برپا کرنے آیا لیکن مدینے میں رسول اللّٰہ کے تربیت یافتہ صحابہ کرام تھے جس کی وجہ سے اس کی وہاں پر دال نہیں گلی، تو پھر وہ کوفہ ، ایران اور شام کے علاقوں میں گیا اور وہاں پر اپنی کاروائیاں تیز کردیں ، ان علاقوں میں اکثریت نئے نئے اسلام قبول کرنے والے مسلمانوں کی تھی، اور ان کا ذہن بھی صحیح طور پر اسلامی تربیت یافتہ نہیں تھا چناں چہ وہ جلد ہی اس کی باتوں میں آگئے، دراصل ابنِ سبا نے خود کو حضرت علی کا شیدائی ظاہر کیا تھا اور نعرہ دیا کہ خلافت کے اولین حق دار حضرت علی ہیں اور باقی سب غاصب ہیں اس جزباتی سوچ نے آگ پر جلتی کا کام کیا اور بہت جلد لوگ اس کے ساتھ آ کر شامل ہونے لگے اور انہوں نے خود کو شیعانِ علی کہلانا شروع کر دیا ۔ رفتہ رفتہ ان کی تعداد بڑھنے لگی ، بالآخر وہ حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے دورِ خلافت میں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہو گئے اور مسلمان تین متحارب گروہوں میں تقسیم ہوگئے ۔
چوتھے خلیفہ حضرت علی علیہ السّلام کی خلافت کا زمانہ انتہائی افسوناک اور خون ریزی کا زمانہ تھا ۔
لیکن جب حضرت علی کی شہادت کے بعد ان کے بڑے فرزند حضرت امام حسن علیہ السّلام کو خلیفہ نامزد کیا گیا تو انہوں نے مسلمانوں کی باہم دشمنی اور خون ریزی کو پسند نہیں کیا چناں چہ وہ اپنی خلافت سے دست بردار ہو گئے اور امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کو عالمِ اسلام کا خلیفہ تسلیم کر لیا ۔ ان حالات میں عالم اسلام کے دوبارہ سے متحد ہونے کے امکانات روشن ہوگئے ، لیکن دشمنوں کی، ان تمام سیاسی حالات پر گہری نظر تھی، لہٰذا وہ پھر سے حرکت میں آ گئے اور اپنے جاسوسوں کے ذریعے سے امام حسن کو اس کی بیوی کے ہاتھوں زہر دلوا دیا گیا اور اس کا الزام امیر معاویہ پر تھوپ دیا گیا ۔
دشمنانِ اسلام کی نظر اب حضرت امام حسین علیہ السّلام پر تھی کہ کسی طرح سے ان کو بھی اموی خلافت سے بدظن کیا جائے ، چناں چہ انہیں جلد ہی یہ موقع بھی ہاتھ آ گیا ۔ جب امیرِ معاویہ کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ پر ان کے بیٹے " یزید " کو خلیفہ بنایا گیا ۔
کوفہ سے امام حسین کو یزید کے کردار کے خلاف خطوط لکھوائے گئے ، جنہیں پڑھ کر حالات معلوم کرنے کے لئے امام حسین علیہ السّلام نے اپنے چچازاد بھائی " مسلم بن عقیل" کو کوفہ بھجا، مگر سازش کے ذریعے انہیں بھی ہلاک کر دیا گیا ۔ جس کی وجہ سے امام حسین کو دشمن کی ناپاک سازشوں اور ان کی مکاری کا یقین ہو گیا ۔ تو ایسے حالات میں امام نے ان سازشی عناصر کی خطرناک کاروائیوں پر گفتگو کرنے کے لیے یزید سے ملاقات کرنا ضروری سمجھا چناں چہ آپ نے یزید سے ملنے کے لیے اپنے اہل و عیال سمیت دمشق ( شام ) جانے کا فیصلہ کیا ۔
مگر دشمنانِ اسلام پہلے سے ہی گھات لگا کر بیٹھ گئے آپ امام جب دمشق جاتے ہوئے کربلا کے بے آب و گیاہ میدان سے گزرے تو اسلام دشمن گروہ نے اچانک ان پر حملہ کردیا، اور ان پر ظاہر کیا کہ یہ حملہ کوفہ کے گورنر عبدااللہ بن زیاد کی طرف سے کیا گیا ہے ۔ جس کے نتیجے میں تمام مرد شہید ہو گئے ، اور امام حسین کے فرزند امام زین العابدین کسی نہ کسی طرح سے خواتین سمیت بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے یا انہیں کسی مصلحت کے تحت خود جانے دیا گیا تاکہ شام میں جاکر وہ یزید سے جھگڑا کریں، مزید بدگمانیاں پیدا ہوں اور حالات مزید خراب ہو سکیں ۔ اور پھر شاید زین العابدین کی والدہ بی بی شہر بانو کو بھی انہوں نے ہی ایران پہنچا دیا ۔
شام میں امام زین العابدین اور بیبیوں کے پہنچنے پر یزید کو ان تمام حالات کا علم ہوا تو اس نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور دشمنوں کی سرکوبی کے لیے بھی کوششیں کیں لیکن ان کا انجام بہت خون ریزی کا سبب بنا ۔
یزید نے امام زین العابدین کو ان کی خواہش پر بحفاظت واپس مدینہ پہنچا دیا ۔
پھر فسادیوں نے خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہوئے نئے نئے اور عجیب عقائد گھڑ لئے جس کے باعث عالمِ اسلام مستقل طور پر مختلف گروہوں میں تقسیم ہو گیا ۔
اناللہ واناالیہ راجعون ۔
آخر میں یہ ہی عرض کرنی چاہوں گا کہ ہم آج کے زمانے میں بھی جب پاکستان یا کوئی بھی اسلامی ملک کسی بحران کا یا کسی دہشت گردی کا شکار ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس میں کوئی خفیہ ہاتھ ملوث ہے ، یا پھر کہا جاتا ہے کہ اس میں امریکہ اور اسرائیل وغیرہ کا ہاتھ ہے ۔ تو پھر ہم واقعہ کربلا کو اس نکتہء نگاہ سے کیوں نہیں دیکھتے ؟ اس واقعہ میں ہم بیرونی ہاتھ تلاش کیوں نہیں کرتے ؟
وماعلینا الی البلاغ المبین ۔
تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔
تاریخ ۔ آٹھ 8، جولائی سال 2024ء مطابق یکم محرم الحرام سن 1446ھجری ، بروز پیر ۔ سوموار ۔
وضاحت= یہ تمام حقائق انٹرنیٹ/ گوگل پر بھی دیکھے جا سکتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔