دیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں

دیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں

 ===   غزل    ===


 

غلام محمد وامِق 


دِیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 

ہوا تھمے نہ تھمے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


قضا کے منصبِ عالی پہ بہرے بیٹھے ہیں ۔ 

کوئی سنے نہ سنے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


نہیں ہے اب وہ زمانہ کہ شب کی سَحَر بھی ہو ۔ 

سَحَر ملے نہ ملے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


میں جانتا ہوں کہ منزل نہیں قریب مرے ۔ 

سفر کٹے نہ کٹے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


پھنسی ہے لہروں میں کشتی تو خیر ہے وامِق ۔ 

بھَنوَر رکے نہ رکے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔ 

بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مئی سال 2024ء میں کہی گئی غزل ۔


       نا جانے انہیں ہم سے یہ کیسی محبت تھی؟ ۔  اُغیار سے بھی ملتے، ہم سے بھی رفاقت تھی ۔    جو زخم  لگائے تھے ، اپنوں نے لگائے تھے ۔  غیروں کو تو مجھ سے کچھ شکوہ نہ شکایت تھی ـ  دیکھو تو نجانے کیوں رنجش تھی انہیں ہم سے ۔  جِن کے لئے اِس دِل میں  اخلاص و عقیدت تھی ـ   اعمال تو اُس کے سب کافر سے بھی بدتر تھے ـ مارا تھا جو کافر کو،  وہ  ذاتی عداوت  تھی ـ   افسوس وہ  دیتے ہیں طعنہ ہمیں غربت کا ـ  وہ بھول گئے ہم نے  کی اُن کی کفالت تھی ـ   ہم اپنے عقیدے کی ہر بات کو حق سمجھیں ـ تحقیق نہیں کرتے،  یہ کیسی روایت تھی ـ  ہم جس کو بیاں کر کے پہنچے ہیں سرِ مقتل ـ معلوم ہوا  آخر وہ جھوٹی حکایت تھی ـ   تحقیق ضروری ہے ہر بات پرکھنے کو ۔  ہم علم جسے سمجھے  وامِق وہ جہالت تھی ـ  ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ  مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن  بحر ۔ ہَزج مثمن اخرب سالم ۔  شاعر ـ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ...  مورخہ 3 جنوری 2022 ء کو کہی گئی غزل ۔

نا جانے انہیں ہم سے یہ کیسی محبت تھی؟ ۔ اُغیار سے بھی ملتے، ہم سے بھی رفاقت تھی ۔ جو زخم لگائے تھے ، اپنوں نے لگائے تھے ۔ غیروں کو تو مجھ سے کچھ شکوہ نہ شکایت تھی ـ دیکھو تو نجانے کیوں رنجش تھی انہیں ہم سے ۔ جِن کے لئے اِس دِل میں اخلاص و عقیدت تھی ـ اعمال تو اُس کے سب کافر سے بھی بدتر تھے ـ مارا تھا جو کافر کو، وہ ذاتی عداوت تھی ـ افسوس وہ دیتے ہیں طعنہ ہمیں غربت کا ـ وہ بھول گئے ہم نے کی اُن کی کفالت تھی ـ ہم اپنے عقیدے کی ہر بات کو حق سمجھیں ـ تحقیق نہیں کرتے، یہ کیسی روایت تھی ـ ہم جس کو بیاں کر کے پہنچے ہیں سرِ مقتل ـ معلوم ہوا آخر وہ جھوٹی حکایت تھی ـ تحقیق ضروری ہے ہر بات پرکھنے کو ۔ ہم علم جسے سمجھے وامِق وہ جہالت تھی ـ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن بحر ۔ ہَزج مثمن اخرب سالم ۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ... مورخہ 3 جنوری 2022 ء کو کہی گئی غزل ۔

 ******  غـــــزل  ******

     غلام محمد وامِق 


نا جانے انہیں ہم سے یہ کیسی محبت تھی؟ ۔ 

اُغیار سے بھی ملتے، ہم سے بھی رفاقت تھی ۔ 


 جو زخم  لگائے تھے ، اپنوں نے لگائے تھے ۔ 

غیروں کو تو مجھ سے کچھ شکوہ نہ شکایت تھی ـ


دیکھو تو نجانے کیوں رنجش تھی انہیں ہم سے ۔ 

جِن کے لئے اِس دِل میں  اخلاص و عقیدت تھی ـ 


اعمال تو اُس کے سب کافر سے بھی بدتر تھے ـ

مارا تھا جو کافر کو،  وہ  ذاتی عداوت  تھی ـ 


افسوس وہ  دیتے ہیں طعنہ ہمیں غربت کا ـ 

وہ بھول گئے ہم نے  کی اُن کی کفالت تھی ـ 


ہم اپنے عقیدے کی ہر بات کو حق سمجھیں ـ

تحقیق نہیں کرتے،  یہ کیسی روایت تھی ـ


ہم جس کو بیاں کر کے پہنچے ہیں سرِ مقتل ـ

معلوم ہوا  آخر وہ جھوٹی حکایت تھی ـ 


تحقیق ضروری ہے ہر بات پرکھنے کو ۔ 

ہم علم جسے سمجھے  وامِق وہ جہالت تھی ـ 

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ 

مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن 

بحر ۔ ہَزج مثمن اخرب سالم ۔ 

شاعر ـ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ... 

مورخہ 3 جنوری 2022 ء کو کہی گئی غزل ۔



Powered by Blogger.