قصہ ہمارا گھوڑے سے گِرنے کا ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک فُکاہیہ تحریر ...(سچا واقعہ) ـ از ـ غلام محمد وامِق =  گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں ........  وہ طفل کیا گرے گا، جو گھٹنوں کے بل چلے ـ لگتا ہے یہ شعر علامہ اقبال نے شاید ہمارے لئے ہی کہا ہوگا، میدانِ جنگ میں نہ سہی بیچ سڑک ہی سہی، کیوں کہ اصل بات ہے شاہی سواری سے گرنا ـ وہ کتنا دلکش منظر ہوگا جب ہم مع اپنے رفیق گھوڑے سے گرے تھے ـ میرے ساتھ گرنے والا رفیق تھا وہ نام کا ہی نہیں کام کا بھی رفیق تھا ـ وہ بچپن سے ہی میرا رفیق اور کلاس فیلو تھا ـ ہم گھوڑے سے گرے کیسے، یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے، جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے اپنی نااہلی کے باعث اپنی کتاب میں نہیں لکھا، خیر کوئی بات نہیں ہم خود ہی یہ کارِخیر کر لیتے ہیں ـ دراصل وہ گھوڑا ہی کچھ مردم ناشناس قسم کا تھا، اور سچی بات تو یہ ہے کہ موصوف سے ہماری کچھ زیادہ شناسائی بھی نہیں تھی، رنگ اس کا سفید نہیں تھا ناسی تھا، حالاں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہمیں سفید رنگ پسند یے ـ اب آپ سے کیا پردہ، دراصل اُس زمانے میں ہمیں اپنے قد سے بڑے کام کرنے کا شوق ہوتا تھا، سب وقت وقت کی بات ہے، اب تو ہم چوہے کے قد کے برابر بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہے ـ اس زمانے میں ہم شاید چوتھی یا پانچویں جماعت کے ہونہار طالبِ علم تھے، اور سال تھا غالبآ 1965 - 66ء کا ـ اپنے سندھی پرائمری اسکول ( اس زمانے میں محراب پور میں صرف یہ ہی ایک سرکاری اسکول تھا، دوسرا اردو پرائمری اسکول نجی تھا) کی چھٹی ہونے پر ہم سیرِ چمن کو نکل جاتے تھے، اس زمانے میں ہمارا محراب پور باغوں کا شہر ہوا کرتا تھا، اس کے اردگرد بہت سارے باغ اپنی بہار دکھلاتے تھے، ممکن ہے  میر امّن دہلوی نے اپنی " باغ و بہار " ہمارے ان ہی باغوں میں بیٹھ کر لکھی ہو ـہمیں بھی باغوں سے، چمن سے، اور گل و بلبل سے دلچسپی رہی ہے ـ ہمارے پھوپھا جی اکثر باغ مکادے پر لیا کرتے تھے، اُس روز بھی ہم ایسے ہی ایک باغ میں جا پہنچے، ہمارے ایک پڑوسی تانگہ چلاتے تھے اور تانگے میں جُوتنے والے گھوڑے کو وہ اکثر باغ میں مفت چرنے کے لئے چھوڑ جاتے تھے، بقولِ غالب .... " مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے "  یا پھر ....... " جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے " ـ وقوعے والے روز ہم نے پڑوسی سے التجا کی کہ آپ فکر مت کریں آپ کے گھوڑے کو ہم بنفسِ نفیس خود آپ کے پاس شام کو لے آئیں گے، آپ فقط گھر جاکر چین کی بانسری بجائیں، اس نے ہمارے مشورے پر عمل کیا اور بھینس کے آگے بین بجانا مناسب نہیں سمجھا،  اور ہم بچوں کے حوالے اپنا گھوڑا کردیا، ویسے سنا ہے کہ بچوں کے آگے شیطان بھی پناھ مانگتا ہے ـبہرحال قصہ مختصر، گھوڑے پر ہم سوار ہوگئے، نہ جانے کیسے، کیوں کہ نہ گھوڑے کی زین تھی، نہ رکاب تھی، اور نہ ہی لگام تھی ـ بقولِ غالب ...    رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھئے تھمے ...    نے ہاتھ باگ پر ہے،  نہ پا ہے رکاب  میں ـ شاید سوار ہونے سے قبل کسی نے ہمیں تنبیہہ بھی کی تھی کہ بغیر لگام کے گھوڑے پر مت چڑھو، گِر جاؤ گے ـ مگر وہ بچے ہی کیا جو بڑوں کی بات مان لیں، ہم نے شاید سوچا ہوگا کہ یہ کون سا جوتشی ہے جو مستقبل کا حال بتا رہا ہے؟ ـ ہم تو وہ ہیں کہ گدھے کی سواری بھی بغیر لگام کے کی ہے اور گرے بھی نہیں، یہ تو پھر بھی شاہی سواری ہے کوئی مذاق نہیں ہے ـبہرحال گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر رفیق نے گھوڑے کے گلے میں پڑا ہوا رسہ پکڑلیا جس سے گھوڑے کو کھونٹے سے یا کسی درخت سے باندھا جاتا تھا ـ میں پیچھے بیٹھا اور درمیان میں اپنی کتابوں کی پیٹی رکھ لی، جوکہ لوہے کی بنی ہوئی ہوتی تھی ـ آج کل جیسے جدید بیگ یا بستے نہیں ہوتے تھے ـتو جناب گلستان سے ہماری سواری سُوئے مکان روانہ ہوئی، گھوڑا خِراماں خراماں چل رہا تھا، شاید اقبال کے کسی فلسفے پر غور میں مصروف تھا، کہ پکی اینٹوں سے بنی ناہموار ٹوٹی پھوٹی سڑک پر آکر ہماری کتابوں سے بھری پیٹی نے کھڑکنا شروع کردیا جس سے گھوڑے کے استغراق میں کچھ خلل پیدا ہوا اس نے ناگواری سے دوڑنا شروع کردیا، دوڑنے سے لوہے کی پیٹی میں موجود پتھر کی سلیٹ اور کتابیں مزید زور سے کھڑکنے لگیں اور گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بھی اچھل اچھل کر لگنے لگی تو گھوڑا اشتعال میں آکر اور تیز دوڑنے لگا، صورتحال بھانپ کر رفیق نے مجھے پیٹی کو زمین پر پھینک دینے کے لئے کئی بار سختی سے کہا، مگر مجھے پتھر کی سلیٹ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خدشہ تھا، چناں چہ پیٹی پھینکنے کے بجائے مضبوطی کے ساتھ اپنے سینے سے لگا لی،  " پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی " اور بقولِ غالب ... وفا کیسی کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا ... تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو ـ تو جناب ہمارا سر بھی کسی سنگِ آستاں کے بجائے، اینٹوں سے بنی ٹوٹی سڑک کے کنارے سے ٹکرایا تھا پھر کیا ہوا ہمیں کچھ علم نہیں،   لیکن یہ نصیحت ضرور مل گئی کہ اگر اپنے بڑوں کا کہا مان لیا جائے تو آدمی بڑے خسارے سے بچ سکتا ہے ـجب آنکھ کھلی تو ہمارے سخت گیر تایا جی کی غصہ سے بھرپور آواز کانوں میں پڑی جو اپنی خالص ہریانوی زبان میں بڑی گاڑھی گاڑھی صلواتیں سنا رہے تھے ـ ہم نے اپنی شان میں اس قدر اعلیٰ قصائد سن کر پھر سے آنکھیں موند لینے میں ہی عافیت جانی ـاس سارے قضیه میں اکیلا میں ہی نہیں گرا تھا بلکہ رفیق سمیت کتابوں کی پیٹی بھی گری تھی جس کو بچانے کے لئے ہم نے اپنے سر تڑوا لئے، البتہ رفیق ہوش میں تھا جب کہ  میں بیہوش ہوگیا تھا ـ مجھے نہیں معلوم کہ ہم گھر تک کیسے پہنچے؟ ـ البتہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہمارے سڑک پر گرتے ہی گھوڑا اسی مقام پر جم کر کھڑا ہوگیا تھا، اگر وہ چاہتا تو اپنا بدلہ لینے کے لئے ہمیں کچل کر بھی بھاگ سکتا تھا ـ اور تب سے ہمیں گھوڑے کی وفاداری پر یقین آگیا ـ اس قدر زخمی ہونے کے باوجود بھی، موجودہ زمانے والے چونچلے ہمارے ساتھ کسی نے نہیں کئے کہ کوئی ہمیں کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتا یا کم از کم ترحم آمیز نظروں سے ہی ہمیں دیکھ لیتا ـ بقولِ فیض ... جو ہم پہ گذری سو گذری، مگر شبِ ہجراں ... ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے ـ ـ ـ تحریر ـــ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ... مورخہ 22 فروری 2023ء بروز بدھ لکھی گئی ـ                       ..............................................................المیہ ـ ابھی چند روز قبل جب مجھے یہ واقعہ قلمبند کرنے کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ اگلی صبح  " رفیق " سے مل کر یہ ضرور معلوم کروں گا کہ ہمیں گھر تک کس نے پہنچایا تھا؟ ـ ( نجانے کیوں یہ سوال میرے ذہن میں کبھی نہیں آیا تھا ـ) اور رفیق کے ساتھ ایک تصویر بھی بنالیں گے کہ اس تحریر کے ساتھ چسپاں کر سکیں، نجانے کیوں اب تک ہم نے اکٹھے کوئی تصویر نہیں بنوائی تھی ـ مگر اگلی صبح معلوم ہوا کہ رات اٹھارہ فروری بروز ہفتہ ساڑھے دس بجے اچانک ان پر دل کا دورہ پڑا اور گیارہ بجے اسپتال لے جاتے ہوئے ان کا انتقال ہوگیا ـ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ـ آمین ـ ...........

قصہ ہمارا گھوڑے سے گِرنے کا ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ایک فُکاہیہ تحریر ...(سچا واقعہ) ـ از ـ غلام محمد وامِق = گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں ........ وہ طفل کیا گرے گا، جو گھٹنوں کے بل چلے ـ لگتا ہے یہ شعر علامہ اقبال نے شاید ہمارے لئے ہی کہا ہوگا، میدانِ جنگ میں نہ سہی بیچ سڑک ہی سہی، کیوں کہ اصل بات ہے شاہی سواری سے گرنا ـ وہ کتنا دلکش منظر ہوگا جب ہم مع اپنے رفیق گھوڑے سے گرے تھے ـ میرے ساتھ گرنے والا رفیق تھا وہ نام کا ہی نہیں کام کا بھی رفیق تھا ـ وہ بچپن سے ہی میرا رفیق اور کلاس فیلو تھا ـ ہم گھوڑے سے گرے کیسے، یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے، جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے اپنی نااہلی کے باعث اپنی کتاب میں نہیں لکھا، خیر کوئی بات نہیں ہم خود ہی یہ کارِخیر کر لیتے ہیں ـ دراصل وہ گھوڑا ہی کچھ مردم ناشناس قسم کا تھا، اور سچی بات تو یہ ہے کہ موصوف سے ہماری کچھ زیادہ شناسائی بھی نہیں تھی، رنگ اس کا سفید نہیں تھا ناسی تھا، حالاں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہمیں سفید رنگ پسند یے ـ اب آپ سے کیا پردہ، دراصل اُس زمانے میں ہمیں اپنے قد سے بڑے کام کرنے کا شوق ہوتا تھا، سب وقت وقت کی بات ہے، اب تو ہم چوہے کے قد کے برابر بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہے ـ اس زمانے میں ہم شاید چوتھی یا پانچویں جماعت کے ہونہار طالبِ علم تھے، اور سال تھا غالبآ 1965 - 66ء کا ـ اپنے سندھی پرائمری اسکول ( اس زمانے میں محراب پور میں صرف یہ ہی ایک سرکاری اسکول تھا، دوسرا اردو پرائمری اسکول نجی تھا) کی چھٹی ہونے پر ہم سیرِ چمن کو نکل جاتے تھے، اس زمانے میں ہمارا محراب پور باغوں کا شہر ہوا کرتا تھا، اس کے اردگرد بہت سارے باغ اپنی بہار دکھلاتے تھے، ممکن ہے میر امّن دہلوی نے اپنی " باغ و بہار " ہمارے ان ہی باغوں میں بیٹھ کر لکھی ہو ـہمیں بھی باغوں سے، چمن سے، اور گل و بلبل سے دلچسپی رہی ہے ـ ہمارے پھوپھا جی اکثر باغ مکادے پر لیا کرتے تھے، اُس روز بھی ہم ایسے ہی ایک باغ میں جا پہنچے، ہمارے ایک پڑوسی تانگہ چلاتے تھے اور تانگے میں جُوتنے والے گھوڑے کو وہ اکثر باغ میں مفت چرنے کے لئے چھوڑ جاتے تھے، بقولِ غالب .... " مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے " یا پھر ....... " جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے " ـ وقوعے والے روز ہم نے پڑوسی سے التجا کی کہ آپ فکر مت کریں آپ کے گھوڑے کو ہم بنفسِ نفیس خود آپ کے پاس شام کو لے آئیں گے، آپ فقط گھر جاکر چین کی بانسری بجائیں، اس نے ہمارے مشورے پر عمل کیا اور بھینس کے آگے بین بجانا مناسب نہیں سمجھا، اور ہم بچوں کے حوالے اپنا گھوڑا کردیا، ویسے سنا ہے کہ بچوں کے آگے شیطان بھی پناھ مانگتا ہے ـبہرحال قصہ مختصر، گھوڑے پر ہم سوار ہوگئے، نہ جانے کیسے، کیوں کہ نہ گھوڑے کی زین تھی، نہ رکاب تھی، اور نہ ہی لگام تھی ـ بقولِ غالب ... رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھئے تھمے ... نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں ـ شاید سوار ہونے سے قبل کسی نے ہمیں تنبیہہ بھی کی تھی کہ بغیر لگام کے گھوڑے پر مت چڑھو، گِر جاؤ گے ـ مگر وہ بچے ہی کیا جو بڑوں کی بات مان لیں، ہم نے شاید سوچا ہوگا کہ یہ کون سا جوتشی ہے جو مستقبل کا حال بتا رہا ہے؟ ـ ہم تو وہ ہیں کہ گدھے کی سواری بھی بغیر لگام کے کی ہے اور گرے بھی نہیں، یہ تو پھر بھی شاہی سواری ہے کوئی مذاق نہیں ہے ـبہرحال گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر رفیق نے گھوڑے کے گلے میں پڑا ہوا رسہ پکڑلیا جس سے گھوڑے کو کھونٹے سے یا کسی درخت سے باندھا جاتا تھا ـ میں پیچھے بیٹھا اور درمیان میں اپنی کتابوں کی پیٹی رکھ لی، جوکہ لوہے کی بنی ہوئی ہوتی تھی ـ آج کل جیسے جدید بیگ یا بستے نہیں ہوتے تھے ـتو جناب گلستان سے ہماری سواری سُوئے مکان روانہ ہوئی، گھوڑا خِراماں خراماں چل رہا تھا، شاید اقبال کے کسی فلسفے پر غور میں مصروف تھا، کہ پکی اینٹوں سے بنی ناہموار ٹوٹی پھوٹی سڑک پر آکر ہماری کتابوں سے بھری پیٹی نے کھڑکنا شروع کردیا جس سے گھوڑے کے استغراق میں کچھ خلل پیدا ہوا اس نے ناگواری سے دوڑنا شروع کردیا، دوڑنے سے لوہے کی پیٹی میں موجود پتھر کی سلیٹ اور کتابیں مزید زور سے کھڑکنے لگیں اور گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بھی اچھل اچھل کر لگنے لگی تو گھوڑا اشتعال میں آکر اور تیز دوڑنے لگا، صورتحال بھانپ کر رفیق نے مجھے پیٹی کو زمین پر پھینک دینے کے لئے کئی بار سختی سے کہا، مگر مجھے پتھر کی سلیٹ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خدشہ تھا، چناں چہ پیٹی پھینکنے کے بجائے مضبوطی کے ساتھ اپنے سینے سے لگا لی، " پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی " اور بقولِ غالب ... وفا کیسی کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا ... تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو ـ تو جناب ہمارا سر بھی کسی سنگِ آستاں کے بجائے، اینٹوں سے بنی ٹوٹی سڑک کے کنارے سے ٹکرایا تھا پھر کیا ہوا ہمیں کچھ علم نہیں، لیکن یہ نصیحت ضرور مل گئی کہ اگر اپنے بڑوں کا کہا مان لیا جائے تو آدمی بڑے خسارے سے بچ سکتا ہے ـجب آنکھ کھلی تو ہمارے سخت گیر تایا جی کی غصہ سے بھرپور آواز کانوں میں پڑی جو اپنی خالص ہریانوی زبان میں بڑی گاڑھی گاڑھی صلواتیں سنا رہے تھے ـ ہم نے اپنی شان میں اس قدر اعلیٰ قصائد سن کر پھر سے آنکھیں موند لینے میں ہی عافیت جانی ـاس سارے قضیه میں اکیلا میں ہی نہیں گرا تھا بلکہ رفیق سمیت کتابوں کی پیٹی بھی گری تھی جس کو بچانے کے لئے ہم نے اپنے سر تڑوا لئے، البتہ رفیق ہوش میں تھا جب کہ میں بیہوش ہوگیا تھا ـ مجھے نہیں معلوم کہ ہم گھر تک کیسے پہنچے؟ ـ البتہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہمارے سڑک پر گرتے ہی گھوڑا اسی مقام پر جم کر کھڑا ہوگیا تھا، اگر وہ چاہتا تو اپنا بدلہ لینے کے لئے ہمیں کچل کر بھی بھاگ سکتا تھا ـ اور تب سے ہمیں گھوڑے کی وفاداری پر یقین آگیا ـ اس قدر زخمی ہونے کے باوجود بھی، موجودہ زمانے والے چونچلے ہمارے ساتھ کسی نے نہیں کئے کہ کوئی ہمیں کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتا یا کم از کم ترحم آمیز نظروں سے ہی ہمیں دیکھ لیتا ـ بقولِ فیض ... جو ہم پہ گذری سو گذری، مگر شبِ ہجراں ... ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے ـ ـ ـ تحریر ـــ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ... مورخہ 22 فروری 2023ء بروز بدھ لکھی گئی ـ ..............................................................المیہ ـ ابھی چند روز قبل جب مجھے یہ واقعہ قلمبند کرنے کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ اگلی صبح " رفیق " سے مل کر یہ ضرور معلوم کروں گا کہ ہمیں گھر تک کس نے پہنچایا تھا؟ ـ ( نجانے کیوں یہ سوال میرے ذہن میں کبھی نہیں آیا تھا ـ) اور رفیق کے ساتھ ایک تصویر بھی بنالیں گے کہ اس تحریر کے ساتھ چسپاں کر سکیں، نجانے کیوں اب تک ہم نے اکٹھے کوئی تصویر نہیں بنوائی تھی ـ مگر اگلی صبح معلوم ہوا کہ رات اٹھارہ فروری بروز ہفتہ ساڑھے دس بجے اچانک ان پر دل کا دورہ پڑا اور گیارہ بجے اسپتال لے جاتے ہوئے ان کا انتقال ہوگیا ـ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ـ آمین ـ ...........


قصہ ہمارا گھوڑے سے گِرنے کا
 ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 ایک فُکاہیہ تحریر ...(سچا واقعہ) ـ از ـ غلام محمد وامِق 

گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں ........  
وہ طفل کیا گرے گا، جو گھٹنوں کے بل چلے ـ 

لگتا ہے یہ شعر علامہ اقبال نے شاید ہمارے لئے ہی کہا ہوگا، میدانِ جنگ میں نہ سہی بیچ سڑک ہی سہی، کیوں کہ اصل بات ہے شاہی سواری سے گرنا ـ 
وہ کتنا دلکش منظر ہوگا جب ہم مع اپنے رفیق گھوڑے سے گرے تھے ـ میرے ساتھ گرنے والا رفیق تھا وہ نام کا ہی نہیں کام کا بھی رفیق تھا ـ وہ بچپن سے ہی میرا رفیق اور کلاس فیلو تھا ـ
ہم گھوڑے سے گرے کیسے، یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے، جسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے اپنی نااہلی کے باعث اپنی کتاب میں نہیں لکھا، خیر کوئی بات نہیں ہم خود ہی یہ کارِخیر کر لیتے ہیں ـ
دراصل وہ گھوڑا ہی کچھ مردم ناشناس قسم کا تھا، اور سچی بات تو یہ ہے کہ موصوف سے ہماری کچھ زیادہ شناسائی بھی نہیں تھی، رنگ اس کا سفید نہیں تھا ناسی تھا، حالاں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہمیں سفید رنگ پسند یے ـ
اب آپ سے کیا پردہ، دراصل اُس زمانے میں ہمیں اپنے قد سے بڑے کام کرنے کا شوق ہوتا تھا، سب وقت وقت کی بات ہے، اب تو ہم چوہے کے قد کے برابر بھی کام کرنے کے قابل نہیں رہے ـ
اس زمانے میں ہم شاید چوتھی یا پانچویں جماعت کے ہونہار طالبِ علم تھے، اور سال تھا غالبآ 1965 - 66ء کا ـ
اپنے سندھی پرائمری اسکول ( اس زمانے میں محراب پور میں صرف یہ ہی ایک سرکاری اسکول تھا، دوسرا اردو پرائمری اسکول نجی تھا) کی چھٹی ہونے پر ہم سیرِ چمن کو نکل جاتے تھے، اس زمانے میں ہمارا محراب پور باغوں کا شہر ہوا کرتا تھا، اس کے اردگرد بہت سارے باغ اپنی بہار دکھلاتے تھے، ممکن ہے  میر امّن دہلوی نے اپنی " باغ و بہار " ہمارے ان ہی باغوں میں بیٹھ کر لکھی ہو ـ
ہمیں بھی باغوں سے، چمن سے، اور گل و بلبل سے دلچسپی رہی ہے ـ ہمارے پھوپھا جی اکثر باغ مکادے پر لیا کرتے تھے، اُس روز بھی ہم ایسے ہی ایک باغ میں جا پہنچے، ہمارے ایک پڑوسی تانگہ چلاتے تھے اور تانگے میں جُوتنے والے گھوڑے کو وہ اکثر باغ میں مفت چرنے کے لئے چھوڑ جاتے تھے، بقولِ غالب .... 
" مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے "  یا پھر ....... 
" جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچھا ہے " ـ 

وقوعے والے روز ہم نے پڑوسی سے التجا کی کہ آپ فکر مت کریں آپ کے گھوڑے کو ہم بنفسِ نفیس خود آپ کے پاس شام کو لے آئیں گے، آپ فقط گھر جاکر چین کی بانسری بجائیں، اس نے ہمارے مشورے پر عمل کیا اور بھینس کے آگے بین بجانا مناسب نہیں سمجھا،  اور ہم بچوں کے حوالے اپنا گھوڑا کردیا، ویسے سنا ہے کہ بچوں کے آگے شیطان بھی پناھ مانگتا ہے ـ
بہرحال قصہ مختصر، گھوڑے پر ہم سوار ہوگئے، نہ جانے کیسے، کیوں کہ نہ گھوڑے کی زین تھی، نہ رکاب تھی، اور نہ ہی لگام تھی ـ بقولِ غالب ... 
   رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھئے تھمے ... 
   نے ہاتھ باگ پر ہے،  نہ پا ہے رکاب  میں ـ 
شاید سوار ہونے سے قبل کسی نے ہمیں تنبیہہ بھی کی تھی کہ بغیر لگام کے گھوڑے پر مت چڑھو، گِر جاؤ گے ـ مگر وہ بچے ہی کیا جو بڑوں کی بات مان لیں، ہم نے شاید سوچا ہوگا کہ یہ کون سا جوتشی ہے جو مستقبل کا حال بتا رہا ہے؟ ـ ہم تو وہ ہیں کہ گدھے کی سواری بھی بغیر لگام کے کی ہے اور گرے بھی نہیں، یہ تو پھر بھی شاہی سواری ہے کوئی مذاق نہیں ہے ـ
بہرحال گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار ہو کر رفیق نے گھوڑے کے گلے میں پڑا ہوا رسہ پکڑلیا جس سے گھوڑے کو کھونٹے سے یا کسی درخت سے باندھا جاتا تھا ـ میں پیچھے بیٹھا اور درمیان میں اپنی کتابوں کی پیٹی رکھ لی، جوکہ لوہے کی بنی ہوئی ہوتی تھی ـ آج کل جیسے جدید بیگ یا بستے نہیں ہوتے تھے ـ
تو جناب گلستان سے ہماری سواری سُوئے مکان روانہ ہوئی، گھوڑا خِراماں خراماں چل رہا تھا، شاید اقبال کے کسی فلسفے پر غور میں مصروف تھا، کہ پکی اینٹوں سے بنی ناہموار ٹوٹی پھوٹی سڑک پر آکر ہماری کتابوں سے بھری پیٹی نے کھڑکنا شروع کردیا جس سے گھوڑے کے استغراق میں کچھ خلل پیدا ہوا اس نے ناگواری سے دوڑنا شروع کردیا، دوڑنے سے لوہے کی پیٹی میں موجود پتھر کی سلیٹ اور کتابیں مزید زور سے کھڑکنے لگیں اور گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بھی اچھل اچھل کر لگنے لگی تو گھوڑا اشتعال میں آکر اور تیز دوڑنے لگا، صورتحال بھانپ کر رفیق نے مجھے پیٹی کو زمین پر پھینک دینے کے لئے کئی بار سختی سے کہا، مگر مجھے پتھر کی سلیٹ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خدشہ تھا، چناں چہ پیٹی پھینکنے کے بجائے مضبوطی کے ساتھ اپنے سینے سے لگا لی،  " پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی " اور بقولِ غالب ... 
وفا کیسی کہاں کا عشق، جب سر پھوڑنا ٹھہرا ... 
تو پھر اے سنگدل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو ـ 

تو جناب ہمارا سر بھی کسی سنگِ آستاں کے بجائے، اینٹوں سے بنی ٹوٹی سڑک کے کنارے سے ٹکرایا تھا پھر کیا ہوا ہمیں کچھ علم نہیں،   لیکن یہ نصیحت ضرور مل گئی کہ اگر اپنے بڑوں کا کہا مان لیا جائے تو آدمی بڑے خسارے سے بچ سکتا ہے ـ
جب آنکھ کھلی تو ہمارے سخت گیر تایا جی کی غصہ سے بھرپور آواز کانوں میں پڑی جو اپنی خالص ہریانوی زبان میں بڑی گاڑھی گاڑھی صلواتیں سنا رہے تھے ـ ہم نے اپنی شان میں اس قدر اعلیٰ قصائد سن کر پھر سے آنکھیں موند لینے میں ہی عافیت جانی ـ
اس سارے قضیه میں اکیلا میں ہی نہیں گرا تھا بلکہ رفیق سمیت کتابوں کی پیٹی بھی گری تھی جس کو بچانے کے لئے ہم نے اپنے سر تڑوا لئے، البتہ رفیق ہوش میں تھا جب کہ  میں بیہوش ہوگیا تھا ـ
مجھے نہیں معلوم کہ ہم گھر تک کیسے پہنچے؟ ـ البتہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ہمارے سڑک پر گرتے ہی گھوڑا اسی مقام پر جم کر کھڑا ہوگیا تھا، اگر وہ چاہتا تو اپنا بدلہ لینے کے لئے ہمیں کچل کر بھی بھاگ سکتا تھا ـ اور تب سے ہمیں گھوڑے کی وفاداری پر یقین آگیا ـ
اس قدر زخمی ہونے کے باوجود بھی، موجودہ زمانے والے چونچلے ہمارے ساتھ کسی نے نہیں کئے کہ کوئی ہمیں کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاتا یا کم از کم ترحم آمیز نظروں سے ہی ہمیں دیکھ لیتا ـ بقولِ فیض ... 
جو ہم پہ گذری سو گذری، مگر شبِ ہجراں ... 
ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے ـ ـ ـ

 تحریر ـــ غلام محمد وامِق، محراب پور سندھ ... 
مورخہ 22 فروری 2023ء بروز بدھ لکھی گئی ـ 
                      ..............................................................
المیہ ـ ابھی چند روز قبل جب مجھے یہ واقعہ قلمبند کرنے کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ اگلی صبح  " رفیق " سے مل کر یہ ضرور معلوم کروں گا کہ ہمیں گھر تک کس نے پہنچایا تھا؟ ـ ( نجانے کیوں یہ سوال میرے ذہن میں کبھی نہیں آیا تھا ـ) اور رفیق کے ساتھ ایک تصویر بھی بنالیں گے کہ اس تحریر کے ساتھ چسپاں کر سکیں، نجانے کیوں اب تک ہم نے اکٹھے کوئی تصویر نہیں بنوائی تھی ـ
مگر اگلی صبح معلوم ہوا کہ رات اٹھارہ فروری بروز ہفتہ ساڑھے دس بجے اچانک ان پر دل کا دورہ پڑا اور گیارہ بجے اسپتال لے جاتے ہوئے ان کا انتقال ہوگیا ـ 
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ـ آمین ـ ...........
Powered by Blogger.