***کیا مسلمان دوبارہ دنیا پر غالب آسکتے ہیں؟     پدرم سلطان بُود ــ ***  ـــــــــــــــــــــــــــــــ  تحریر ـ  غلام محمد  وامِق. ـــــ  ہم مسلمانوں، خاص طور پر پاکستانیوں میں ایک بڑا پرجوش جزبہ پایا جاتا ہے کہ جناب، ہم پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں، اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ملک کو ریاستِ مدینہ سے تشبیہ دینے لگے ہیں ـ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ریاستِ مدینہ کو چاہنے والے مسلمان سب کے سب مکہ کو چھوڑ کر مدینہ میں آگئے تھے، جبکہ ہماری صورتحال بلکل مختلف ہے، یہاں پر متروکہ ملک بھارت کے مسلمان کسی صورت پاکستان آنے کے لئے تیار نہیں ہیں،  نہ صرف تیار نہیں بلکہ وہ تو پاکستان کو مسلم ریاست تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں، اور وہ دوچار لوگ نہیں ہیں، بلکہ ہماری اسلامی ریاستِ مدینہ سے زیادہ تعداد میں وہاں پر آباد ہیں، نہ صرف آباد ہیں بلکہ اپنے ملک بھارت سے محبت بھی کرتے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا اسلامی غلبہ کے لئے ہمارے لئے  اب حالات سازگار ہیں ـ؟  اور مزید یہ کہ ہم مسلمانوں کا یہ فرض ایک بار پورا ہوچکا ہے، اور کم و بیش مکمل یا جزوی طور پر تقریباً تیرہ سو سال تک دنیا پر ہمارا غلبہ رہا ہے، اور یہ غلبہ ختم ہی اس لئے ہوا ہے کہ ہم مسلمانوں نے اصل بنیادی تعلیم کو اور اصولوں کو بھلادیا ہے ـ اور وہ ہی اصول اب یورپین قوموں کے پاس ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر اب ہماری جگہ وہ دنیا پر غالب ہیں، ان باتوں کو تسلیم کرنا دراصل ہمارے لئے بڑے کڑوے گھونٹ پینے کے مترادف ہے،  جنہیں تسلیم کرنا ہمارے لئے بڑا مشکل ہے ـ آئیے ان اصولوں پر ذرا ایک نظر ڈالتے ہیں اور اس آئینے میں اپنا جائزہ لیتے ہیں ـ جھوٹ مت بولو ــ؟ ناپ تول میں کمی مت کرو ـ؟ کسی کو دھوکا مت دو ـ؟  ملاوٹ مت کرو ـ؟  اپنا وعدہ پورا کیا کرو ـ؟  دنیا پرستی مت کرو، ذخیرہ اندوزی مت کرو؟نسل پرستی اور قوم پرستی مت کرنا ـ؟ نسل اور قوم کی بنیاد پر کسی کو کوئی برتری نہیں ـ  جو اپنے لئے پسند کرو وہی اپنے ماتحت اور غیروں کے لئے بھی پسند کرو ـ؟  حق اور باطل یعنی سچ اور جھوٹ کو آپس میں مت ملاؤ؟  لین دین میں عدل سے کام لو ؟کسی کا حق مت کھاؤ ـ   ہر حقدار کو اس کا حق فوراً اداکرو ـــ؟  مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو ـ؟ کرپشن مت کرو ـ؟  اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو اور فرقے مت بنو ـ؟ حکمران کو قوم کا خادم ہونا چاہئے ـ؟پڑوسی کے حقوق ادا کرو، چاہے وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو،  اور اس کے حقوق اہلِ خانہ کے برابر بتائے گئے ہیں ـ؟  اپنا مکان پڑوسی کے مکان سے اونچا مت بناؤ ـ؟ اقربا پروری مت کرو ـ؟ خبردار!  کسی پر بھی ظلم مت کرنا ـ؟ کسی ملک سے جنگ ہو تو، وہاں کی خواتین کا احترام کرناـ؟ بوڑھوں اور بچوں کو قتل مت کرنا ـ؟ جنگ کے دوران غیرمسلموں کی عبادتگاہوں کو نقصان مت پہنچاؤ ـ؟ اور جو لوگ عبادتگاہوں میں پناہ حاصل کریں، انہیں نقصان مت پہنچانا ـ؟ اپنے امیر کی اور اپنے والدین کی ہر حال میں اطاعت کرو، سوائے حکمِ شرک کے ـ اور تاریخ گواہ ہے کہ خلیفۂ ثانی نے اسلامی فوج کے نامور اور ناقابلِ شکست سپہ سالار " حضرت خالد بن ولید " کو بغیر کسی وجہ کے،  عین حالتِ جنگ میں اپنے ایک حکم سے سبکدوش کردیا تھا، اور کسی نے بھی کوئی مزاحمت نہیں کی ـ؟  ـــــــ اپنی معیشت مظبوط کرو ، کسی سے قرضہ مت لو، بلکہ ضرورت پڑنے پر اوروں کو قرضہ دیکر مدد کرو ـ؟ کیا آج کل کے منصوبہ ساز مسلمانوں میں کہیں پر بھی اس طرح کے مضبوط کردار اور اخلاق کی کوئی مثال نظر آتی ہے ـــ؟  یہ اخلاقی اقدار جو بھی اپنائے گا وہ دنیا پر غالب آجائے گا ـ؟ صرف یہ کہنے سے کہ " پدرم سلطان بُود " یعنی میرا باپ بادشاہ تھا، یا یہ کہ ہمارے بڑے دنیا پر غالب تھے، اس لئے ہم بھی غالب آئیں گے ـ سوائے شیخ چلی کے خواب کے اور کچھ نہیں ـــ  بقولِ علامہ اقبال کہ ـــ" تھے تو آباء وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو ـ؟ " ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو ـ؟؟؟  ـــ ــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ   مورخہ ‏یکم ‏جنوری ‏2020 ‏ء ‏ـ ‏

***کیا مسلمان دوبارہ دنیا پر غالب آسکتے ہیں؟ پدرم سلطان بُود ــ *** ـــــــــــــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق. ـــــ ہم مسلمانوں، خاص طور پر پاکستانیوں میں ایک بڑا پرجوش جزبہ پایا جاتا ہے کہ جناب، ہم پوری دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے آئے ہیں، اور یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ملک کو ریاستِ مدینہ سے تشبیہ دینے لگے ہیں ـ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ ریاستِ مدینہ کو چاہنے والے مسلمان سب کے سب مکہ کو چھوڑ کر مدینہ میں آگئے تھے، جبکہ ہماری صورتحال بلکل مختلف ہے، یہاں پر متروکہ ملک بھارت کے مسلمان کسی صورت پاکستان آنے کے لئے تیار نہیں ہیں، نہ صرف تیار نہیں بلکہ وہ تو پاکستان کو مسلم ریاست تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں، اور وہ دوچار لوگ نہیں ہیں، بلکہ ہماری اسلامی ریاستِ مدینہ سے زیادہ تعداد میں وہاں پر آباد ہیں، نہ صرف آباد ہیں بلکہ اپنے ملک بھارت سے محبت بھی کرتے ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا اسلامی غلبہ کے لئے ہمارے لئے اب حالات سازگار ہیں ـ؟ اور مزید یہ کہ ہم مسلمانوں کا یہ فرض ایک بار پورا ہوچکا ہے، اور کم و بیش مکمل یا جزوی طور پر تقریباً تیرہ سو سال تک دنیا پر ہمارا غلبہ رہا ہے، اور یہ غلبہ ختم ہی اس لئے ہوا ہے کہ ہم مسلمانوں نے اصل بنیادی تعلیم کو اور اصولوں کو بھلادیا ہے ـ اور وہ ہی اصول اب یورپین قوموں کے پاس ہیں، جن پر عمل پیرا ہوکر اب ہماری جگہ وہ دنیا پر غالب ہیں، ان باتوں کو تسلیم کرنا دراصل ہمارے لئے بڑے کڑوے گھونٹ پینے کے مترادف ہے، جنہیں تسلیم کرنا ہمارے لئے بڑا مشکل ہے ـ آئیے ان اصولوں پر ذرا ایک نظر ڈالتے ہیں اور اس آئینے میں اپنا جائزہ لیتے ہیں ـ جھوٹ مت بولو ــ؟ ناپ تول میں کمی مت کرو ـ؟ کسی کو دھوکا مت دو ـ؟ ملاوٹ مت کرو ـ؟ اپنا وعدہ پورا کیا کرو ـ؟ دنیا پرستی مت کرو، ذخیرہ اندوزی مت کرو؟نسل پرستی اور قوم پرستی مت کرنا ـ؟ نسل اور قوم کی بنیاد پر کسی کو کوئی برتری نہیں ـ جو اپنے لئے پسند کرو وہی اپنے ماتحت اور غیروں کے لئے بھی پسند کرو ـ؟ حق اور باطل یعنی سچ اور جھوٹ کو آپس میں مت ملاؤ؟ لین دین میں عدل سے کام لو ؟کسی کا حق مت کھاؤ ـ ہر حقدار کو اس کا حق فوراً اداکرو ـــ؟ مزدور کو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو ـ؟ کرپشن مت کرو ـ؟ اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھام لو اور فرقے مت بنو ـ؟ حکمران کو قوم کا خادم ہونا چاہئے ـ؟پڑوسی کے حقوق ادا کرو، چاہے وہ غیرمسلم ہی کیوں نہ ہو، اور اس کے حقوق اہلِ خانہ کے برابر بتائے گئے ہیں ـ؟ اپنا مکان پڑوسی کے مکان سے اونچا مت بناؤ ـ؟ اقربا پروری مت کرو ـ؟ خبردار! کسی پر بھی ظلم مت کرنا ـ؟ کسی ملک سے جنگ ہو تو، وہاں کی خواتین کا احترام کرناـ؟ بوڑھوں اور بچوں کو قتل مت کرنا ـ؟ جنگ کے دوران غیرمسلموں کی عبادتگاہوں کو نقصان مت پہنچاؤ ـ؟ اور جو لوگ عبادتگاہوں میں پناہ حاصل کریں، انہیں نقصان مت پہنچانا ـ؟ اپنے امیر کی اور اپنے والدین کی ہر حال میں اطاعت کرو، سوائے حکمِ شرک کے ـ اور تاریخ گواہ ہے کہ خلیفۂ ثانی نے اسلامی فوج کے نامور اور ناقابلِ شکست سپہ سالار " حضرت خالد بن ولید " کو بغیر کسی وجہ کے، عین حالتِ جنگ میں اپنے ایک حکم سے سبکدوش کردیا تھا، اور کسی نے بھی کوئی مزاحمت نہیں کی ـ؟ ـــــــ اپنی معیشت مظبوط کرو ، کسی سے قرضہ مت لو، بلکہ ضرورت پڑنے پر اوروں کو قرضہ دیکر مدد کرو ـ؟ کیا آج کل کے منصوبہ ساز مسلمانوں میں کہیں پر بھی اس طرح کے مضبوط کردار اور اخلاق کی کوئی مثال نظر آتی ہے ـــ؟ یہ اخلاقی اقدار جو بھی اپنائے گا وہ دنیا پر غالب آجائے گا ـ؟ صرف یہ کہنے سے کہ " پدرم سلطان بُود " یعنی میرا باپ بادشاہ تھا، یا یہ کہ ہمارے بڑے دنیا پر غالب تھے، اس لئے ہم بھی غالب آئیں گے ـ سوائے شیخ چلی کے خواب کے اور کچھ نہیں ـــ بقولِ علامہ اقبال کہ ـــ" تھے تو آباء وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو ـ؟ " ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو ـ؟؟؟ ـــ ــــــــــــــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ مورخہ ‏یکم ‏جنوری ‏2020 ‏ء ‏ـ ‏

Powered by Blogger.