Gm Wamiq Toor پاکستان میں لکھاریوں کی درجہ بندی:---- (معزرت کے ساتھ) === تحریر غلام محمد وامِق ـــ 1 .سرکاری اُدَبا اور شُعرا = اس درجہ میں ایسے لکھاری شامل ہوتے ہیں جو اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فاٸز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کی ادبی صلاحیت عام طور پر ان کا بڑا سرکاری افسر ہونا ہی ہوتا ہے۔یعنی ان کا نام ہی ادب کی شناخت کے لۓ کافی ہوتا ہے۔ اس لۓ عام ادیب ان کے نام سے ہی متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے ادیب عام طور پر نصابی کتابیں لکھنے کے کام آتے ہیں۔۔ 2. نیم سرکاری لکھاری = اس فہرست میں سرکار کے چہیتے اور من پسند دوست اور اقربا شامِل ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ علمی قابلیت ہوتی ہے، اسی لۓ ایسے قلمکار خاص طور پر سربراہِ مملکت اور وزرا ، و سیاستدانوں کی تقاریر وغیرہ لکھنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے ادیب عام طور پر ٹی وی ، اور سرکاری تقریبات میں اکثر دکھاٸی دیتے ہیں۔ 3. خانقاہی ادیب = ان لکھاریوں میں وہ معززین اور مرشدین شامل ہوتے ہیں، جن کے خدمتگاروں اور مریدین کا داٸرہ وسیع ہوتا ہے۔اور ان کا اثر خیر، سرکار پر بھی سایہ فگن رہتا ہے۔ ایسے اُدَبا اور شُعرا بھی ملک کی وفاقی سطح کی تقریبات میں خصوصی طور پر مدعو کۓ جاتے ہیں۔ اور ایسے ادیبوں کو باقاٸدہ س رکاری وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا تینوں اقسام کے ادیبوں کو وقفے وقفے سے ایوارڈ اور دیگر لوازمات سے بھی نوازا جاتا ہے۔ 4. غیر سرکاری ادبی تنظیموں کے ارکان = ایسی تنظیمیں اور ان سے وابستہ شاعر چندوں پر اپنا گزارا کرتے ہیں۔ اور مختلف ناموں اور حیلے بہانوں سے یہ سرکاری اور غیر سرکاری عنایات کے منتظر رہتے ہیں۔ چنانچہ اس قبیل کے شاعر اہم سرکاری عہدیداروں اور سرمایہ داروں کے سامنے رطب اللسان رہنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ان کی ادبی تقریبات میں عام طور پر مہمانِ خصوصی کسی بڑے سرکاری افسر یا کسی بڑے مالدار شخص کو ہی مقرر کیا جاتا ہے۔۔ 5. فاقہ مست ادبا اور شعرا = یہ ایسے فطری تخلیق کار ہوتے ہیں جو اپنی سچاٸی اور سادگی کے باعث اپنے آپ میں ہی مگن رہتے ہیں، اور بقولِ اقبال۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کی کوشش میں رہتے ہیں، لیکن انہیں اپنے من میں سواۓ فاقوں کے اور سماجی مساٸل کے اور کچھ نہیں ملتا۔ چنانچہ عمر بھر بوسیدہ کاغذ کے ٹکڑوں پر ادب پارے لکھ لکھ کر سنبھالنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور اپنی ہستی کو مٹا کر کوٸی مرتبہ ڈھونڈنے کی کوشش میں دنیا والوں کی نظروں میں خاک در خاک ہوتے رہتے ہیں۔۔چنانچہ اپنے حال کو جلا کر مستقبل کو ڈھونڈتے رہتے ہیں۔۔۔ ایسے لوگوں میں آپ کو صرف ساغر صدیقی ہی نہیں، اور بھی بہت سے نامراد شعرا مل سکتے ہیں۔۔ لیکن دیکھے کون ؟ بقولِ غالب۔ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگٸیں ۔۔۔۔ ایسے لوگوں کی پذیراٸی بعد از مرگ کی جاتی ہے۔۔ ۔اور بعد از مرگ ہی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی عظمت کا پتہ چلایا جاتا ہے۔ چنانچہ شہر کی فلاحی اور سماجی تنظیمیں، ان کی ادبی خدمات پر ، ان کی عظیم تخلیقات کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی کی محرومیوں پر بڑے ذوق و شوق اور جزبے کے ساتھ روشنی ڈالتی ہیں۔ اور کچھ نام نہاد سماجی ورکر ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ان کے لۓ کچھ وعدے وعید کرتے ہیں۔ تاکہ اپنے آپ کو بڑا ادب پرور ثابت کیا جا سکے۔۔۔۔ اور بعد ازاں سب بھول کر پھر کسی نٸے مرنے والے غریب ادیب کی پزیراٸی کے لۓ نیا چندہ اکٹھا کرنے کی مہم چلاٸی جاتی ہے۔۔۔ تحریر ــ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ ـ Gm Wamiq Toor 9:13 AM 0 Comment پاکستان میں لکھاریوں کی درجہ بندی ۔ جی ایم وامِق Read More Share