فی زمانہ غلبہء اسلام، مگر کیسے ۔۔۔؟ ـــ  تحریر ـــــ  غلام  محمد وامِق  ===   قـرآن کریم کے مطابق مسلمانوں کا اصل مسئلہ اور ذمیداری اسلام کا پھیلانا نہیں بلکہ پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنا ہے۔ اسلام معاشی اور سماجی طور پر غالب ہوگیا تو پھر دنیا بھر میں پھیل تو خود بخود ہی جائے گا۔ جیسے کہ فتح مکہ کے بعد ہوا تھا, آج کے دور میں جو تنظیمیں یا جماعتیں اسلحہ کے زور پر یا زبردستی اسلام کا غلبہ چاہتی ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتی ہیں۔ ان کی حکمت عملي بلکل غلط ہے۔ اور ان کی ناکامی پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بہت سے لوگ غلبہ کے لئے انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن انہیں شاید اس بات کا احساس نہیں ہے کہ انقلاب جمہوریت میں نہ پہلے کبھی آیا ہے۔ اور نہ ہی آئندہ کبھی آسکتا ہے۔ اسی لئے یورپی، ممالک جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ تاکہ اسلامی انقلاب کا راستہ مکمل طور پر بند ہوجائے, کیونکہ انقلاب ہمیشہ آمریت اور بادشاہت کے نظام میں ہی آسکتا ہے ,جمہوری سسٹم میں کبھی نہیں. اسلامی نظام کے غلبہ کے لئے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار اپنانا ہوگا,جس طرح آپ نے مکی دور میں عدم تشدد کا مظاہرہ کیا اور کسی سے کوئ جنگ وغیرہ بلکل نہیں کی ,جبکہ مدینہ میں پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی. اور پھر بعد میں غزوات کا سلسلہ شروع کیا.  لہذا ہمیں اپنے ملک کو سب سے پہلے معاشی طور پر اور سماجی طور پر اپنے دشمنوں کے برابر کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی ہمیں اسلام کے غلبہ کے خواب دیکھنے چاہئیں،  ورنہ تو ہم اپنے آپ کو صرف تباہي کي طرف ہی لے جاتے رہیں گے ,(نوٹ..  یہ اہم پیغام میں نے کسی چھوٹی سوچ کے اور چھوٹے ذہن کے آدمی کے لئے نہیں لکھا, شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ) . مزید یہ کہ جس طرح یورپین قوموں نے باقاعدہ ایک پلاننگ اور تیاری کے ساتھ مسلمانوں کا غلبہ دنیا سے ختم کیا ہے, بلکل اسی طریقے سے ہم بھی مکمل تیاری کے ساتھ اور اتحاد بین المسلمین اور اپنے ملک کو معاشی اور سماجی ترقی دیکر نہ صرف دشمنوں کو مغلوب کرسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں قرون اولیٰ کی طرح دوبارہ سے اسلام کو غالب کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ کہ آپس کی منافرت اور دہشتگردی کے طریقے کو چھوڑ دیں۔  وماعلینا الی البلاغ. تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏محرابپور ‏سندھ ‏ـ ‏

فی زمانہ غلبہء اسلام، مگر کیسے ۔۔۔؟ ـــ تحریر ـــــ غلام محمد وامِق === قـرآن کریم کے مطابق مسلمانوں کا اصل مسئلہ اور ذمیداری اسلام کا پھیلانا نہیں بلکہ پوری دنیا پر اسلام کو غالب کرنا ہے۔ اسلام معاشی اور سماجی طور پر غالب ہوگیا تو پھر دنیا بھر میں پھیل تو خود بخود ہی جائے گا۔ جیسے کہ فتح مکہ کے بعد ہوا تھا, آج کے دور میں جو تنظیمیں یا جماعتیں اسلحہ کے زور پر یا زبردستی اسلام کا غلبہ چاہتی ہیں وہ احمقوں کی جنت میں رہتی ہیں۔ ان کی حکمت عملي بلکل غلط ہے۔ اور ان کی ناکامی پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بہت سے لوگ غلبہ کے لئے انقلاب لانے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن انہیں شاید اس بات کا احساس نہیں ہے کہ انقلاب جمہوریت میں نہ پہلے کبھی آیا ہے۔ اور نہ ہی آئندہ کبھی آسکتا ہے۔ اسی لئے یورپی، ممالک جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہیں۔ تاکہ اسلامی انقلاب کا راستہ مکمل طور پر بند ہوجائے, کیونکہ انقلاب ہمیشہ آمریت اور بادشاہت کے نظام میں ہی آسکتا ہے ,جمہوری سسٹم میں کبھی نہیں. اسلامی نظام کے غلبہ کے لئے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کار اپنانا ہوگا,جس طرح آپ نے مکی دور میں عدم تشدد کا مظاہرہ کیا اور کسی سے کوئ جنگ وغیرہ بلکل نہیں کی ,جبکہ مدینہ میں پہنچنے کے بعد آپ نے سب سے پہلے مسلمانوں کی معاشی حالت بہتر بنانے کی کوشش کی. اور پھر بعد میں غزوات کا سلسلہ شروع کیا. لہذا ہمیں اپنے ملک کو سب سے پہلے معاشی طور پر اور سماجی طور پر اپنے دشمنوں کے برابر کرنا ہوگا۔ اس کے بعد ہی ہمیں اسلام کے غلبہ کے خواب دیکھنے چاہئیں، ورنہ تو ہم اپنے آپ کو صرف تباہي کي طرف ہی لے جاتے رہیں گے ,(نوٹ.. یہ اہم پیغام میں نے کسی چھوٹی سوچ کے اور چھوٹے ذہن کے آدمی کے لئے نہیں لکھا, شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ) . مزید یہ کہ جس طرح یورپین قوموں نے باقاعدہ ایک پلاننگ اور تیاری کے ساتھ مسلمانوں کا غلبہ دنیا سے ختم کیا ہے, بلکل اسی طریقے سے ہم بھی مکمل تیاری کے ساتھ اور اتحاد بین المسلمین اور اپنے ملک کو معاشی اور سماجی ترقی دیکر نہ صرف دشمنوں کو مغلوب کرسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں قرون اولیٰ کی طرح دوبارہ سے اسلام کو غالب کرسکتے ہیں۔ بشرطیکہ کہ آپس کی منافرت اور دہشتگردی کے طریقے کو چھوڑ دیں۔ وماعلینا الی البلاغ. تحریر ‏ـ ‏غلام ‏محمد ‏وامِق ‏، ‏محرابپور ‏سندھ ‏ـ ‏

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی،،،، تحریر ــ  غلام  محمد  وامِق ـــ   حیرت ہے کہ آج تین چار سال کا بچہ، موبائل انٹر نیٹ اس طرح آپریٹ کر لیتا ہے، جیسے پیدائشی طور پر سیکھ کر آیا ہے ۔وہ جب ننھی ننھی انگلیوں سے ٹچ کرکے کسی تصویر کو دیکھتا ہے، رنگین روشنیوں کو دیکھتا ہے، وہ ٹچ کرتا ہے تو عجیب عجیب کارٹون دیکھتا ہے، اور کئی طرح کی موسیقی سنتا ہے تو اسے کوئی خوف یا حیرت نہیں ہوتی ۔۔۔ جبکہ ہماری ساری زندگی مسلسل حیرتوں میں گزری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پانچ سال کی عمر میں تختی اور سلیٹ ہاتھوں میں لیکر پیدل بازار سے گزرتے ہوئے اسکول جاتے تو پورے بازار میں صرف چنیوٹی شیخوں کی دکان پر، کوئی تین فٹ لمبا چوڑا ایک ڈبہ سا رکھا ہوتا تھا، جس میں سے کبھی گانے کی اور کبھی بولنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں، لوگ اُسے ریڈیو  کہتے تھے ۔ اور یہ ریڈیو بیٹری پر چلتا تھا ۔ہم بچے سمجھتے تھے کہ، شاید اس ڈبے میں بونے آدمی بند کئے گئے ہیں ۔ اور ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی۔۔۔۔۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب بجلی چھوٹے شہروں تک نہیں پہنچی تھی، تب شہر کے اہم چوراہوں پر ٹاؤن کمیٹی کی طرف سے تیل سے جلنے والی لالٹینیں نصب ہوتی تھیں ۔ایسے میں ہم رات کے وقت گھروں سے نکلتے وقت اپنے ساتھ سیلوں سے جلنے والی ٹارچ رکھتے تھے ۔ جس سے روشنی میں راستہ دیکھتے تھے، تب بھی ہمیں حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔ پھر ہم ، شاید چوتھی جماعت کی کتاب میں ایک سبق پڑھتے تھے، جس کا عنوان تھا ٹیلیویژن ۔۔۔ ٹیچر ہمیں بتاتا کہ یہ ریڈیو جیسی کوئی چیز ایجاد کی گئی ہے، جس میں آواز کے ساتھ بولنے والے کی تصویر بھی نظر آتی ہے، اور یہ سن کر ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ ایک بار ایک جگہ پر ہمارا ایک جاننے والا ایک خوبصورت چھوٹی سی پیٹی اٹھا کر لایا، ہم جو بولتے، وہی آواز اس پیٹی سے سنائی دیتی، ہمیں بتایا گیا کہ اس کا نام ٹیپ ریکارڈر  ہے،، اور ہمیں بڑی حیرت ہوئی ۔۔۔۔۔اُس وقت گھر والوں سے چوری ہم بلیک اینڈ وائٹ، سینما میں جاتے اور مووی دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ۔۔۔۔۔ اور جب پہلی بار اللہ رکھا ،کے حبیب ہوٹل پر بلیک اینڈ وائٹ ٹیلیویژن آیا تو دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ۔۔۔۔۔ بعد ازاں کچھ عرصے کے بعد رنگین ٹیلیویژن ہوٹل پر آیا تو حیرت مزید بڑھ گئی ۔۔۔۔۔اور اسی دور میں جب بلیک اینڈ وائٹ کیمرے سے فوٹوگرافر تصویر بناتا تو حیرت ہوتی ۔۔اور پھر بعد ازاں فوٹوگرافر رنگین تصاویر بنانے لگے تو حیرت میں مزید اضافہ ہوا ۔۔۔اُس دور میں، پی ٹی سی ایل، ٹیلیفون کہیں کہیں نظر آتا تھا، لوگ رسیور کان سے لگا کر تصاویر بنواتے تھے تو ہمیں حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔ پوسٹ آفس سے خط کی ترسیل پر ہمیں حیرت ہوتی تھی، اور پوسٹ آفس میں ٹِک ٹِک کر کے ٹیلی گرام آتا، تو حیرت ہوتی، اس کے بعد ٹائپنگ مشین، اور فیکس مشین آئی تو بھی ہم حیران رہ گئے ۔۔۔۔ اخبارات و رسائل میں اپنی کوئی تصویر چھپتی، اپنی کوئی تحریر، یا نظم وغیرہ چھپتی تو بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ۔۔۔۔ کسی لائبریری میں اچھی کتابیں نظر آتیں، تو حیرت ہوتی اور کسی وائرلیس پیغام کے متعلق سنتے تو حیرت ہوتی ۔۔۔۔ اور تب بھی حیرت ہوتی جب ٹیبل کلاک کا الارم بجتا،،، اور ماضی قریب میں بغیر تار کے موبائل فون کو دیکھا تو بھی ہم حیرت زدہ ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔ اور اب مزکورہ بالا تمام سہولتوں اور ایجادات کو صرف ایک چھوٹی سی پاکٹ ڈبیہ، (آئی فون)، میں دیکھتے ہیں اور اُن سے بہتر رزلٹ بھی دیکھتے ہیں تو اب بھی ہمیں حیرت ہوتی ہے،،،،،، اور بچے جو گیم اس میں کھیلتے ہیں وہ گیمیں تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سنی تھیں،  اس لئے بھی ہم اکثر حیران رہ جاتے ہیں ۔لیکن آج کے بچوں کو کسی بات پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ تحریر  ـــ  غلام محمد وامق، ‏محرابپور ‏سندھ ‏...

محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی،،،، تحریر ــ غلام محمد وامِق ـــ حیرت ہے کہ آج تین چار سال کا بچہ، موبائل انٹر نیٹ اس طرح آپریٹ کر لیتا ہے، جیسے پیدائشی طور پر سیکھ کر آیا ہے ۔وہ جب ننھی ننھی انگلیوں سے ٹچ کرکے کسی تصویر کو دیکھتا ہے، رنگین روشنیوں کو دیکھتا ہے، وہ ٹچ کرتا ہے تو عجیب عجیب کارٹون دیکھتا ہے، اور کئی طرح کی موسیقی سنتا ہے تو اسے کوئی خوف یا حیرت نہیں ہوتی ۔۔۔ جبکہ ہماری ساری زندگی مسلسل حیرتوں میں گزری ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پانچ سال کی عمر میں تختی اور سلیٹ ہاتھوں میں لیکر پیدل بازار سے گزرتے ہوئے اسکول جاتے تو پورے بازار میں صرف چنیوٹی شیخوں کی دکان پر، کوئی تین فٹ لمبا چوڑا ایک ڈبہ سا رکھا ہوتا تھا، جس میں سے کبھی گانے کی اور کبھی بولنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں، لوگ اُسے ریڈیو کہتے تھے ۔ اور یہ ریڈیو بیٹری پر چلتا تھا ۔ہم بچے سمجھتے تھے کہ، شاید اس ڈبے میں بونے آدمی بند کئے گئے ہیں ۔ اور ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی۔۔۔۔۔ یہ اس زمانے کی بات ہے، جب بجلی چھوٹے شہروں تک نہیں پہنچی تھی، تب شہر کے اہم چوراہوں پر ٹاؤن کمیٹی کی طرف سے تیل سے جلنے والی لالٹینیں نصب ہوتی تھیں ۔ایسے میں ہم رات کے وقت گھروں سے نکلتے وقت اپنے ساتھ سیلوں سے جلنے والی ٹارچ رکھتے تھے ۔ جس سے روشنی میں راستہ دیکھتے تھے، تب بھی ہمیں حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔ پھر ہم ، شاید چوتھی جماعت کی کتاب میں ایک سبق پڑھتے تھے، جس کا عنوان تھا ٹیلیویژن ۔۔۔ ٹیچر ہمیں بتاتا کہ یہ ریڈیو جیسی کوئی چیز ایجاد کی گئی ہے، جس میں آواز کے ساتھ بولنے والے کی تصویر بھی نظر آتی ہے، اور یہ سن کر ہمیں بڑی حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ ایک بار ایک جگہ پر ہمارا ایک جاننے والا ایک خوبصورت چھوٹی سی پیٹی اٹھا کر لایا، ہم جو بولتے، وہی آواز اس پیٹی سے سنائی دیتی، ہمیں بتایا گیا کہ اس کا نام ٹیپ ریکارڈر ہے،، اور ہمیں بڑی حیرت ہوئی ۔۔۔۔۔اُس وقت گھر والوں سے چوری ہم بلیک اینڈ وائٹ، سینما میں جاتے اور مووی دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ۔۔۔۔۔ اور جب پہلی بار اللہ رکھا ،کے حبیب ہوٹل پر بلیک اینڈ وائٹ ٹیلیویژن آیا تو دیکھ کر بڑی حیرت ہوتی ۔۔۔۔۔ بعد ازاں کچھ عرصے کے بعد رنگین ٹیلیویژن ہوٹل پر آیا تو حیرت مزید بڑھ گئی ۔۔۔۔۔اور اسی دور میں جب بلیک اینڈ وائٹ کیمرے سے فوٹوگرافر تصویر بناتا تو حیرت ہوتی ۔۔اور پھر بعد ازاں فوٹوگرافر رنگین تصاویر بنانے لگے تو حیرت میں مزید اضافہ ہوا ۔۔۔اُس دور میں، پی ٹی سی ایل، ٹیلیفون کہیں کہیں نظر آتا تھا، لوگ رسیور کان سے لگا کر تصاویر بنواتے تھے تو ہمیں حیرت ہوتی تھی ۔۔۔۔۔۔ پوسٹ آفس سے خط کی ترسیل پر ہمیں حیرت ہوتی تھی، اور پوسٹ آفس میں ٹِک ٹِک کر کے ٹیلی گرام آتا، تو حیرت ہوتی، اس کے بعد ٹائپنگ مشین، اور فیکس مشین آئی تو بھی ہم حیران رہ گئے ۔۔۔۔ اخبارات و رسائل میں اپنی کوئی تصویر چھپتی، اپنی کوئی تحریر، یا نظم وغیرہ چھپتی تو بڑی خوشگوار حیرت ہوتی ۔۔۔۔ کسی لائبریری میں اچھی کتابیں نظر آتیں، تو حیرت ہوتی اور کسی وائرلیس پیغام کے متعلق سنتے تو حیرت ہوتی ۔۔۔۔ اور تب بھی حیرت ہوتی جب ٹیبل کلاک کا الارم بجتا،،، اور ماضی قریب میں بغیر تار کے موبائل فون کو دیکھا تو بھی ہم حیرت زدہ ہوگئے تھے ۔۔۔۔۔ اور اب مزکورہ بالا تمام سہولتوں اور ایجادات کو صرف ایک چھوٹی سی پاکٹ ڈبیہ، (آئی فون)، میں دیکھتے ہیں اور اُن سے بہتر رزلٹ بھی دیکھتے ہیں تو اب بھی ہمیں حیرت ہوتی ہے،،،،،، اور بچے جو گیم اس میں کھیلتے ہیں وہ گیمیں تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہیں سنی تھیں، اس لئے بھی ہم اکثر حیران رہ جاتے ہیں ۔لیکن آج کے بچوں کو کسی بات پر کوئی حیرت نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔ تحریر ـــ غلام محمد وامق، ‏محرابپور ‏سندھ ‏...

ہم نے جون 1992،میں ایران کا سفر کیا تھا، اس سفرکا ایک  دلچسپ واقعہ پیشِ خدمت ہے ، ایران کا سرحدی شہر سرپل ذہاب جوکہ  سرحد کے ساتھ واقع ہے،  وہاں کے سرکاری ہسپتال میں ہمارے ایک اسکول کلاس فیلو، ڈاکٹر نعمت اللہ میمن، تعینات تھے، ہم ان سے ملنے کے لئے سرپل ذہاب، چلے گئے، سرحدی علاقہ ہونے کے باعث یہ شہر بہت حساس تھا، میرے ساتھ، میرا ایک ہمسفر دوست، ڈاکٹر منیر میمن، بھی تھا۔ ہم نے ڈاکٹر نعمت اللہ کے گھر میں ایک رات گزاری، اور دوسری صبح واپس آتے ہوئے ایک چیک پوسٹ پر، فوجیوں نے ہماری گاڑی کو روکا، اور ہم دونوں کو مشکوک غیر ملکی سمجھتے ہوئے گاڑی سے اتار لیا، یہ دیکھ کر گاڑی والے نے ہم سے دو سیٹوں کا پورا کرایہ ۔۔۔ 85، تمان، لیا اور ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، فوجی ہمیں وہاں سے قریب ہی ایک کیمپ میں اپنے آفیسر کے پاس لے گئے، آفیسر نے ہمارے پاسپورٹ وغیرہ چیک کئے، اور اشاروں میں ہم سے پوچھ گچھ کی، چونکہ ان دنوں عراق، ایران، جنگ کا تنازعہ چل رہا تھا، لہٰزا وہ لوگ ہمیں عراقی جاسوس سمجھ رہے تھے، تھوڑی تفتیش کے بعد اس نے ہمیں فوجیوں کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا، تب ہم نے کہا کہ، گاڑی والے نے ہم سے کرایہ وصول کر لیا، اور وہ چلا گیا ہے، یہ سن کر آفیسر نے اپنے پاس سے، 50، تمان، ہمیں دئے، ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ بلا وجہ کی مصیبت سے بھی بچ گئے اور کچھ پیسے بھی واپس مل گئے، بہرحال ہمیں فوجی، گاڑی میں بٹھا کر بس اڈے کی طرف چل پڑے، لیکن اس وقت ہماری خوشی، پریشانی اور خوف میں بدل گئی جب، بس اڈے کو کراس کرتی ہوئی، گاڑی تیزی سے اس کے سامنے سے گزر گئی، ساتھ والے فوجیوں سے پوچھا تو انہوں نے خاموشی سے بیٹھنے کا اشارہ کیا، ہم نے عالمِ تخیل میں اپنے آپ کو فوجی ٹارچر سیل، میں محبوس دیکھا۔ خوف کے مارے ہم پر کپکپی طاری ہو چکی تھی، ۔۔۔۔ گاڑی تیزی کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے میں داخل ہوئی ۔ وہاں پر بنی فوجی چھاؤنی کے ایک بڑے سے کمرے میں ہمیں لے جایا گیا، جس میں ایک بڑی سی ٹیبل کے پیچھے کوئی بڑا سا فوجی آفیسر بیٹھا تھا، ٹیبل پر ایرانی فلیگ لگا تھا، اور دیوار پر امام خمینی کی تصویر آویزاں تھی ۔۔۔ ہمیں ایک طرف کرسیوں پر بٹھا دیا گیا، (ایک بات جو ہم نے خاص طور پر ایران میں محسوس کی، وہ یہ تھی کہ وہاں پر کسی بھی فوجی یا پولیس والے سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہم نے کوئی بھی عمر رسیدہ اہلکار وہاں پر نہیں دیکھا، وہ سب دیکھنے میں نوعمر، کسی کالج یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس لگتے تھے،) ۔۔۔۔ بہرحال وہاں پر ہمارے کاغذات چیک کئے گئے،  اور ہسپتال میں فون کر کے، ڈاکٹر نعمت اللہ، سے ہمارے متعلق تصدیق کی گئی ۔۔۔۔۔۔ بعد ازاں آفیسر نے بڑے خوشگوار انداز میں، ہمارے نام، اور عقائد وغیرہ معلوم کئے، ہم نے بلا خوف بتا دیا کہ ہم "سُنی" عقیدہ رکھتے ہیں، وہ ہم سے دوستوں کی طرح بات کر رہا تھا، اس دوران ہم نے پینے کے لئے پانی طلب کیا، تو ایک اردلی عام سے گلاسوں میں پانی لیکر آیا، یہ دیکھ کر آفیسر نے اسے ڈانٹا، اور کہا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں، پانی اچھے سے گلاس میں لاؤ،،،، تب اعلیٰ قسم کے گلاسوں میں ہمیں پانی پیش کیا گیا ۔۔۔۔ بعد ازاں ڈرائیور کو حکم دیا کہ وہ ہمیں بااحترام بس ترمینل تک چھوڑ کر آئے، ۔۔۔رخصتی کے وقت ہاتھ ملاتے ہوئے، ڈاکٹر منیر پر شاید پاکستانیت طاری ہوگئی، چنانچہ اس نے آفیسر سے کہا کہ، سر!  ویگن والا ہم سے 85 تمان لے گیا تھا ۔۔۔۔اور اب دوبارہ پھر ہمیں وہ کرایہ ادا کرنا پڑے گا ۔۔۔۔یہ سن کر آفیسر نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اور ایک سو، 100 تمان کا نوٹ نکال کر، منیر کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔۔۔۔اور یوں کُفر ٹوٹا خُدا خُدا کر کے ۔۔۔۔(میں سوچتا ہوں اگر اسی طرح کے حالات کسی کو پاکستان میں پیش آجاتے تو؟؟؟)..... تحریر۔۔۔جی ایم وامِق. ۔۔۔۔

ہم نے جون 1992،میں ایران کا سفر کیا تھا، اس سفرکا ایک دلچسپ واقعہ پیشِ خدمت ہے ، ایران کا سرحدی شہر سرپل ذہاب جوکہ سرحد کے ساتھ واقع ہے، وہاں کے سرکاری ہسپتال میں ہمارے ایک اسکول کلاس فیلو، ڈاکٹر نعمت اللہ میمن، تعینات تھے، ہم ان سے ملنے کے لئے سرپل ذہاب، چلے گئے، سرحدی علاقہ ہونے کے باعث یہ شہر بہت حساس تھا، میرے ساتھ، میرا ایک ہمسفر دوست، ڈاکٹر منیر میمن، بھی تھا۔ ہم نے ڈاکٹر نعمت اللہ کے گھر میں ایک رات گزاری، اور دوسری صبح واپس آتے ہوئے ایک چیک پوسٹ پر، فوجیوں نے ہماری گاڑی کو روکا، اور ہم دونوں کو مشکوک غیر ملکی سمجھتے ہوئے گاڑی سے اتار لیا، یہ دیکھ کر گاڑی والے نے ہم سے دو سیٹوں کا پورا کرایہ ۔۔۔ 85، تمان، لیا اور ہمیں چھوڑ کر چلا گیا، فوجی ہمیں وہاں سے قریب ہی ایک کیمپ میں اپنے آفیسر کے پاس لے گئے، آفیسر نے ہمارے پاسپورٹ وغیرہ چیک کئے، اور اشاروں میں ہم سے پوچھ گچھ کی، چونکہ ان دنوں عراق، ایران، جنگ کا تنازعہ چل رہا تھا، لہٰزا وہ لوگ ہمیں عراقی جاسوس سمجھ رہے تھے، تھوڑی تفتیش کے بعد اس نے ہمیں فوجیوں کے ساتھ جانے کا اشارہ کیا، تب ہم نے کہا کہ، گاڑی والے نے ہم سے کرایہ وصول کر لیا، اور وہ چلا گیا ہے، یہ سن کر آفیسر نے اپنے پاس سے، 50، تمان، ہمیں دئے، ہمیں بہت خوشی ہوئی کہ بلا وجہ کی مصیبت سے بھی بچ گئے اور کچھ پیسے بھی واپس مل گئے، بہرحال ہمیں فوجی، گاڑی میں بٹھا کر بس اڈے کی طرف چل پڑے، لیکن اس وقت ہماری خوشی، پریشانی اور خوف میں بدل گئی جب، بس اڈے کو کراس کرتی ہوئی، گاڑی تیزی سے اس کے سامنے سے گزر گئی، ساتھ والے فوجیوں سے پوچھا تو انہوں نے خاموشی سے بیٹھنے کا اشارہ کیا، ہم نے عالمِ تخیل میں اپنے آپ کو فوجی ٹارچر سیل، میں محبوس دیکھا۔ خوف کے مارے ہم پر کپکپی طاری ہو چکی تھی، ۔۔۔۔ گاڑی تیزی کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے میں داخل ہوئی ۔ وہاں پر بنی فوجی چھاؤنی کے ایک بڑے سے کمرے میں ہمیں لے جایا گیا، جس میں ایک بڑی سی ٹیبل کے پیچھے کوئی بڑا سا فوجی آفیسر بیٹھا تھا، ٹیبل پر ایرانی فلیگ لگا تھا، اور دیوار پر امام خمینی کی تصویر آویزاں تھی ۔۔۔ ہمیں ایک طرف کرسیوں پر بٹھا دیا گیا، (ایک بات جو ہم نے خاص طور پر ایران میں محسوس کی، وہ یہ تھی کہ وہاں پر کسی بھی فوجی یا پولیس والے سے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا تھا، جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ہم نے کوئی بھی عمر رسیدہ اہلکار وہاں پر نہیں دیکھا، وہ سب دیکھنے میں نوعمر، کسی کالج یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس لگتے تھے،) ۔۔۔۔ بہرحال وہاں پر ہمارے کاغذات چیک کئے گئے، اور ہسپتال میں فون کر کے، ڈاکٹر نعمت اللہ، سے ہمارے متعلق تصدیق کی گئی ۔۔۔۔۔۔ بعد ازاں آفیسر نے بڑے خوشگوار انداز میں، ہمارے نام، اور عقائد وغیرہ معلوم کئے، ہم نے بلا خوف بتا دیا کہ ہم "سُنی" عقیدہ رکھتے ہیں، وہ ہم سے دوستوں کی طرح بات کر رہا تھا، اس دوران ہم نے پینے کے لئے پانی طلب کیا، تو ایک اردلی عام سے گلاسوں میں پانی لیکر آیا، یہ دیکھ کر آفیسر نے اسے ڈانٹا، اور کہا کہ یہ ہمارے مہمان ہیں، پانی اچھے سے گلاس میں لاؤ،،،، تب اعلیٰ قسم کے گلاسوں میں ہمیں پانی پیش کیا گیا ۔۔۔۔ بعد ازاں ڈرائیور کو حکم دیا کہ وہ ہمیں بااحترام بس ترمینل تک چھوڑ کر آئے، ۔۔۔رخصتی کے وقت ہاتھ ملاتے ہوئے، ڈاکٹر منیر پر شاید پاکستانیت طاری ہوگئی، چنانچہ اس نے آفیسر سے کہا کہ، سر! ویگن والا ہم سے 85 تمان لے گیا تھا ۔۔۔۔اور اب دوبارہ پھر ہمیں وہ کرایہ ادا کرنا پڑے گا ۔۔۔۔یہ سن کر آفیسر نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، اور ایک سو، 100 تمان کا نوٹ نکال کر، منیر کے ہاتھ میں پکڑا دیا ۔۔۔۔اور یوں کُفر ٹوٹا خُدا خُدا کر کے ۔۔۔۔(میں سوچتا ہوں اگر اسی طرح کے حالات کسی کو پاکستان میں پیش آجاتے تو؟؟؟)..... تحریر۔۔۔جی ایم وامِق. ۔۔۔۔

Powered by Blogger.