غزل =  تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔  غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔   لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔  یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔   تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟  مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔   لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔  اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔   لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔  تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔   اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔  عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔   رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔  اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔   زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔  اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔   ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔  اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔   میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔  دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔  فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔  متدارک مثمن سالم ۔

غزل = تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔ غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔ لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔ یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔ تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟ مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔ لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔ اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔ لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔ تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔ اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔ عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔ رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔ اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔ زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔ اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔ ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔ اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔ میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔ دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔ فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔ متدارک مثمن سالم ۔


 === غزل === 

غلام محمد وامِق 


تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔ 

غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔ 


لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔ 

یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔ 


تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟ 

مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔ 


لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔ 

اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔ 


لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔ 

تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔ 


اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔ 

عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔ 


رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔ 

اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔ 


زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔ 

اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔ 


ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔ 

اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔ 


میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔ 

دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔

مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔ 

فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن ۔ 

متدارک مثمن سالم ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

=== غزل === 

غلام محمد وامِق 


تُو مجھے دیکھ، ایسے ستایا نہ کر ۔ 

غیر کو دیکھ کر مسکرایا نہ کر ۔ 


لوگ مجھ سے رقابت میں جلنے لگے ۔ 

یوں سرِ بزم چہرہ دکھایا نہ کر ۔ 


تیرے پیچھے رقیبوں کو کیسے سہوں ؟ 

مجھ سے ملنے تُو ہر روز آیا نہ کر ۔ 


لوگ مجھ میں ہی دیکھیں ترے عکس کو ۔ 

اس طرح سے تو مجھ میں سمایا نہ کر ۔ 


لوگ لفظوں کے ماہر شکاری یہاں ۔ 

تُو کسی کی بھی باتوں میں آیا نہ کر ۔ 


اب تو منصف بھی مجرم سے ڈرنے لگے ۔ 

عدل کے نام پر دھوکا کھایا نہ کر ۔ 


رہبروں نے ہی لُوٹا ہے اِس ملک کو ۔ 

اب کسی کو بھی رہبر بنایا نہ کر ۔ 


زُعمِ دولت میں سرکش ہوئے لوگ جو ۔ 

اُن کو علم و ادب کچھ سکھایا نہ کر ۔ 


ہر نئی سوچ پر اب ہے قدغن لگی ۔ 

اب نئی سوچ کوئی بھی لایا نہ کر ۔ 


میں سمجھتا ہوں قاتل ہو ، پاگل نہیں ۔ # 

دیکھ وامِق کو پاگل بنایا نہ کر ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔

مورخہ 28 اگست 2024ء کو کہی گئی ۔ 

# چند روز قبل کراچی میں ایک مالدار عورت نے نشے میں دھت ہو کر گاڑی چلاتے ہوئے اپنی گاڑی کے نیچے ایک ہی خاندان کے چھ افراد کو کچل دیا تھا ، عدالت نے اسے پاگل قرار دے کر چھوڑ دیا تھا ۔


  دِیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں ۔  ہوا تھمے نہ تھمے کوششیں تو کرتے رہیں ۔   قضا کے منصبِ عالی پہ بہرے بیٹھے ہیں ۔  کوئی سنے نہ سنے کوششیں تو کرتے رہیں ۔   نہیں ہے اب وہ زمانہ کہ شب سَحَر میں ڈھلے ۔  سَحَر ملے نہ ملے کوششیں تو کرتے رہیں ۔   میں جانتا ہوں کہ منزل نہیں قریب مرے ۔  سفر کٹے نہ کٹے کوششیں تو کرتے رہیں ۔   پھنسی بھنور میں ہے کشتی تو خیر ہے وامِق ۔  بھَنوَر رکے نہ رکے کوششیں تو کرتے رہیں ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔  مئی سال 2024ء میں کہی گئی ۔  مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔  بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔

دِیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ ہوا تھمے نہ تھمے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ قضا کے منصبِ عالی پہ بہرے بیٹھے ہیں ۔ کوئی سنے نہ سنے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ نہیں ہے اب وہ زمانہ کہ شب سَحَر میں ڈھلے ۔ سَحَر ملے نہ ملے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ منزل نہیں قریب مرے ۔ سفر کٹے نہ کٹے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ پھنسی بھنور میں ہے کشتی تو خیر ہے وامِق ۔ بھَنوَر رکے نہ رکے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ مئی سال 2024ء میں کہی گئی ۔ مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔ بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔


 ===   غزل    === 

غلام محمد وامِق 


دِیا جلے نہ جلے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 

ہوا تھمے نہ تھمے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


قضا کے منصبِ عالی پہ بہرے بیٹھے ہیں ۔ 

کوئی سنے نہ سنے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


نہیں ہے اب وہ زمانہ کہ شب سَحَر میں ڈھلے ۔ 

سَحَر ملے نہ ملے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


میں جانتا ہوں کہ منزل نہیں قریب مرے ۔ 

سفر کٹے نہ کٹے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 


پھنسی بھنور میں ہے کشتی تو خیر ہے وامِق ۔ 

بھَنوَر رکے نہ رکے کوششیں تو کرتے رہیں ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 

مئی سال 2024ء میں کہی گئی ۔ 

مفاعلن فَعِلاتن مفاعلن فَعِلن ۔ 

بحر ۔ مجتث مثمن مخبون محذوف ۔

بھارت کے اخبار میں چھپنے والا، پاکستان کے معروف صحافی " حامد میر " کا ایک دلچسپ کالم ۔۔۔  تاریخ ۔ 25 اگست 2024ء  آئیے پاکستان میں کرتے ہیں بھارت کی ایک کھوج ۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ہندی سے اردو ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔   پاکستان ڈائری ۔۔۔ حامد میر ۔  اگر میں کہوں کہ آپ پاکستان میں بھی بھارت کی کھوج آسانی سے کر سکتے ہیں تو کیا آپ یقین کریں گے ؟  آئیے جانتے ہیں=  دلّی بھارت کی راجدھانی ہے لیکن اپ کو کراچی میں " دلی کالونی " مل جائے گی ،  یہاں بہار کالونی بھی ہے تو گوالیار سوسائٹی ، لکھنؤ سوسائٹی ، بھوپال ہاؤس ، بنارس ٹاؤن ، اور ہندو جیم خانہ بھی ہے ۔  دلّی کے لال قلعے میں اگر لاہوری گیٹ ہے تو لاہور میں دلّی گیٹ کو دیکھ سکتے ہیں ۔ دلی کے چاندنی چوک کے پاس انارکلی بازار ہے لیکن ایک انارکلی بازار ہمارے لاہور میں بھی ہے ۔  اسلام آباد پاکستان کی راجدھانی ہے جس کا نرمان ( سنگِ بنیاد) 1960ء میں ہوا تھا ، لیکن سندھ صوبے میں " اسلام کوٹ " نام سے ایک پرانا شہر ہے جہاں 9 ( نو) ہندو مندر ہیں، اس شہر کا نام اسلام کوٹ ہے مگر آدھی سے زیادہ آبادی ہندو ہے ۔  پر یہ جان کر بھی آپ کو تعجب ہوگا کہ کچھ پاکستانی شہروں میں آپ کو ایک بھی ہندو نہیں ملے گا لیکن ان شہروں کے نام ہندوؤں کے نام پر ہیں ۔  پاکستانی پنجاب میں ایک پرانا شہر ہے نام ہے " کوٹ رادھا کشن" حالاں کہ یہاں ایک بھی ہندو نہیں ہے ، 1947ء میں یہاں کی ہندو آبادی ہندوستان چلی گئی تھی ، اس کا نام بدلنے کی کافی کوشش بھی کی گئی لیکن یہاں کے مسلمانوں نے اس سے صاف انکار کر دیا ۔   بٹوارے کے سمے ہی ایک مسلمان امرتسر سے کوٹ رادھا کشن آیا اس نے یہاں مٹھائیوں کا کاروبار شروع کیا نام رکھا " امرتسر سوئیٹ " ۔  اسی طرح کراچی میں " دلّی سوئیٹس ، اور اسلام آباد میں " امبالہ بیکری " کے نام سے مٹھائی کی دکانیں ہیں ۔  پاکستانی شہروں قصبوں اور گاؤں کے ہندو اور سکھ نام ہمارے سانجھا اتہاس کا حصہ ہیں ۔  بے شک بٹوارے کے بعد دونوں دیشوں میں کئی نام بدلے گئے لیکن نئے نام پرانے اتہاس کو ختم نہیں کر سکے ۔  پنجاب بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پنجاب پاکستان کے ایک صوبے کا بھی نام ہے ۔  گجرات بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پاکستان کے ایک شہر کا نام " گجرات" ہے ۔  حیدرآباد نام سے بھارت میں بھی شہر ہے تو پاکستان میں بھی ۔  پاکستانی حیدرآباد میں " بمبئی بیکری " کے کیک پورے پاکستان میں مشہور ہیں تو یہ ہی بھارت کے حیدرآباد میں " کراچی بیکری " ایک جانا پہچانا نام ہے ۔  ہندو دیوی " ماں سیتا " کے نام پر آپ کو پاکستان میں شہر و قصبے مل جائیں گے ۔  پاکستان کے پچھمی پنجاب صوبے میں ایک قصبہ ہے " سیتا پور " ( اسے پنجابی ٹون کے کارن کچھ لوگ " سیت پور" بھی کہتے ہیں ۔  ایک دوسرے صوبے سندھ میں بھی ایک شہر کا نام " سیتا گوٹھ " ہے ۔  گنگا بھارت کی ایک پؤتر ندی ہے ، لیکن آپ کو پاکستانی پنجاب میں " گنگا پور " نام سے ایک شہر مل جائے گا ۔  خیبرپختونخوا صوبے میں " گنگا نگر" نام کا بھی ایک شہر ہے ۔  " سر گنگا رام" نے بٹوارے سے پہلے لاہور میں " گنگا رام ہسپتال" بنوایا تھا ، اسی نام سے ایک اور ہسپتال ان کے پریوار نے دلّی میں بنوایا تھا ۔ اس طرح سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نام کے دو ہسپتال ہیں جن کا اتہاس  بھی سانجھا ہے ۔  ننکانہ صاحب ، گرو نانک دیو کا جنم استھان ہے ، یہ شہر پاکستانی پنجاب میں ہے ۔  گردوارہ کرتار پور صاحب کی وجہ سے " کرتار پور" پاکستان میں سکھوں کا ایک اور دھارمک استھل ہے ، جالندھر کے قریب بھارت میں " کرتار پور" نام کا ایک شہر ہے ۔  جالندھر بھارت کا ایک شہر ہے جو پنجاب میں ہے لیکن اس نام سے ایک شہر پاکستانی پنجاب میں بھی موجود ہے ۔  کراچی میں " موہنداس کرمچند گاندھی" اسٹریٹ ہے ۔ ستھانئے لوگوں میں یہ اب بھی موہن روڈ کے نام سے مشہور ہے ۔  بھارت کے "ناگ پور" کے پاس ایک " گوپال نگر " ہے اور اسی گوپال نگر کے نام سے لاہور کے پاس بھی ایک قصبہ ہے ۔  پاکستانی پنجاب میں " چکوال" کے پاس ہندوؤں کے لیے ۔۔۔       " کٹاس راج" ایک بے حد پؤتر ستھال ہے ۔ کٹاس میں ودھنو شیو ، گنیس شیو لنگ ، کالی ماتا ، پار وتی ، اور لکشمی کے نام سے ایک پریسر میں ایک دوسرے سے جُڑے سات 7 ہندو مندر ہیں ۔  اسلام آباد کے" سید پور " گاؤں میں ایک پرانا رام مندر ہے جسے " رام کُنڈ مندر " کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہندوؤں کا ماننا ہے کہ وِنواس کے دوران " رام " اس کیشتر میں بھی رہے تھے ۔  1947ء کے بعد بھارت اور پاکستان الگ الگ ملک بن گئے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے اتیت کو نہیں بدل سکتے ۔  اوپر تو کیول چند مثالیں بھری ہیں ، اپ کو نجانے کتنی ایسی مثالیں اور بھی مل جائیں گی ، تو آپ چاہیں تو پاکستان میں بھارت کو کھوج کر سکتے ہیں ۔  ( حامد میر پاک )  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔  تاریخ تحریر ۔ 27 اگست 2024ء بروز منگل ۔۔۔

بھارت کے اخبار میں چھپنے والا، پاکستان کے معروف صحافی " حامد میر " کا ایک دلچسپ کالم ۔۔۔ تاریخ ۔ 25 اگست 2024ء آئیے پاکستان میں کرتے ہیں بھارت کی ایک کھوج ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندی سے اردو ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔ پاکستان ڈائری ۔۔۔ حامد میر ۔ اگر میں کہوں کہ آپ پاکستان میں بھی بھارت کی کھوج آسانی سے کر سکتے ہیں تو کیا آپ یقین کریں گے ؟ آئیے جانتے ہیں= دلّی بھارت کی راجدھانی ہے لیکن اپ کو کراچی میں " دلی کالونی " مل جائے گی ، یہاں بہار کالونی بھی ہے تو گوالیار سوسائٹی ، لکھنؤ سوسائٹی ، بھوپال ہاؤس ، بنارس ٹاؤن ، اور ہندو جیم خانہ بھی ہے ۔ دلّی کے لال قلعے میں اگر لاہوری گیٹ ہے تو لاہور میں دلّی گیٹ کو دیکھ سکتے ہیں ۔ دلی کے چاندنی چوک کے پاس انارکلی بازار ہے لیکن ایک انارکلی بازار ہمارے لاہور میں بھی ہے ۔ اسلام آباد پاکستان کی راجدھانی ہے جس کا نرمان ( سنگِ بنیاد) 1960ء میں ہوا تھا ، لیکن سندھ صوبے میں " اسلام کوٹ " نام سے ایک پرانا شہر ہے جہاں 9 ( نو) ہندو مندر ہیں، اس شہر کا نام اسلام کوٹ ہے مگر آدھی سے زیادہ آبادی ہندو ہے ۔ پر یہ جان کر بھی آپ کو تعجب ہوگا کہ کچھ پاکستانی شہروں میں آپ کو ایک بھی ہندو نہیں ملے گا لیکن ان شہروں کے نام ہندوؤں کے نام پر ہیں ۔ پاکستانی پنجاب میں ایک پرانا شہر ہے نام ہے " کوٹ رادھا کشن" حالاں کہ یہاں ایک بھی ہندو نہیں ہے ، 1947ء میں یہاں کی ہندو آبادی ہندوستان چلی گئی تھی ، اس کا نام بدلنے کی کافی کوشش بھی کی گئی لیکن یہاں کے مسلمانوں نے اس سے صاف انکار کر دیا ۔ بٹوارے کے سمے ہی ایک مسلمان امرتسر سے کوٹ رادھا کشن آیا اس نے یہاں مٹھائیوں کا کاروبار شروع کیا نام رکھا " امرتسر سوئیٹ " ۔ اسی طرح کراچی میں " دلّی سوئیٹس ، اور اسلام آباد میں " امبالہ بیکری " کے نام سے مٹھائی کی دکانیں ہیں ۔ پاکستانی شہروں قصبوں اور گاؤں کے ہندو اور سکھ نام ہمارے سانجھا اتہاس کا حصہ ہیں ۔ بے شک بٹوارے کے بعد دونوں دیشوں میں کئی نام بدلے گئے لیکن نئے نام پرانے اتہاس کو ختم نہیں کر سکے ۔ پنجاب بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پنجاب پاکستان کے ایک صوبے کا بھی نام ہے ۔ گجرات بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پاکستان کے ایک شہر کا نام " گجرات" ہے ۔ حیدرآباد نام سے بھارت میں بھی شہر ہے تو پاکستان میں بھی ۔ پاکستانی حیدرآباد میں " بمبئی بیکری " کے کیک پورے پاکستان میں مشہور ہیں تو یہ ہی بھارت کے حیدرآباد میں " کراچی بیکری " ایک جانا پہچانا نام ہے ۔ ہندو دیوی " ماں سیتا " کے نام پر آپ کو پاکستان میں شہر و قصبے مل جائیں گے ۔ پاکستان کے پچھمی پنجاب صوبے میں ایک قصبہ ہے " سیتا پور " ( اسے پنجابی ٹون کے کارن کچھ لوگ " سیت پور" بھی کہتے ہیں ۔ ایک دوسرے صوبے سندھ میں بھی ایک شہر کا نام " سیتا گوٹھ " ہے ۔ گنگا بھارت کی ایک پؤتر ندی ہے ، لیکن آپ کو پاکستانی پنجاب میں " گنگا پور " نام سے ایک شہر مل جائے گا ۔ خیبرپختونخوا صوبے میں " گنگا نگر" نام کا بھی ایک شہر ہے ۔ " سر گنگا رام" نے بٹوارے سے پہلے لاہور میں " گنگا رام ہسپتال" بنوایا تھا ، اسی نام سے ایک اور ہسپتال ان کے پریوار نے دلّی میں بنوایا تھا ۔ اس طرح سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نام کے دو ہسپتال ہیں جن کا اتہاس بھی سانجھا ہے ۔ ننکانہ صاحب ، گرو نانک دیو کا جنم استھان ہے ، یہ شہر پاکستانی پنجاب میں ہے ۔ گردوارہ کرتار پور صاحب کی وجہ سے " کرتار پور" پاکستان میں سکھوں کا ایک اور دھارمک استھل ہے ، جالندھر کے قریب بھارت میں " کرتار پور" نام کا ایک شہر ہے ۔ جالندھر بھارت کا ایک شہر ہے جو پنجاب میں ہے لیکن اس نام سے ایک شہر پاکستانی پنجاب میں بھی موجود ہے ۔ کراچی میں " موہنداس کرمچند گاندھی" اسٹریٹ ہے ۔ ستھانئے لوگوں میں یہ اب بھی موہن روڈ کے نام سے مشہور ہے ۔ بھارت کے "ناگ پور" کے پاس ایک " گوپال نگر " ہے اور اسی گوپال نگر کے نام سے لاہور کے پاس بھی ایک قصبہ ہے ۔ پاکستانی پنجاب میں " چکوال" کے پاس ہندوؤں کے لیے ۔۔۔ " کٹاس راج" ایک بے حد پؤتر ستھال ہے ۔ کٹاس میں ودھنو شیو ، گنیس شیو لنگ ، کالی ماتا ، پار وتی ، اور لکشمی کے نام سے ایک پریسر میں ایک دوسرے سے جُڑے سات 7 ہندو مندر ہیں ۔ اسلام آباد کے" سید پور " گاؤں میں ایک پرانا رام مندر ہے جسے " رام کُنڈ مندر " کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہندوؤں کا ماننا ہے کہ وِنواس کے دوران " رام " اس کیشتر میں بھی رہے تھے ۔ 1947ء کے بعد بھارت اور پاکستان الگ الگ ملک بن گئے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے اتیت کو نہیں بدل سکتے ۔ اوپر تو کیول چند مثالیں بھری ہیں ، اپ کو نجانے کتنی ایسی مثالیں اور بھی مل جائیں گی ، تو آپ چاہیں تو پاکستان میں بھارت کو کھوج کر سکتے ہیں ۔ ( حامد میر پاک ) ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔ تاریخ تحریر ۔ 27 اگست 2024ء بروز منگل ۔۔۔

بھارت کے اخبار میں چھپنے والا، پاکستان کے معروف صحافی " حامد میر " کا ایک دلچسپ کالم ۔۔۔ 

تاریخ ۔ 25 اگست 2024ء 

آئیے پاکستان میں کرتے ہیں بھارت کی ایک کھوج ۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

ہندی سے اردو ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ۔ 


پاکستان ڈائری ۔۔۔ حامد میر ۔ 

اگر میں کہوں کہ آپ پاکستان میں بھی بھارت کی کھوج آسانی سے کر سکتے ہیں تو کیا آپ یقین کریں گے ؟ 

آئیے جانتے ہیں= 

دلّی بھارت کی راجدھانی ہے لیکن اپ کو کراچی میں " دلی کالونی " مل جائے گی ،  یہاں بہار کالونی بھی ہے تو گوالیار سوسائٹی ، لکھنؤ سوسائٹی ، بھوپال ہاؤس ، بنارس ٹاؤن ، اور ہندو جیم خانہ بھی ہے ۔ 

دلّی کے لال قلعے میں اگر لاہوری گیٹ ہے تو لاہور میں دلّی گیٹ کو دیکھ سکتے ہیں ۔ دلی کے چاندنی چوک کے پاس انارکلی بازار ہے لیکن ایک انارکلی بازار ہمارے لاہور میں بھی ہے ۔ 

اسلام آباد پاکستان کی راجدھانی ہے جس کا نرمان ( سنگِ بنیاد) 1960ء میں ہوا تھا ، لیکن سندھ صوبے میں " اسلام کوٹ " نام سے ایک پرانا شہر ہے جہاں 9 ( نو) ہندو مندر ہیں، اس شہر کا نام اسلام کوٹ ہے مگر آدھی سے زیادہ آبادی ہندو ہے ۔ 

پر یہ جان کر بھی آپ کو تعجب ہوگا کہ کچھ پاکستانی شہروں میں آپ کو ایک بھی ہندو نہیں ملے گا لیکن ان شہروں کے نام ہندوؤں کے نام پر ہیں ۔ 

پاکستانی پنجاب میں ایک پرانا شہر ہے نام ہے " کوٹ رادھا کشن" حالاں کہ یہاں ایک بھی ہندو نہیں ہے ، 1947ء میں یہاں کی ہندو آبادی ہندوستان چلی گئی تھی ، اس کا نام بدلنے کی کافی کوشش بھی کی گئی لیکن یہاں کے مسلمانوں نے اس سے صاف انکار کر دیا ۔  

بٹوارے کے سمے ہی ایک مسلمان امرتسر سے کوٹ رادھا کشن آیا اس نے یہاں مٹھائیوں کا کاروبار شروع کیا نام رکھا " امرتسر سوئیٹ " ۔ 

اسی طرح کراچی میں " دلّی سوئیٹس ، اور اسلام آباد میں " امبالہ بیکری " کے نام سے مٹھائی کی دکانیں ہیں ۔ 

پاکستانی شہروں قصبوں اور گاؤں کے ہندو اور سکھ نام ہمارے سانجھا اتہاس کا حصہ ہیں ۔ 

بے شک بٹوارے کے بعد دونوں دیشوں میں کئی نام بدلے گئے لیکن نئے نام پرانے اتہاس کو ختم نہیں کر سکے ۔ 

پنجاب بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پنجاب پاکستان کے ایک صوبے کا بھی نام ہے ۔ 

گجرات بھارت کا ایک صوبہ ہے اور پاکستان کے ایک شہر کا نام " گجرات" ہے ۔ 

حیدرآباد نام سے بھارت میں بھی شہر ہے تو پاکستان میں بھی ۔ 

پاکستانی حیدرآباد میں " بمبئی بیکری " کے کیک پورے پاکستان میں مشہور ہیں تو یہ ہی بھارت کے حیدرآباد میں " کراچی بیکری " ایک جانا پہچانا نام ہے ۔ 

ہندو دیوی " ماں سیتا " کے نام پر آپ کو پاکستان میں شہر و قصبے مل جائیں گے ۔ 

پاکستان کے پچھمی پنجاب صوبے میں ایک قصبہ ہے " سیتا پور " ( اسے پنجابی ٹون کے کارن کچھ لوگ " سیت پور" بھی کہتے ہیں ۔ 

ایک دوسرے صوبے سندھ میں بھی ایک شہر کا نام " سیتا گوٹھ " ہے ۔ 

گنگا بھارت کی ایک پؤتر ندی ہے ، لیکن آپ کو پاکستانی پنجاب میں " گنگا پور " نام سے ایک شہر مل جائے گا ۔ 

خیبرپختونخوا صوبے میں " گنگا نگر" نام کا بھی ایک شہر ہے ۔ 

" سر گنگا رام" نے بٹوارے سے پہلے لاہور میں " گنگا رام ہسپتال" بنوایا تھا ، اسی نام سے ایک اور ہسپتال ان کے پریوار نے دلّی میں بنوایا تھا ۔ اس طرح سرحد کے دونوں طرف ایک ہی نام کے دو ہسپتال ہیں جن کا اتہاس  بھی سانجھا ہے ۔ 

ننکانہ صاحب ، گرو نانک دیو کا جنم استھان ہے ، یہ شہر پاکستانی پنجاب میں ہے ۔ 

گردوارہ کرتار پور صاحب کی وجہ سے " کرتار پور" پاکستان میں سکھوں کا ایک اور دھارمک استھل ہے ، جالندھر کے قریب بھارت میں " کرتار پور" نام کا ایک شہر ہے ۔ 

جالندھر بھارت کا ایک شہر ہے جو پنجاب میں ہے لیکن اس نام سے ایک شہر پاکستانی پنجاب میں بھی موجود ہے ۔ 

کراچی میں " موہنداس کرمچند گاندھی" اسٹریٹ ہے ۔ ستھانئے لوگوں میں یہ اب بھی موہن روڈ کے نام سے مشہور ہے ۔ 

بھارت کے "ناگ پور" کے پاس ایک " گوپال نگر " ہے اور اسی گوپال نگر کے نام سے لاہور کے پاس بھی ایک قصبہ ہے ۔ 

پاکستانی پنجاب میں " چکوال" کے پاس ہندوؤں کے لیے ۔۔۔       " کٹاس راج" ایک بے حد پؤتر ستھال ہے ۔ کٹاس میں ودھنو شیو ، گنیس شیو لنگ ، کالی ماتا ، پار وتی ، اور لکشمی کے نام سے ایک پریسر میں ایک دوسرے سے جُڑے سات 7 ہندو مندر ہیں ۔ 

اسلام آباد کے" سید پور " گاؤں میں ایک پرانا رام مندر ہے جسے " رام کُنڈ مندر " کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ہندوؤں کا ماننا ہے کہ وِنواس کے دوران " رام " اس کیشتر میں بھی رہے تھے ۔ 

1947ء کے بعد بھارت اور پاکستان الگ الگ ملک بن گئے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اپنے اتیت کو نہیں بدل سکتے ۔ 

اوپر تو کیول چند مثالیں بھری ہیں ، اپ کو نجانے کتنی ایسی مثالیں اور بھی مل جائیں گی ، تو آپ چاہیں تو پاکستان میں بھارت کو کھوج کر سکتے ہیں ۔ 

( حامد میر پاک ) 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

ترجمہ و تحریر ۔ غلام محمد وامِق ، محراب پور سندھ ۔ 

تاریخ تحریر ۔ 27 اگست 2024ء بروز منگل ۔۔۔

 

جب  مِلا ہمیں خزانہ ۔     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ( حقیقت پر مبنی ایک مِزاحیہ تحریر )  غلام محمد وامِق ۔   یوں تو ہم بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ " خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے"  لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں اتا تھا کہ چھپر پھاڑ کر دینے کا مطلب کیا ہے ؟ ۔  ہم اکثر اپنے گھر کی چھت کو تکا کرتے تھے کہ شاید یہ چھت پھٹ جائے گی اور اس میں سے خدا ہمیں بھی کچھ دے دے گا ، پھر سوچتے کہ ہماری چھت تو ٹیئر گاڈر کی بنی ہوئی ہے یہ چھپر تو ہرگز نہیں ہے ، لگتا ہے کہ ہمیں جھونپڑی یا کسی چھپرے کے گھر میں رہنا پڑے گا تاکہ خدا ہمیں بھی چھپر پھاڑ کر کچھ عطا فرمادے ۔ یہ ہی کچھ  سوچتے سوچتے ہم نے زندگی کی ساٹھ 60  خزائیں دیکھ ڈالیں مگر مجال ہے کہ کہیں سے کوئی چھپر یا چھت پھٹی ہو اور اوپر سے دھڑا دھڑ مال و دولت گرنے لگی ہو ۔  بقولِ شاعر ۔۔۔  تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے ۔  تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے ۔ ( فیض )   تو جناب نہ ہی کوئی چھپر پھٹا اور نہ ہی ہمارا انتظار ختم ہوا ۔ البتہ اُن دنوں نیا نیا یہ ٹچ موبائل سائنس کی دنیا کا چھپر پھاڑ کر ہمارے ہاتھوں میں آیا تھا اور ہم حیرت و استعجاب سے اس جادو کی ڈبیہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔   انٹرنیٹ یعنی عالمی پھندا (جال) کا تازہ تازہ نام اور کام دیکھنے کو ملا تو فیس بُک نام کی دنیا میں ہم نے بھی اوروں کی دیکھا دیکھی قدم رکھ دیا، دھڑا دھڑ دوستی کی درخواستیں آنا شروع ہو گئیں ہم حیران و ششدر کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟   بقولِ شاعر ۔۔۔  الٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا ۔ ؟ کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا ۔   چھپر پھاڑ کر مال تو ملا نہیں مگر موبائل کا چھپر پھاڑ کر فرینڈز رکیوئیسٹس ضرور مل رہی تھیں ۔  اس وقت ہمیں حیرت کا بڑا جھٹکا لگا جب امریکن آرمی کی ایک با وردی خاتون جرنیل " گولڈ میری " کی طرف سے ہمیں دوستی کی درخواست موصول ہوئی ۔  اللّٰہ اللّٰہ یہ کیا ؟  کہاں ہم ، کہاں امریکی جرنیل ۔۔۔  کہاں گنگو تیلی ، کہاں راجہ بھوج ۔۔۔  بہرحال بہ رضا و خوشی ہم نے ان محترمہ کی درخواست قبول کرلی اور انہیں اپنے حلقہء دوستی میں شامل کر لیا تو فوراً ہی ان کی طرف سے تعارفی سلسلہ شروع کر دیا گیا ، ہم نے ان کو لاکھ سمجھایا کہ بھئی ہم شاعر ، ادیب قسم کے مسکین لوگ تمہاری دوستی کے قابل نہیں ہیں کہیں اور جا کر تعلقات بڑھاؤ مگر وہ بضد کہ آپ جیسا مخلص سچا اور ایماندار آدمی ہمیں کہیں اور نظر نہیں آیا ( شاید اس کی آنکھیں کمزور تھیں ) پھر سوچا کہ ممکن ہے یہ خاتون کوئی بہت ہی ذہین سمجھ بُوجھ والی عورت ہو جس نے ہم جیسے ہیرے کو پہچان لیا ہو ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ چلیں دنیا بھر میں کسی نے تو ہماری قدر پہچانی ۔  دوچار دنوں کے بعد اس نے انکشاف کیا کہ وہ عراق امریکہ جنگ میں اپنی ڈیوٹی کرنے عراق آئی تھی، دورانِ ڈیوٹی اسے عراق سے ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا تھا جس میں کروڑوں ڈالر اور سونا شامل ہے جس کو ایک پیٹی میں بند کردیا گیا ہے ، اور اب جیسا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے تو میں یہ خزانہ قانونی طور پر اپنے ساتھ امریکہ نہیں لے جا سکتی چنانچہ میں چاہتی ہوں کہ یہ پیٹی اپ کے پاس بھجوا دوں، پھر بعد میں مناسب موقع دیکھ کر میں آپ کے پاس پاکستان آؤں گی تو مالِ غنیمت آدھا آدھا بانٹ لیں گے ۔ اب ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی ایمانداری اور صبر کا میٹھا پھل دیا ہے اور چھپر پھاڑ کر دیا ہے ۔ قصہ مختصر اس نے وہ پیٹی کسی یورپین ایکسپریس سروس کے ذریعے ہمیں بھجوا دی اور اس کو ٹریس کرنے کے لیے ٹریسنگ نمبر بھی دے دیا ۔  ہم ہواؤں میں اُڑنے لگے اور آنکھوں سے نیند اڑ گئی ، اور آنے والی دولت کا صحیح مصرف سوچنے لگے ، ظاہر ہے کہ ایک خوبصورت کوٹھی یا بنگلہ سب سے پہلے لینا ہوگا اس کے ساتھ ایک گاڑی بھی چاہئے ہوگی اور کاروبار کے لئے کاروں کا شوروم بہتر رہے گا اور ایک عدد پٹرول پمپ خریدنا بھی ضروری ہے ، لیکن مساکین و غربا کے لیے بھی تو کچھ کرنا پڑے گا ان کی مدد کے لیے کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا ۔  مگر سب سے پہلے اس خزانے کو چھپا کر رکھنے کی پلاننگ بھی کرنی چاہیے ۔ اور وہ امریکن عورت جب آئے گی تو اس کے لئے بھی قیام وطعام کا بندو بست کرنا ہوگا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔  ہم روزانہ باقاعدگی سے ٹریکنگ نمبر سے پیٹی کو چیک کرتے تو پیٹی متحرک نظر آتی یعنی کبھی کسی ملک میں تو کبھی کسی ملک میں ۔ چند دنوں کے بعد وہ پیٹی ایک عرب ملک میں پہنچ کر رک گئی ۔ دوسرے دن گولڈ میری کا پیغام ملا کہ فلاں ملک کے کسٹم حکام کو پیٹی پر شک ہو گیا ہے اور وہ پیٹی کھول کر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر انہوں نے پیٹی کو کھول لیا تو تم پکڑے جاؤ گے کیوں کہ اس پر تمہارا نام اور پتا لکھا ہوا ہے جب کہ بھیجنے والے کا نام ہم نے جعلی لکھوایا ہوا ہے ۔ پیٹی کو کلیئرنس دینے کے لیے وہ لوگ دو لاکھ روپے طلب کر ہے ہیں اس لیے جلد از جلد اس اکاؤنٹ میں رقم بھجوادو تاکہ پیٹی کو کلیئرنس مل سکے ۔  یہ پڑھتے ہی ہمارا تو سر چکرا گیا ، دل بیٹھنے لگا ، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، ہم کرسی سے گرنے لگے تو بمشکل ہمت کرکے خود ہی کرسی سے اٹھ کر فرش پر لیٹ گئے ۔  اہلِ خانہ نے آ کر ہمیں اٹھایا کچھ کھلایا پلایا تو اوسان بحال ہوئے ، ہم نے خیالوں میں خود کو جیل میں محسوس کیا اور گولڈ میری کو لکھ دیا کہ ہمارے پاس دو لاکھ تو کیا تمہیں دینے کے لیے دو روپے بھی نہیں ہیں ، اور کہا کہ ہم نے تمہیں پہلے روز ہی بتا دیا تھا کہ ہم مسکین لوگ ہیں ہمارے پاس کچھ بھی مال وغیرہ نہیں ہے لہٰذا اب تم جانو اور تمہارا کام ۔۔۔۔ ہمیں تمہارا خزانہ نہیں چاہئے ۔  اور پھر سب سے پہلے ہم  نے اس فراڈی عورت کو ان فرینڈ کردیا ۔ اور اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ ہم لالچ میں نہیں آئے اور اس نے ہمیں لُٹنے سے بچا لیا ۔  تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔  تاریخ تحریر ۔ 17 اگست سال 2024ء بروز ہفتہ ۔۔۔

جب مِلا ہمیں خزانہ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( حقیقت پر مبنی ایک مِزاحیہ تحریر ) غلام محمد وامِق ۔ یوں تو ہم بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ " خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے" لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں اتا تھا کہ چھپر پھاڑ کر دینے کا مطلب کیا ہے ؟ ۔ ہم اکثر اپنے گھر کی چھت کو تکا کرتے تھے کہ شاید یہ چھت پھٹ جائے گی اور اس میں سے خدا ہمیں بھی کچھ دے دے گا ، پھر سوچتے کہ ہماری چھت تو ٹیئر گاڈر کی بنی ہوئی ہے یہ چھپر تو ہرگز نہیں ہے ، لگتا ہے کہ ہمیں جھونپڑی یا کسی چھپرے کے گھر میں رہنا پڑے گا تاکہ خدا ہمیں بھی چھپر پھاڑ کر کچھ عطا فرمادے ۔ یہ ہی کچھ سوچتے سوچتے ہم نے زندگی کی ساٹھ 60 خزائیں دیکھ ڈالیں مگر مجال ہے کہ کہیں سے کوئی چھپر یا چھت پھٹی ہو اور اوپر سے دھڑا دھڑ مال و دولت گرنے لگی ہو ۔ بقولِ شاعر ۔۔۔ تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے ۔ تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے ۔ ( فیض ) تو جناب نہ ہی کوئی چھپر پھٹا اور نہ ہی ہمارا انتظار ختم ہوا ۔ البتہ اُن دنوں نیا نیا یہ ٹچ موبائل سائنس کی دنیا کا چھپر پھاڑ کر ہمارے ہاتھوں میں آیا تھا اور ہم حیرت و استعجاب سے اس جادو کی ڈبیہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔ انٹرنیٹ یعنی عالمی پھندا (جال) کا تازہ تازہ نام اور کام دیکھنے کو ملا تو فیس بُک نام کی دنیا میں ہم نے بھی اوروں کی دیکھا دیکھی قدم رکھ دیا، دھڑا دھڑ دوستی کی درخواستیں آنا شروع ہو گئیں ہم حیران و ششدر کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟ بقولِ شاعر ۔۔۔ الٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا ۔ ؟ کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا ۔ چھپر پھاڑ کر مال تو ملا نہیں مگر موبائل کا چھپر پھاڑ کر فرینڈز رکیوئیسٹس ضرور مل رہی تھیں ۔ اس وقت ہمیں حیرت کا بڑا جھٹکا لگا جب امریکن آرمی کی ایک با وردی خاتون جرنیل " گولڈ میری " کی طرف سے ہمیں دوستی کی درخواست موصول ہوئی ۔ اللّٰہ اللّٰہ یہ کیا ؟ کہاں ہم ، کہاں امریکی جرنیل ۔۔۔ کہاں گنگو تیلی ، کہاں راجہ بھوج ۔۔۔ بہرحال بہ رضا و خوشی ہم نے ان محترمہ کی درخواست قبول کرلی اور انہیں اپنے حلقہء دوستی میں شامل کر لیا تو فوراً ہی ان کی طرف سے تعارفی سلسلہ شروع کر دیا گیا ، ہم نے ان کو لاکھ سمجھایا کہ بھئی ہم شاعر ، ادیب قسم کے مسکین لوگ تمہاری دوستی کے قابل نہیں ہیں کہیں اور جا کر تعلقات بڑھاؤ مگر وہ بضد کہ آپ جیسا مخلص سچا اور ایماندار آدمی ہمیں کہیں اور نظر نہیں آیا ( شاید اس کی آنکھیں کمزور تھیں ) پھر سوچا کہ ممکن ہے یہ خاتون کوئی بہت ہی ذہین سمجھ بُوجھ والی عورت ہو جس نے ہم جیسے ہیرے کو پہچان لیا ہو ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ چلیں دنیا بھر میں کسی نے تو ہماری قدر پہچانی ۔ دوچار دنوں کے بعد اس نے انکشاف کیا کہ وہ عراق امریکہ جنگ میں اپنی ڈیوٹی کرنے عراق آئی تھی، دورانِ ڈیوٹی اسے عراق سے ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا تھا جس میں کروڑوں ڈالر اور سونا شامل ہے جس کو ایک پیٹی میں بند کردیا گیا ہے ، اور اب جیسا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے تو میں یہ خزانہ قانونی طور پر اپنے ساتھ امریکہ نہیں لے جا سکتی چنانچہ میں چاہتی ہوں کہ یہ پیٹی اپ کے پاس بھجوا دوں، پھر بعد میں مناسب موقع دیکھ کر میں آپ کے پاس پاکستان آؤں گی تو مالِ غنیمت آدھا آدھا بانٹ لیں گے ۔ اب ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی ایمانداری اور صبر کا میٹھا پھل دیا ہے اور چھپر پھاڑ کر دیا ہے ۔ قصہ مختصر اس نے وہ پیٹی کسی یورپین ایکسپریس سروس کے ذریعے ہمیں بھجوا دی اور اس کو ٹریس کرنے کے لیے ٹریسنگ نمبر بھی دے دیا ۔ ہم ہواؤں میں اُڑنے لگے اور آنکھوں سے نیند اڑ گئی ، اور آنے والی دولت کا صحیح مصرف سوچنے لگے ، ظاہر ہے کہ ایک خوبصورت کوٹھی یا بنگلہ سب سے پہلے لینا ہوگا اس کے ساتھ ایک گاڑی بھی چاہئے ہوگی اور کاروبار کے لئے کاروں کا شوروم بہتر رہے گا اور ایک عدد پٹرول پمپ خریدنا بھی ضروری ہے ، لیکن مساکین و غربا کے لیے بھی تو کچھ کرنا پڑے گا ان کی مدد کے لیے کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا ۔ مگر سب سے پہلے اس خزانے کو چھپا کر رکھنے کی پلاننگ بھی کرنی چاہیے ۔ اور وہ امریکن عورت جب آئے گی تو اس کے لئے بھی قیام وطعام کا بندو بست کرنا ہوگا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ہم روزانہ باقاعدگی سے ٹریکنگ نمبر سے پیٹی کو چیک کرتے تو پیٹی متحرک نظر آتی یعنی کبھی کسی ملک میں تو کبھی کسی ملک میں ۔ چند دنوں کے بعد وہ پیٹی ایک عرب ملک میں پہنچ کر رک گئی ۔ دوسرے دن گولڈ میری کا پیغام ملا کہ فلاں ملک کے کسٹم حکام کو پیٹی پر شک ہو گیا ہے اور وہ پیٹی کھول کر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر انہوں نے پیٹی کو کھول لیا تو تم پکڑے جاؤ گے کیوں کہ اس پر تمہارا نام اور پتا لکھا ہوا ہے جب کہ بھیجنے والے کا نام ہم نے جعلی لکھوایا ہوا ہے ۔ پیٹی کو کلیئرنس دینے کے لیے وہ لوگ دو لاکھ روپے طلب کر ہے ہیں اس لیے جلد از جلد اس اکاؤنٹ میں رقم بھجوادو تاکہ پیٹی کو کلیئرنس مل سکے ۔ یہ پڑھتے ہی ہمارا تو سر چکرا گیا ، دل بیٹھنے لگا ، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، ہم کرسی سے گرنے لگے تو بمشکل ہمت کرکے خود ہی کرسی سے اٹھ کر فرش پر لیٹ گئے ۔ اہلِ خانہ نے آ کر ہمیں اٹھایا کچھ کھلایا پلایا تو اوسان بحال ہوئے ، ہم نے خیالوں میں خود کو جیل میں محسوس کیا اور گولڈ میری کو لکھ دیا کہ ہمارے پاس دو لاکھ تو کیا تمہیں دینے کے لیے دو روپے بھی نہیں ہیں ، اور کہا کہ ہم نے تمہیں پہلے روز ہی بتا دیا تھا کہ ہم مسکین لوگ ہیں ہمارے پاس کچھ بھی مال وغیرہ نہیں ہے لہٰذا اب تم جانو اور تمہارا کام ۔۔۔۔ ہمیں تمہارا خزانہ نہیں چاہئے ۔ اور پھر سب سے پہلے ہم نے اس فراڈی عورت کو ان فرینڈ کردیا ۔ اور اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ ہم لالچ میں نہیں آئے اور اس نے ہمیں لُٹنے سے بچا لیا ۔ تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔ تاریخ تحریر ۔ 17 اگست سال 2024ء بروز ہفتہ ۔۔۔


 جب  مِلا ہمیں خزانہ ۔ 

   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

( حقیقت پر مبنی ایک مِزاحیہ تحریر )  غلام محمد وامِق ۔ 


یوں تو ہم بچپن سے سنتے آ رہے تھے کہ " خدا جب دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے"  لیکن ہمیں سمجھ میں نہیں اتا تھا کہ چھپر پھاڑ کر دینے کا مطلب کیا ہے ؟ ۔ 

ہم اکثر اپنے گھر کی چھت کو تکا کرتے تھے کہ شاید یہ چھت پھٹ جائے گی اور اس میں سے خدا ہمیں بھی کچھ دے دے گا ، پھر سوچتے کہ ہماری چھت تو ٹیئر گاڈر کی بنی ہوئی ہے یہ چھپر تو ہرگز نہیں ہے ، لگتا ہے کہ ہمیں جھونپڑی یا کسی چھپرے کے گھر میں رہنا پڑے گا تاکہ خدا ہمیں بھی چھپر پھاڑ کر کچھ عطا فرمادے ۔ یہ ہی کچھ  سوچتے سوچتے ہم نے زندگی کی ساٹھ 60  خزائیں دیکھ ڈالیں مگر مجال ہے کہ کہیں سے کوئی چھپر یا چھت پھٹی ہو اور اوپر سے دھڑا دھڑ مال و دولت گرنے لگی ہو ۔ 

بقولِ شاعر ۔۔۔ 

تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے ۔ 

تلاش میں ہے سحر، بار بار گزری ہے ۔ ( فیض ) 


تو جناب نہ ہی کوئی چھپر پھٹا اور نہ ہی ہمارا انتظار ختم ہوا ۔ البتہ اُن دنوں نیا نیا یہ ٹچ موبائل سائنس کی دنیا کا چھپر پھاڑ کر ہمارے ہاتھوں میں آیا تھا اور ہم حیرت و استعجاب سے اس جادو کی ڈبیہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے ۔  

انٹرنیٹ یعنی عالمی پھندا (جال) کا تازہ تازہ نام اور کام دیکھنے کو ملا تو فیس بُک نام کی دنیا میں ہم نے بھی اوروں کی دیکھا دیکھی قدم رکھ دیا، دھڑا دھڑ دوستی کی درخواستیں آنا شروع ہو گئیں ہم حیران و ششدر کہ یہ کیا ماجرا ہے ؟   بقولِ شاعر ۔۔۔ 

الٰہی یہ کیا ماجرا ہو گیا ۔ ؟

کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا ۔ 

 چھپر پھاڑ کر مال تو ملا نہیں مگر موبائل کا چھپر پھاڑ کر فرینڈز رکیوئیسٹس ضرور مل رہی تھیں ۔ 

اس وقت ہمیں حیرت کا بڑا جھٹکا لگا جب امریکن آرمی کی ایک با وردی خاتون جرنیل " گولڈ میری " کی طرف سے ہمیں دوستی کی درخواست موصول ہوئی ۔ 

اللّٰہ اللّٰہ یہ کیا ؟ 

کہاں ہم ، کہاں امریکی جرنیل ۔۔۔ 

کہاں گنگو تیلی ، کہاں راجہ بھوج ۔۔۔ 

بہرحال بہ رضا و خوشی ہم نے ان محترمہ کی درخواست قبول کرلی اور انہیں اپنے حلقہء دوستی میں شامل کر لیا تو فوراً ہی ان کی طرف سے تعارفی سلسلہ شروع کر دیا گیا ، ہم نے ان کو لاکھ سمجھایا کہ بھئی ہم شاعر ، ادیب قسم کے مسکین لوگ تمہاری دوستی کے قابل نہیں ہیں کہیں اور جا کر تعلقات بڑھاؤ مگر وہ بضد کہ آپ جیسا مخلص سچا اور ایماندار آدمی ہمیں کہیں اور نظر نہیں آیا ( شاید اس کی آنکھیں کمزور تھیں ) پھر سوچا کہ ممکن ہے یہ خاتون کوئی بہت ہی ذہین سمجھ بُوجھ والی عورت ہو جس نے ہم جیسے ہیرے کو پہچان لیا ہو ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ ہمیں بڑی خوشی ہوئی کہ چلیں دنیا بھر میں کسی نے تو ہماری قدر پہچانی ۔ 

دوچار دنوں کے بعد اس نے انکشاف کیا کہ وہ عراق امریکہ جنگ میں اپنی ڈیوٹی کرنے عراق آئی تھی، دورانِ ڈیوٹی اسے عراق سے ایک بہت بڑا خزانہ ہاتھ آیا تھا جس میں کروڑوں ڈالر اور سونا شامل ہے جس کو ایک پیٹی میں بند کردیا گیا ہے ، اور اب جیسا کہ جنگ ختم ہوگئی ہے تو میں یہ خزانہ قانونی طور پر اپنے ساتھ امریکہ نہیں لے جا سکتی چنانچہ میں چاہتی ہوں کہ یہ پیٹی اپ کے پاس بھجوا دوں، پھر بعد میں مناسب موقع دیکھ کر میں آپ کے پاس پاکستان آؤں گی تو مالِ غنیمت آدھا آدھا بانٹ لیں گے ۔ اب ہمیں یقین ہو چلا تھا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں نیکی ایمانداری اور صبر کا میٹھا پھل دیا ہے اور چھپر پھاڑ کر دیا ہے ۔ قصہ مختصر اس نے وہ پیٹی کسی یورپین ایکسپریس سروس کے ذریعے ہمیں بھجوا دی اور اس کو ٹریس کرنے کے لیے ٹریسنگ نمبر بھی دے دیا ۔ 

ہم ہواؤں میں اُڑنے لگے اور آنکھوں سے نیند اڑ گئی ، اور آنے والی دولت کا صحیح مصرف سوچنے لگے ، ظاہر ہے کہ ایک خوبصورت کوٹھی یا بنگلہ سب سے پہلے لینا ہوگا اس کے ساتھ ایک گاڑی بھی چاہئے ہوگی اور کاروبار کے لئے کاروں کا شوروم بہتر رہے گا اور ایک عدد پٹرول پمپ خریدنا بھی ضروری ہے ، لیکن مساکین و غربا کے لیے بھی تو کچھ کرنا پڑے گا ان کی مدد کے لیے کوئی ادارہ قائم کیا جائے گا ۔ 

مگر سب سے پہلے اس خزانے کو چھپا کر رکھنے کی پلاننگ بھی کرنی چاہیے ۔ اور وہ امریکن عورت جب آئے گی تو اس کے لئے بھی قیام وطعام کا بندو بست کرنا ہوگا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ 

ہم روزانہ باقاعدگی سے ٹریکنگ نمبر سے پیٹی کو چیک کرتے تو پیٹی متحرک نظر آتی یعنی کبھی کسی ملک میں تو کبھی کسی ملک میں ۔ چند دنوں کے بعد وہ پیٹی ایک عرب ملک میں پہنچ کر رک گئی ۔ دوسرے دن گولڈ میری کا پیغام ملا کہ فلاں ملک کے کسٹم حکام کو پیٹی پر شک ہو گیا ہے اور وہ پیٹی کھول کر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اگر انہوں نے پیٹی کو کھول لیا تو تم پکڑے جاؤ گے کیوں کہ اس پر تمہارا نام اور پتا لکھا ہوا ہے جب کہ بھیجنے والے کا نام ہم نے جعلی لکھوایا ہوا ہے ۔ پیٹی کو کلیئرنس دینے کے لیے وہ لوگ دو لاکھ روپے طلب کر ہے ہیں اس لیے جلد از جلد اس اکاؤنٹ میں رقم بھجوادو تاکہ پیٹی کو کلیئرنس مل سکے ۔ 

یہ پڑھتے ہی ہمارا تو سر چکرا گیا ، دل بیٹھنے لگا ، آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ، ہم کرسی سے گرنے لگے تو بمشکل ہمت کرکے خود ہی کرسی سے اٹھ کر فرش پر لیٹ گئے ۔ 

اہلِ خانہ نے آ کر ہمیں اٹھایا کچھ کھلایا پلایا تو اوسان بحال ہوئے ، ہم نے خیالوں میں خود کو جیل میں محسوس کیا اور گولڈ میری کو لکھ دیا کہ ہمارے پاس دو لاکھ تو کیا تمہیں دینے کے لیے دو روپے بھی نہیں ہیں ، اور کہا کہ ہم نے تمہیں پہلے روز ہی بتا دیا تھا کہ ہم مسکین لوگ ہیں ہمارے پاس کچھ بھی مال وغیرہ نہیں ہے لہٰذا اب تم جانو اور تمہارا کام ۔۔۔۔ ہمیں تمہارا خزانہ نہیں چاہئے ۔ 

اور پھر سب سے پہلے ہم  نے اس فراڈی عورت کو ان فرینڈ کردیا ۔ اور اللّٰہ کا شکر ادا کیا کہ ہم لالچ میں نہیں آئے اور اس نے ہمیں لُٹنے سے بچا لیا ۔ 

تحریر ۔ غلام محمد وامِق محراب پور سندھ ۔ 

تاریخ تحریر ۔ 17 اگست سال 2024ء بروز ہفتہ ۔۔۔

Powered by Blogger.