دیکھ کے یہ تصویر ہماری، ممکن ہے ہم آئیں یاد ۔۔۔  ہم جیسا بھی کوئی انساں اس دنیا میں تھا آباد ...   یہ ہے شہرِ ناز، یہاں دستور لبوں کو سینے کا ...  شکوہ ہو تو کیسے ہو، اور کیسے ہو کوئی فریاد؟ ...   ہر دور میں آدم کے پیچھے شیطان لگا ہی رہتا ہے ... ہر دور میں جنت بنتی ہے، ہر دور میں ہوتا ہے شدّاد ...   لوگو تم محتاط رہو، اس دنیا کے دوراھے پر ...  جو خیر کو کردے، شر ثابت یہ دنیا ہے ایسی نقّاد ...   وہ پنچھی قید ہی رہتا ہے، جس میں نہ امنگ ہو اُڑنے کی ...  نہ جس کی قومی غیرت ہو وہ قوم رہے کیسے آزاد؟ ...   ہے بھیک کی آزادی سے بہتر، قید ہمیں خودداری کی ... ہم قیدوبند یوں توڑ کے نکلیں، دیکھتا رہ جائے صیّاد ...   ہے فطرت کا قانون یہاں، جو کرتا ہے وہ بھرتا ہے ...  برباد خزاں بھی ہوتی ہے، جو کرتی ہے گلشن برباد ...   کچھ لوگ ابھی تک دنیا میں بےلوث محبت کرتے ہیں ...  اُن سے کوئی شاد رہے، یا  کوئی لاکھ رہے ناشاد ...   کیسے سچے لوگ تھے دیکھو راہِ وفا میں امر ہوئے ...  وامِق عذرا،  قیس و لیلیٰ،  اور ہوئے شیریں فرہاد ...  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ، فروری 1983ء، میں کہی گئی غزل ۔  فعل فعولن فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فع ۔  بحر ۔ ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔  بحر ۔ زمزمہ متدارک مثمن مضاعف ۔

دیکھ کے یہ تصویر ہماری، ممکن ہے ہم آئیں یاد ۔۔۔ ہم جیسا بھی کوئی انساں اس دنیا میں تھا آباد ... یہ ہے شہرِ ناز، یہاں دستور لبوں کو سینے کا ... شکوہ ہو تو کیسے ہو، اور کیسے ہو کوئی فریاد؟ ... ہر دور میں آدم کے پیچھے شیطان لگا ہی رہتا ہے ... ہر دور میں جنت بنتی ہے، ہر دور میں ہوتا ہے شدّاد ... لوگو تم محتاط رہو، اس دنیا کے دوراھے پر ... جو خیر کو کردے، شر ثابت یہ دنیا ہے ایسی نقّاد ... وہ پنچھی قید ہی رہتا ہے، جس میں نہ امنگ ہو اُڑنے کی ... نہ جس کی قومی غیرت ہو وہ قوم رہے کیسے آزاد؟ ... ہے بھیک کی آزادی سے بہتر، قید ہمیں خودداری کی ... ہم قیدوبند یوں توڑ کے نکلیں، دیکھتا رہ جائے صیّاد ... ہے فطرت کا قانون یہاں، جو کرتا ہے وہ بھرتا ہے ... برباد خزاں بھی ہوتی ہے، جو کرتی ہے گلشن برباد ... کچھ لوگ ابھی تک دنیا میں بےلوث محبت کرتے ہیں ... اُن سے کوئی شاد رہے، یا کوئی لاکھ رہے ناشاد ... کیسے سچے لوگ تھے دیکھو راہِ وفا میں امر ہوئے ... وامِق عذرا، قیس و لیلیٰ، اور ہوئے شیریں فرہاد ... ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ، فروری 1983ء، میں کہی گئی غزل ۔ فعل فعولن فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فع ۔ بحر ۔ ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔ بحر ۔ زمزمہ متدارک مثمن مضاعف ۔



=== غزل === 

       غلام محمد وامِق  


دیکھ کے یہ تصویر ہماری، ممکن ہے ہم آئیں یاد ۔۔۔ 

ہم جیسا بھی کوئی انساں اس دنیا میں تھا آباد ... 


یہ ہے شہرِ ناز، یہاں دستور لبوں کو سینے کا ... 

شکوہ ہو تو کیسے ہو، اور کیسے ہو کوئی فریاد؟ ... 


ہر دور میں آدم کے پیچھے شیطان لگا ہی رہتا ہے ...

ہر دور میں جنت بنتی ہے، ہر دور میں ہوتا ہے شدّاد ... 


لوگو تم محتاط رہو، اس دنیا کے دوراھے پر ... 

جو خیر کو کردے، شر ثابت یہ دنیا ہے ایسی نقّاد ... 


وہ پنچھی قید ہی رہتا ہے، جس میں نہ امنگ ہو اُڑنے کی ... 

نہ جس کی قومی غیرت ہو وہ قوم رہے کیسے آزاد؟ ... 


ہے بھیک کی آزادی سے بہتر، قید ہمیں خودداری کی ...

ہم قیدوبند یوں توڑ کے نکلیں، دیکھتا رہ جائے صیّاد ... 


ہے فطرت کا قانون یہاں، جو کرتا ہے وہ بھرتا ہے ... 

برباد خزاں بھی ہوتی ہے، جو کرتی ہے گلشن برباد ... 


کچھ لوگ ابھی تک دنیا میں بےلوث محبت کرتے ہیں ... 

اُن سے کوئی شاد رہے، یا  کوئی لاکھ رہے ناشاد ... 


کیسے سچے لوگ تھے دیکھو راہِ وفا میں امر ہوئے ... 

وامِق عذرا،  قیس و لیلیٰ،  اور ہوئے شیریں فرہاد ... 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

شاعر ـ غلام محمد وامِق، محرابپور سندھ،

فروری 1983ء، میں کہی گئی غزل ۔ 

فعل فعولن فعل فعولن فعلن فعلن فعلن فع ۔ 

بحر ۔ ہندی متقارب مثمن مضاعف ۔ 

بحر ۔ زمزمہ متدارک مثمن مضاعف ۔

ذوالفقار تلوار کے متعلق بعض شیعہ روایات میں ہے کہ یہ تلوار جنّت سے اتاری گئی جب کہ اس بات کی سند کہیں سے بھی نہیں ملتی ، بلکہ یہ تلوار اصل میں ابوجہل کی تھی جس کو غزوہء بدر میں قتل کرنے کے بعد رسولِ اکرم نے یہ تلوار حضرت علی کو تفویض کر دی تھی اور ذوالفقار کا مطلب ہے دو دھار والی ۔

ذوالفقار تلوار کے متعلق بعض شیعہ روایات میں ہے کہ یہ تلوار جنّت سے اتاری گئی جب کہ اس بات کی سند کہیں سے بھی نہیں ملتی ، بلکہ یہ تلوار اصل میں ابوجہل کی تھی جس کو غزوہء بدر میں قتل کرنے کے بعد رسولِ اکرم نے یہ تلوار حضرت علی کو تفویض کر دی تھی اور ذوالفقار کا مطلب ہے دو دھار والی ۔


 

قائد اعظم کی پیدائش جھرک میں ہوئی اور پاکستان کا قیام 15 اگست 1947ء کو عمل میں آیا ، یہ تاریخ نصاب کی کتب میں سال 1955ء تک پڑھائی جاتی رہی تھی ، پھر کسی مصلحت کے تحت اس تاریخ کو تبدیل کر دیا گیا اور موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے کہ قائد اعظم کی پیدائش جھرک کے بجائے کراچی میں کردی گئی اور قیامِ پاکستان کی تاریخ بدل کر 14 اگست کردی گئی اور قیام پاکستان کو یومِ آزادی کا نام دے دیا گیا ۔

قائد اعظم کی پیدائش جھرک میں ہوئی اور پاکستان کا قیام 15 اگست 1947ء کو عمل میں آیا ، یہ تاریخ نصاب کی کتب میں سال 1955ء تک پڑھائی جاتی رہی تھی ، پھر کسی مصلحت کے تحت اس تاریخ کو تبدیل کر دیا گیا اور موجودہ صورتحال سب کے سامنے ہے کہ قائد اعظم کی پیدائش جھرک کے بجائے کراچی میں کردی گئی اور قیامِ پاکستان کی تاریخ بدل کر 14 اگست کردی گئی اور قیام پاکستان کو یومِ آزادی کا نام دے دیا گیا ۔



 

Powered by Blogger.