سندھ کی لوک داستان " لیلاں چنیسر " ــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق  ـ۔ـــ  سندھ کے قدیم شہر دیبل پر سومرو خاندان کا حکمران "چنیسر "  برسرِاقتدار تھا، اس کی ملکہ " لِیلاں "  بہت خوبصورت تھی، دونوں کی والہانہ محبت کے چرچے زبانِ زدِ عام تھے، انہی دنوں سندھ کے ایک دوسرے علاقے میں "راناکھنگھار"  کی  بیٹی " کؤنروُ" کو کسی بات پر اس کی ایک  سہیلی نے طعنہ دیا  کہ تو  کون سا چنیسر کی ملکہ بنے گی؟ ــ یہ طعنہ اسے برداشت نہ ہوسکا، لہٰذا اس نے چنیسر کو حاصل کرنے کا پروگرام ترتیب دے لیا،  وہ بھیس بدل کر اپنی والدہ کے ساتھ دیبل پہنچی، محل تک رسائی حاصل کی، اور ایک انتہائی قیمتی نولکھا ھار " لیلاں "  کو دکھایا،  لیلاں وہ ھار حاصل کرنے کے لئے بیتاب ہوگئی،  اس کی قیمت پوچھی تو " کؤنرو "  نے انتہائی چالبازی سے کہا کہ اس ھار کی قیمت صرف ایک رات، چنیسر کے ساتھ ہے ۔ــــ  لیلاں، کچھ پس و پیش کے بعد آمادہ ہوگئی،  اس نے چنیسر کو رات کافی شراب پلائی، اور جب وہ سوگیا تو، کؤنرو کو اس کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا،،،  علی الصبح جب چنیسر کا نشہ اترا،  ـــــــــــ  اور اس نے کؤنرو کو اپنے بستر پر دیکھا تو حیران رہ گیا، جب اسے ساری صورتحال کا علم ہوا تو اسے بہت غصہ آیا، اور کہا کہ لیلاں کی نظر میں اس ھار کی قیمت مجھ سے زیادہ ہے، جو اس نے مجھے ھار کے بدلے فروخت کر دیا،،، چنیسر نے لیلاں کو طلاق دے دی،  اور کؤنرو کو اپنے پاس رکھ لیا کہ اس نے اپنا قیمتی ھار قربان کر دیا. اس کے ساتھ صرف ایک رات کے بدلے۔۔۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اس داستان کو بیان کرکے یہ سبق دیا ہے کہ، ہمیں اپنے اصل اور حقیقی محبوب(اللہ تعالیٰ)  کو دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز کے بدلے بھی نہیں چھوڑنا چاہئے ۔۔۔ یہ کہانی تھوڑی سی آگے بھی ہے، (جوکہ غیر مستند ہے) ، کہ کسی شادی کی تقریب میں لیلاں اور چنیسر کا آمنا سامنا ہوا، تو دونوں نے فرطِ جذبات سے اسی وقت دم دے دیا،،، اور دونوں کو اکٹھا ایک ہی چتا میں جلا دیا گیا ۔ تحریر ۔۔۔۔۔  غلامِ محمد وامِق،  محرابپور ‏سندھ ‏ـ ‏

سندھ کی لوک داستان " لیلاں چنیسر " ــــــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ـ۔ـــ سندھ کے قدیم شہر دیبل پر سومرو خاندان کا حکمران "چنیسر " برسرِاقتدار تھا، اس کی ملکہ " لِیلاں " بہت خوبصورت تھی، دونوں کی والہانہ محبت کے چرچے زبانِ زدِ عام تھے، انہی دنوں سندھ کے ایک دوسرے علاقے میں "راناکھنگھار" کی بیٹی " کؤنروُ" کو کسی بات پر اس کی ایک سہیلی نے طعنہ دیا کہ تو کون سا چنیسر کی ملکہ بنے گی؟ ــ یہ طعنہ اسے برداشت نہ ہوسکا، لہٰذا اس نے چنیسر کو حاصل کرنے کا پروگرام ترتیب دے لیا، وہ بھیس بدل کر اپنی والدہ کے ساتھ دیبل پہنچی، محل تک رسائی حاصل کی، اور ایک انتہائی قیمتی نولکھا ھار " لیلاں " کو دکھایا، لیلاں وہ ھار حاصل کرنے کے لئے بیتاب ہوگئی، اس کی قیمت پوچھی تو " کؤنرو " نے انتہائی چالبازی سے کہا کہ اس ھار کی قیمت صرف ایک رات، چنیسر کے ساتھ ہے ۔ــــ لیلاں، کچھ پس و پیش کے بعد آمادہ ہوگئی، اس نے چنیسر کو رات کافی شراب پلائی، اور جب وہ سوگیا تو، کؤنرو کو اس کی خواب گاہ میں پہنچا دیا گیا،،، علی الصبح جب چنیسر کا نشہ اترا، ـــــــــــ اور اس نے کؤنرو کو اپنے بستر پر دیکھا تو حیران رہ گیا، جب اسے ساری صورتحال کا علم ہوا تو اسے بہت غصہ آیا، اور کہا کہ لیلاں کی نظر میں اس ھار کی قیمت مجھ سے زیادہ ہے، جو اس نے مجھے ھار کے بدلے فروخت کر دیا،،، چنیسر نے لیلاں کو طلاق دے دی، اور کؤنرو کو اپنے پاس رکھ لیا کہ اس نے اپنا قیمتی ھار قربان کر دیا. اس کے ساتھ صرف ایک رات کے بدلے۔۔۔ شاہ عبدالطیف بھٹائی نے اس داستان کو بیان کرکے یہ سبق دیا ہے کہ، ہمیں اپنے اصل اور حقیقی محبوب(اللہ تعالیٰ) کو دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز کے بدلے بھی نہیں چھوڑنا چاہئے ۔۔۔ یہ کہانی تھوڑی سی آگے بھی ہے، (جوکہ غیر مستند ہے) ، کہ کسی شادی کی تقریب میں لیلاں اور چنیسر کا آمنا سامنا ہوا، تو دونوں نے فرطِ جذبات سے اسی وقت دم دے دیا،،، اور دونوں کو اکٹھا ایک ہی چتا میں جلا دیا گیا ۔ تحریر ۔۔۔۔۔ غلامِ محمد وامِق، محرابپور ‏سندھ ‏ـ ‏

ولا تفرقو ...اور فرقے مت بنو،،، (القرآن)  === تحریر  ـ  غلام محمد وامِق۔ـــ۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جب بنی اسرائیل کے بجائے، بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے تو، یہودیوں کی اس امید پر پانی پھر گیا کہ آخری نبی بھی دیگر انبیاء کی طرح بنی اسرائیل میں ہی پیدا ہوگا، اور تب سے یہودی اور عیسائی مشنریز مشترکہ طور پر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بیخ کنی کے درپے ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی، بالآخر اسلام کا پودا تناور درخت بن گیا، اور پوری دنیا اِس کی چھاؤں محسوس کرنے لگی،  یہودی اور عیسائیوں نے  اپنی مشہور پالیسی، " لڑاؤ اور حکومت کرو "  پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو کمزور یا ختم کرنے کے لئے مسلمانوں میں فرقہ بندی کا بیج بونا شروع کر دیا، جس میں وہ سو فیصد سے بھی بڑھ کر کامیاب ہورہے ہیں، اور مسلمانوں کا حال بقولِ اقبال یہ ہے کہ،  وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا ۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ۔  اس سانحہ کا اجمالی احوال کچھ یوں ہے کہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے فوراً بعد ہی یہود و نصاریٰ  نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوششیں تیز کردیں، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سختی سے ان سازشوں کو کچلا، اور  عہدِ فاروقی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوربین نگاہوں اور حسنِ انتظام کے باعث شرپسند ناکام ہوتے رہے ۔۔۔ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں سازشیوں نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئے،  چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، کے پُر آشوب دور میں سازشیں مستحکم ہوگئیں، اور سب سےپہلے " خوارج "  کے نام سے ایک فرقہ وجود میں آیا ـــ  سازشیں بڑھیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کربلا میں شہید کئے گئے تو نتیجۃً  " شیعانِ علی "  کے نام سے دوسرا فرقہ وجود میں آگیا ـــ سازشیں بڑھتی رہیں،  فرقے بنتےرہے، فرقہ معتزلہ، وجود میں آیا، بعدازاں قرامطہ یا  باطنی بنے،  اسماعیلی  بنے،  ان بڑے فرقوں کے  علاوہ بیشمار  نئے چھوٹے چھوٹے فرقے بھی بنتے رہے، ۔۔۔۔ فقہ کے حوالے سے جو معروف فرقے ہیں، اُن میں فقہ جعفریہ،، فقہ حنفی،،  فقہ حنبلی،،  فقہ مالکی،، اور فقہ شافعی،،، قابلِ ذکر ہیں ۔ اور مزید دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ، پیرانِ پیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ، نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب " غُنیۃ الطالبین " ، میں، 72،  گُمراہ فرقوں کی فہرست دی ہے، جس میں فقہ حنفی کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی کے دور میں سینکڑوں نئے فتنے اور فرقے پیدا ہوئے، جن میں سے اکثر کو ایوبی نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا، لیکن پھر بھی یہ غالب امکان ہے کہ اُن میں سے چند فتنے ضرور بچ گئے ہوں گے ۔۔  بہرحال بعد ازاں عربستان میں عبدالوہاب نجدی کی وجہ سے، "  وہابی فرقہ "  وجود میں آیا۔ اور جب ہندوستان میں اسلام کا اقتدار اور غلبہ ہوا تو یہاں پر بھی سازشیں شروع ہوئیں، اور دو مزید فرقے سُنی اور دیوبندی، کے نام سے ظہور میں آئے۔۔ بعد ازاں سامراج کی کارستانیوں سے قادیانی فرقہ وجود میں آیا۔۔ پھر اِسی پر بس نہیں ہوئی، سُنیوں میں مزید چھوٹے چھوٹے فرقے بنے، جبکہ دیوبندیوں میں بھی  " مماتی"  اور " حیاتی "  نام سے مزید دو فرقے بن گئے ۔ صرف مذہبی فرقے بنانے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اِن فرقوں کو باہم متصادم بھی کر دیا گیا ۔ پھر عربستان کے ٹکڑے کئے گئے، دیگر مسلم ممالک کے ٹکڑے کئے گئے، مسلم ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے ۔ پھر مزید پاکستان کے ٹکڑے کئے گئے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ فقط عقیدوں کو ہی لڑانے پر بات ختم نہیں کی گئی، بلکہ قومیتوں کو بھی  لڑایا گیا،  لسانی بنیادوں پر بھی مسلمانوں کو لڑایا گیا،  اور لڑایا جا رہا ہے ۔ خدا کے لئے سمجھو دوستو سمجھو۔...۔۔ وما علینا الی البلاغ ۔۔۔  نوٹ:--- یہ تاریخی حقائق بیان کئے گئے ہیں، کسی کی بھی حمایت یا مخالفت کرنا مقصود نہیں ہے ۔ تحریر- غلام محمد وامِق،محرابپور  سندھ ‏ ‏

ولا تفرقو ...اور فرقے مت بنو،،، (القرآن) === تحریر ـ غلام محمد وامِق۔ـــ۔ نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، جب بنی اسرائیل کے بجائے، بنی اسماعیل میں پیدا ہوئے تو، یہودیوں کی اس امید پر پانی پھر گیا کہ آخری نبی بھی دیگر انبیاء کی طرح بنی اسرائیل میں ہی پیدا ہوگا، اور تب سے یہودی اور عیسائی مشنریز مشترکہ طور پر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی بیخ کنی کے درپے ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت فرمائی، بالآخر اسلام کا پودا تناور درخت بن گیا، اور پوری دنیا اِس کی چھاؤں محسوس کرنے لگی، یہودی اور عیسائیوں نے اپنی مشہور پالیسی، " لڑاؤ اور حکومت کرو " پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو کمزور یا ختم کرنے کے لئے مسلمانوں میں فرقہ بندی کا بیج بونا شروع کر دیا، جس میں وہ سو فیصد سے بھی بڑھ کر کامیاب ہورہے ہیں، اور مسلمانوں کا حال بقولِ اقبال یہ ہے کہ، وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا ۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ۔ اس سانحہ کا اجمالی احوال کچھ یوں ہے کہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے فوراً بعد ہی یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوششیں تیز کردیں، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سختی سے ان سازشوں کو کچلا، اور عہدِ فاروقی میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوربین نگاہوں اور حسنِ انتظام کے باعث شرپسند ناکام ہوتے رہے ۔۔۔ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں سازشیوں نے پر پرزے نکالنے شروع کر دئے، چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ، کے پُر آشوب دور میں سازشیں مستحکم ہوگئیں، اور سب سےپہلے " خوارج " کے نام سے ایک فرقہ وجود میں آیا ـــ سازشیں بڑھیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کربلا میں شہید کئے گئے تو نتیجۃً " شیعانِ علی " کے نام سے دوسرا فرقہ وجود میں آگیا ـــ سازشیں بڑھتی رہیں، فرقے بنتےرہے، فرقہ معتزلہ، وجود میں آیا، بعدازاں قرامطہ یا باطنی بنے، اسماعیلی بنے، ان بڑے فرقوں کے علاوہ بیشمار نئے چھوٹے چھوٹے فرقے بھی بنتے رہے، ۔۔۔۔ فقہ کے حوالے سے جو معروف فرقے ہیں، اُن میں فقہ جعفریہ،، فقہ حنفی،، فقہ حنبلی،، فقہ مالکی،، اور فقہ شافعی،،، قابلِ ذکر ہیں ۔ اور مزید دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ بھی ہے کہ، پیرانِ پیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ، نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب " غُنیۃ الطالبین " ، میں، 72، گُمراہ فرقوں کی فہرست دی ہے، جس میں فقہ حنفی کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ صلاح الدین ایوبی کے دور میں سینکڑوں نئے فتنے اور فرقے پیدا ہوئے، جن میں سے اکثر کو ایوبی نے جڑ سے اکھاڑ پھینکا، لیکن پھر بھی یہ غالب امکان ہے کہ اُن میں سے چند فتنے ضرور بچ گئے ہوں گے ۔۔ بہرحال بعد ازاں عربستان میں عبدالوہاب نجدی کی وجہ سے، " وہابی فرقہ " وجود میں آیا۔ اور جب ہندوستان میں اسلام کا اقتدار اور غلبہ ہوا تو یہاں پر بھی سازشیں شروع ہوئیں، اور دو مزید فرقے سُنی اور دیوبندی، کے نام سے ظہور میں آئے۔۔ بعد ازاں سامراج کی کارستانیوں سے قادیانی فرقہ وجود میں آیا۔۔ پھر اِسی پر بس نہیں ہوئی، سُنیوں میں مزید چھوٹے چھوٹے فرقے بنے، جبکہ دیوبندیوں میں بھی " مماتی" اور " حیاتی " نام سے مزید دو فرقے بن گئے ۔ صرف مذہبی فرقے بنانے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا، بلکہ اِن فرقوں کو باہم متصادم بھی کر دیا گیا ۔ پھر عربستان کے ٹکڑے کئے گئے، دیگر مسلم ممالک کے ٹکڑے کئے گئے، مسلم ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے ۔ پھر مزید پاکستان کے ٹکڑے کئے گئے، اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، ستم بالائے ستم یہ کہ فقط عقیدوں کو ہی لڑانے پر بات ختم نہیں کی گئی، بلکہ قومیتوں کو بھی لڑایا گیا، لسانی بنیادوں پر بھی مسلمانوں کو لڑایا گیا، اور لڑایا جا رہا ہے ۔ خدا کے لئے سمجھو دوستو سمجھو۔...۔۔ وما علینا الی البلاغ ۔۔۔ نوٹ:--- یہ تاریخی حقائق بیان کئے گئے ہیں، کسی کی بھی حمایت یا مخالفت کرنا مقصود نہیں ہے ۔ تحریر- غلام محمد وامِق،محرابپور سندھ ‏ ‏

خُدا را سمجھئے، غلبۂ اسلام ===  تحریر ــ  غلام محمد وامِق ــ۔ غلبہء اسلام کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ، لوگوں کو بالجبر مسلمان بنایا جائے، بلکہ ملک کا نظامِ معیشت اور ملک کے سماجی مسائل کو اسلام کے عادلانہ نظام کے مطابق چلانا ہی  دراصل غلبہء اسلام  ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ اسلام میں جہاد، غیر مسلموں کے خلاف ہرگز نہیں ہے،،،  غیر مسلموں کو تو اسلام تحفظ فراہم کرتا ہے، اُن سے جزیہ لیکر انہیں ذمی قرار دیتا ہے، اور ان کی ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ جبکہ جہاد فی سبیل اللہ صرف ظالم اور سرکش لوگوں کے خلاف کیا جاتا ہے، وہ لوگ جو کہ اسلام کے عادلانہ نظام کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں، پھر بھلے ان لوگوں کا کوئی بھی عقیدہ ہو۔ مزید یہ کہ تبلیغ سے کبھی اسلام نہیں پھیلتا، اسلام ہمیشہ مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور کردار سے پھیلتا ہے ۔۔۔ البتہ تبلیغ سے اصلاح ضرور ہوسکتی ہے، غلبہء اسلام نہیں ۔۔۔(تاریخ گواہ ہے)....... تحریر ۔۔ غلام محمد وامِق محرابپور  سندھ ۔

خُدا را سمجھئے، غلبۂ اسلام === تحریر ــ غلام محمد وامِق ــ۔ غلبہء اسلام کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ، لوگوں کو بالجبر مسلمان بنایا جائے، بلکہ ملک کا نظامِ معیشت اور ملک کے سماجی مسائل کو اسلام کے عادلانہ نظام کے مطابق چلانا ہی دراصل غلبہء اسلام ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یاد رہے کہ اسلام میں جہاد، غیر مسلموں کے خلاف ہرگز نہیں ہے،،، غیر مسلموں کو تو اسلام تحفظ فراہم کرتا ہے، اُن سے جزیہ لیکر انہیں ذمی قرار دیتا ہے، اور ان کی ہر طرح سے مدد کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔ جبکہ جہاد فی سبیل اللہ صرف ظالم اور سرکش لوگوں کے خلاف کیا جاتا ہے، وہ لوگ جو کہ اسلام کے عادلانہ نظام کے راستے میں رکاوٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں، پھر بھلے ان لوگوں کا کوئی بھی عقیدہ ہو۔ مزید یہ کہ تبلیغ سے کبھی اسلام نہیں پھیلتا، اسلام ہمیشہ مسلمانوں کے اعلیٰ اخلاق اور کردار سے پھیلتا ہے ۔۔۔ البتہ تبلیغ سے اصلاح ضرور ہوسکتی ہے، غلبہء اسلام نہیں ۔۔۔(تاریخ گواہ ہے)....... تحریر ۔۔ غلام محمد وامِق محرابپور سندھ ۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانۂ خلافت کے عادلانہ نظامِ حکومت کے حیرت انگیز واقعات ــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق  ــــ حضرت  عمر بن عبدالعزیز،  مسلمانوں کے اموی خلیفہ تھے. خلیفہ بننے سے قبل آپ بڑی شاہانہ زندگی گزارتے تھے.  دن میں کئی بار اپنی پوشاک تبدیل کرتے تھے۔ خلیفہ بننے کے بعد  آپ میں حیرت انگیز تبدیلی آئی. اور آپ نے حد درجہ سادگی اختیار کرلی. یہاں تک کہ انہیں عمر فاروق ثانی کہا جانے لگا. ایک بار آپ کے پاس ایک سرکاری مہمان آیا, جب سرکاری کام ختم ہوا اور ذاتی گفتگو شروع ہوئی تو خلیفہ نے چراغ بجھا دیا, مہمان نے حیرانگی کا اظہار کیا تو فرمایا سرکاری کام کے لئے سرکاری چراغ کا خرچ ہورہا تھا, اب ذاتی گفتگو میں سرکاری تیل اور چراغ کیوں خرچ کریں..  ایک بار بیٹے کو سیب کھاتے دیکھا تو اہلیہ سے پوچھا, سیب کہاں سے آیا, عرض کیا حضور بچہ ضد کر رہا تھا, گھر کے خرچہ سے بمشکل ایک پیسا بچا کر بچے کے لئے یہ سیب منگوایا ہے , آپ نے فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک پیسہ آپ کو اضافی مل رہا ہے، لہذا آپ نے گھر کے خرچ سے ایک پیسہ کم کر دیا. آپ کے دور خلافت میں ایک چرواہا روتا پیٹتا ہوا جنگل سے شہر کی طرف بھاگا ہوا آرہا تھا, کسی نے سبب پوچھا تو کہا کہ آج میری ایک بکری کو شیر کھا گیا ہے۔ پوچھنے والے نے تسلی دی تو چرواہے نے کہا, میں اپنی بکری کے لئے نہیں رورہا, میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ آج خلیفہ عمر بن عبدالعزیز انتقال کرگئے ہیں۔ کیونکہ جب تک وہ زندہ تھے۔ کسی بھی شیر کو جرئت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی بکری پر حملہ کر سکے, آج یہ ہوا تو میں سمجھ گیا کہ خلیفۃ المسلمین انتقال کر گئے ہیں۔ بعد میں جب معلوم کیا گیا تو واقعی عمر بن عبدالعزیز انتقال کرگئے تھے، ـــ  انتخاب و ‏تحریرـ  غلام محمد وامِق ‏، محرابپور  ‏سندھ ‏ـ ‏

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے زمانۂ خلافت کے عادلانہ نظامِ حکومت کے حیرت انگیز واقعات ــــ تحریر ـ غلام محمد وامِق ــــ حضرت عمر بن عبدالعزیز، مسلمانوں کے اموی خلیفہ تھے. خلیفہ بننے سے قبل آپ بڑی شاہانہ زندگی گزارتے تھے. دن میں کئی بار اپنی پوشاک تبدیل کرتے تھے۔ خلیفہ بننے کے بعد آپ میں حیرت انگیز تبدیلی آئی. اور آپ نے حد درجہ سادگی اختیار کرلی. یہاں تک کہ انہیں عمر فاروق ثانی کہا جانے لگا. ایک بار آپ کے پاس ایک سرکاری مہمان آیا, جب سرکاری کام ختم ہوا اور ذاتی گفتگو شروع ہوئی تو خلیفہ نے چراغ بجھا دیا, مہمان نے حیرانگی کا اظہار کیا تو فرمایا سرکاری کام کے لئے سرکاری چراغ کا خرچ ہورہا تھا, اب ذاتی گفتگو میں سرکاری تیل اور چراغ کیوں خرچ کریں.. ایک بار بیٹے کو سیب کھاتے دیکھا تو اہلیہ سے پوچھا, سیب کہاں سے آیا, عرض کیا حضور بچہ ضد کر رہا تھا, گھر کے خرچہ سے بمشکل ایک پیسا بچا کر بچے کے لئے یہ سیب منگوایا ہے , آپ نے فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک پیسہ آپ کو اضافی مل رہا ہے، لہذا آپ نے گھر کے خرچ سے ایک پیسہ کم کر دیا. آپ کے دور خلافت میں ایک چرواہا روتا پیٹتا ہوا جنگل سے شہر کی طرف بھاگا ہوا آرہا تھا, کسی نے سبب پوچھا تو کہا کہ آج میری ایک بکری کو شیر کھا گیا ہے۔ پوچھنے والے نے تسلی دی تو چرواہے نے کہا, میں اپنی بکری کے لئے نہیں رورہا, میں تو اس لئے رو رہا ہوں کہ آج خلیفہ عمر بن عبدالعزیز انتقال کرگئے ہیں۔ کیونکہ جب تک وہ زندہ تھے۔ کسی بھی شیر کو جرئت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کسی بکری پر حملہ کر سکے, آج یہ ہوا تو میں سمجھ گیا کہ خلیفۃ المسلمین انتقال کر گئے ہیں۔ بعد میں جب معلوم کیا گیا تو واقعی عمر بن عبدالعزیز انتقال کرگئے تھے، ـــ انتخاب و ‏تحریرـ غلام محمد وامِق ‏، محرابپور ‏سندھ ‏ـ ‏

Powered by Blogger.