تاریخِ سندھ کی لوک داستان ۔ــ مومل رانو (مختصر).. تحریر ـ غلام محمد وامِق ــــ مومل گوجر قوم کے حکمران " راجہ نند " کی بیٹی تھی ۔ جوان ہوتے ہوتے اس کے حسن کا شہرہ، دور و نزدیک تک پھیل چکا تھا، دور دراز سے راجے مہاراجوں کے پیغامات آنا شروع ہو گئے تھے، اور کسی کو ناراض کرنا بھی مناسب نہیں تھا، لہٰزا شہزادی مومل نے ایک خطرناک پہاڑی چوٹی پر اپنا ایک پراسرار محل بنوایا، محل کے دروازے کے دونوں طرف دو شیر کھڑے کئے گئے، جوکہ بڑی مہارت اور شعبدہ بازی سے تیار کئے گئے تھے، اور ان کے آگے ایک بہت بڑا دریا موجیں مار رہا تھا ۔ یہ سب حقیقت نہیں تھا، لیکن دیکھنے والوں کو حقیقت کا گمان ہوتا تھا، علاوہ ازیں محل کے اندر صحن میں، سات انتہائی دیدہ زیب اور نفیس پلنگ بہترین چادروں سمیت بچھے ہوئے تھے، جو کہ دیکھنے میں یکساں تھے ۔ جن میں سے چھ پلنگ کچے سوت سے بُنے ہوئے تھے ۔ اور ان کے نیچے گہرے گڑھے بنائے گئے تھے، ۔۔۔ مومل نے اعلان کروا دیا کہ جو شخص میرے اس محل میں داخل ہوکر، میرے اصل پلنگ پر آکر بیٹھ جائے گا تو وہ مجھے پا لے گا۔۔۔۔ بہت سے شہزادے اور امراء قسمت آزمائی کے لئے آئے۔۔۔لیکن کچھ تو پہاڑوں کی سختی سے ڈر کر ہی واپس چلے گئے، کچھ دریا کی موجیں اور شیروں کو دیکھ کر بھاگ گئے، اور چند ایک محل کے اندر پہنچ کر کچے سوت کے پلنگوں پر بیٹھ کر گڑھوں میں جا گرے، اور ناکام رہے ۔ بالآخر ۔۔۔ سندھ کاحکمران " ھمیر سومرو " بھی قسمت آزمائی کے لئے گیا، لیکن دریا کی موجیں اور دھاڑتے ہوئے شیروں کو دیکھ کر ہی نامراد واپس آ گیا ۔۔۔ یہ صورتحال دیکھ کر اس کا ایک زیرک اور بہادر وزیر رانا میندھرو، یہ مہم سر کرنے کے لئے نکلا، ۔۔۔ اُس نے دریا میں نیزہ مارا تو وہ سمجھ گیا کہ یہ اصل نہیں ہے، اسی طرح وہ سمجھتا گیا کہ یہ سب شعبدہ بازی ہے، یہ اندازہ لگانے کے بعد وہ شیروں کو نظر انداز کرتا ہوا محل میں چلا گیا، وہاں پر ایک جیسے پلنگ نظر آئے تو اس نے ہر پلنگ پر بیٹھنے سے پہلے اپنا نیزہ مارا ۔۔۔۔ اور اس طرح انجام کار وہ اصل پلنگ پر جاکر بیٹھ گیا، شہزادی مومل اس کی محبت میں کھوگئی، اور اس کی ہوگئی، ۔۔ کُچھ روز کٹے یوں ہی برا وقت جب آیا، راجہ ھمیر سومرو کو وزیر کی کامیابی کی اطلاع ملی تو وہ رقابت کی آگ میں جل اُٹھا، اس نے وزیر." رانا میندھرو "، کو بلا کر اسے ایک جگہ پر نظر بند کر دیا، اور اس کے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی ۔۔۔اب رانا میندھرو، رات ہوتے ہی اپنے تیز رفتار اونٹ (چانگ) پر سوار ہوتا، مومل سے ملتا اور فجر کے وقت صبح واپس اپنی جگہ پر پہنچ جاتا، یہ سلسلہ چلتا رہا، ایک بار کسی وجہ سے رانا دو تین راتیں مومل کے پاس نہ جاسکا، تو مومل اس کی یاد میں ماہیء بے آب کی طرح تڑپنے لگی، اور رانا کی یاد کم کرنے کے لئے اپنی چھوٹی بہن " سومل " کو، رانا جیسے مردانہ کپڑے پہناکر اپنے ساتھ پلنگ پر سلانے لگی۔۔۔۔ ایک رات جب رانا، مومل سے ملنے آیا تو اس نے ایک غیر مرد کو مومل کے ساتھ سوتے ہوئے. پایا۔..۔۔ اسے شدید غصہ آیا اور وہ بجائے ان کو جگانے کے اپنے دل میں بدگمانی اور غلط فہمی لیکر واپس چلا آیا۔۔۔۔ کچھ عرصہ کے بعد جب مومل کو اس معاملےکی اطلاع ہوئی تو وہ رانا کے پاس گئی، اسے ساری صورتحال سمجھانے کی کوشش کی، لیکن بدگمانی جڑ پکڑ چکی تھی، اس نے مومل کی ہر بات کو جھٹلا دیا، ۔۔۔۔ دل برداشتہ ہوکر مومل نے رانا کے محل کے سامنے بہت بڑا آگ کا الاؤ جلا کر اپنے آپ کو بھی اس میں جلا ڈالا ۔۔۔ محبت کے انداز کی یہ شدت دیکھ کر رانا میندھرو نے بھی اسی الاؤ میں کود کر اپنی جان دے دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ غلط فہمی سے بچو، اور دوسروں کے لئے اچھا گمان رکھو۔۔۔۔۔۔ تحریر ــ۔ غلام محمد وامق ، محراب پور سندھ .
سوال :کیایہ صحیح ہے کہ امام ابو حنیفہ اور باقی تینوں آئمہ نے امام جعفر صادق سے علم حاصل کیا ہے؟ شیعہ حضرات کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ امام جعفر کے شاگرد رہے ہیں آپ لوگ شاگرد کو مانتے ہو استاد کو کیوں نہیں ؟ کیا یہ دعوی درست ہے؟ تبصرہ: ـــ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں تو ایسی بات ممکن ہے، لیکن امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے متعلق صحیح نہیں کیونکہ جعفر صادق کی وفات کے بعد دونوں کی ولادت ہوئی ہے، جعفر صادق رحمہ اللہ کی وفات 149ھ میں ہوئی اور امام شافعی رحمہ اللہ کی ولادت 150ھ میں او رامام احمد رحمہ اللہ کی 164ھ میں کذا فی کتب الرجال والتراجم۔ یہ بات بہت عام ہے کہ امام ابو حنیفہ، امام جعفر الصادق کے شاگرد تھے لیکن اسکے متعلق بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ ثابت نہیں ہے بلکہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے جھوٹ اور بہتان کہا ہے۔ یہ بھی کہ وہ روایت جھوٹی روایت ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کذب اور بہتان ہے جس میں ہے کہ امام صاحب نے کہا کہ لولا السنتان لھلک النعمان کہ اگر وہ دو سال(امام جعفر صادق کی شاگردی کے ) نہ ہوتے تو ابو حنیفہ ہلاک ہو جاتا۔ اس حوالے سے بھی اس موقف پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی پیدائش 80ھ میں ہوئی جبکہ امام جعفر، ان سے تین سال بعد 83ھ میں پیدا ہوئے تو امام ابو حنیفہ تو ان سے عمر میں بڑے ہیں بلکہ امام ابو حنیفہ، امام جعفر الصادق کے والد محمد الباقر رحمہ اللہ کی زندگی میں فتوی دیتے تھے تو جو والد کی زندگی میں مفتی بن چکا ہو، وہ بیٹے کا شاگرد کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر امام ابو حنیفہ، ساری عمر کوفہ میں رہے اور امام جعفر الصادق، مدینہ میں تھے تو کیسے استادی شاگردی ہو گئی؟ بالفرض ہم مان لیتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ نے دو سال امام جعفر الصادق کی شاگردی اختیار کی ہے؟ تو اب دو صورتیں ہیں؛ ایک صورت تو یہ ہے کہ دونوں کی فقہ ایک تھی، کچھ انیس بیس کا فرق تھا لہذا امام ابو حنیفہ کی فقہ وہی ہے جو ان کے استاذ کی تھی اور اہل تشیع نے امام جعفر الصادق پر جھوٹ بولا ہے کہ ایک نئی فقہ وضع کر لی، فقہ جعفری کے نام سے۔ یا دوسری صورت یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ ایک طرف تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر میں امام جعفر کا شاگرد نہ ہوتا تو ہلاک ہو جاتا اور دوسری طرف امام جعفر کے مقابلے میں ایک فقہ وضع کر رہے ہیں یعنی خود اپنے ہلاک ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں؟ امام ابو حنیفہ کی طرف دوسری بات کی نسبت تو ناممکن ہے، البتہ پہلی کی نسبت ہو سکتی ہے لیکن اہل تشیع اس پر راضی نہ ہوں گے لہذا شاگردی کا قول ہی باطل ہے۔ بعض اہل تشیع قراء کے الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ امام ابو حنفیہ نے امام جعفر سے قرآن مجید پڑھا حالانکہ امام ابوحنیفہ نے جن سے قرآن مجید پڑھا، وہ امام عاصم ہیں، علامہ ابن الجزری سے بڑھ کر قراءات کی اسناد کا احاطہ کس نے کیا ہے؟ انہوں نے النشر میں امام ابو حنیفہ کے قرآن کے استاذ کے طور امام عاصم وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔ اور رہی فقہ کی بات تو اس میں امام ابو حنیفہ، حماد کے شاگرد ہیں۔ اور حماد، علقمہ کے، اور علقمہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگرد تھے۔ البتہ بعض محدثین نے یہ بات کہی ہے کہ امام ابو حنیفہ نے امام جعفر سے روایت لی ہے اور روایت لینے کا لفظ کسی ایک روایت کو نقل کر دینے پر بھی بولا جاتا ہے۔ اسے اصول حدیث کی اصطلاح راوی الاقران کہتے ہیں یعنی ساتھیوں کا ایک دوسرے سے حدیث روایت کر لینا بلکہ بعض اوقات تو بڑے، اپنے چھوٹوں سے حدیث نقل کر لیتے تھے لیکن اس سے وہ شاگرد نہیں بن جاتے تھے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، کعب الاحبار سے روایت نقل کر لیتے تھے جبکہ کعب تابعی تھے اور عمر صحابی تھے۔ اسی طرح تابعین، اپنے چھوٹوں یعنی تبع تابعین سے روایت نقل کر لیتے تھے جیسا کہ اور عبد اللہ بن عون یحی بن سعید، امام مالک سے روایت کرتے ہیں جبکہ وہ دونوں تابعی ہیں اور امام مالک تبع تابعی۔ اس طرح بعض صوفیاء نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے سلوک وطریقت کے مراحل امام جعفرصادق سے دو سال میں طے کیے، جیسا کہ شیخ علی ہجویری رحمہ اللہ نے لکھا ۔شیخ ہجویری نے اگر چہ امام صاحب کو امام جعفر کا خلیفہ ومجاز قرار دیا ہے؛ لیکن امام صاحب کے عہد تک تصوف ایک فن کی حیثیت سے دیگر علوم اسلامی سے علیحدہ نہیں ہوا تھا اس کی اصطلاحات بھی بعد کی پیداوار ہیں، لہٰذا خلافت واجازت سے نوازنااس عہدمیں نہیں تھابلکہ شیخ کی صحبت میں رہ کر اصلاح باطن کی طرف توجہ دی جاتی تھی، یہ ممکن ہے۔ جہاں تک امام جعفر صادق کی اپنی ثقاہت کا تعلق ہے تو اکثر ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے اور یہ نہایت نیک وصالح اور زاہد تھے، اور ان کے بے شمار مناقب ہیں، البتہ ان سے منسوب فقہ جعفریہ کی روایات صحیح نہیں ہیں ۔ ان کے بہت سے شیعہ شاگردوں نے ان کی طرف سے بہت سی گھڑی ہوئی بے بنیاد باتیں منسوب کی ہیں ۔اہلسنت کے ہاں روایات کی تحقیق کا معیار سخت ہے، کوئی بات کسی صحابی سے بھی مروی ہو اسکے راویوں کی بھی باقائدہ تحقیق کی جاتی ہے ۔ اس لیے حضرت جعفر صادق رحمہ اللہ کے متعلق بھی جو باتیں صحیح اور معتبر اسانید سے مروی ہیں وہ ہم اہل السنة والجماعت بھی قبول وتسلیم کرتے ہیں بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ (الادب المفرد میں) امام مسلم، امام ترمذی، امام ابوداوٴد، امام نسائی اور امام ابن ماجہ وغیرہ جلیل القدر محدثین نے تو ان کی بہت سی روایات بھی نقل کی ہیں، ہاں البتہ شیعہ نے اپنی طرف سے ان کی طرف جو غلط باتیں منسوب کردی ہیں وہ ہم نہیں مانتے ہیں ،ان کا انکار کرتے ہیں۔ــ انتخاب ـ غلام محمد وامق، محرابپور سندھ ...
Subscribe to:
Posts (Atom)
Powered by Blogger.